خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:315)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 8 اگست 2025 بمطابق 13 صفر المظفر 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: جوانی، ایک غنیمت
اما بعد فقد قال رسول اللّٰہ ﷺ: اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں جمعہ کے بابرکت دن میں مسجد میں جمع ہونے کی توفیق ملی تاکہ ہم اس کے کلام اور اس کے رسول اکرم (ص) و آئمہ اہل بیت (ع) کے ارشادات سے رہنمائی حاصل کریں۔ ہماری زندگی، اللہ کی عطا کردہ انمول نعمتوں میں سے ایک ہے۔ یہ زندگی مختلف مراحل سے گزرتی ہے؛ بچپن، جوانی، بڑھاپا، اور پھر موت۔ ان تمام مراحل میں سے ایک ایسا مرحلہ ہے جسے قدرت نے خاص طاقت، جوش اور صلاحیتوں سے نوازا ہے، اور وہ ہے جوانی کا دور۔
آج ہمارے خطبے کا موضوع اسی سنہری دور کی قدر و منزلت پر ہے۔ ہمارعے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے ایک جامع حدیث میں ہمیں زندگی کی پانچ قیمتی نعمتوں کو ان کے زوال سے پہلے غنیمت جاننے کی تاکید فرمائی۔چونکہ یہ پانچوں نکات بہت زیادہ اہم ہیں اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ ہر نکتے پر اس کے مکمل پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے گفتگو کی جائے۔ اس حدیث کا پہلا نکتہ جوانی کے بارے میں ہے، اور یہی آج ہماری گفتگو کا محور ہو گا۔باقی نکات پر اگلے خطبوں میں تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ آپ نے فرمایا:
اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو:
شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،
وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے،
وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، اپنی خوشحالی کو غربت سے پہلے،
وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے،
وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
(مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 172)
آج کے خطبے میں ہم اس حدیث کے پہلے اور اہم ترین جزو، "جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو” تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
جوانی: سنہرا دور اور اللہ کی عظیم نعمت
مومنین کرام! جوانی انسان کی زندگی کا وہ سنہرا دور ہے جب اس کے پاس توانائی، ہمت، اور علم حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان کے جسم میں طاقت، اس کے ارادوں میں پختگی اور اس کے ذہن میں نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ جوانی میں انسان بڑے سے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے اور مشکل سے مشکل اہداف کو حاصل کرنے کی لگن رکھتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم اپنے مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں، چاہے وہ دنیاوی ہو یا اخروی۔
مولا علیؑ فرماتے ہیں:
شَيئانِ لا يَعرِفُ فَضلَهُما إلاّ مَن فَقَدَهُما: الشَّبابُ، والعافِيَةُ.(غرر الحكم: ۵۷۶۴)
دو چیزوں کی قدر ان کے چلے جانےکے بعد سمجھ میں آتی ہے ایک جوانی اور دوسری تندرستی۔
ایمان کی جوانی
یہاں ایک بہت اہم نکتہ قابلِ غور ہے کہ جوانی کو عام طور پر عمر کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے، جیسے 15 سال سے 40 سال کی عمر۔ لیکن قرآن اور احادیث میں جوانی کا ایک اور مفہوم بھی ہے، اور وہ ہے ایمان کی جوانی، روح کی تازگی اور عزم کی پختگی۔
اس کی بہترین مثال ہمیں اصحاب کہف کے واقعے میں ملتی ہے۔ جب قرآن ان کا ذکر کرتا ہے تو انہیں "فتيہ” یعنی جوان کہہ کر پکارتا ہے، حالانکہ ان میں سے بعض عمر رسیدہ افراد بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى(سورۃ الکہف، آیت 13)
ترجمہ: "بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔”
اس آیت میں انہیں "جوان” کہا گیا کیونکہ ان کا ایمان جوان تھا، ان کا عزم بلند تھا اور وہ اللہ کی وحدانیت پر ایسے ثابت قدم تھے جیسے مضبوط ارادے والے نوجوان۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل جوانی جسم کی نہیں بلکہ ایمان کی جوانی، روح کی تازگی اور حق پر قائم رہنے کا جذبہ ہے۔ یہ ایک دائمی جوانی ہے جو عمر کے بڑھنے کے ساتھ ختم نہیں ہوتی، بلکہ مزید نکھرتی ہے۔
اسی بابت امام جعفر صادق ؑ کی حدیث ہےکہ آپ نے ایک شخص سے پوچھا: ما الفَتى عِندَكُم؟
تمہارے نزدیک جوان کون ہے؟
فقالَ لَهُ: الشابُّ، اس نے کہا: جوان، جوان ہی ہوتا ہے!
