اصحاب آئمہ اطہارؓسلائیڈرشخصیات

حضرت حر رضوان اللہ تعالی علیہ کی توبہ اور ان کی شہادت

تحریر آیت اللہ انصاریان
حضرت حر بن یزید ریاحی ؒکی مثالی توبہ کا واقعہ اور ان کی داستان شہادت کو علمائے اسلام میں سے ابو مخنف ،شیخ مفید،سیّد ابن طاووس ،علامہ مجلسی ،اور مرحوم مازندرانی حائری نے بطور مفصل نقل کیا ہے ہم ان سب کاخلاصہ پیش کر رہے ہیں ِ۔
جب قافلہ سر کار سیّد الشہدآء نے مقام زبالہ سے کوچ کاارادہ کیاتو آپ نے حکم دیاکہ :وافر مقدار میں پانی کاذخیرہ اپنے ساتھ لے لو فوراً حکم امام علیہ السلام کی تعمیل کی گئی،ایک بہت بڑی تعداد میں پانی سے بھرے مشکیزے اونٹوں پر لاد دئے گئے اور یہ قافلہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا میان راہ اچانک آپ کے ایک صحابی نے نعرہ تکبیر بلند کیاامام علیہ السلام نے بھی اپنی زبان الہام بخش پر تکبیر کے الفاظ دہرائے اورتکبیر بلند کرنے کا سبب دریافت کیا انہوں نے جواب دیا:
مولا میں کچھ کھجورکے درخت دیکھ رہاہوں، ؛دوسرے ہمراہیوں نے تعجب خیز !لہجے میں کہا کہ ہم اس صحرا سے آشنا ہیں یہاں پر تو کوئی کھجور کاباغ ہی نہیں ہے ،امام علیہ السلام نے فرمایا: غور سے دیکھو!،کچھ دکھائی دے رہا ہے ؟
صحابیوں نے جواب دیا:مولا ہمیں تو گھوڑوں کی کچھ گردنیں دکھائی دے رہی ہیں ،حضرت نے بھی ان لوگوں کے قول کی تائید کی، یکایک ابن زیاد کالشکر آنکھوں کے سامنے تھا،اور شدت تشنگی سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں امام علیہ السلام سے یہ منظر کربناک دیکھا نہ گیاآپ نے حکم دیاکہ ان کو سیراب کرو! ہاں ! ان کے گھوڑے بھی پیاسے نہ رہ جائیں۔
اصحاب امام نے اس پانی سے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے دشمن کے لشکر اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلانا شروع کیا، پانی سے بھرے برتن گھوڑوں کے سامنے رکھے گئے یہاں تک کہ جانور بھی سیراب ہوگئے۔
علی ابن الطعان کہتا ہے :کہ میں لشکر حر میں تھااور اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گیاتھاجب میں پہونچا تمام لشکر والے اپنے جانوروں سمیت سیراب ہو چکے تھے اور مجھ پر پیاس کاشدید غلبہ تھا جیسے ہی امام حسین علیہ السلام نے میری حالت قریب المرگ دیکھی تو پانی کی مشکوں سے لدے ایک اونٹ کی طرف میری رہنمائی فرمائی اور مزید فرمایا:کہ جاؤ !اور اس اونٹ کو بیٹھا کر اس سے پانی اتار کر پی لو !لہذا میں اونٹ کے قریب گیااور اس کو بیٹھاکر پانی اتار کر جیسے ہی پینا چاہتاتھاپانی میرے منھ سے نکل کر زمین پر بہنے لگا حضرتؑ نے یہ منظر دیکھا بنفس نفیس خود تشریف لائے اور مشک کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور مجھے پانی پلانا شروع کیایہاں تک کہ میں سیراب ہوگیا،اور میرے گھوڑے نے بھی جی بھر کر پانی پیا۔
ابن زیادکا یہ لشکر جس کاسردار حر ابن یزید ریاحی تھا پانی پی کر آرام کرنے لگے یہاں تک کہ نماز ظہر کاوقت ہو گیا۔
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حر بن یزید ریاحی قوت ادب و تہذیب کے ذریعے ایک قدم حق کی طرف آگے بڑھا ؟
