اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

اصحاب امام زین العابدین علیہ السلام کا مختصر تعارف

تحریر: مولانا نعیم عباس نجفی
یہ تحریر فقط تعارف اور جمع بندی کی حد تک ہے۔
شاگردان امام زین العابدین کے اسماء
ابان بن ابی عیاش،ابان بن تغلب،ابراہیم بن ابی حفصہ ،ابراہیم بن بشیر، ابراہیم بن عبداللہ، ابراہیم بن محمد، ابراہیم بن یزید،احمد بن حمویہ،اسحاق بن عبداللہ ، اسحاق بن عبداللہ اسحاق بن یسار،اسماعیل بن امیہ ،اسماعیل بن رافع، اسماعیل بن عبدالخالق، اسماعیل بن عبدالرحمن، اسماعیل بن عبداللہ،افلح بن حمید،ایوب بن حسن ،ایوب بن عائذ،بردہ السکاف،بشربن غالب،بکربن اوس،بکیربن عبداللہ،ثابت بن دینار،ثابت بن اسلم،ثابت بن عبداللہ،ثابت بن ھرمز،ثویربن ابی فاختہ،ثویر بن یزید،جابربن محمد،جعفربن ابراہیم،جعفر بن ایاس،جعفربن محمد،جعید حمدان،جھیم الھلالی،حارث بن جارود،حارث بن فضیل،حارث بن کعب،حبیب بن ابی ثابت، حبیب بن حسان، حبیب بن معلی ،حزیم بن سفیان،حزیم بن شریک،حسان عامری،حسن بن رواح ،حسن بن علی ،حسن بن عمارہ حسن بن محمد،حسین بن علی،حصین بن عمرو،حطان بن خفاف،حفص بن عمرو،حکم بن عتیبہ،حکیم بن جبیر،حکیم بن حکم،حکیم بن صہیب،حمید بن مسلم،حمید بن نافع،خشرم بن یسار،داؤد،ربیعۃ بن ابی عبدالرحمن،ربیعۃ بن عثمان،رزین بن عبید،رشید ہجری،ریاح بن عبیدہ،زیاد بن سوقۃ،زید بن اسلم ،زید بن حسن،زید بن علی،زید العمی،سالم (مولی عمربن عبداللہ)،سالم بن ابی الجعد،سالم بن ابی حفصہ،سدیربن حکیم،السری بن عبداللہ،سعد بن ابی سعید،سعد بن حکیم،سعدبن طریف،سعید بن جبیر، سعید بن حارث، سعید بن عثمان، سعید بن مرجانہ، سعید بن مرزبان، سعید بن مسیب،سلام بن مستنیر،سلمہ بن دینار،سلمہ بن کُھیل،سلمہ بن نبیط،سلیمان(ابوعبداللہ)،سلیمان بن ابی مغیرہ،سلیم بن قیس،سماک بن حرب،شرحبیل بن سعد،شیبہ بن نعامہ،صالح بن ابی حسان،صالح بن خوات،صالح بن کیسان،صالح بن سلیم،صفوان بن سلیم،صہیب(ابوحکیم)،ضحاک بن عبداللہ،ضحاک بن عبداللہ،طارق بن عبدالرحمن،طارق بن کیسان،طلحۃ بن عمرو،طلحۃ بن نضر،ظالم بن عمرو،عائذ الاحمسی،عامر بن سمط،عامر بن واثلہ،عباس بن عیسی،عبدالرحمن بن قصیر،عبدالغفار بن قاسم،عبداللہ البرقی،عبداللہ بن ابی ملیکہ، عبداللہ بن ابی بکر، عبداللہ بن جعفر، عبداللہ بن حارث، عبداللہ بن دینار، عبداللہ بن ذکوان، عبداللہ بن زبید، عبداللہ بن سعید، عبداللہ بن شبرمہ، عبداللہ بن شریک، عبداللہ بن عبیدہ، عبداللہ بن عطاء، عبداللہ بن بن علی، عبداللہ بن محمد، عبداللہ بن مستورد، عبداللہ بن بن ہرمز،عبدالمومن بن قاسم،عبیداللہ بن ابی جعد، عبیداللہ بن ابی الوشیم، عبیداللہ بن عبدالرحمن، عبیداللہ بن مسلم، عبیداللہ بن مغیرہ، عقبہ بن بشیر،علی بن ثابت،عمران بن میثم ،عیسی بن علی،فرات بن احنف،فرزدق،فلیح بن ابی بکر،قاسم بن عبدالرحمن،قاسم بن عوف،قاسم بن محمد،کنکر،کیسان بن کلیب،مالک بن عطیہ،محمد بن جبیر،محمد بن شہاب،محمد بن علی،محمد بن عمر،محمد بن قیس ،مسلم بن علی،معروف بن خربود،منذرالثوری،منھال بن عمرو،میمون بن البان،میمون القداح،یحیی بن ام الطویل،ابومریم۔۔۔ رضی اللہ عنھم