فقالَ: لا، الفَتى: المُؤمِنُ، فرمایا: نہیں بلکہ مومن جوان
إنَّ أصحابَ الكَهفِ كانوا شُيُوخا فَسَمّاهُمُ اللّٰهُ عز و جل فِتيَةً بِإيمانِهِم۔ (الكافي: ۸ / ۳۹۵ / ۵۹۵)
کیونکہ اصحاب کہف بوڑھے تھے لیکن اللہ نے ان کے ایمان کی بنا پر ان کا نام جوان رکھا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی عمر کے مراحل کا ذکر کرتے ہوئے جوانی کی قوت کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے:
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں کمزوری سے پیدا کیا،
ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّةً پھر کمزوری کے بعد طاقت دی،
ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضُعْفًا وَشَيْبَةً پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔
يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قادر ہے۔
(سورۃ الروم، آیت 54)
اس آیت میں اس بات پر ایک واضح دلیل قائم ہو رہی ہے کہ انسان بذات خود ایک بے بس وجود ہے۔ ایک قوت ہے جو اس کی زندگی کو چلا رہی ہے۔ وہی قوت اس کی مدبر ہے اور اس قوت کا مالک اس کا رب ہے۔
۱۔ اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ ضُؔعۡفٍ: ایک نہایت کمزور جرثومہ کمزور بوند سے پیداکیا۔ حالت جنین میں بھی کمزور، شیر خوار بچہ بھی کمزور اور بے بس ہوتا ہے۔
۲۔ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ ضُعۡفٍ: ان کمزور مراحل سے گزارنے کے بعد عالم شباب میں داخل ہو جاتا ہے۔ کچھ طاقت و قوت کا مالک بن جاتا ہے۔ اس مرحلے میں آ کر یہ نادان اپنے ماضی اور مستقبل سے غافل رہتا ہے۔ حدیث میں ہے:الشَّبَابُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْجُنُونِ۔ (الفقیہ ۴: ۳۷۷)جوانی جنون کی ایک قسم ہے۔
دوسری حدیث میں ہے:
السکر اربعۃ سکر الشباب سکر المال و سکر النوم و سکر الملک۔ (تحف العقول: ۱۲۴)
نشہ کی چار حالتیں ہیں: جوانی کا نشہ، مال کا نشہ، نیند کا نشہ اور کرسی کا نشہ۔
۳۔ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ ضُؔعۡفًا وَّ شَیۡبَۃً: عالم شباب کی طاقت کا مزہ چکھانے کے بعد آہستہ آہستہ یہ طاقت و قوت اس سے سلب کی جاتی ہے:
وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا۔ ۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۷۰)
اور تم میں سے کوئی نکمی ترین عمر کو پہنچا دیا جاتاہے تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے
۴۔ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ: اللہ کبھی کمزور خلق فرماتا ہے۔کبھی طاقت و قوت عنایت فرماتا ہے۔ وہ خلق کے تمام اسرار و رموز کو بہتر جانتا ہے۔ وہ قدرت رکھتا ہے اپنی مشیت و حکمت کے مطابق جو چاہے خلق کرے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 373)
پس اس آیت میں انسان کو اپنی کمزوری اور بڑھاپے سے پہلے حاصل ہونے والی قوت (یعنی جوانی) پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزِ قیامت جوانی کے بارے میں خاص طور پر سوال کیا جائے گا۔
نبی اکرم (ص) نے فرمایا: "قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کے متعلق سوال نہ کر لیا جائے:ان میں سے ایک اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں گزارا؟ اور اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کس کام میں لگایا؟” یہ حدیث جوانی کی اہمیت اور اس کے بارے میں اللہ کی بازپرس کو واضح کرتی ہے کہ اس کی پوری عمر کے بارے میں سوال کے بعد جوانی کے بارے میں بطور خاص الگ سوال کیا جائے گا۔
جوانی میں نیک اعمال کی فضیلت
اللہ تبارک و تعالیٰ کو وہ اعمال بہت پسند ہیں جو انسان اپنی جوانی میں خالص نیت سے انجام دیتا ہے۔ جوانی میں کی گئی عبادت، توبہ اور نیک کام کی فضیلت بڑھاپے میں کیے گئے انہی کاموں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں انسان کو بہت سی خواہشات اور فتنوں کا سامنا ہوتا ہے، اور ایسے وقت میں راہِ حق پر قائم رہنا ایک عظیم جہاد ہے۔