جیسے ہی ظہر کاوقت ہواسر کار سیّد الشہدا ء علیہ السلام نے اپنے قافلے کے مؤذن جناب حجاج بن مسروق جعفی سے فرمایا :اذان دو! پھر اس کے بعد حر کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا:کہ کیا تم پنے لشکر کے ہمراہ نماز پڑھو گے؟لیکن خلاف توقع لشکر دشمن کے سپہ سالار نے جواب دیا:فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تو آپ کی معیت میں فریضہ ظہر ادا کروں گا۔
یہ ادب و تہذیب سے بھرپور نماز کہ جس کو وہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں پڑھنا چاہتا تھا در واقع یہ تہذیب دشمن سے بے نیازی اور پشت دکھانے کے مترادف ہے یہ چیز ان کو ایک قدم خالق حقیقی سے نزدیک لے گئی اور یہی وہ بنیادی قدم تھاکہ جو ان کے اوپر باب رحمت کھلنے کاسبب قرار پایاغرض تمام لشکر نے امام علیہ السلام کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر اس کے بعد آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایایہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہو گیاپہلے کی مانندحر بن یزید ریاحی نے امام حسین علیہ السلام کی اقتدا ء میں فریضہ عصر ادا کیا ،نماز سے فراغت کے بعد امام اور حر کے درمیان حالات کوفہ کے موضوع پر گفتگو کا آغاز ہوا ،امام نے فرمایا کہ میں مکہ یا مدینۃ النبی واپس چلا جاؤں گالیکن حر کی جانب سے مسلسل یہ اصرار تھا کہ میں آپ کو کوفہ لے جانے کے لئے مامور ہواہوں حضرت نے حر کے اس اڑیل رویہ کو دیکھتے ہوئے فرمایا:
"ثکلتک امّک "
تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے !تو مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟ حر یہ جملہ سن کر کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اس کے بعد اس طرح گویا ہوا :
"اما واللہ لو غیرک من العرب یقولھا لی و ھو علی مثل تلک الحالۃ الّتی انت علیھا ما ترکت ذکر امّہ باثکل ان اقولہ کائناً ما کان و لکن واللہ مالی الی ذکر امّک من سبیل الّا باحسن ما یقدر علیہ "
خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ کوئی عرب شخص مجھے یہ جملہ کہتا اور وہ ایسی حالت میں ہوتاجس میں آپ ہیں میں اس کی ماں کا تذکرہ انہی الفاظ میں کرتا لیکن خداکی قسم !آپ کی ماں بڑی عظیم المرتبت ہیں اور مجھے حق نہیں کہ ان کو ذکر خیر کے علاوہ یاد کروں
نماز کے بعد یہ دوسرا موقعہ تھا کہ جب حر نے دامن تہذیب کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہ دیااور یہ ظاہر کر دیاکہ رحمت الٰہی کا ایک اور مخصوص دروازہ حضرت فاطمہ کے احترام کے سبب مجھ پر کھلا ہے۔
وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ روز عاشورا نمودار ہوا ۔باوجود اس کے کہ عمر سعد نے حر کے منصب میں اضافہ کر دیاتھالیکن اس کے اندر توفیق توبہ اور ایک عجیب غریب نور معنوی پیدا ہو گیاتھا اور مسلسل اس کے کانوں میں وہ صدا جو اسے جنّت کی بشارت کی صورت ،ابتداء سفر میں نصیب ہوئی تھی نعمت الٰہی کے رس گھول رہی تھی۔
