سلائیڈرسیدہ خدیجۃ الکبریٰؑشخصیات

مخدومۂ دارین سیدہ خدیجۃالکبریؑ تاریخ سازخاتون

تاریخ عالم کا رخ بدلنے میں جن خواتین نے اہم کردارسرانجام دیا ہے ان میں سرفہرست اور سنہرے حروف سے لکھا گیا مقدس اسم گرامی ام الزہراء، سیدہ خدیجۃالکبریٰ کا ہے۔ ام المومنین،سیدہ خدیجۃالکبریٰ عرب کی معزز ترین اور دولت مند خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل اور ایمان و ایقان میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی رفاقت اور غمگساری کو آخری سانس تک نہ بھول پائے اور فرمایا کہ خدیجہؑ جیسی رفیقہ مجھے کوئی اور نہ ملی۔
افتخار عرب کے ہمالیہ کی دو بلند ترین چوٹیاں تھیں،ایک سید البطحاسیدنا ابو طالب اور دوسری ملیکۃالعرب سیدہ خدیجۃالکبریٰ ۔ عزت و احترام کے علاوہ سیدہ خدیجہ دولت و ثروت میں بھی اپنا نظیر نہ رکھتی تھیں۔ذرائع آمد و رفت اور وسائل نقل و حمل کے حد درجہ محدوداور غیر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود نہ صرف عربی حدود بلکہ عرب سے باہر دیگر ممالک تک آپ کا سلسلۂ تجارت وسیع تھا۔دنیاقومیت میں محدود تھی اور آپ کی تجارت بین الاقوامی تھی۔
سیدہ خدیجہؑ،عزت و احترا م ،دولت و ثروت اور علم و عرفان میں بلند منزلت اور بین الاقوامی تجارت میں تن تنہا مالک تھیں۔آپ تاریخ اسلام میں نمایاں اور مرکزی مقام رکھتی ہیں۔شرفِ زوجیت رسول اعظمؐ سے پہلے بھی آپ تاریخ ساز شخصیت تھیں اور پورے عرب میں آپ کا کوئی مثل نہ تھا۔عرب میں جہاں عورت کو پیدا ہوتے زندہ درگور کر دیا جاتا تھاوہاں ایسی عورت کا وجود جس نے تجارت میں مردوں کو گرد کارواں بنا دیا اور گھر میں بیٹھ کر تجارت کرنا اور اتنے بڑے تجارتی نظام کو ترقی دینااور عورت ہو کر مختلف دیار و امصار میں پھیلی ہوئی دولت و تجارت کی دیکھ بھال کرنا اور پھر عورت کی تضحیک کرنے والے معاشرے کے رؤساء و تاجران، امراء و سربراہان ا ور بادشاہان کے پیامہائے عقد کوانتہائی حقارت سے ٹھکرا دینا آپ کےتاریخ ساز اقدامات ہیں۔دور جاہلیت میں بھی آپ مکارم اخلاق،صفات حمیدہ اور اعلیٰ انسانی اقدار کی مالک تھیں اور ان ایام میں بھی آپ کو طاہرہ اور سیدۂ قریش کہا جاتا تھا۔آپ کی فکر و نظر طاہر، عقل و شعور طاہر، تہذیب و تمدن طاہر، خیالات و تصورات طاہراور آپ ابتدا سے انتہا تک طاہرہ تھیں اور ہر اعتبار سے سیدۂ قریش تھیں۔
سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی سیرت مبارکہ پر آدمیت کو ناز ہے کہ آپ نے انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی نگہداشت فرمائی۔ اسلام کو ناز ہے کہ انہوں نے اس وقت اسے قبول فرمایا جب کوئی اسے جاننے اورماننے کو تیار نہ تھا۔دنیا کی ہر شریف بیٹی،اطاعت گزار بیوی اور مقدس ماں کو ناز ہے کہ انہوں نے ہر دور میں عورت کی شرم و حیا،غیرت و خودداری اور پیار و محبت کے جوہر کا تحفظ کیا۔ہر دور کی بچیوں کو ناز ہے کہ ان کی گود میں وہ بچی پلی جو وقار نسواں کا عنوان بنی۔رشد و ہدایت کو ناز ہے کہ گیارہ خلفاء راشدین کی ماں ہیں۔قرآن کو ناز ہے کہ آپ کے بطن اطہر سے مفسر ملے۔کعبہ کو ناز ہے کہ تقدس کے محافظ ملے، آغوش نبوت کو ناز ہے کہ زینت ملی۔سیدنا ابو طالب کو ناز ہے کہ آپ نے پوری حیات طیبہ کو اللہ کی رضا کا آئینہ دار بنا دیا۔آپ روزانہ ہزاروں درہم غرباء و مساکین میں تقسیم فرماتی تھیں۔آپ کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تواتر سے غرباء و مساکین کی امداد کرتے اور فرمایا کرتے،’’خدیجہ نے مجھے ان لوگوں سے حسن سلوک کرتے رہنے کی وصیت کی تھی‘‘۔
تجارت:
ماں باپ کے ترکہ سے ملنے والی دولت کو آپ نے تجارت میں لگایا۔پہلے یہ مال تجارت مکہ کے بازار سے آگے ذوالمخبہ،ذوالمجازاور عکاظ کے بازاروں اور میلوں میں جاتا تھاجومکہ کے اطراف و جوانب میں لگتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجارت کے کاروبار میں وسعت پیدا ہوتی گئی یہاں تک کہ آپ کا مال تجارت شام،لبنان ،فلسطین اور اس وقت کی عظیم تجارتی منڈیوں میں بھی جانے لگا۔اپنی عالی دماغی،خوش فکری، عقلمندی،خداداد فہم و فراست، حزم و احتیاط اور تدبر و تفکر سے سیدہ خدیجہ طاہرہ ،مکہ کی امیر ترین خاتون بن گئیں اور پھر نہ صرف مکہ بلکہ جزیرہ نمائے عرب کا کوئی شخص ،مال و دولت میں ان کا مدمقابل نہ رہا۔نہ فضل و شرف میں کوئی ثانی تھا نہ دولت و ثروت میں۔سخت پردہ میں رہتے ہوئے بھی آپ نے بے مثال تجارت قائم کی اور اپنی خداداد صلاحیت واستعداد کی بنا پر اتنا بڑا تجارتی نظام قائم کیا کہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔اَسی ہزار اونٹ ،ہزار غلام ،ہزار کنیزیں اور ان اونٹوں کی خوراک و ادویات ،ثروت خدیجہ کا ایسا رخ ہیں جن کی مثل پیش کرنے سے مؤرخین قاصر ہیں۔
طبقات ابن سعد کے الفاظ ہیں،’’جناب خدیجہ ،بے حد صاحب شرافت اور بے پناہ مال کی مالک تاجرہ تھیں۔ان کا مال ملک شام تک جایا کرتا تھا۔پورے رؤسائے قریش کا جتنا مال تجارت ہوا کرتا تھااتنا مال تجارت تنہا جناب خدیجہؑ کا ہوا کرتا تھا۔آپ لوگوں سے اجرت پر کام لیا کرتی تھیں اور شرکت منافع پر مال دیا کرتی تھیں‘‘۔ یہی الفاظ ابن ہشام،طبری،صاحب اصابہ،تاریخ خمیس اور فصول المہمہ کے بھی ہیں۔ تمام مؤرخین اسلام نے آپ کی پاکیزگیء نسب،پختگیء شعوراور کمال عقل کا بیک زبان اعتراف کیا ہے اور سب کو تسلیم ہے کہ آپ صاحب رائے، صحیح الفکر،عالی ظرف،وسیع النظر،بلند کردار،باوقاراور قابل رشک و اتباع سیرت مبارکہ رکھنے والی خاتون تھیں۔
علمی مذاکرے:
عزت و دولت کی مالک خدیجہ علم و عرفان کی زندگی بسر فرما رہی تھیں۔ دنیا جہالت و جاہلیت کے اندھیروں میں تھی اور کتب سماوی اور علوم لدنی کے درمیان سیدہ خدیجہ کی شمع حیات روشن تھی۔آپ علمی مباحثہ فرمایا کرتی تھیں اور جید علما ء کتب آسمانی اور احبار یہود سے آپ کے علمی مباحث جاری رہتے تھے۔آپ کے خاندان کو صرف سیادت و سروری ہی کا فخر حاصل نہیں تھا بلکہ اس خاندان میں زمانۂ قدیم سے علم بھی خیمہ زن تھا۔ورقہ بن نوفل کی شخصیت ،غیر معروف نہیں ہے ۔آپ،سیدہ خدیجہ طاہرہ کے چچا ذاد بھائی تھے اور کتب سماوی کے جید عالم تھے۔ ان کے ساتھ علمی مذاکرے،آسمانی کتابوں کے تذکرے اور صحف انبیاء کے چرچے ہوتے رہتے تھے۔آپ کی تلاش و جستجو، حقیقت کی دریافت کا شوق اور مسلسل تگ ودو اور غور و فکر کی نورانی تڑپ صفحات تاریخ میں بکھری نظر آتی ہے۔

مرج البحرین یلتقیان:
بے پناہ خوشیاں اور لازوال مسرتیں لئے صبح نور نمودار ہوئی۔خاتم الانبیاء کو جان سے بڑھ کر چاہنے والے چچا ابو طالب نے اپنے دست مبارک سے دولہا بنایا۔ نوشاہِ اسلام کوخلیل خدا کا پیراہن پہنایا گیا۔ دوش اطہرپر حضرت الیاس کی ردا ڈالی گئی ۔ سر اقدس پر سیاہ ہاشمی عمامہ سجایا گیا۔سیدناعبدالمطلب کی نعلین پائے اقدس کی زینت بنیں۔عصائے شعیب دست مبارک میں لیا۔سبز عقیق کی انگشتری ، انگشت نبوی میں سجائی گئی۔
سرداران قریش،بزرگان مکہ،دانشمندان بطحا،سادات اور نوجوانان بنی ہاشم برہنہ شمشیریں علم کئے باوقار انداز میں سرتاج انبیاء کو اپنے حلقہ میں لئے ،شہزادیء عرب کے محل کی جانب روانہ ہوئے۔ بارات نبوت پر رحمت الٰہی سایہ فگن تھی۔کہکشائیں نثار ہو رہی تھیں۔بہاریں پھول برسا رہی تھیں۔ارواح انبیاء مسرور و شادماں تھیں۔ملائکہ فرط مسرت سے جھوم رہے تھے۔ ہزارہا مسرتوں اور دعاؤں کے سایہ میں سیدالمرسلین صلی اللیہ علیہ وآلہ وسلم کے باراتی آہستہ آہستہ،سکون و اطمینان اور وقار و عظمت کے ساتھ منزل سے قریب تر ہو رہے تھے۔
ادھر شہزادی عرب نے بے حد و حساب مومی شمعوں اور فانوسوں،زرو جواہراور مختلف رنگ کے پردوں اور فرشوں سے اپنے محل کو جنت ارضی میں تبدیل کر دیا تھا۔غلاموں اور کنیزوں کو مختلف اللون حریر و دیبا کے کپڑوں سے آراستہ کیا ،ہر ایک کو قیمتی پوشاکوں اور خلعتوں کے پہننے کا حکم دیا،کنیزوں کے سر کے بالوں کو لوء لوء و مرجان سے آراستہ کیا ،سونے کے ہار جن میں نگینے اور جواہر لگے تھے ان کو پہنائے گئے تھے۔ ام المومنینؑ کا الٰہی و قرانی خطاب حاصل کرنے والی دلہن بہترین منقش لباس میں ملبوس تھیں۔سر اقدس پرسونے کا تاج تھا جس میں مختلف النوع موتی اور جواہر جڑے تھے اور آپ بے پناہ زیورات سے آراستہ و پیراستہ تھیں۔پائے اقدس میں انتہائی قیمتی سونے کے خلخال تھے جس میں جا بجا بے حد و بے انتہا فیروزے اور یاقوت جڑے ہوئے تھے۔
