خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:165)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک02 ستمبر 2022ء بمطابق 05 صفر المظفر1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اھمیت شناخت خدا کے عملی، شخصی اور اجتماعی اثرات سے قطع نظر، شناخت خدااورشناخت اسماء وصفات الٰھی سعادت بشر میں نھایت موثر اور بے انتھا اھمیت کی حامل ھے۔ کیونکہ کمال انسان ،خدا کی صحیح شناخت میں مضمر ھے۔ اگر انسان خدا کی شناخت اس طرح حاصل نہ کرے جس طرح حاصل کرنے کا حق ھے توو ہ لاکہ نیک و خیرا عمال نجام دے لے، ھرگز کمال انسانی کے اعلیٰ مراتب تک رسائی حاصل نھیں کرسکتا۔
خدا کی صحیح شناخت ھی کمال انسانی کا اعلیٰ ترین مرتبہ ھے ۔ درحقیقت صرف اور صرف اسی کے ذریعہ بشر خدا کی طرف پرواز کرسکتا ھے: اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ
پاکیزہ کلمات اسی کی طرف اوپر چلے جاتے ہیں اور نیک عمل اسے بلند کر دیتا ہے۔ (الفاطر:10)
اس سلسلے میں شھید مرتضی مطھری فرماتے ہیں:
انسان کی انسانیت، شناخت خدا کے ارد گرد گھومتی ہے کیونکہ شناخت انسان، انسان سے جدا کوئی شیء نہیں ہے بلکہ اس کی ذات کا اصلی ترین وحقیقی ترین جز ہے۔ انسان جس قدر ہستی، نظام ہستی ومبداٴ واصل ہستی سے قریب تر ہوتا جائے گا اتنی ہی اس کے اندر انسانیت راسخ ہوتی جائے گی وہی انسانیت جس کے جوہراور حقیقت کا نصف حصہ علم، معرفت اور شناخت ہے۔
اسلام اورمخصوصاً مذھب شیعہ کے نقطہٴ نظر سے ، ان معارف و تعلیمات پر مرتب ہونے والے عملی اور اجتماعی اثرات سے قطع نظر اس میں ذرہ برابر شک و تردد کی گنجائش نھیں پے کہ معارف الٰہی کا ادراک ہی اصل ہدف و کمال انسانیت ہے۔(مجموعہ ٴآثار، ج /۲ ، ص / ۱۰۵)
وہ کونسی ذات ہے جس کو عربی زبان میں اللہ، انگلش میں GOD ، فارسی میں خدا کہا جاتا ہے اور ہر دیگر زبان والے اپنے اپنے اعتبار سے پکارتے ہیں؟ اس کے اوصاف کیا ھیں؟ اس کا ھم سے کیسا اور کیا رابطہ ھے؟ھم اس کے ساتھ کیسا رابطہ برقرار کریں؟یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالات ہمیشہ اور ھر زمانے میں پائے جاتے رھے ھیں۔
اگر بشری افکار ونظریاتی تاریخ پر ایک اجمالی اور سرسری نظر ڈالی جائے توواضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے وجود پر اصل اعتقاد وایمان گذشتہ قدیم زمانوں سے ھی رائج اور مشہور رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں خدا پر ایمان کی تاریخ اتنی ھی قدیم ھے جتنی کہ تاریخ وجود انسانی ،لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ تمام افراد بشر، وجود خدا کے معتقد رھے ھیں اور خدا کے بارے میں ان کا عقیدہ یکساں رہا ہے یا سبھی نے خدا کی تعریف یکساں طور پر کی ہے۔
یہ نظریاتی اختلافات مخصوصاً ان لوگوں کے یہاں جو انبیائے الٰہی کے تعلیمات سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنے افکار و نظریات پر زیادہ بھروسہ کرتے ھیں، ھمیشہ اور بھت زیادہ رھے ھیں۔
اسلام میں تصور خدا
