سلائیڈرمحافلمناقب امام حسن مجتبی عمناقب و فضائل

امام حسن علیہ السلام فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی خلافت اہل سنت کی نظر میں

آیہ مباہلہ میں فرزند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
خداوند عالم نے فرمایا :
"فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَکُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمْ ”
(آل عمران : 61)
کہدیجئے : ہم اپنے بچوں کو بلاتے ہیں، تم اپنے بچوں کو بلائو ، ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں، تم اپنی عورتوں کو بلاو ؟ !
یہ آیت بہت ہی صراحت کے ساتھ کہتی ہے: امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزند ہیں۔
رازی نے اپنی تفسیرمیں لکھا ہے:
آیہ مباہلہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزند ہیں کیونکہ آنحضرتؐ  نے وعدہ کیا تھا اپنے بچوں کو مباہلہ کے لئے بلاؤ اور آپ حسن اور حسین کو لے گئے تھے، پس یہ دونوں ان کے فرزند ہیں۔ جو باتیں یہ بات ثابت کرتی ہیں (کہ بیٹی کی اولاد، انسان کی اولاد شمار ہوتی ہے )۔
(التفسیر الکبیر 2:488 [8/81 مراجعه کریں: الجامع لأحکام القرآن ، قرطبى 4: 104، 7 : 31 4/67 ، 7/22 ـ 23)
ان میں سے ایک سورہ انعام کی آیت ہے جس میں خداوند عالم فرماتا ہے:
” وَمِن ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمانَ "۔ یہاں تک کہ خداوند عالم فرماتا ہے : ” وَیَحْیَى وَعِیسَى”
(أنعام : 84 ، 85)
کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ حضرت عیسی کی حضرت ابراہیم سے نسبت ماں کی طرف سے ہے، پس ثابت ہوگیا کہ بیٹی کی اولاد اس کی اولاد کہلائی جاتی ہے، واللہ اعلم۔
اور قرآن کریم کی ا س لغت کے اوپر اور نواسے یا نواسی کا حقیقت میں بیٹی کے باٍ پ کی اولاد ہونے پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ قول ہے:
١۔ "اخبرنی جبرئیل : ان ابنی ھذا (یعنی حسین ) یقتل”
جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ میرا بیٹا یعنی حسین قتل کردیا جائے گا اور ایک دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے: ” ان امتی ستقتل ابنی ھذا”
(ترجمة الإمام الحسین(علیه السلام) از طبقات ابن سعد ، غیرمطبوعه44 ، ح 268، المستدرک على الصحیحین 3 : 177 3/194 ، ح 4818، أعلام النبوّة، ماوردى : 83 [ص 137] ; الصواعق المحرقة : 115 ص 192)
میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کردے گی۔
٢۔ امام حسن (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ابنی ھذا سید
(المستدرک على الصحیحین 3 : 175 [3/191 ، ح 4809، أعلام النبوّة ، ماوردى : 83 [ص 137، تفسیر ابن کثیر 2: 155)
میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے ۔
٣۔ امام علی (علیہ السلام) سے فرمایا : "انت اخی و ابو وُلدی”
(ذخائر العقبى : 66)
آپ میرے بھائی اور میرے بیٹوں کے باپ ہو ۔
٤۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ قول : المھدی من ولدی و جھہ کالکوکب الدری
(ذخائر العقبى: 136)
مہدی میرا فرزند ہے اور ان کا چہرہ چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح ہے۔
٥۔ آنحضرتؐ کا یہ قول : ھذان ابنای من احبھما فقد احبنی
(المستدرک على الصحیحین 3:166 [3/181 ، ح 4776، تاریخ مدینہ دمشق 4:204،13/199 ، شماره 1383، و در مختصر تاریخ دمشق 7/12، کنز العمّال 6 : 221 [12/120، ح 34286)
یہ دونوں (یعنی حسن اور حسین) میرے دو بیٹے ہیں، جو بھی ان سے محبت کرے گا وہ مجھے محبت کرے گا۔
٦۔ حضرت علی (علیہ السلام)سے فرمایا :
أیّ شیء سمّیتَ إبنی؟ قال : ما کنتُ لأسبقک بذلک . فقال : وما أنا السابق ربّی فهبط جبریل ، فقال : یا محمّد! إنّ ربّک یقرئک السلام ویقول لک : علیّ منک بمنزلة هارون من موسى لکن لا نبیّ بعدک ، فسمّ ابنک هذا باسم ولد هارون
میرے بچو ں کے کیا نام رکھے؟ کہا : میں اس کام میں آپ پر سبقت نہیں لے سکتا۔ پھر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : میں بھی اپنے پروردگار پر سبقت نہیں لوں گا، پس جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: اے محمد ! تمہارا پروردگار سلام کہتا ہے اورکہتا ہے: علی کی نسبت تمہارے نزدیکی ایسی ہی ہے جیسی ہارو ن کو موسی سے تھی،لیکن تمہارے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا، پس اپنے اس بیٹے کا نام ہارون کے بیٹے کا نام رکھو ۔