بارات جب جناب خدیجہ کے دروازے پرپہنچی تو آپ کا آستانہ بقعۂ نور بن کر آنے والے مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کر رہا تھا۔ معزز مہمانوں کی ضیافت کے لئے مختلف قسم کے کھانوں ،میوہ جات اور مشروبات کا انتظام کیا گیا تھا۔بے شمار زرنگار کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ معزز اور باوقار سرداروں کے لئے چند کرسیاں قدرے بلندی پر رکھی گئی تھیں اور ایک بہت ہی قیمتی کرسی سب سے بلندی پر رکھی گئی تھی۔ جب کاروان سادات بنی ہاشم اور معززین شہر شہزادیء عرب کے جگمگاتے ہوئے محل کے سامنے پہنچا تو اس وقت جناب عباس و جناب حمزہ شمشیریں بلندکئے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دائیں بائیں چل رہے تھے۔
مہمانوں کا شاندار استقبال کیا گیا۔پرتکلف میو ہ جات اور مشروبات سے ان کی تواضح کی گئی ۔تھوڑی ہی دیر بعد پرسکون مجمع میں ایک آواز بلند ہوئی، ’’اللہ کی قسم !آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے بوجھ نہیں اٹھایاکسی کا جو محمدؐ سے افضل ہو ۔اس لئے میں نے اپنی بچی کا شوہر قرار دینے اور ہمسر بنانے کے لئے ان ہی کو پسند کیا ہے، پس تم لوگ اس پر گواہ رہو‘‘۔ یہ آواز سیدہ خدیجہ کے چچا عمروْبن اسد کی تھی۔ ا س کے بعد سردار مکہ سیدنا ابوطالب خطبۂ عقد پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلْنَا مِنْ ذُرِّیۃِ اِبْرَاہِیْمَ وَذَرْعِ اِسْمَاعِیْلَ وَضِئضِئی مَعْدَوَ عُنْصُرِ مَضَرِِ،وَجَعَلْنَاحَضَنَۃَبَیْتِہِ وَسَوَّاسَ حَرْمِہِ وَجَعَل لَنَا بَیْتًا مَحْجُؤجاَوَحَرَمًا اٰمِنَا وَجَعَلَنَا الْحُکَّامَ عَلَی النّاسِ۔ ثُمَّ اِنَّ اِبْنَ اَخِیْ ھٰذَامُحَمَّدُ اِبْنُ عَبْدِ اللّٰہ َا ےُؤْ زَنُ بِرَجُلِِ اِلَّارَجَحَ بَہِ وَاِنْ کَانَ فِیْ الْمَالِ قُلَّا وَاِنَّ الْمَالَ ظِلّ ُُُ زَائِلُُ وَاَمْرَ حَائِلُ وَمُحَمَّدُُ مَنْ قَدْ عَرَفْتُمْ فَرَابَتَہُ وَ قَدْ خَطَبَ خَدِیْجَۃَ بِنْتَ خُوَیْلَدِِ۔وَ قَدْ بَذَلَ لَھَا مِنْ الصِّدَاقِِ مَاٰاَجَلَہُ مِنْ مَالِیْ اِِثْنَا عَشَرَۃَ اَوْقِےَۃَذَھَبَا۔ وَنَشَاءَوَ ھُوَوَاللّٰہِ بَعْدَ ھٰذَالَہُ نَبَائُُ عَظِیْمُ وَخَطَرُُجَلِیْلُُ جَسِیْمْ۔
’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم کی اولاد سے، حضرت اسماعیل کی کھیتی سے ،معد کی نسل سے اور مضر کی اصل سے پیدا فرمایا۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر فرمایا،ہمیں ایسا گھر دیاجس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے۔نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقررفرمایا۔حمد کے بعد ،میرا یہ بھتیجاجس کا اسم گرامی محمد ابن عبداللہ ہے،اس کا دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو اس کا پلڑا پھر بھی بھاری ہو گا۔اگرقلت مال ہے تو کیا ہوا،مال تو ایک ڈھلتی چھاؤں ہے ا ور بدل جانے والی چیز ہے اور محمد جس کی قرابت کو تم جانتے ہو ،اس نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ طلب کیا ہے اور بارہ اوقیہ سونا مہر مقرر کیا ہے۔اور اللہ کی قسم ،مستقبل میں اس کی شان بہت بلند ہو گی،اس کی قدر ومنزلت بہت جلیل ہو گی‘‘۔