یہ امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب اور تلامذہ کی مختصر فہرست ہے جس میں سے تکراری اسماء کو نہیں لکھا گیا اب ان میں سے چند برجستہ شخصیات کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
ابوخالد کابلی
امام علی ابن الحسین علیھما السلام کے تربیت یافتگان میں ایک یگانہ روزگار کردار ابوخالد کابلی ؒ کا ہے ۔جو من جملہ امام عالی مقام علیہ السلام کے مجسم علمی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا کردار امام عالی مقام کے مقام و مرتبہ کی معرفت تک رسائی کا ذریعہ ہے یہ امام زین العابدین علیہ السلام کے عظیم شاگردوں میں سے تھے ۔شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری صاحب نے لکھا ہے کہ یہ بزرگ اپنی کنیت سے مشہور تھے اور ان کا اصلی نام "کنکر”اور بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ ان کا نام "وردان ” تھا ۔
(مجالس المؤمنین ص 575)
علامہ باقر شریف قرشی اس شخصیت کا ابتدائی تعارف یو ں بیان کرتے ہیں:
کنکر: یکنی ابا خالد الکابلی ،قیل اسمہ وردان عدہ الشیخ من اصحاب الامام زین العابدین علیہ السلام
(موسوعۃ سیرۃ اہل البیت علیھم السلام ،ج 16ص271 ، رجال الطوسی ص 119 رقم الراوی 1213)
کنکر جن کی کنیت ابو خالد کابلی تھی اور کہا گیا ہے ان کا نام وردان تھا شیخ طوسی ؒنے ان کو امام زین العابدین علیہ السلام کے شاگردوں میں سے قرار دیا ہے۔
دراصل ابتدا میں یہ کیسانی المذھب تھے اور محمد حنفیہ علیہ السلام کی امامت کے قائل تھے پھر ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ بالآخر یہ امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے قائل ہوگئے اور تا حیات اسی پر قائم و دائم رہے ان کا یہ واقعہ نہایت اہم سے جو عظیم مطالب پر مشتمل ہے اس لئے قارئین کے فائدہ کو مد نظر رکھ کر ہم اس کو مکمل بیان کرتے ہیں ۔
عن أبي بصير، قال: سمعت أبا جعفر عليه السّلام يقول: كان أبو خالد الكابلي يخدم محمد بن الحنفية دهرا و ما كان يشك في أنه امام.
حتى أتاه ذات يوم فقال له: جعلت فداك ان لي حرمة و مودة و انقطاعا، فأسألك بحرمة رسول اللّه و أمير المؤمنين الا أخبرتني أنت الامام الذي فرض اللّه طاعته على خلقه، قال فقال: يا أبا خالد حلّفتني بالعظيم، الامام علي بن الحسين عليه السّلام علي و عليك و على كل مسلم.