یہ تمام روایتیں اس بات پر گواہ ہیں کہ حسنین (علیہما السلام)، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزند ہیں، قرآن کریم اور روایات کی ان دلیلوں کے بعد بعض لوگوں کو کس نے یہ جرائت دی ہے جو آل اللہ کو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اولاد ہونے سے خارج کرتے ہیں۔
(گزیده اى جامع از الغدیر، ص 624)
https://www.makarem.ir/
خلافت امام حسن علیہ السلام اہل سنت علما کی نظر میں:
علمائے اہل سنت نے اپنی کتابوں میں مختلف عبارات کے ساتھ امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے:
١۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے : جس وقت حضرت علی (علیہ السلام) کی رحلت ہوئی تو عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب لوگوں کے پاس آئے اوران سے مخاطب ہو کر فرمایا: یقینا امیرالمومنین علی (علیہ السلام) دنیا سے چلے گئے اور اپنا جانشین چھوڑ کر گئے ہیں، اگر تم ان کی دعوت کو قبول کرو گے تو وہ تمہارے پاس آئیں گے اور اگر تم پسند نہیں کرتے تو کوئی بھی تمہیں کسی دوسرے پر مجبور نہیں کرے گا ، لوگوں نے رونا شروع کردیا اور کہا: وہ ہمارے پاس آئیں، حسن (علیہ السلام) داخل ہوئے اور ان کے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا:
ایّها الناس! اتّقوا اللّٰه فانّا امراءکم و انّا اهل البیت الذین قال اللّٰه فینا: (إِنَّما یُرِیدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً) فبایعه الناس
(شرح ابن ابى الحدید، ج 4، ص 8 ، الاغانى، ج 6، ص 121)
اے لوگو ! خدا سے ڈرو ، یقینا ہم تمہارے امیر ہیں اور ہم ایسے اہل بیت ہیں جن کے لئے خداوندعالم نے فرمایا ہے: اے اہل بیت،خداوند عالم چاہتا ہے کہ صرف تم سے رجس و پلیدی کو اس طرح دور کردے جو پاک کرنے کا حق ہے۔ پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔
٢۔ ابن عباس نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:ھذا ابن بنت نبیکم و وصی امامکم فبایعوہ
(شرح ابن ابى الحدید، ج 16، ص 30،الفصول المهمة، ص 46)
یہ تمہارے نبی کی بیٹی کے فرزند ہیں اور تمہارے وصی او ر امام ہیں لہذا تم ان کی بیعت کرو ۔
٣۔ ابن ابی الحدید نے خلافت کے متعلق کہا ہے: وعھد بھا الی الحسن (علیہ السلام) عند موتہ
(شرح ابن ابى الحدید، ج 1، ص 57)
امام علی (علیہ السلام) نے اپنی شہادت کے وقت امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت کے لئے عہد لیا۔
٤۔ ھیتم بن عدی کہتے ہیں:"حدثنی غیر واحد مممن ادرکت من المشایخ : ان علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اصار الامر الی الحسن”
(عقد الفرید، ج 4، ص 474 و 475)
میں نے بعض مشایخ کو درک کیا ہے انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی ہے کہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نے امر خلافت کو حسن (علیہ السلام) کے حوالہ کردیا تھا۔
٥۔ جندب بن عبداللہ کہتے ہیں: علی (علیہ السلام) میرے پاس آئے، میں نے عرض کیا:یا امیرالمومنین ! ان فقدناک (فلا نفقدک ) فنبایع الحسن؟ قال: نعم
(مناقب خوارزمى، ص 278)
اے امیرالمومنین ! اگر ہم آپ کو درک نہ کرتے (اور خدا ایسا دن نہ دکھلائے ) تو کیا حسن علیہ السلام کی بیعت کرتے؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ۔
٦۔ ابوالفرج اور دوسروں نے نقل کیا ہے: جس وقت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی شہادت اور لوگوں کا امام حسن (علیہ السلام) کی بیعت کرنے کی خبر ابوالاسود کو ملی تو انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ میں کہا ” وقد اوصی بالامامة بعدہ الی ابن رسول اللہ”
(الأغانى، ج 6، ص 121)
یقینا انہوں نے اپنے بعد رسول خداؐ کے فرزند امام حسن (علیہ السلام) کی وصیت کی تھی۔
٧۔ مسعودی نے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا:و انی اوصی الی الحسن و الحسین فاسمعوا لھما و اطیعوا امرھما
(اثبات الوصیة، ص 152)
یقینا میں حسن و حسین کو وصیت کرتا ہوں لہذا ان دونوں کی باتوں کو غور سے سنو اور ان کی اطاعت کرو ۔
(اقتباس: اهل بیت از دیدگاه اهل سنت، على اصغر رضوانى، ص 29)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button