قرآن مجید میں ہمیں ایسے نوجوانوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنی جوانی اللہ کی راہ میں صرف کی:
إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى (سورۃ الکہف، آیت 13)
ترجمہ: "بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔” (جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، یہاں جوانی سے مراد ایمانی اور روحانی جوانی ہے۔)
اسی طرح، جب حضرت ابراہیم (ع) نے بتوں کو توڑا تو ان کے قوم نے کہا:
قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (سورۃ الانبیاء، آیت 60)
ترجمہ: "انہوں نے کہا: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔”
حضرت ابراہیم (ع) کی جوانی میں ہی توحید کی یہ جرأت اور بتوں کے خلاف یہ اقدام ان کے مضبوط ایمان اور عملی پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔
ہمارے آئمہ اہل بیت (ع) نے بھی جوانی میں تربیت اور نیک اعمال کی فضیلت پر زور دیا ہے:
امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:
إنّما قَلبُ الحَدَثِ كالأرضِ الخاليَةِ، ما اُلقِيَ فيها مِن شَيءٍ قَبِلَتهُ۔ (تحف العقول: ۷۰)
نوجوانوں کا دل خالی زمین کی مانند ہوتا ہے، اس میں جو چیز ڈال دی جائے اسے قبول کرلیتی ہے۔
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَ هُوَ شَابٌّ مُؤْمِنٌ جو شخص جوانی میں ایمان کی حالت میں قرآن پڑھے،
اخْتَلَطَ الْقُرْآنُ بِلَحْمِهِ وَ دَمِهِ تو قرآن اس کے گوشت اور خون میں رچ بس جاتا ہے
وَ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ اور اللہ اسے معزز اور نیکو کاروں کے ساتھ قرار دیتا ہے۔
(الکافی، جلد 2، صفحہ 603، حدیث 4)
اسی طرح، امام علی (ع) نے جوانی کے عزم و ہمت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
قَدْرُ الرَّجُلِ عَلٰى قَدْرِ هِمَّتِهٖ، وَ صِدْقُهٗ عَلٰى قَدْرِ مُرُوْٓءَتِهٖ، وَ شَجَاعَتُهٗ عَلٰى قَدْرِ اَنَفَتِهٖ، وَ عِفَّتُهٗ عَلٰى قَدْرِ غَیْرَتِهٖ۔ (نہج البلاغہ، حکمت 47)
ترجمہ: ” انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے، اور جتنی مروت اور جوانمردی ہو گی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی، اور جتنی غیرت ہو گی اتنی ہی پاکدامنی ہو گی۔”
یہ فرمان ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم اپنی جوانی کی طاقت کو اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
جوانی میں علم حاصل کرنا:
رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں: مَن تَعَلَّمَ في شَبابهِ كانَ بمَنزِلَةِ الرَّسمِ في الحَجَرِ، ومَن تَعَلَّمَ وهُو كبيرٌ كانَ بمَنزِلَةِ الكِتابِ على وَجهِ الماءِ۔ (بحارالانوار: ۱ / ۲۲۲ / ۶)
جو جوانی کے ایام میں علم حاصل کرتا ہے وہ ایسے نقش کی مانند ہوتا ہے جو پتھر پر ہو (پتھر پر لکیر) اور جو بڑھاپے میں علم حاصل کرتا ہے وہ پانی پر تحریر کی مانند ہوتا ہے۔
امام محمد باقرؑ سے روایت ہے: لَو اُتِيتُ بِشابٍّ مِن شَبابِ الشِّيعَةِ لا يَتَفَقَّهُ (في الدِّينِ) لأََدَّبتُهُ۔ (المحاسن: ۱ / ۳۵۷ / ۷۶۰)
اگرمومن جوانوں میں سے کوئی جوان میرے پاس لایا جائے جو علم دین حاصل نہیں کرتا تو میں اسے سختی کے ساتھ تنبیہ کروں گا۔
اسی طرح امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے: لَستُ اُحِبُّ أن أرى الشّابَّ مِنكُم إلاّ غاديا في حالَينِ:
تمہارے جوانوں کو صرف دو حالتوں میں دیکھنا چاہتا ہوں،
إمّا عالِما أو مُتَعَلِّما، یا تو وہ عالم ہوں یا پھر طالب علم،
فإن لَم يَفعَلْ فَرَّطَ، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کوتاہی کے مرتکب ہوں گے،
فإن فَرَّطَ ضَيَّعَ، جو کوتاہی کرتاہے وہ خود کو ضائع کردیتا ہے
وإنْ ضَيَّعَ أثِمَ، اور جو خود کو ضائع کردیتا ہے وہ گناہگار ہوتا ہے
وإن أثِمَ سَكَنَ النارَ والذي بَعَثَ مُحمّدا بِالحَقِّ۔(أمالي الطوسيّ: ۳۰۳ / ۶۰۴)
