خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:162)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک5 اگست 2022ء بمطابق 6،7 محرم الحرام1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

واقعہ کربلا ایسے دورمیں پیش آیا جب اسلامی معاشرہ ایسے حالات سے دوچار تھا کہ جس میں بڑے بڑے مصلح کہلائے جانے والے بھی اس کی اصلاح کرنے میں اپنے کو ناکام دیکھ رہے تھے۔

ایسے میں عاشورا نے ذلت کی زندگی بسر کرنے والوں کو ایک انقلابی و نورانی راہ کی ہدایت کی اور انہیں حیات ِ جاویدانی کا پیام دیتے ہوئے کہا کہ:

موت فی عزّ خیر من حیات فی ذلّ

ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔

(بحار الأنوار ج‏44، ص: 192)

٭ کربلا نے بشریت کی رگوں میں ایسا خون بھردیا جس کی حرکت کبھی نہ رک سکے۔

٭ دلوں کو ایسا جوش و ولولہ عطا کیا کہ پھر کبھی سرد مہری کا شکار نہ ہوسکیں۔

٭ ذہنوں کو ایسا شعور دیا کہ ہمیشہ راہِ شہادت پیش نظر رہے۔

لہٰذا ہمیں روز عاشورا کی خونی شہادتوں سے کبھی غافل نہ ہونا چاہیئے اور ان کے اسباب کو جاننا چاہیئے۔

اگر ہم کربلا کو سمجھ لیں اور اپنی زندگی میں اسے بروئے کار لائیں تو لشکرِ امام حسین علیہ السلام میں داخل ہوسکتے ہیں اور ہر زمانے کے ظالم و ستمگر کے مدِّ مقابل آسکتے ہیں۔

٭دین سے مقابلے کے انداز:

شروع میں دشمنانِ اسلام اپنی بھرپور قدرت و توانائی اور مکمل تیاری کے ساتھ اسلام و مسلمین کی سرکوبی کیلئے گھڑے ہوئے لیکن کسی طرح کامیاب نہ ہوسکے اور پروردگارِ عالم نے تمام جنگوں میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کو فتح و کامیابی عطا فرمائی۔

جب دشمنانِ اسلام مصلحانہ جنگوں میں ناکام ہوگئے تو پھر انہوں نے سیاست کا رُخ کیا اور مسلمانوں کے افکار کو برباد کرنے کیلئے فریب کاری کا سہارا دیا۔

o ظاہراً اسلام قبول کرلیا تاکہ مناسب موقع دیکھ کر داخلی حملہ کرسکیں۔

o غیر فوجی کاروائیاں شروع کردیں۔

o سیاست ”مذہب علیہ مذہب” کا سہارا لیا۔

o دین کی نابودی کیلئے طرفداریِ دین کا شعار اپنالیا۔

o مسجد ِ نبوی کے مقابلے میں مسجد ِ ضرار بناڈالی۔

o عترتِ اہل بیت ؑکے مقابلے میں ”صرف کتاب کافی ہے” کا نعرہ بلند کردیا۔

o اصلاحِ دین کے بہانہ سے بہت سے حلال کو حرام اورحرام کو حلال کردیا۔

o سینکڑوں خرافات کو اسلام کے نام سے رواج دیدیا۔

o بنوامیہ احکام اسلام میں تبدیلیاں لائے۔

مختصر یہ کہ دینِ اسلام بنو امیہ کی ہوا پرستیوں کا شدت سے شکار ہوچکا تھا جس طرح چاہتے (اس کی تبلیغ ِ سوء کرتے) دین لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔

ایک طرف تو یہ حالت تھی اور دوسرے طرف اسلام کے شیدائی، فقر وتنگدستی، تشدّد اور شہادتوں کا شکار تھے۔ ایسے پُر آشوب اور سخت حالات میں کون تھا جو اسلام کی آواز بلند کرتا۔ یہ ہی وہ مقام ہے کہ جہاں ہم عاشورائے حسینیؑ کے نقشِ اساسی کو درک کرسکتے ہیں کہ عاشورا سے اسلام کو کس درجہ کمال اور دوام حاصل ہوا ہے، اور واقعہ عاشورا ہمیں کیا پیغام دے رہا ہے۔

(١ )عاشورا اورپاسداری دین:

امام حسین علیہ السلام ایسے حالات سے دوچار تھے کہ جس میں بنوامیہ کے سپوت حلال کو حرام اور حرام کو حلال کررہے تھے او دین کی اساس مکمل طور پر خطرہ میں تھی۔ ایسے میں اگردین کو تحفظ مل جائے تو لوگ بھی محفوظ ہوجائیں،اور اگر دین مٹ گیا تو یہ لوگ خود بخود مٹ جائیں گے اور دین کے مٹ جانے سے تمام انبیاء و مرسلین کی زحمتیں اورمحنتیں بے ثمر ہوکر رہ جائیں گی۔ اس لئے امام حسین علیہ السلام دیکھتے ہیں کہ صرف ایک راہ باقی ہے کہ اسلام پر فدا ہوجائیں۔

اس لیے کہ پھر دشمن کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ رنگِ خون سب رنگوں پر برتری رکھتا ہے، شہادت کا راستہ تمام راستوں سے زیادہ روشن ہے، شہید سب سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتا ہے اور سب نے دیکھ لیا کہ قیام حسینیؑ اور ان کے خون سے بنو امیہ رسوا اورنابود ہوگئے، دین اسلام کو کمال و دوام حاصل ہوا، ساکت و پست حوصلہ افراد کو دین کی حفاظت اور شہادت کا حوصلہ ملا۔ پھر اس کے بعد کتنی ہی آذادی کی تحریکیں چلیں اورظلام حکومتوں کو نابود کرتی گئیں، پس دین کی پاسداری عاشورا کا ایک اہم پیام ہے۔

(۲ )احیاء سنت پیغمبرﷺ

بنو امیہ نے جس طرح چاہا سنت ِنبی ﷺ کو تبدیل کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ حلالِ محمدی ﷺ کو حرام اور حرام محمدیﷺ کو حلال کرنے لگے۔

لیکن امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا اپنی گفتگو اور تقاریر وغیرہ میں حتی الامکان کوشش کی کہ ”سنت پیغمبر” کے بارے میں پیغام پہنچاتے رہیں۔ امام علیہ السلام نے رسول خداﷺ کا عمامہ سر پر رکھا، دوش پر رسول اللہ کی عباء رکھی اور پیغمبرﷺکے اندار میں لشکر یزید سے خطاب کیا اور انہیں سرور کائنات کی باتیں یاد لانے کیلئے فرماتے رہے: ”سَمِعْتُم عن جَدِّی” تم نے میرے نانا سے سنا،”سَمِعْتُ عَنْ جَدِّی” میں نے اپنے نانا سے سُنا، وغیرہ۔

جب حُرّ کے لشکر کے سامنے خطاب کیا تو فرمایا:

ألا إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ وَ تَركوا طَاعَةِ الرَّحْمَنِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسَادَ وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَ اسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْ‏ءِ وَ أَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ وَ حَرَّمُوا حَلَالَهُ و أنا أحَقُّ مَنْ غَيَّر

آگاہ ہو جاؤ کہ اس قوم نے شیطان کی پیروی شروع کر دی ہے اور خداوند کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے، واضح طور پر فتنہ اور فساد کرتے ہیں، احکام اور حدود الہی پر عمل نہیں کرتے،فئی کہ تمام امت کا حق ہے اس کو انھوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے، خداوند کے حرام کو حلال اور خداوند کے حلال کو حرام کر دیا ہے، میں اس تمام صورت حال کو بدلنے کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ حق رکھتاہوں۔

(الكامل في التاريخ، ج 4، ص 48)

امام علیہ السلام اچھی طرح اس نکتہ سے باخبر تھے کہ اگر سنت نبی ﷺ زندہ رہے گی تو لوگ ہدایت حاصل کرکے حقیقی اسلام کو پہچان سکیں گے اور بنو امیہ کی جاری کردہ بدعتوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔

اِسی لیئے امام علیہ السلام نے ایک ہدف، احیاء سنت ِ پیغمبرﷺ بھی بیان کیا ہے ”وأَسِیر بِسِیرَة جَدِّی’‘ میں اپنے جد ، رسول خدا کی سیرت جاری رکھوں گا۔

(۳ )امر بہ معروف و نہی عن المنکر:

امام حسین علیہ السلام کے خطوط اور کربلا کی جانب سفر کے دوران تمام تقاریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے خود بیان کیا کہ: میں امر بہ معروف و نہی از منکر کی خاطر قیام کررہا ہوں۔ جیسے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے فرمایا:

أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام.

میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔(بحارالانوار، ج:44 ص:329)

امام علیہ السلام کے اس اقدام سے تمام عاشقان ِ حسین علیہ السلام کو یہ پیغام ملتا ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کو کبھی فراموش نہ کیا جائے۔

(۴ )اسلامی معاشرے کی اصلاح:

معاشرے کی اصلاح، عاشور کاایک خاص پیام ہے تاکہ پاکیزہ و اصلاح شدہ معاشرے میں انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوسکیں اور باطل کی جڑیں خشک ہوجائیں۔ معاشرے کی اصلاح کا مسئلہ اتنا اہم تھا کہ امام علیہ السلام نے اپنے قیام کا ایک سبب معاشرے کی اصلاح بیان کیا ہے۔ اس اہم کام کیلئے امام علیہ السلام نے اپنے اور اپنے ساتھیوں اور اولاد کے خون کا نذرانہ پیش کردیا۔تاکہ اسلامی معاشرہ برائیوں سے پاک رہے اور اخلاقی قدریں برقرار رہیں۔

(۵ )عاشورا اور حمایتِ قرآن:

سقیفہ سے عاشورا ءتک قرآن کی نابودی کی ہر ممکن کوشش کی گئی، زمانہ جاہلیت کی رسومات کو زندہ کیا گیا۔ قرآن کے احکام پر عمل کو ترک کردیا گیا۔ اور معاویہ کے بعد جب فاسق فاجر شراب خور یزید مسندِخلافت پر برانجمان ہوا تو امام حسینؑ نے واضح کر دیا کہ یزید صفت لوگ کبھی اسلام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے:

و علی الاسلام السلام اذا بلیت الامه براع مثل یزید

جب امت کسی یزید جیسے حاکم میں مبتلا ہو جائے تو اسلام پر فاتحہ پڑھ دینی چاہیے۔(مقتل خوارزمی ج۱ص۱۸۵)

یعنی اب اسلام پر سلام کہہ دیا جائے کہ اب اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہ سکتا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے یہ حالات دیکھے تو اسلام کی بقا وسلامتی کیلئے یزید کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جب تک زندہ رہے کبھی خطوط ونصیحت اور کبھی تقاریر کے ذریعے اور بالآخر قرآن کی حمایت اوراس کی بقاء کیلئے تلوار لیکر میدانِ جہاد میں آگئے اور جب شہید ہوگئے تو سرِ امام حسین علیہ السلام کبھی نوکِ نیزہ پر بازارِ کوفہ میں اور کبھی یزیدکے دربار میں قرآن کی تلاوت کرکے قرآن کی حمایت کرتا رہا اور اس کی بقاء و جاودانی کا اعلان کرتا رہا تاکہ دشمن دیکھ لیں کہ قرآن کبھی نہیں مٹ سکتا۔

حسین اور حسینیت ‘ محض ایک تاریخ کا نہیں بلکہ ایک سیرت اور طرزِ عمل کا نام ہے۔ ایک گائیڈ لائن کا نام بھی ہے کہ جس دین کے دامن میں ایک جانب ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی قربانی ہو اور دوسری جانب ذبح عظیم حضرت امام حسین ؑعالی مقام کی ان گنت قربانیاں ہوں تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس دین کی بقا کا ذمہ تو خود اللہ تعالی نے لے رکھا ہے اور یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر کا ہی معجزہ ہے ۔

دوسری طرف معرکہ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شعور ، حریت ، خودداری ، جرات ، شجاعت ، ایثار وقربانی اور صبر و انقلاب کا مکمل فلسفہ ہے ۔ اس کرب و بلا میں ننھے مجاہدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کسی جواں اور پیر سالہ کا ۔

ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ ہی کربلا شناس ہے جنہوں نے باوجود کم سنی کے بھی مقصد نبوی ﷺ اور اسلام کو زندہ رکھا ۔ ان کربلا کے شہیدوں نے اپنی جرات اور کردار و عمل سے اسلام کو ایک حیات جاودانی عطا کر دی ۔

آج امام عالی مقام کا نام کیوں زندہ ہے اور یزید کیوں ایک طعنہ بن کر رہ گیا کیونکہ امام حسین ؑنے ہمیشہ حق داروں کا مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے آئندہ آنے والی محکوم قوموں کو جدوجہد کے لئے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر دیا ، امام کا فرماں ہے ’’ کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی ۔ ‘‘

