خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:172)

نظافت و طہارت در اسلام

(بتاریخ: جمعۃ المبارک21اکتوبر 2022ء بمطابق 24 ربیع الاول1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اسلام ایک ایسا پاکیزہ اور حقیقت بر مبنی مذہب ہے جو دنیا کے دیگر جمیع مذاہب میں پاکی اور صفائی کے اعتبار سے اپنا ایک خاص مزاج اور مقام رکھتا ہے۔اسلام کے علاوہ دنیا کے دیگر مذاہب میں انسان کیلئے وہ ہدایات اور تعلیمات نہیں ہیں جو اسے دنیا و آخرت میں کامیابی دلا سکے اور اس کو روز مرہ کے تمام امور و معاملات میں ہدایت و رہنمائی مل سکے اور ایک مکمل ضابطہ حیات پورے نظم و نسق کے ساتھ میسر آسکے . منجملہ انہی میں سے ایک پاکی اور صفائی ستھرائی بھی ہے . اسلام انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو سنوارتا ہے اور اسے اعلیٰ صفات سے آراستہ کرتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ” وَثِیَابَكَ فَطَھِّرْ” یعنی اور اپنے لباس کو پاک رکھیے
کیا یہ حکم، نماز کے لیے لباس کا پاک ہونا شرط ہے کی طرف اشارہ ہے یا لباس سے مراد نفس کی طہارت ہے؟ چنانچہ کہا جاتا ہے: فلاں کا دامن صاف ہے۔ نفس کی طہارت ضروری ہے جب تبلیغ ارشاد کے لیے ایک ناپاک ماحول میں ناپاک لوگوں سے واسطہ پڑتا ہو۔ لباس کی طہارت شرط ہے کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے اور ساتھ یہ بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لباس کو ظاہری طور پر بھی صاف ستھرا رکھو۔ میل کچیل سے دوری اختیار کرو۔ کیونکہ انسان طبیعتاً صاف ستھرا لباس پسند کرتا ہے اور لباس میں شائستگی سے شخصیت کے وقار پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
حدث انسان کو ناپاکی کی طرف لے جاتا ہے جبکہ طہارت انسان کو پاکیزگی کی طرف لے جاتی ہے۔ حدث سے انسان (معنوی طور پر)ناپاک ہوتا ہے اور طہارت سے انسان پاک ہوتا ہے۔ حدث رابطہ توڑنے کا باعث بنتا ہے اور طہارت رابطہ جوڑنے کا سبب بنتی ہے۔ رب کی معرفت اور قربت اور اس کی عبادت میں حلاوت، طہارت سے میسر آتی ہے۔ اس لئے اس بات کا اہتمام کیا کہ انسان نے جب بھی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں جائے تو یہ اعزاز بغیر طہارت کے اسے نہیں مل سکتا۔ طہارت اسلام کی تعلیمات کی حقیقت مسلمہ ہے، اسلام طہارت کو محدود نہیں کرتا بلکہ وسیع تر طہارت کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہم طہارت کو علم فقہ کے ساتھ ہی مختص کردیں گے تو پھر فعل مکلف تک یہ محدود رہ جائے گی اور بندے کے عمل میں سے بھی وہ فعل جو عبادت کے لئے ہے اس تک ہی مقید رہ جائے گی۔ جبکہ ہر وہ عمل جس کا مقصد رب کی فرمانبرداری اور اس کے حکم کی بجا آوری اور اس کی رضا جوئی ہے وہ بھی بدرجہ اتم اس میں شامل ہونا چاہئے۔آج ہم صفائی و پاکیزگی کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