فأقبل أبو خالد لما أن سمع ما قاله محمد بن الحنيفة جاء الى علي بن الحسين‏ عليه السّلام فلما استأذن عليه فأخبر أن أبا خالد بالباب، فأذن له، فلما دخل عليه دنا منه قال:
مرحبا بك يا كنكر ما كنت لنا بزائر ما بدا لك فينا؟ فخر أبو خالد ساجدا شاكر للّه تعالى مما سمع من علي بن الحسين عليه السّلام فقال: الحمد للّه الذي لم يمتني حتى عرفت فقال له علي: و كيف عرفت امامك يا أبا خالد؟ قال: انك دعوتني باسمي الذى سمتني أمي التي ولدتني، و قد كنت في عمياء من أمري و لقد خدمت محمد ابن الحنفية عمرا من عمري و لا اشك الا و أنه امام
حتى اذا كان قريبا سألته بحرمة اللّه و بحرمة رسوله و بحرمة أمير المؤمنين فأرشدني إليك و قال: هو الامام علي و عليك و على خلق اللّه كلهم، ثم أذنت لي فجئت فدنوت منك سميتني باسمي الذي سمتني أمي فعلمت أنك الامام الذي فرض اللّه طاعته علي و على كل مسلم
(اختیار معرفۃ الرجال مع تعلیقات ج1ص227، موسوعۃ اھل البیت علیھم السلام ج 16ص272،اردو ترجمہ بحار الانوار،ج 6 ص 56 )
مفہوم عبارت:ابوبصیر سے مروی ہے کہ میں نے امام باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئےسنا کہ ابوخالد کابلی ایک عرصہ تک جناب ابوحنفیہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہے اور ان کی امامت میں زرابھی شک نہ تھا۔
ایک دن وہ کہنے لگے میں آپ پر قربان ،میرے دل میں آپ کی محبت واحترام ہے،میں آپ کو رسول اللہﷺاور امیر المومنین علیہ السلام کی حرمت کا واسطہ دے کر سوال کر رہا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیے کیا آپ ہی وہ امام ہیں جن کی اطاعت خدا نے مخلوق پرواجب کی ہے؟
جناب محمد حنفیہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :اے ابوخالدتم نے مجھے ایک بڑی قسم دے کر سوال کیا ہے تو سنو!کہ حضرت علی بن حسین علیھما السلام ہی میرے،تمہارے اور ہر مسلمان کے امام ہیں ۔جناب محمد حنفیہ  کا یہ جواب سن کر ابوخالد امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر زیارت و ملاقات کی اجازت چاہی ۔امام علیہ السلام کو بتایا گی اکہ ابوخالد دروازہ پر ہیں اور باریابی چاہتے ہیں ۔
اجازت ملی،امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قریب بیٹھ گئے ۔امام علیہ السلام نے ابوخالد کو فرمایا خوش آمدید اے کنکر! تم ہماری ملاقات کے لئے نھی نہ آئے آج کیا بات رونما ہوئی کہ تم نے ادہر کو رخ لیا؟
یہ سننا تھا کہ ابوخالد (خدا کے حضور)سجدہ میں گر گئے اور شکر خداوندی بجا لائے اور عرض کیا اللہ کی حمد ہے جس نے مجھےمرنے سے پہلے امام حق کو معرفت سے نوازا۔امام عالی مقام علیہ السلام نے پوچھا:اے ابوخالد تم نے اپنے امام کو کیسے پہچانا ؟
ابوخالد نے کہا :آپ علیہ السلام نے مجھے اس نام سے پکارا جس کو میری پیدا کرنے والی ماں نے رکھا تھا (یہاں بعض روایات کے مطابق ابوخالد نے کہا اور یہ نام میرے والدین اور میرے سوا کوئی نہیں جانتا تھا)اور میں شروع سے ہی ام معاملہ سے ناآشنا تھا اور ایک مدت میں نے محمد حنفیہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گزار دی۔