سلائیڈرمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

سیرت حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا میں موجود چند تربیتی نمونے

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
مقدمہ:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں کچھ لکھنا عام انسان کی بس کی بات نہیں، آپ کے فضائل اور مناقب خداوند متعال، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کرسکتے ہیں۔
آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں، جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؑ وہ ممدوحہ ہیں، جس کی مدح سورۃ کوثر، آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔ آپؑ وہ عبادت گزار ہیں، جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا۔ آپؑ وہ صاحب سخاوت ہیں، جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا۔ آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں، جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سے بھی پردہ فرمایا۔
آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے؟ تو اس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔
خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن
حلیۃ الاولیاء ج2ص40
رسول خدا ﷺ آپؑ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک
المستدرک علی الصحیحین، ج3 ص154
بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے۔اور آپ کی خوشنودی سے خوش ہوتا ہے۔
انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے، جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔ اگر عصمت کبریٰ یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقاً خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الٰہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہرا ءسلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقاً آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے۔ ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کے انوار کا سرچشمہ ہے، وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں۔ آپؑ لیلۃ المبارکۃ کی تاویل ہیں۔ آپؑ قدر ہیں۔ آپؑ نسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں، جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا۔ آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں، جن کے سر پرانما نطعمکم لوجه اللّٰه
الانسان:9
کا تاج مزین ہے۔ وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر احسان کیا اور فرمایا:
لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم
آل عمران،164
اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر احسان کیا اور فرمایا: {انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر، ان شانئک هو الابتر} بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمائی۔
لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔ یقیناً آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ اس مختصر مقالہ میں ہم سیرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونوں کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
لغت میں سیرۃ رفتار کے معنی میں آیا ہے۔ حسن السیرہ یعنی خوش رفتار یا اچھی رفتار۔
القاموس المحیط، ص۴۳۹
ابن منظور کے مطابق سیرۃ سے مراد: “سنت” اور “طریقہ” ہے۔ جیسے السیره:السنۃ سیرت یعنی سنت اور راہ و روش کے معنی میں ہے۔ سار بهم سیرة حسنة یعنی ان کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک کے ساتھ پیش آیا۔
اصطلاح میں سیرت کسی انسان کی زندگی کے مختلف مراحل اور مواقع میں چھوڑے ہوئے نقوش اور کردار کے مجموعہ کو سیرۃ کہا جاتا ہے، جسے دوسرے انسان اپنے لئے نمونہ عمل بنا سکیں۔
لسان العرب، ج۴، ص۳۸۹، مجمع البحرین، ج۳، ص۳۴۰
صاحب مفردات کے مطابق رب مصدری معنٰی کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
معجم مقاييس اللغه، ص378؛،لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرين، ج2، ص63، تاج العروس من جواهر القاموس، ص459 و460
صاحب التحقیق کا کہنا ہے اس کا اصل معنٰی کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے اور نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعے رفع کرنے کے معنٰی میں ہے۔
بنابراین اگر اس کا ریشہ (اصل) “ربو” سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنٰی میں ہے، لیکن اگر “ربب” سے ہو تو نظارت، سرپرستی و رہبری اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنٰی میں ہے۔ شہید مرتضٰی مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں (انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں، انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔
تعلیم و تربیت در اسلام،ص۴۳
سیرہ تربیتی ہر اس رفتار کو کہا جاتا ہے، جو دوسروں کی تربیت کی خاطر انجام دی جاتی ہے۔ اس بناء پر انسان کی ہر وہ رفتار جو وہ دوسروں کے احساسات، عواطف، یقین و اعتقاد اور شناخت پر اثرانداز ہونے کے لئے انجام دیتا ہے، سیرت تربیتی کہا جاتا ہے۔
سیرہ تربیتی پیامبر و اہل بیت، تربیت دینی ،ج ۲، ص۲۳
سیرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونے
الف۔ گھریلو اور ازدواجی نمونہ:

زندگی ایک ایسا مرکز ہے جس میں نشیب و فراز پائے جاتے ہیں۔ زندگی میں کبھی انسان کو خوشی، کبھی غمگین، کبھی آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر میاں بیوی بابصیرت اشخاص ہوں تو وہ سختیوں کو آسان اور ناہموار کو ہموار بنا دیتے ہیں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا ءسلام اللہ علیہا اس میدان میں ایک کامل اسوہ اور نمونہ ہیں۔ آپ بچپن سے ہی سختی اور مشکل میں رہیں۔ اپنی پاک طبیعت اور روحانی طاقت سے تمام مشکلات کا سامنا کیا اور جب شوہر کے گھر میں قدم رکھا تو ایک نئے معرکہ کا آغاز ہوا، اس وقت آپ کی شوہرداری اور گھریلو زندگی کے اخلاقیات کھل کر سامنے آئے۔ ایک دن امام علیؑ نے جناب فاطمہؑ سے کھانا طلب کیا، تاکہ بھوک کو برطرف کرسکیں، لیکن جناب فاطمہؑ نے عرض کیا کہ میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں، جس نے میرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا، دو دن سے گھر میں کافی مقدار میں غذا نہیں ہے اور جو کچھ غذا تھی، وہ آپ اور آپ کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ کو دیدی ہے۔ امام نے بڑی حسرت سے فرمایا، اے فاطمہؑ آخر مجھ سے کیوں نہیں کہا کہ میں غذا فراہم کرنے کے لئے جاتا تو جناب فاطمہؑ نے عرض کیا:
يَا أَبَا الْحَسَنِ إِنِّي لَأَسْتَحْيِي مِنْ إِلَهِي أَنْ تُكَلِّفَ نَفْسَكَ مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه
‏ اے ابوالحسن میں اپنے پروردگار سے حیاء کرتی ہوں کہ میں اس چیز کا سوال کروں، جو آپ کے پاس نہ ہو۔
بحار الانوار، ج43 ،ص59
ب۔ سیاسی نمونہ:

حضرت فاطمۃ الزہرا ءسلام اللہ علیہا کے سیاسی اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جا سکتا ہے، جیسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رہبری کی کامل پیروی اور فدک کے متعلق مختلف میدانوں میں مقابلہ اور جنگ و جھاد کے بندوبست میں خوشی اور دلسوزی سے حاضر رہنا۔ سب سے پہلے آپ نے غصب شدہ حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی آیات سے دلیلیں قائم کیں۔ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا خلیفہ کے پاس تشریف لے گئیں اور فرمایا:
لِمَ‏ تَمْنَعُنِي‏ مِيرَاثِي‏ مِنْ أَبِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ أَخْرَجْتَ وَكِيلِي مِنْ فَدَكَ؟! وَ قَدْ جَعَلَهَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى
فاطمۃ زهراء من المهد الی الحد
تم کیوں مجھے میرے بابا کی میراث سے منع کر رہے ہو اور تم نے کیوں میرے وکیل کو فدک سے بے دخل کر دیا ہے، حالانکہ اللہ کے رسول نے اللہ کے حکم سے اسے میری ملکیت میں دیا تھا۔
اسی طرح جب خلافت کا حق چھینا گیا تو دفاع امامت میں پورا پورا ساتھ دیا اور آپ حسن و حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر رات کے وقت مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں شخصیات کے گھر جاتیں،انہیں اپنی مدد کی دعوت دیتیں اور پیغمبر کی وصیت یاد دلواتیں۔
(فاطمہ،اسلام کی مثالی خاتون،آیۃ ابراہیم امینی)
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں: اے لوگو! کیا میرے والد نے علیؑ کو خلافت کے لئے معین نہیں فرمایا تھا، کیا ان کی فداکاریوں کو فراموش کر بیٹھے ہو، کیا میرے پدر بزرگوار نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں اور تمہارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر ان سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور وہ دو چیزیں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری اہل بیت ہیں۔
ج۔ اقتصادی نمونہ:

حضرت فاطمۃ الزہرا ءسلام اللہ علیہا اقتصادی اخلاقیات میں بھی ہمارے لئے اسوہ کامل ہیں۔ سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں۔ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھا تھا “السخى قریب من اللّٰه” سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ رسول خداﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی، جب تعقیبات سے فارغ ہوئے تو محراب میں ہماری طرف رخ کرکے بیٹھ گئے۔ لوگ آپ کو ہر طرف سے حلقہ میں لئے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا، جس نے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رسول خداﷺ نے اس کی خیرت پوچھی، اس نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ میں بھوکا ہوں، لٰہذا کھانے کو کچھ دیجئے، میرے پاس کپڑے بھی نہیں ہیں، مجھے لباس بھی دیں۔ رسول خداﷺ نے فرمایا فی الحال میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسولﷺ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، جاؤ تم فاطمہ کی طرف اور بلال سے فرمایا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پہنچا دو۔ فقیر حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پر رکا اور بلند آواز سے کہا نبوت کے گھرانے والو، تم پر سلام۔ شہزادی کونین نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو۔ تم کون ہو؟ کہا میں بوڑھا اعرابی ہوں، آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، لیکن رسول خداﷺ نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ میں فقیر ہوں، مجھ پر کرم فرمائیں، خدا آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے اپنا ہار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزہ کی بیٹی نے ہبہ کیا تھا، اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعے بہتر چیز عنایت فرمائے۔ اعرابی ہار لے کر مسجد میں آیا، حضور مسجد میں تشریف فرما تھے، عرض کیا: اے رسول خداﷺ! فاطمہ زہراء نے یہ ہار دے کر کہا اس کو بیچ دینا، حضور یہ سن کر روپڑے، اس وقت جناب عمار یاسر کھڑے ہوئے، عرض کیا یارسول اللہ کیا مجھے یہ ہار کے خریدنے کی اجازت ہے۔ رسول خدا نے فرمایا خرید لو۔ جناب عمار نے عرض کی: اے اعرابی! یہ ہار کتنے میں فروخت کرو گے، اس نے کہا کہ اس کی قیمت یہ ہے کہ مجھے روٹی اور گوشت مل جائے اور ایک چادر مل جائے، جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جس کے ذریعے میں گھر جا سکوں۔ جناب عمار اپنا وہ حصہ جو آپ کو رسول خداﷺ نے خیبر کے مال سے غنیمت میں دیا تھا، قیمت کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا: اس ہار کے بدلے تجھے بیس دینار، دو سو درہم، ایک بردیمانی، ایک سواری، اتنی مقدار میں گھیوں کی روٹیاں اور گوشت فراہم کر رہا ہوں، جس سے تم بالکل سیر ہو جاؤگے۔ جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابی رسول خداﷺ کے پاس آیا، رسول خدا نے فرمایا: کیا تم سیر ہوگئے ہو؟ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہو جاؤں بے نیاز ہوگیا ہوں۔ جناب عمار نے ہار کو مشک سے معطر کیا، اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا اس ہار کو لو اور رسول خداﷺ کی خدمت میں پہنچا دو اور تم بھی آج سے رسول خداﷺ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام ہار لے کر رسول خداﷺ کی خدمت میں آیا اور جناب عمار کی بات بتائی، رسول خدا نے فرمایا: یہ ہار فاطمہؑ کو دو اور تمہیں فاطمہؑ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام ہار لے کر حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آیا اور آپؑ کو رسول خدا کی بات سے آگاہ کیا۔ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے وہ ہار لیا اور غلام کو آزاد کر دیا۔ غلام مسکرانے لگا۔ حضرت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا نے وجہ پوچھی تو غلام نے کہا مجھے اس ہار کی برکت نے مسکرانے پر مجبور کیا، جس کی برکت سے بھوکا سیر ہوا اور برہنہ کو لباس اور غلام آزاد ہوگیا پھر بھی یہ ہار اپنے مالک کے پاس پلٹ گیا۔خلاصہ یہ کہ حضرت زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نہیں تھیں، لیکن وجودی کمالات اور منصب عصمت و طہارت کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔ جناب سیدہؑ علمی، عملی، اخلاقی اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے، جنہیں اللہ نے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ بنابراین حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button