قرآن کریم میں مذکورہ صفات خدا پر ایک اجمالی نظر یہ کہا جاسکتا ھے کہ دین اسلام کے ظہور اور نازل ھونے کی حقیقی اور اصل دلیل یہ تھی کہ اسلام، حقیقت خداکو اس طرح پہچنوائے جو اس ذات مقدس کو پہچنوانے کا حق ھے۔ قرآن کریم میں جس طرح خدا کی ذات کی شناخت کرائی گئی ھے ایسی شناخت کسی بھی مکتب یا مذھب میں موجود نھیں ھے۔ حتی اسلام سے ماقبل ادیان الٰھی بھی خدا کی ذات کی شناخت کرانے میں اس کمال تک نھیں پہنچ سکے ھیں۔ قرآن کریم کی کوشش یہ رھی ھے کہ زبان بشری کے دائرے میں ذات خدا کو کامل ترین حد تک بشر کو پہچنوایا جاسکے۔
قرآن مجید کے مطابق خدا واسع (وسعت دینے والا) ، علیم (دانا)، اسرع الحاسبین (نھایت جلدی حساب لینے والا) ، حی (زندہ) ، قیوم (دائم) ،علی( اعلیٰ) ،کبیر( بزرگ)، حق، ذوالجلال والاکرام صمد (بے نیاز) ھے؛ خدا ،اول یعنی ازلی (ھر موجود سے قبل موجود تھا) ساتھ ھی ساتھ آخری یعنی ابدی (ھر موجود کے بعد بھی موجود رھے گا) ظاھر اور ساتھ ھی ساتھ باطن ھے۔
ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ
وہی اول اور وہی آخر ہے نیز وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔(الحدید:3)
اللہ تعالیٰ کا اول ہونا کسی زمانے کے اعتبار سے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ زمانے سے ماوراء ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسن علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک خطبے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اَلَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ أَوَّلٌ مَعْلُومٌ وَ لاَ آخِرٌ مُتَنَاهٍ ((بحار الانوار: جلد 4 صفحه 289)
حمد ہے اس اللہ کے لیے جس کا اول نامعلوم اور آخر لامتناہی ہے۔
یعنی نہ اول کی ابتدا معلوم ہے اور نہ آخر کی انتہا۔
اللہ کا اول ہونا اس اعتبار سے ہے کہ اس سے پہلے کوئی شے نہیں ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے مروی فرمان ہے:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْاَوَّلِ فَلَا شَیْئَ قَبْلَہُ وَ الْآخِرِ فَلَا شَیْئَ بَعْدَہَ۔۔۔۔(نہج البلاغہ خ ۹۶)
حمد ہے اس اللہ کے لیے جو اول ہے۔ اس سے پہلے کوئی شے نہیں ہے اور آخر ہے اس کے بعد کوئی شے نہ ہو گی۔
حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
لَوْ کَانَ قَبْلَہُ شَیْئٌ کَانَ الْاَوَّلَ ذَلِکَ الشَّیْئُ لَا ھَذَا وَ کَانَ الْاَوَّلُ اَوْلَی بِاَنْ یَکُونَ خَالِقاً لِلْاَوَّلِ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۱۲۰)
اگر اللہ سے پہلے کوئی چیز ہوتی تو وہی اول ہو جاتی نہ یہ اور وہ اول ہی اول ہونے کی وجہ سے خالق ہو جاتا۔
کتاب التوحید میں للاول کی جگہ للثانی ہے جو زیادہ قرین واقع معلوم ہوتا ہے۔ یعنی وہ اول ہی ثانی کا خالق ہوتا نیز جب اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو اللہ کا ہر چیز سے پہلے ہونا ضروری ہے ورنہ اگر کوئی چیز اللہ سے پہلے موجود ہے تو اس پر اللہ کی قدرت نہیں ہے۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو کوئی شے اس کے احاطۂ قدرت سے خارج نہیں ہے۔ نہ اس سے پہلے کوئی چیز موجود ہے، نہ اس کے بعد کوئی چیز موجود رہ جاتی ہے۔
اللہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے: اس کائنات میں ہر چیز اس کی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ روشنی تاریکی سے پہچانی جاتی ہے۔ لیکن اللہ کی کوئی ضد نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی فرمان ہے:
وَ بِمُضَادَّتِہِ بَیْنَ الْاَشْیَائِ عُرِفَ اَنْ لَا ضِدَّ لَہُ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۱۸۶)
اپنی مخلوق اشیاء کے درمیان تضاد پیدا کرنے سے معلوم ہوا خود اللہ کی کوئی ضد نہیں ہے۔
لہٰذا اللہ وہ نور ہے جس کے مقابلے میں کوئی تاریکی نہیں ہے۔ اس لیے اپنے شدت ظہور اور فرط نور کی وجہ سے حواس کے لیے اس نور کا ادراک ممکن نہیں۔
اسی مطلب کو مولی الموحدین امیرالمومنین علی علیہ السلام نے بمطابق روایت فرمایا:
وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ۔۔۔۔(نہج البلاغۃ خ ۱۵۵)
تیرا وجود نگاہوں میں آنے والی چیزوں سے بھی زیادہ روشن ہے۔
وہی باطن ہے: اسی فرط ظہور کی وجہ سے وہ باطن ہے۔ یعنی شدت ظہور کی وجہ سے وہ باطن ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے:
الْبَاطِنُ لَا بِاجْتَنَانٍ۔۔۔۔(الکافی ۱: ۱۳۹)
وہ باطن ہے، پوشیدہ رہ کر نہیں۔
باطن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پوشیدہ ہے بلکہ اس لحاظ سے باطن ہے کہ اس کے وجود میں تمام اشیاء کا علم اور تدبیر ہے اور وہ اوہام کی رسائی سے دور ہے۔
خدا، متعال ہے یعنی جو کچھ ھم تصور کرسکتے ھیں اس سے بھی بالاتر ھے اور ھم کسی بھی قیمت پر اس کی حقیقت اورا سکے جمال و جلال کی حقیقت سے اس طرح آشنا نھیں ھوسکتے جس طرح کہ وہ ہے:
فَتَعٰلَی اللّٰہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ
پس وہ بادشاہ حقیقی اللہ برتر ہے (طہ:114)
وہ حقیقی مالک اور واقعی بادشاہ ہے۔ اپنی مملکت میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ البتہ اللہ کی چاہت اندھی بانٹ نہیں ہے بلکہ وہ اہل کو ہدایت دیتا ہے نااہل کو اپنے حال پر چھوڑتا ہے۔ سرکش کوسزا دیتا ہے۔ جن و انس کی ہدایت کے لیے انبیاء بھیجتا ہے، ہدایت کی کتاب نازل کرتا ہے۔ بلند و برتر ہے وہ بادشاہ حقیقی۔
ہمارا اللہ وہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے:
وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (الحدید:4)
تم جہاں بھی ہو، جس جگہ ہو، وہاں اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ یعنی اللہ حاضر و ناظر ہے:
وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ
ہم رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:
مَعَ کُلِّ شَیْئٍ لَا بِمُقَارَنَۃٍ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۱)