اور مجھے اس میں کوئی شک نہ تھا کہ صرف وہی میرے امام ہیں ابھی قریب ہی میں نے ان سے اللہ ،اس کے رسول ﷺاور حضرت علی علیہ السلام کی حرمت کا واسطہ دے کر سوال کیا تو انہوں نے مجھے آپ علیہ السلام کی طرف رہنمائی فرمائی اور کہا وہ مجھ پر ،تجھ پر،اور جتنی مخلوق اللہ نے پیدا کی ان سب پر امام ہیں ۔اور میں آپ کی بارگاہ میں آیا اور آپ سے اجازت چاہی جب آپ کے قریب ہوا تو آپ علیہ السلام نے مجھے اس نام سے پکارا جو میری ماں نے رکھا تھا ۔تو اسی سے میں جان گیا کہ آپ علیہ السلام ہی وہ امام ہیں جن کی اطاعت کو اللہ نے ہر مسلمان پر فرض کیا ہے۔
اس کے بعد وہ اما م زین العابدین علیہ السلام سے یوں منسلک ہوا کے تا دم آخر امام علیہ السلام کے ساتھ رہے اور امام علیہ السلام کی تعلیمات سے مستفید ہوتے رہے۔
ابوحمزہ الثمالی
یہ بھی ابوخالد کابلی کی طرح اپنی کنیت سے مشہور تھے جبکہ اصل نام “ثابت بن دینار”تھا اور ان کے والد کی کنیت ابوصفیہ تھی ۔
ابوحمزہ ثمالی بھی امام زین العابدین علیہ السلام کے شاگردون میں سے تھے ۔اور اما م علیہ السلام نے ان کو ایک دعا تعلیم فرمائی تھی جو دعائے ابوحمزۃ الثمالی سے معروف ہے ۔
عبدالنبی کاظمی ان کا تعارف میں لکھتے ہیں :
روی عن ابی عبداللہ علیہ السلام:انہ قال ابوحمزۃ مثل سلمان وعن الرضا علیہ السلام انہ قال کان یقول ابوحمزۃ الثمالی کلقمان فی زمانہ۔۔۔
(تکملۃ الرجال :شیخ عبدالنبی کاظمی :ج1، ص 328)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے انہوں نے فرمایا :ابوحمزۃ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی مثل ہیں اور امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے گویا وہ فرمارہے تھے کہ ابوحمزہ اسی طرح ہیں جس طرح حضرت لقمان علیہ السلام اپنے زمانہ میں تھے۔
رجال کشی میں بھی اسی طرح کی روایت ہے
سمعت الرضا عليه السّلام يقول: أبو حمزة الثمالي في زمانه كلقمان في زمانه‏
(اختیار معرفۃ الرجال مع تعلیقات ج1ص 459)
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے سنا وہ کہہ رہے تھے ابوحمزۃ ثمالی اپنے زمانہ میں اسی طرح تھے جیسے لقمان علیہ السلام اپنے زمانہ میں تھے۔
ایک دفعہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو حمزۃ کو بلایا جب وہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
”انی لاستریح اذا رئیتک “
(سیرت معصومین ترجمہ احسن المقال ج1،ص 755)
جب میں تجھے دیکھتا ہو مجھے راحت و آرام محسوس ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ابوحمزۃ کی ایک بیٹی زمین پر گری تو اس کیا ہاتھ ٹوٹ گیا ۔شکستہ اعضاء جوڑنے والے کو بلایا اس نے دیکھا تو کہا اس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اس کا جوڑ باندھنا پڑے گا ابوحمزہ کو اس لڑکی کی حالت دیکھ کر رقت طاری ہو گئی اور زاروقطار رو دئے اسی دوران ہڈی جوڑنے والے نے ارادہ کیا کہ ہاتھ باندھے اچانک کیا دیکھا کہ ہاتھ بلکل صحیح وسالم ہے اور ٹوٹنے کے آثار موجود نہیں دوسرا ہاتھ دیکھ اوہ بھی بلکل بے عیب تھا ۔
(سیرت معصومین ترجمہ احسن المقال ج1،ص 755)
شہید ثالث قاضی نوراللہ شوستری ؒ نے لکھا ہے :