اور گنہگار کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد مصطفی (ص) کو برحق بھیجا ہے۔
بڑھاپا: ناتوانی اور پچھتاوا (مقابلے کے ذریعے جوانی کی اہمیت)
وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے اور جوانی کا یہ سنہرا دور بہت جلد بڑھاپے کی کمزوری میں بدل جاتا ہے۔ بڑھاپا وہ وقت ہوتا ہے جب انسان جسمانی طور پر ناتوان ہو جاتا ہے، بیماریاں گھیر لیتی ہیں، یادداشت کمزور ہو جاتی ہے، اور بہت سے نیک اعمال جو جوانی میں آسانی سے ہو سکتے تھے، بڑھاپے میں ناممکن ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں بڑھاپے کی اس حقیقت کو یوں بیان فرماتا ہے:
وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۚ أَفَلَا يَعْقِلُونَ (سورۃ یٰس، آیت 68)
ترجمہ: "جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں، اسے تخلیق میں الٹا کر دیتے ہیں (یعنی کمزور کر دیتے ہیں)۔ کیا وہ پھر بھی نہیں سمجھتے؟”
وہ شخص کتنا بدقسمت ہے جو اپنی جوانی کھیل کود، غفلت اور گناہوں میں ضائع کر دے اور جب بڑھاپا آئے تو افسوس کے سوا کچھ باقی نہ رہے۔ اس وقت وہ چاہے گا کہ اللہ کی راہ میں کچھ نیک کام کر لے، مگر اس کے جسم میں نہ طاقت ہوگی اور نہ وقت۔ اس لیے، رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
إنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الشَّابَّ الَّذِي يَفْنِي شَبَابَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ(الکافی، جلد 8، صفحہ 93)
ترجمہ: "بے شک اللہ اس نوجوان کو پسند کرتا ہے جو اپنی جوانی کو اللہ کی اطاعت میں فنا کر دے۔”
یہ حدیث دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ بڑھاپے میں یہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
حکایت:
ایک پرانی حکایت ہے کہ ایک شخص نے ساری جوانی لہو و لعب میں گزاری۔ جب وہ بوڑھا ہوا اور بیمار پڑا تو مسجد کا رخ کیا اور رونے لگا۔ ایک عابد شخص نے اسے دیکھا تو کہا: "اے شخص! تو نے اپنی جوانی کو ضائع کیا اور اب بڑھاپے میں توبہ کر رہا ہے۔ تیری توبہ اگرچہ اللہ قبول کرے گا، لیکن اس جوانی کے وقت کو واپس نہیں لا سکتا جو تو نے ضائع کر دی ہے جس میں تو بھرپور نیکیاں کما سکتا تھا۔” یہ حکایت ہمیں عبرت دلاتی ہے کہ جوانی میں غفلت کا انجام کیسا افسوسناک ہوتا ہے۔
جوانی اور بڑھاپے کا تقابل
جیسا کہ ہم نے دیکھا، جوانی اپنی توانائی اور قوت عمل کے لحاظ سے ایک انمول دور ہے جہاں نیک اعمال کمانے کی بہترین فرصت ملتی ہے، جبکہ بڑھاپا جسمانی کمزوریوں اور ناتوانیوں کے ساتھ آتا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بڑھاپا بے فائدہ ہے۔ نہیں! اللہ تعالیٰ نے ہر عمر کے مرحلے میں حکمت رکھی ہے۔
جوانی کے فوائد جہاں نیک اعمال اور دین کی راہ میں جہدوجہد کی عملی قوت سے عبارت ہیں، وہیں بڑھاپے کے بھی اپنے گہرے فوائد ہیں۔ بوڑھے افراد، جن کی عمر کا ایک طویل حصہ گزر چکا ہوتا ہے، اپنے ساتھ تجربات کا ایک سمندر لیے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کے نشیب و فراز، ان کے مشاہدات اور ان کی دانشمندی جوانوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ دین میں بزرگوں کی حرمت اور احترام کا حکم دیا گیا ہے، اور ہمیں ان کے تجربات سے استفادہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ بزرگ گھر میں ایک سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں، جن کی موجودگی سکون، برکت اور رہنمائی کا ذریعہ ہوتی ہے۔
لہٰذا، ضرورت اس امر کی ہے کہ:
• جوان اپنے ہمت، توانائی اور قوت عمل کو بروئے کار لاتے ہوئے بزرگوں کے تجربات اور دانشمندی سے استفادہ کریں۔ وہ ان سے رہنمائی حاصل کریں، ان کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کی دعائیں لیں۔ اس طرح جوانی کی قوت اور بڑھاپے کی حکمت مل کر معاشرے کو بہترین سمت دے سکتے ہیں۔