ہر چیز کے ساتھ ہے، نزدیک ہونے کے اعتبار سے نہیں۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے (معاذ اللہ) جسم ہونے کے قائل ہیں اور ساتھ اللہ کی ذات و صفات کو باہم الگ تصور کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تو عرش پر ہے، وہ ہمارے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ صرف علم خدا ہمارے ساتھ ہے۔ یعنی علم خدا ہمارے ساتھ ہے خود خدا ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ یہاں سے ذات و صفات جدا ہو جاتی ہیں۔
شیعہ امامیہ اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے کے قائل نہیں ہیں، نہ مکان میں ہونے کو درست سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسم و مکان سے بے نیاز ہے۔ وہ کسی مکان میں نہیں ہے، نہ کوئی مکان ایسا قابل تصور ہے جہاں اللہ کا وجود نہ ہو بلکہ جہاں مکان نہیں ہے وہاں بھی اللہ موجود ہے۔
اسی طرح اللہ کی ذات اور صفات جدا نہیں ہے۔ اللہ کی صفات عین ذات ہیں۔ جس طرح چار اور جفت جدا نہیں ہے۔ چار جب وجود میں آئے گا، جفت کی صفت کے ساتھ وجود میں آئے گا۔ ایسا نہیں ہو گا چار پہلے وجود میں آئے بعد میں اسے جفت کی صفت مل جائے۔
لہٰذا خدا اور علم خدا جدا نہیں ہے کہ خود خدا عرش پر ہو اور اس کا علم ہمارے ساتھ ہو۔
قران کی نظر میں وجود خدا بدیہی ہے(یعنی ایسا واضح کہ جو دلیل کا بھی محتاج نہیں) عام طور پر کتب فلسفہ وکلام میں سے بحث کا آغاز”اثبات وجود خدا“ سے ھوتاھے اور کوشش کی جاتی ھے کہ مختلف استدلالات و براھین کے ذریعہ ثابت کیا جائے کہ ”اس کائنات کا ایک خالق ھے جو خود کسی کی مخلوق نہیں ھے۔
لیکن آسمانی کتابوں مخصوصاً قرآن کریم میں مبحث خداشناسی، ایک دوسرے انداز سے پیش کیا گیا ھے۔ ان کتابوں میں ندرت کے ساتھ ھی ایسی عبارتیں نظر آتی ھیں جو براہ راست اثبات اصل ھستی خدا سے بحث کرتی ھیں۔ گویا اصل وجود خدا، ا یک روشن وواضح حقیقت اور امر مسلم ھے جس میں کسی شک و تردید کی قطعاً کوئی گنجائش نھیں ھے۔
مفسر عالی مرتبت علامہ طباطبائی اپنی معرکة الآراء تفسیر، تفسیرالمیزان میں اس نکتے پر نھایت تاکید کرتے ھیں کہ قرآن کریم نے وجود خدا وند متعال کو واضح وبدیھی شمار کیاھے کہ جس کی تصدیق واثبات کے لئے کسی دلیل یا برھان کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ اگر دلیل و استدلال کی ضرورت ھے تو فقط اس کی صفات کے لئے مانند وحدت، خالقیت ،علم و قدرت وغیرہ۔ (المیزان فی تفسیر القرآن :جلد۱،ص۳۹۵)
علامہٴ مرحوم کے مطابق کلمہٴ اسلامی ”لا الٰہ الا اللہ“ کہ جو اسلام اور تعلیمات قرآن کریم کا لب لباب ھے، میں اس جملہ کے فقط پہلے والے سلبی حصے کو دلیل کی ضرورت ھے (یعنی اللہ کے سوا کوئی اللہ ہی نھیں ہے) ورنہ اس کا اثباتی جنبہ ( یعنی اللہ موجود ھے) بدیھی اور دلیل و استدلال سے بے نیاز ھے۔
قرآن کریم کی منطق اصل وجود خدا کے بارے میں مندرجہ ذیل ھے:
قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (ابراہیم:10)
یعنی آیا وجود خدا کے بارے میں کوئی شک یا تردید ھے؟!