کچھ اہل سنت محدثین نے بھی ان کی توثیق کی ہے اور ان سے روایات اخذ کی ہیں ۔150ہجری میں انہوں نے وفات پائی اور ان کی اولاد میں سے تین بیٹوں نوح،منصوراور حمزۃ نے حضرت زید شہید رضی اللہ عنہ کے ہم رکاب ہو کر جام شہادت نوش کیا تھا ۔
(مجالس المومنین صفحہ 579)
ابان بن تغلب
ابو سعید ابان بن تغلب بن رباح البکری الجریری بھی امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور ان کو تین اماموں کی زیارت اور شاگردی کا شرف حاصل ہے اور ا ن ائمہ علیھم السلام سے ہی روایات کا ذخیرہ حفظ کیا اور بعد میں آنے والوں کے لئے بطور علمی میراث چھوڑ گئے۔جیسا کہ شیخ عبدالنبی کاظمی شیخ بھائی کی کتاب کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
”لقی السجادوالباقروالصادق علیھم السلام وروی عن الصادق علیہ السلام الف حدیث “
(تکملۃ الرجال :شیخ عبدالنبی کاظمی :ج1، ص 153)
ابان بن تغلب کو امام سجاداور امام باقرو امام صادق علیھم السلام کی زیارت کی اور امام صادق علیہ السلام سے ایک ہزار حدیث روایت کیں۔
ان کی عظمت و جلالت مکتب تشیع میں نمایاں ہے نیز صالح مازندرانی ؒنے شرح اصول کافی میں ابان کے بارے میں لکھا:
”ابان بن تغلب ثقۃ ،جلیل القدر،عظیم المنزلۃ فی اصحابنالقی ابا محمد علی بن الحسین وابا جعفر وابا عبداللہ علیھم السلام وروی عنھم“
(شرح اصول الکافی ،صالح مازندرانی ج،2ص21باب فرض العلم )
ابان بن تغلب ہمارے اصحاب میں ثقہ،جلیل القدراوربڑی منزلت ہیں انہوں نے ابومحمد علی بن الحسین (زین العابدین علیہ السلام)اور ابوجعفرامام باقر وابوعبداللہ امام صادق علیھم السلام سے ملاقات کی اور ان ہی سے روایات روایت کیں۔
ان کی ولادت کی تاریخ معلوم نہ ہو سکی لیکن انہوں نے ابتدائی زمانہ کوفہ کی سرزمنین میں بسر کیا ان کا تعلق بکر بن وائل سے تھا انکا نسب جا کر انہی سے ملتاہے۔ اور انہوں نے محمد و آل محمد صلوات اللہ علیھم کی تعلیمات سے خوب فائدہ اٹھایا ۔شیخ عباس قمی ؒ رقمطراز ہیں:
ابان قاری اور علم قرائت اور اس کے دلائل کے وجوہ کا عالم تھا اور اس کی الگ ایک قرائت تھی جو قرا ء کے ہاں مشہور ہے اور یہ علم تفسیر،حدیث،فقہ ،لغت میں اپنے زمانہ کا امام تھا ۔۔۔اور اس کی بہت ساری تصانیف ہیں مثل غریب القرآن اور کتاب الفضائل،کتاب احوال صفین،اور دیگر کتب۔۔۔
(سیرت معصومین ترجمہ احسن المقال ج1 ص754)
باقر شریف قرشی رجال النجاشی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
”انہ کان مقدما فی کل فن من العلوم :فی القرآن والفقہ والحدیث والادب واللغۃ والنحو "
(موسوعۃ سیرۃ اہل البیت ج 16ص 215)
وہ علوم میں سے ہر فن قرآن حدیث ادب لغت نحو میں سرفہرست تھے
اور ان کی علمی شخصیت وقابلیت کے لیئے یہی کافی ہےکہ یہ ائمہ کے قابل اعتماد تھے حتی ایک مرتبہ کہ امام باقر علیہ السلام نے ان کو کہا تھا
”اجلس فی المسجدالمدینۃ وافت الناس فانی احب ان یری فی شیعتی مثلک “
(رجال النجاشی :ص 10،مجالس المؤمنین ؒ ص572، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت ج16ص 216)
مسجد نبوی میں بیٹھ کر عوام الناس کو فتوی دو ،میں پسند کرتا ہوں کہ اپنے شیعوں میں تجھ جیسے افراد کو دیکھوں۔
ابان بن تغلب نے 150ھ میں وفات پائی جب ان کی وفات کی خبر امام صادق علیہ السلام کو پہنچی تو امام صادق علیہ السلام نے انتہائی غم کے انداز میں فرمایا