آج کل بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جو گھر سے نکلتے وقت ایک نظر آئینہ پر نہ کرتے ھوں لباس کا مرتب ھونا ظاہری وضع و قطع کا عام مجمع میں حاضر ھونے وقت ٹھیک ٹھاک کرنا ایک عادی کام اور ھمہ گیر عمل بن گیا ھے اور اس مسئلہ میں بچے بوڑھے ۔مرد عورت، مالدار اور تہی دست کے درمیان کوئی فرق نھیں پایا جاتا سب کے سب دوسروں کے دیدار و ملاقات کے وقت اپنی آرائش کا خیال رکھتے ھیں۔ اور یہ طے ھے کہ یہ عادت بڑی اچھی اور پسندیدہ ھے اور ھمارے معصوم پیشواؤں نے بھی اس کی بڑی تاکید کی ہے اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایاہے:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُحِبُ‏ الْجَمَالَ‏ وَ التَّجَمُّلَ وَ يُبْغِضُ الْبُؤْسَ وَ التَّبَاؤُسَ.( الکافي ج‏6، ص: 440)
"اللہ تعالیٰ زبیائی اور آراستہ کرنے کو پسند کرتا ھے اور اپنے آپ کو غبار آلود اور مرجھایا ہوا دکھلانے کو ناپسند کرتا ھے”۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ:
إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُ‏ الْجَمَالَ‏ وَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ النِّعْمَةِ عَلَى عَبْدِهِ.( الکافي (ط – الإسلامية)، ج‏6، ص: 438)
"اللہ تعالیٰ جمیل و خوبصورت ہے اور خوبصورتی و جمال کو پسند کرتا ہے اور وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس نے اپنے بندے کو جو نعمت دی ہے اس کا اثر اس بندے پر نظر آئے۔”
یعنی اللہ نے جب انسان کو مناسب مال و اسباب دیئے ہیں تو اس کا اثر خود اس کے جسم پر نظر آناچاہیے کہ اس کا لباس اور آرائش و زیبائش مناسب ہو اور وہ ایسا نظر نہ آئے کہ لوگ سمجھیں اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ البتہ اس سے یہ بھی مراد نہیں کہ وہ بندہ فضول خرچی کرے اور حد سے زیادہ خود پر خرچ کرے یا اپنی حیثیت سے زیادہ خودپہ خرچ کرے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کا رہن سہن مناسب اور اچھا ہو۔
اسی طرح جناب رسول خداﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا خَرَجَ إِلَى إِخْوَانِهِ أَنْ يَتَهَيَّأَ لَهُمْ وَ يَتَجَمَّلَ‏.( مکارم الأخلاق، ص: 35)
"اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب اس کا بندہ اپنے دینی بھائیوں کے پاس جائے تو خود کو آمادہ کرے اور اپنی آرائش کرے”۔
شاید کچھ لوگوں کا یہ گمان ہے کہ جب اجنبی لوگوں کے سامنے جائیں تو اپنے آپ کو آراستہ کریں اپنے دوستوں اور آشنا لوگوں سے ملاقات کے وقت اپنا پن اور دوستانہ ہی خود کی آراستگی سے بے نیاز کر دیتا ہے اور اس وقت اپنی آرائش ضروری نہیں ہے؟ جب کہ امیر المومنین علیہ السلام سے روایت:
لِيَتَزَيَّن‏ أَحَدُكُمْ لِأَخِيهِ الْمُسْلِمِ كَمَا يَتَزَيَّنُ‏ لِلْغَرِيبِ‏ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَرَاهُ فِي أَحْسَنِ الْهَيْئَة۔(الکافي ج‏6، ص: 440)
"جس طرح تم پسند کرتے ہو کہ اجنبی لوگ تمہیں بہترین شکل وصورت میں دیکھیں اور ان کے لئے اپنے آپ کو آراستہ کرتے ہو اسی طرح جب تم اپنے مسلمان بھائی کے پاس جاؤ تو خود کو آراستہ کر کے جاؤ”