قصر خدیجہ خانۂ نبوت:
شادی کے تیسرے دن سیدالمرسلین سیدناابوطالب اور دوسرے اعمام اور نوجوانان بنی ہاشم کے حلقہ میں شہزادی عرب اور ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کے قصر نور کی جانب روانہ ہوئے۔وہاں پہنچے تو آپؐ کے پیارے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب نے یہ قصیدہ پیش کیا:
ابشروا بالمواھب یا آل فھر وغالب: اے قریش و آل غالب ،تمہیں عنایات کی بشارت ہو۔
افخروا یا آل قومنا بالثناء والرغائب: اے میری قوم وقبیلہ والو!ثناء جمیل اور بے حساب عنایات پر فخر کرو۔
شاع فی الناس فضلکم وعُلیً فی المراتب: لوگو!تمہارا فضل و شرف اور بلندی ء مراتب زمانہ میں معروف ہے۔
قد فخرتم باحمد زین کل الطایب :تم سب افتخار بن گئے احمد کے دم سے ،جو زینت ہیں ہر طیب و طاہر کے لئے۔
فھو کالبدر نورہ مشرق غیر غائب :ان کا نور چودہویں رات کے چاند کی مانند ہے جو ہمیشہ روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔
قد ظفرت خدیجہ بجلیل المواہب: اے خدیجہ!آپ کامیاب ہوئیں،بڑی جلیل و عظیم عطاؤں کے ساتھ۔
بفتٰی ھاشم الذی ما لہ من مناصب: اس ہاشمی جوانمرد کے ذریعہ جو بڑے بڑے منصبوں پر فائز ہے۔
جمع اللہ شملکم فھو رب المطالب :خدا نے ان کے ذریعہ تمہاری جماعت کو اجتماع کی توفیق عطا کی ،پس وہی تمام مطالب کا پروردگار ہے۔
احمد سید الورٰی خیر ماش وراکب: احمد سردار خلائق ہیں جو ہر پیادہ و سوار سے بہتر و افضل ہیں۔
فعلیہ الصلوٰۃما سا ر براکب: ان پر لگا تار درود و سلام ہوتا رہے ،جب تک سواریوں پر سوار چلتے رہتے ہیں۔
اس قصیدہ مبارکہ کے دوران مکہ کے درو دیوار سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے سن کر فرمایا :اعلمواان شان محمد عظیم وفضلہ عمیم و جودہ جسیم،جان لوکہ محمد کی شان بہت بلند و برتر ہے اور ان کا فضل ہر کسی کے لئے عام ہے،ان کی سخاوت بڑی عظیم ہے ۔اس کے بعد آپ نے حاضر مستورات پر مال وخوشبو نچھاور کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے چہرۂ اقدس سے ایسا نور ساطع ہو رہا تھا کہ جس سے چراغوں اور شمعوں کی روشنی ماند پڑگئی ۔آپ کے منور چہرہ سے نکلنے والی نوری کرنیں دیکھ کر ہاشمی و مطلبی مستورات کو بے حد تعجب ہوااور انہوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ کا فضل و شرف اور عطیہ الٰہی ہے۔
ازدواجی زندگی:
سیدہ خدیجہ طاہرہ کے کامیاب ادوار حیات میں ایک نئے تابناک اور کامرانیوں سے بھرپور دور کا آغاز ہوا۔آپ جانتی تھیں کہ آپ کے شوہر صرف عظیم انسان ہی نہیں بلکہ خاتم الانبیاء اور مرسل اعظم ہیں۔ورقہ بن نوفل کی مشاورت اور پیشینگوئیوں کی تصدیق کے بعد آپ نے انہیں شام سے خریدا گیا قیمتی اور بیش بہا خلعت عنایت فرمایاجسے لینے سے ورقہ نے انکار کر دیا اور درخواست کی کہ میری دلی خواہش ہے کہ آپ کے سرتاج محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری شفاعت کا وعدہ کر لیں۔سیدہ نے وعدہ فرمایا کہ ایسا ہی ہوگا۔پچیس برس پہ محیط رفاقت حیات میں اپنی بہترین سیرت و اخلاق اور عادات کی وجہ سے خانۂ نبوت کو نبیء اکرم صلی اللیہ علیہ یوآلہ وسلم کے آرام و سکون کا گہوارہ بنا دیااور نہ صرف متولی کعبہ کی بہوہونے کا حق ادا کیا بلکہ وہ مثالی کردار پیش کیا کہ جس پر ام المومنین کے ا لٰہی لقب کی فضیلتیں ہمیشہ ناز کریں گی۔ام المومنین کا ہر روز،روز عید اور ہر شب ،شب برات و لیلۃالقدر تھی۔ ہرلمحہ دیدار مصطفٰی سے بڑھ کر اور کیا مسرت ہو سکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور تھے کہ خداوند عالم نے انہیں ایسی زوجہ مرحمت فرمائی جو امور خانہ داری سے لے کر تبلیغ اسلام کی جملہ مشکلات میں معاون و مددگار رہی۔سیدنا ابو طالب مطمئن ہو گئے کہ بانی اسلام کو ان کے شایان شاں رفیقۂ حیات ملی۔
اس حالت میں جب کہ مکہ کا چپہ چپہ حضور کا دشمن ہو رہا تھا اور آپ پر بدترین قسم کے مظالم ڈھائے جارہے تھے۔ ا گر کسی نے حضور کی کامل رفاقت کا ثبوت دیاتو وہ حضرت خدیجہ تھیں۔انہوں نے اپنا تن من دھن،سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے لئے قربان کر دیااور اس دلسوزی اور جانفشانی سے آپ کی خدمت کی کہ اس کے سامنے حضور کو کفار مکہ کے مظالم کا احساس تک جاتا رہا اور آپ ،بہ اطمینانِ کامل تبلیغ واشاعت اسلام میں مصروف رہے‘‘۔
آپ سیدہ خدیجہ کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے :انت ملکۃ، امراۃ ذات المال، آپ شہزادی ہیں مالدار خاتون ہیں۔تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سابقون الاولون میں سب سے پہلے اسلام کے قبول کرنے کا اعلان سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے فرمایااور آپ کا اسم گرامی سید المرسلین پر ایمان لانے والوں میں سرفہرست ہے۔ آپ نے ایمان لانے میں ہی سبقت نہیں کی بلکہ تادم آخر اپنے کامل یقین پر باقی رہیں اور آخری سانس تک نصرت و حمایت اور حفاظت و رفاقت کا حق ادا فرماتی رہیں۔
نسل رسولؐ:
سیدہ خدیجہ الکبریٰ ،بقائے نسل رسول اللہ کی ضامن بن گئیں۔ آپ کی تین اولادیں ہوئیں،
۱۔ سیدنا قاسم ،سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور انہی کی بدولت حضور کی کنیت ابوالقاسم ہوئی۔