”اما واللہ لقد اوجع قلبی موت ابان “
ہاں اللہ کی قسم ابان کی موت نے میرے دل کو تکلیف میں مبتلا کر دیا۔
(رجال النجاشی :ص12 ، تکملۃ الرجال :شیخ عبدالنبی کاظمی :ج1، ص 153)
سعید بن جبیر ؒ
ابو محمد سعید بن جبیر  کو بھی شیخ طوسی ؒ نے امام سجاد علیہ السلام کے شاگردوں میں سے قرار دیا ۔یہ بھی اپنے زمانہ کے زاہد و پارسا لوگوں میں سے تھے نیز آپ کو مؤرخین نے مستجاب الدعوات اور صاحب کرامات لکھا ہے ۔سعید بن جبیر  مشہور تابعین میں سے تھے ۔
مناقب آل ابی طالب کا حوالہ دے کرباقر شریف قرشی نے لکھا ہے :
کان سعید من ابرزعلماء عصرہ ،کان یسمی جھبذۃ العلماء وما علی الارض الا وھو محتاج الی علمہ
(موسوعۃ سیرۃ اہل البیت جلد16صفحہ 264)
سعید اپنے زمانہ کے بارز ترین علماء میں سے تھے ان کو(دانا ترین)نام دیا جاتا تھا اور زمین پر رہنے والا کوئی ایسا نہ تھا جو (امام علیہ السلام کے اس شاگرد)سعید کے علم کا محتاج نہ ہو۔
اوراہل سنت علماء میں سے ابن کثیر جیسا شخص سعید کی مدح سرائی کیے بنا نہ رہ سکا اپنی شہرہ آفاق کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھتا ہے :
کان سعید من ائمۃ الاسلام فی التفسیر والفقہ وانواع العلوم ،وکثرۃ العمل الصالح۔۔۔کان سعید من طلیعۃ المتقین فی عصرہ وکان ملازما لتلاوۃ القرآن الکریم وکان یجلس فی الکعبۃ المکرمۃ ویتلو القرآن فلا ینصرف حتی یختمہ ۔۔۔وکان کثیر الخشیۃ من اللہ ۔۔۔
(البدایہ والنہایہ :لابن کثیر جلد9صفحہ 98)
سعید اپنے زمانہ میں تفسیر ،فقہ اور دیگر انواع کے علوم میں اسلام کے اماموں میں سے تھا اور کثیر عمل صالح بجا لانے والوں میں سے تھا اور سعید اپنے زمانہ میں متقین کی پہچان تھا وہ قرآن کی تلاوت کو لازم سمجھتا اور کعبہ مکرمہ میں بیٹھ جاتا اور قرآن کی تلاوت کرتا اور اس وقت تک نہیں پلٹتا تھ اجب تک قرآن ختم کہ کر لے ۔۔اور اللہ سے کثرت سے ڈرنے والوں میں سے تھا۔
اس سے بڑھ کر فخر کیا ہو گا کہ امام سجاد علیہ السلام کے تربیت یافتہ اشخاص کو معاشرہ میں علم و فن کا امام سمجھا جاتا تھا اور لوگ اپنے مسائل کے لئے امام علیہ السلام کے شاگردوں کی جانب رجوع کرتے تھے ۔جب شاگردوں کا یہ مقام ہے تو انکی تربیت کرنے والے
امام سجاد علیہ السلام کا مقام و مرتبہ تو انسان انگلیوں پر شمار کرنے سے قاصر ہے ۔
رجال کشی کا حوالہ دے کر شہید ثالث ؒ رقمطراز ہیں:
"حجاج بن یوسف نے سعید کو جرمِ تشیع اور امام زین العابدین علیہ السلام کا شگرد ہونے کی وجہ سے شہید کیا تھا ”
(مجالس المؤمنین :صفحہ 524)
نیز سعید  کی شہادت کے بعد حجاج بن یوسف چالیس دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا اور وہ لعین مرض الموت میں بے ہوش ہو جاتا تھا اور جب ہوش میں آتا تو کہتا سعید بن جبیر  آخر تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ ایک روایت میں ہے کہ حجاج لعین کو نیند آتی تو خواب میں دیکھتا کہ سعید بن جبیر  نے اس کا گریبان پکڑ رکھا ہے اور فرماتے ہیں اے دشمن خدا تو نے مجھے کس جرم میں قتل کرایا تھا ؟
(مجالس المؤمنین :صفحہ 524)
وفات کے وقت سعید بن جبیر کی عمرانچاس برس تھی ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button