اس آیت میں موجد عالم کی وحدت سے معبود کی وحدت پر استدلال کیا گیا ہے کہ سینہ عدم کو چیر کر اس کائنات کا ایجاد کرنے والا اللہ ہے تو کیا اسی ذات کے قابل پرستش ہونے میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہے؟
عصر بعثت اور الله پر ایمان و اعتقاد
قرآن مجید کی بھت سی آیتوں سے واضح ہوتا ھے کہ قرآن کریم کے زمانہٴ نزول میں اصل ہستی خدا اوراس کائنات کے خالق کا وجود اس زمانے کے تمام افراد کے لئے قابل قبول تھا حتی بت پرست اور مشرکین بھی وجود خالق کائنات پر اعتقاد رکھتے تھے:
وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ
۔اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو ضرور کہیں گے: اللہ نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟(العنکبوت:61)
سوال مشرکین سے ہے جو اپنے بتوں کی پوجا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی دنیا سدھر جائے۔ ان کے عقیدے کے مطابق اس کائنات کا خالق اگرچہ اللہ ہے مگر تدبیر ان کے معبودوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان سے سوال ہے کہ کائنات کا خلق اور شمس و قمر کو مسخر کرنے والا کون ہے؟ مشرکین کا جواب یہ ہو گا کہ خالق اللہ ہے اور مسخر کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اس جواب میں اس بات کا اعتراف ہے کہ تدبیر کائنات کے لیے جس تخلیق و تسخیر کی ضرورت ہے وہ اللہ کے پاس ہے تو ان کے معبود کس ذریعے سے تدبیر کر رہے ہیں۔
یہ بات قرآنی تصریحات کی روشنی میں نہایت واضح ہے کہ خلق و تدبیر ناقابل تفریق ہیں۔ اللہ کی تخلیق کی کیفیت میں تدبیر مضمر ہے۔ شمس و قمر کو جس نہج پر خلق فرمایا ہے اسی میں تدبیر مضمر ہے
وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا اور اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونے کے بعد کس نے زندہ کر دیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، کہدیجئے: الحمد للہ، البتہ اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔(العنکبوت:63)
اسی طرح اگر اللہ بارش برساتا اور زمین کو آباد کرتا ہے تو تمہارے معبود کس پانی اور کس زمین سے تمہیں روزی فراہم کرتے ہیں؟
اللہ اپنی تخلیقی عمل کے ذریعے روزی فراہم کرتا ہے۔ سورج کی تپش، پانی کی طراوت اور رطوبت بارش کا سبب ہے اور رزق دینا تخلیق مسلسل سے عبارت ہے۔ جو ذات پانی کے ذریعے زمین میں دانے کا سینہ چاک کرتی ہے وہی خالق ہی رازق ہے۔
قرآن مجید کی آیتوں کی رو سے شناخت خدا بھی فطری ھے اور اس کی طرف رغبت و جستجو بھی۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ خدا کے وجود کا باور اور اعتراف، عام اورسبھی کے لئے قابل قبول رھا ھے یعنی وجود خدا کوئی ایسا مجھول مسئلہ نھیں ھے جو اثبات کامحتاج ھو۔ اس بحث کے ذریعے شناخت خدا کا فطری ھونا ثابت ھو چکا ھے۔
اس سلسلے میں جو آیتیں دلالت کرتی ھیں ان میں سے ایک سورہٴ روم کی تیسویں آیت ھے جس کو آیہٴ فطرت کھا جاتا ھے:
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (الروم:30)
پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اللہ کی فطرت کی طرف اپنی ساری توجہ مرکوز رکھیں۔ اعنی فطرۃ اللہ ۔ جس دین کی طرف اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنے کا حکم ہے وہ اللہ کی فطرت سے عبارت ہے۔ وہ دین فطری تقاضوں سے عبارت ہے۔ دین ایک جبری اور مسلط کردہ چیز نہیں ہے۔ وہی فطرت اور جبلت میں موجود تقاضے ہیں۔