حرّ ان ہی احساسات اور جذبات کو لئے خیمہ سر کار سید الشہداء کی طرف بڑھا قریب پہنچ کر مرکب سے اترا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پس گردن باندھ لیا جیسے ہی امام کے قریب پہونچا اپنے کو زمین پر گرا دیا اور خاک پر لوٹنے لگا اور دعا کے یہ فقرے زبان پر تھے۔
"اللھم الیک انبت فتب علی "
خدایا!میں تیری بارگاہ میں معافی کاطلبگار ہوں میری توبہ کو قبول فرما :
"فقد ارعبت قلوب اولیائک و اولاد بنت نبیک "
میں نے تیرے خاص بندوں کے دلوں کو دکھایا ہے اور تیرے نبی کی بیٹی کےلخت جگر کا دل دکھایاہے ، مولانے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا:
"ارفع راسک "
حرّ اپنے سر کو اٹھاؤ !اس نے بصد شرمندگی عرض کیا:فرزند رسول میں وہ شخص ہوں کہ جس نے آپ کو مدینہ واپس جانے نہیں دیا اور آپ پر تمام راستوں کو بند کردیا،کیاواقعاً میرے جیسے گنہگار کے لئے بھی توبہ کی گنجائش ہے ؟
امام روؤف نے جواباً ارشاد فرمایا:
” نعم ،یتوب اللہ علیک "
ہاں تمہارے لئے بھی امکان توبہ ہے اپنے سر کو زمین سے اٹھاؤاللہ نے تمہاری توبہ کو قبول کر لیا ہے۔
اور جیسا کہ ابن نمای حلی اپنی کتاب مثیر الاحزان میں نقل کرتے ہیں کہ حر نے امام حسین کی خدمت میں عرض کی یابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ووسلم! جس وقت میں کوفہ سے باہر آیا تو میری پشت کی جانب سے ایک آواز آئی کہ اے حر!تجھے جنت مبارک ہو! حضرت نے فرمایا:
"لقد اصبت اجراً و خیراً”
حر تم نے خدا کی بشارت کو اچھی طرح پہچان لیااور یزیدیوں کو چھوڑ کر اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملحق ہو گئے اور خود کو اس بشارت تک پہنچا دیا۔
پھر اس کے بعد حر نے امام علیہ السلام سے اجازت لی اور میدان کارزار کی طرف روانہ ہوئے کوفیوں سے شدید قتال کیا آخر میں جام شہادت نوش کرکے اس بشارت کو پالیا۔
اصحاب امام حسین علیہ السلام نے ان کے زخموں سے چور چور بدن کو زمین سے اٹھایا اور قریب خیمہ لاکر امام کے سامنے رکھ دیامولا حر کے سرہانے بیٹھ گئے اور ان کے خون آلود رخسار پر اپنا دست مبارک پھیرا چہرے سے غبار کربلا کو ہٹایا اور اس جملے کو فرمایا:
"انت الحرّ کما سمتک امّک حرّاً فی الدنیا و سعید فی الآخرۃ ِ”
اے حر!تو دنیا میں آزاد ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام حر رکھا تھا اور آخرت میں نیک بخت اور خوش نصیب ہے۔
حوالہ جات:
1۔ وقعۃ الطف،ابو مخنف،ص۱۶۷۔۱۷۱ الارشاد ،المفید،ج۲ص۷۶۔۷۹ لواعج الاشجان ،ص۶۷۔۷۱ منتھی الآمال ، ج۲ ص۷۷۱۔۷۷۴ تاریخ الطبری ،ج۴ ص۳۰۱۔۳۰۴ الکامل فی التاریخ ،ج۴ ص۴۶۔۴۷
2۔وقعۃ الطف ،ابو مخنف ص۲۱۳۔۲۱۶ ،الارشاد ،ج۲ص۹۹۔۱۰۰ ،لوا عج الاشجان ص۱۰۲۔۱۰۳ منتھی الآمال ،القمی، ج۲ص۸۱۴۔۸۱۶،معالی السبطین ،ج۱ص۳۶۲۔۳۶۳ المجلس۳ ،تاریخ الطبری،ج۴،ص۳۲۴۔۳۲۵
3۔ مثیر الاحزان ،ابن نما الحلی،ص۵۹۔۶۰
4۔الملہوف علی قتلی الطفوف،،ص۱۵۹۔۱۶۰ ،بحار الانوار،ج۴۵،ص۱۴،باب۳۷،لواعج الاشجان ،ص۱۱۰۔۱۱۱
https://www.erfan.ir/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button