• بزرگ بھی اپنی حکمت، صبر اور تجربے کو صرف اپنے تک محدود نہ رکھیں۔ وہ جوانوں کو اپنی بصیرت سے فیض یاب کریں، انہیں درست راستے کی طرف رہنمائی دیں اور دین و دنیا کے معاملات میں انہیں قیمتی مشورے دیں۔ انہیں اپنی پرانی غلطیوں اور کامیابیوں سے آگاہ کریں تاکہ جوان ان سے سبق حاصل کر سکیں۔
یوں جوانی اور بڑھاپا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن جاتے ہیں، جہاں قوت تجربے سے اور تجربہ قوت سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک مضبوط اور صالح معاشرے کی بنیاد ہے۔
جوانی کی صحیح سمت: عملی اقدامات اور نصیحتیں
پس! اس سنہری موقع کو غنیمت جاننے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی جوانی کی طاقت کو اللہ کی رضا کے حصول، اپنی دنیا و آخرت کی بہتری اور معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔ چند عملی اقدامات یہ ہیں:
• علم کا حصول: اپنی جوانی کی بھرپور توانائی کو دین اور دنیا کا مفید علم حاصل کرنے میں لگائیں۔ ائمہ اطہار (ع) نے علم کے حصول پر بہت زور دیا ہے۔
• عبادات کا اہتمام: نماز، روزہ، تلاوت قرآن، ذکر الٰہی میں پابندی اختیار کریں۔ جوانی میں کی گئی عبادت خالص اور مؤثر ہوتی ہے۔
• خدمت خلق: والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور معاشرے کے ضرورت مند افراد کی مدد کریں، کیونکہ خدمت خلق اللہ کو بہت پسند ہے۔
• گناہوں سے اجتناب: جوانی میں نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسوں پر قابو پانا سب سے بڑا جہاد ہے۔ اپنے آپ کو برائیوں سے بچائیں۔برے خیالات سے بچنے کے لیے خود کو اچھے کاموں میں مصروف رکھیں اور باوضو رہیں اسی طرح خواہشات نفسانی پر کنٹرول کرنے کے لیے روزے رکھیں۔
• تعمیر سیرت: اچھے اخلاق، سچائی، امانت داری، عاجزی اور تواضع کو اپنی سیرت کا حصہ بنائیں۔ نبی اکرم (ص) کی سیرت ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
• صحت کا خیال: اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھیں، کیونکہ صحت مند جسم ہی عبادت اور جدوجہد کے لیے ضروری ہے۔
ہمیں انبیاء کرام (ع) اور آئمہ اہل بیت (ع) کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ حضرت یوسف (ع) نے جوانی میں شدید آزمائشوں کے باوجود پاکدامنی اور صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ اللہ نے انہیں عزت بخشی اور وہ مصر کے حکمران بنے۔ اسی طرح، شہدائے کربلا، خاص طور پر حضرت علی اکبر (ع) اور حضرت قاسم (ع) جیسے نوجوانوں نے اپنی جوانی دین اسلام کی بقا کے لیے قربان کر دی اور رہتی دنیا تک ہمارے لیے مثال بن گئے۔ ان کی قربانیاں ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ جوانی میں دین کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کا کیا مقام ہے۔
آخرمیں یہی نصیحت کروں گا کہ جوانی اللہ کی عطا کردہ ایک قیمتی امانت ہے جس کا حساب ہمیں روزِ قیامت دینا ہوگا۔ یہ وقت بادل کی طرح گزر جاتا ہے، جیسا کہ امیر المومنین علی (ع) نے فرمایا: "اَلْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ، فَانْتَهِزُوا فُرَصَ الْخَيْرِ (نہج البلاغہ، حکمت 20)۔
فرصت کی گھڑیاں (تیزرَو) اَبر(بادل) کی طرح گزر جاتی ہیں۔لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو۔
آئیے، آج ہم عہد کریں کہ اپنی جوانی کی اس نعمت کو – چاہے وہ عمر کی جوانی ہو یا ایمان کی – غفلت اور لہو و لعب میں ضائع نہیں کریں گے، بلکہ اسے اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے استعمال کریں گے۔ اور اپنے بزرگوں کا احترام کریں گے، ان کے تجربات سے سیکھیں گے، اور خود بھی آئندہ نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی جوانی کو اس کی رضا کے مطابق استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں آخرت میں سرخرو کرے۔آمین
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