جب امام حسین ؑمیدان کربلا میں آئے تو کربلا کی اراضی قبیلہ بنی اسد سے ساٹھ ہزار درہم میں خرید لی حالانکہ وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ میں تمھارے نبی کا نواسہ ہوں اور میرا تم پر حق ہے لیکن امام حسین علیہ اسلام تو کریم ابن کریم کے تھے وہ کسی کی حق تلفی کیسے کر سکتے تھے ؟ ۔

امام عالی مقام نے جب’ہل من ناصر ینصرنا ‘ کا استغاثہ بلند کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ نعوذ باللہ وہ تنہا تھے‘ یا وہ غریب تھے ، ہر گز نہیں ، بہت سے مجتہدین نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ امام کے نعرہ ِ استغاثہ کا مقصد یہ تھا کہ حسینی مشن کو جاری رکھنے میں کون کون ان کا ساتھ دےگا ، نہ صرف میدان کربلا میں بلکہ قیامت تک کے لئے ان کا مغیث کون ہوگا ؟ ۔

آج جو کروڑوں انسان ’لبیک یا حسینؑ‘ کہتے ہیں اس کا مقصد بھی امام کے ساتھ وعدہ کرنا ہے کہ امام ہم اپنی جانیں آپ پر فداکریں ہم آپ کے ساتھی اور ناصر ہیں آپ کے مشن کو بڑھائیں گے جو کہ عین اسلام اور شریعت ہے ،امام حسینؑ جانتے تھے کہ ان کے بعد آنے والے ادوار میں بھی اسلام کو خطرہ ہوگا جسے بچانے کے لئے انھوں نے ایک بنیاد فراہم کر دی ۔

یہاں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ امام کی قربانیاں کسی ایک امت ، خاص فرقے یا کسی ایک مخصوص فرد کے لئے نہیں تھیں بلکہ امام کے نزدیک انسانیت کی بھلائی مقصود تھی ، وہ سب کے آقا تھے اور ہیں خواہ وہ کوئی مسلمان ہے یا غیر مسلم ، بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ امام ؑ تو ہر اس شخص کے لئے مثال ہیں جس کا ضمیر زندہ ہے ، اس کے لئے سنی ‘شیعہ یا کچھ اور ہونا ضروری نہیں ۔

یہ سب اس لیے کہ کربلا کا مقصد آفاقیت پر مبنی تھا ، کربلا کا درس یہ تھا کہ اپنےمذہب کے تحفظ کے ساتھ ساتھ محکوم لوگوں کو بھی زبان دی جائے ، کربلا کا پیغام یہ تھا کہ انسانوں میں دوسرے انسانوں سے متعلق برداشت کا جذبہ پیدا کیا جائے ، دوسرے افراد کے عقائد کا احترام بھی لازم قرار دیا جائے ۔آج دنیا میں جتنی بھی افراتفری ہے وہ سب حسینیت اور کربلا سے دوری کا باعث ہے۔

کربلا کے تپتے صحرا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے نانا کا دین بچانے کیلئے اپنے خانوادے اور ساتھیوں کے ہمراہ جان دے کر رہتی دنیا تک یہ پیغام چھوڑا کہ باطل کے سامنے سرجھکانے سے کٹانا بہترہے۔واقعہ کربلا مرتی ہوئی انسانیت کو عزت کے ساتھ جینے اور وقار کے ساتھ مرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔

واقعہ کربلا کا مقصد حصول اقتدار نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد وحید اصلاح معاشرہ تھا جو بغیر عمل کے ممکن نہیں۔ واقعہ کربلا میں کئی ایک پیغامات پنہاں ہیں جس کو سمجھنا اور عملی طور پر اپنانا وقت کا تقاضہ بھی ہے اور اہم ضرورت بھی چونکہ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ اسی قوم کی عظمتوں کو دنیا نے مانا ہے جس کے گفتار و کردار میں ہم آہنگی ہو اور اس قوم کی تاریخ کو حرف غلط کی طرح مٹاکر رکھ دیا گیا جو بلا عمل باتیں کرنے میں ماہر تھی۔

یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ واقعہ کربلا سے جو پیغامات ہمیں ملتے ہیں اس پر صدق دل، حسن نیت اور عزم راسخ کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ واقعہ کربلا کا پہلا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر اس بندے کو آزماتا ہے جو صاحب ایمان ہونے کا دعوی کرتا ہے جو خالق کونین کی دائمی و جاودانی سنت ہے تاکہ بندے کی نیت اور اس کی نفسانی کیفیت، سرشت اور طینت لو گوں پر ظاہر ہوجائے۔

واقعہ کربلا کا ایک پیغام یہ ہے کہ مومن اپنے اندر استقامت پیدا کرے چونکہ صاحب ایمان کو باطل طاقتوں کی جانب سے ہر وقت دولت و ثروت اور مادی وسائل کے عوض ایمان فروخت کرنے کی پیشکش کا شدید امتحان درپیش رہتا ہے اگر بالفرض محال ہم نے دنیوی لذات و شہوات کے حصول کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرلیا تو دنیا و آخرت دونوں ہی تباہ و تاراج ہوجائیں گے۔ حضرت اما م حسین علیہ السلام نے اپنے خانوادے اور ساتھیوں کو قربان ہوتے ہوئے دیکھنا برداشت کیا لیکن لمحہ بالبصر کے لیے بھی اسلامی تعلیمات کو فراموش کرنا گوارا نہ کیا۔ صدحیف کہ وہ قوم جو حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت کرنے کا دعویٰ تو ضرور کرتی ہے لیکن یزیدی کردار پر عمل پیرا ہے۔ آج ہم اپنی خوشیوں کے لیے رشوت دے بھی رہے ہیں اور لے بھی رہے ہیں، ہم نفسانی خواہشات اور دنیوی مفادات کی خاطر ایمان کو بھی ضائع کرر ہے ہیں۔ کیا یہی واقعہ کربلا کا پیغام تھا ؟ یزیدی لشکر کا کوئی دائو قافلہ حسینی ؑکے کسی فرد کے پائے استقلال میں رمق برابرجبنش بھی پیدا نہ کرپایالہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی آج کے اس پرفتن دور میں بھرپور استقامت کا مظاہرہ کریں چونکہ اسی میں دنیو ی و اخروی نجات مضمر ہے۔

اس کے علاوہ واقعہ کربلا اپنے اندر کئی پیغامات لیے ہوئے ہے جن میں سے چند کی طرف مختصرا شارہ کیا جاتا ہے:

٭وطن کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو اسلام پر وقت پڑجائے تو اِسے ترک کردینا چاہئیے۔

٭مقصد کی راہ میں ہر طرح کی قربانی ضروری ہے۔

٭حقیقی مساوات یہ ہے کہ غلام کا سر بھی اپنے زانو پر رکھا جائے۔

٭شجاعت جذبات نفس پر قابو پانے اور جذبات کو پابند مشیت بنادینے کا نام ہے۔

٭تقاضائے زمانہ ہے کہ امان نامہ ملے مگر اسے ٹھکرا دیا جائے۔

٭قربانی کا مفہوم یہ ہے کہ جذبات کی قربانی دی جائے نہ جذباتی قربانی۔

٭تبلیغ کا صحیح راستہ یہ ہے کہ راستہ روکنے والے کو بھی پانی پلادیا جائے۔

٭اسلامی جہاد کا انداز یہ ہے کہ شدّت مظالم میں بھی جنگ کی ابتداء نہ کی جائے۔

٭دشمن لاکھ سرکشی پر آمادہ ہو لیکن دعوت الٰی اللّٰہ دیتے رہو۔

٭میدان جہاد میں قدم جمادو تو لاکھوں کے مقابلے میں بھی قدم پیچھے نہ ہٹیں۔

٭بندگی کی شان یہ ہے کہ زیر خنجر بھی سجدہ معبود ادا کیا جائے۔

٭کربلا دو شہزادوں کی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کی جنگ ہے۔

٭اسلام پر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے مگر اسلام کو کسی چیز پر بھی قربان نہیں کیا جاسکتا۔

٭قرآن و اہل بیت میں کبھی جدائی نہیں ہوسکتی۔

٭پرچم حق ہمیشہ اونچا رہے گا۔

٭راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے لیے موت شہد سے زیادہ شیریں ہوتی ہے۔

٭یہ دو خاندانوں کی جنگ نہیں۔

٭حسین کو قتل کرنے والے جہنمی ہیں۔

٭کربلا میں حسین، دین اسلام بچا کر کامیاب ہو اور یزید دین مٹانے میں ناکام۔

تمت بالخیر

٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button