فطرت وہ اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور دین بھی اسی اساس اور بنیاد پر قائم ہے چونکہ دین زندگی کے لیے ایک دستور حیات کا نام ہے۔ جس نے حیات بخشی ہے اسی نے اس حیات کے لیے دستور عنایت فرمایا۔ لہٰذا اس دستور اور حیات میں تصادم نہیں ہو سکتا بلکہ یہ دستور اس حیات کے تمام تقاضوں کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات تخلیق فرمائی تو اس وقت کائنات کی ہر چیز میں وہ باتیں ودیعت فرمائیں جو ان چیزوں کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی (۲۰ طہ: ۵۰)
موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔
واضح رہے فطرت کے تقاضے خلقت کے ماوراء میں ودیعت ہیں خود خلقت نہیں ہیں جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے کہ خلقت کے بعد ہدایت اس میں ودیعت ہوئی ہے۔ پس جس طرح تمام موجودات کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہدایات اور سوجھ بوجھ ان میں ودیعت ہوئی ہیں بالکل اسی طرح شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔
فطرت میں اس بات کی سوجھ بوجھ ودیعت فرمائی کہ معاشروں میں عدل و انصاف ہونا چاہیے۔ شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ عدل و انصاف کس طرح قائم ہو سکتا ہے:
وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪﴿﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ( ۹۱ شمس: ۷ ۔ ۸)
اور (قسم ہے) نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا، پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔
پس فطرت میں بدکاری اور اس سے بچنے کی سوجھ بوجھ موجود ہے۔ شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی ہے، بدکاری کون سی چیزیں ہیں اور اس سے بچنے کے طریقے کون سے ہیں۔
اللہ نے توحید اور معرفت رب فطرت میں ودیعت فرمائی۔ شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ معرفت رب کے تقاضے کیا ہیں۔
لہٰذا فطرت اور شریعت میں اگر کوئی فرق ہے تو اجمال و تفصیل کا فرق ہے۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام فطرت کے اجمال کی تفصیل بیان کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ اسی لیے فطرت، انبیاء علیہم السلام کی آواز کوپہچانتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو پذیرائی ملتی ہے۔ ورنہ غیر فطری مسلط شدہ چیز کو پذیرائی نہ ملتی
مذکورہ آیت مکمل وضاحت وصراحت کے ساتھ دین کو فطری امر کے طور پر پیش کرتی ھے۔ اس آیت میں دین سے کیا مراد ھے، اس سلسلے میں مفسرین دو رائے پیش کرتے ھیں:
٭ دین سے مراد معارف و احکام مخصوصاً اسلام کے حقیقی اور بنیادی معارف واحکام کامجموعہ ھے۔ اس رائے کے مطابق، دین کے اندر موجود تمام کلیات کہ جن میں سے اھم ترین شناخت اور عبادت خدا ھے، فطرت انسان میں راسخ کردئے گئے ھیں ۔ مرحوم علامہ طباطبائی نے اپنی تفسیر،” تفسیر المیزان“ میں اسی نظریے کو منتخب کیاھے۔
٭ دین سے مراد وہ دین ھے جو فطرت کے مطابق ھواور اس کے معنی خدا کے سامنے تسلیم محض اور سربسجود ھوجانا ھے کیونکہ دین کا لب لباب خضوع و خشوع ، فرمانبرداری و اطاعت کے ماسوا کچھ نھیں ھے:
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔(آل عمران:19)
خدائے واحد نے انسان کو ایک ہی نظام حیات اور طریقہ زندگی عنایت فرمایا ہے اور انسانوں تک اس نظام حیات کو پہنچانے کے لیے انبیاء بھیجے ہیں۔ ہر نبی نے اپنے عصری تقاضوں کے مطابق انسانوں کو اللہ کا عطا کردہ ضابطہ حیات پہنچایا۔ ان سب کا پیغام مشترک ہے اور وہ ہے اسلام، جو توحید اور نفی شرک کا مذہب ہے۔ اس رائے کے مطابق، دین کے فطری ھونے کا مطلب یہ ھے کہ انسان کی خلقت میں ایسے تمایلات واوصاف شامل کردئے گئے ھیں جو اسے خدا کی عبادت کی طرف اکساتے رہے ہیں۔ واضح ہے کہ اگر خداپرستی فطری ہو تو خدا شناسی بھی فطری ھوجائے گی کیونکہ فطرتہ یہ ممکن نھیں ہے کہ انسان اس کی پرستش کرے جس کو وہ جانتا بھی نہ ہو ۔

 

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button