۲۔ سیدنا عبداللہ ،دوسرے فرزند سیدنا عبداللہ تھے جنہیں طیب و طاہر بھی کہا جاتا ہے۔
۳۔ سیدتنافاطمہ الزہراسلام اللہ علیھا، 20جمادی الثانی بعثت نبوی کے پانچویں سال بروزجمعۃالمبارک،حصار شعب ابی طالب سے ایک سال چھ ماہ قبل آپؑ کی آمد ہوئی ۔عطائے الکوثر کے وقت رسول اللہ پینتالیس جبکہ ام المومنین سن دنیا کے اڑتالیسویں برس میں تھیں۔حضورؐ کی نسل مبارک آپ ہی سے چلی اورسادات بنی فاطمہ، کرۂ ارضی کے ہر گوشہ اور خطہ میں جلوہ نما ہیں۔
باب مدینۃالعلم کا مرثیہ:
سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی وفات پر باب مدینۃالعلم سیدنا علی مرتضٰی شیر خدا نے ان الفاظ میں اپنے غم کا اظہار فرمایا:
اَعَیْنِیْ جُوْدَا بَارَکَ اللّٰہ فِیْکُمَا عَلیٰ ہَالِکِیْنَ لَاتَریٰ لَھُمَا مِثْلَا
میری دونوں آنکھو ،تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔تم ان دونوں بزرگ ہستیوں کے وصال پر خوب آنسو بہاؤ کیونکہ ان دونوں نے اسلام کے لئے بہت ہی جانبازی اور غمگساری سے کام کیا ہے۔ان دونوں کا کوئی مثل و ثانی نہیں۔
عَلَیٰ سَیَّدَ الْبَطْحَاوَابْنِ رَئِیسِھَا وَ سَیّدَۃِ الْنِسْوَانْ اَوَّلَ مَنْ صَلَّی

ایک تو اس سردار مکہ حضرت ابو طالب پر روؤ،جو رئیس مکہ ہیں اور رئیس مکہ حضرت عبدالمطلب کے لخت جگر اور نور نظر ہیں۔دوسرے سیدۃ النساء حضرت خدیجہ الکبریٰ پر آنسو بہاؤ جنہوں نے سب سے پہلے نماز ادا فرمائی۔
مُھَذّبَۃُُقَدْ طَیَّبَ اللّٰہ حَیَمَھَا مُبَارَکَۃَوَاللّٰہ سَاقَ لَھَا الْفَضَلَاء
انہیں اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ فطرت عطا فرمائی ،آپ کو زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ پاکیزہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔آپ بہت بابرکت اور طیب طاہر تھیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے درجات و فضائل بیان فرمائے ہیں۔
ُمصَابَھُمَااَدْ جیٰ لِیَ الْجوَّوَالْھَوَا فَبِتُّ اُقَاسِیْ مِتْھُمَا الْھُمَّ وَالْتَکَلاَ
ان دونوں کی جدائی اور فراق نے میرے لئے ہوا اور خلا و فضا کو غم و الم کے اندھیرے میں بدل دیا ۔پس میں ان کی جدائی کی وجہ سے رنج و الم میں ڈوبا ہوا مشکل سے راتیں گزارتا ہوں ،غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں اوررات کی نیندیں اچاٹ ہو گئیں ہیں۔
لَقَدْ نَصَرَ فِیْ اللّٰہ دِیْنَ مُحَمَّدْ عَلیٰ مَنْ بغیٰ فِی الْدّیَنِِقَدْرَ عَیَااِ لاّ
بے شک انہوں نے حضور کے دین کی اشاعت کے بارے میں مددو حمایت کی اور ہر اس آدمی کا مقابلہ کیا جس نے بھی سرکشی ،بغاوت اور مخالفت کی اور اپنی حمایت کے عہد و پیمان کا پاس کیا۔
https://erfan.ir/urdu/20720.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button