اس چیز کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند مزید امور کی طرف توجہ ضروری ہے:
عمومی پاکیزگی :
انسان کی ذاتی اور سماجی سلامتی میں بے حد موثر ھونے کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں کی دلچسپی اور دلی خوشی کا باعث ہے کلام معصومین علیھم السلام میں صفائی کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے:مشہور حدیث نبویﷺ ہے:
النَّظَافَةُ مِنَ‏ الْإِيمَان‏ (بحار الأنوار ج‏59، ص: 291)
"پاکیزگی وصفائی ایمان کا جزو ہے”۔
دوسری جگہ امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ملتی ہے:
مِنْ أَخْلَاقِ‏ الْأَنْبِيَاءِ التَّنْظِيف۔‏ (جامع أحاديث الشيعة (للبروجردي)، ج‏25، ص: 452)

"صفائی، انبیاء کے اخلاق میں سے ایک ہے”۔
ایک حدیث نبوی میں ایک گندے شخص کے بارے میں اس طرح آیا ہے:
ان الله تعالیٰ یبغض الوسخ والشعث (کنز العمال، ج۱۷، ص۱۸۱)
"اللہ تعالیٰ گندے اور گرد و غبار آلود شخص کو ناپسند کرتا ہے”۔
بعض روایات میں خاص مقامات پر صاف و پاکیزہ رہنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی حدیث کے ایک حصہ میں فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى إِذَا أَنْعَمَ عَلَى عَبْدٍ نِعْمَةً أَحَبَّ أَنْ يَرَى عَلَيْهِ أَثَرَهَا قِيلَ وَ كَيْفَ ذَلِكَ قَالَ يُنَظِّفُ‏ ثَوْبَهُ‏ وَ يُطَيِّبُ رِيحَهُ وَ يُجَصِّصُ دَارَهُ وَ يَكْنُسُ أَفْنِيَتَهُ حَتَّى إِنَّ السِّرَاجَ قَبْلَ مَغِيبِ الشَّمْسِ يَنْفِي الْفَقْرَ وَ يَزِيدُ فِي الرِّزْقِ.(الأمالي (للطوسي)، النص، ص: 275)
"جب خدا وند متعال کسی کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر اس کے اندر ملاحظہ کرے۔ پوچھا گیا وہ کس طرح؟ فرمایا: اپنا لباس صاف رکھے،خوشبواستعمال کرے، اپنے گھر کو پلاسٹر کرے اپنے گھر کے آنگن اور دالان میں جھاڑو لگائے یہاں تک کہ سورج غروب ہونےسے پہلے چراغ جلانے سے فقر و فاقہ دور ہوتا ہے اور رزق و روزی میں اضافہ ہوجاتا ہے”۔
سر کے بالوں کا خیال رکھنا:
سر کے بال، انسان کی ظاہری شکل کو بہتر بنانے والے اصلی عناصر میں شمار ہوتے ہیں۔ انسان کی خوبصورتی سر کے بال کے ساتھ جلوہ نمائی کرتی ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
الشَّعْرُ الْحَسَنُ مِنْ كِسْوَةِ اللَّهِ‏ تَعَالَى فَأَكْرِمُوهُ.( من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۲۹)
"خوبصورت بال اللہ کی عطاکردہ چادر ہیں لہذا اس کا احترام کرو”۔
بالوں کی حفاظت کے سلسلہ میں بھی روایات موجود ھیں منجملہ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا ھے:
مَنِ‏ اتَّخَذَ شَعْراً فَلْيُحْسِنْ وِلَايَتَهُ أَوْ لِيَجُزَّهُ.( الکافي (ط – الإسلامية)، ج‏6، ص: 485)
"جو اپنے بال بڑے رکھتا ہے اسے چاہیے کہ یا تو اس کی اچھی طرح حفاظت کرے یا پھر اسے چھوٹا کر دے” ۔
یعنی اگر بال بڑے رکھتا ہے تو پھر ایسا نہ کرے کہ وہ بکھرے ہوئے ہوں کیونکہ اس طرح چہرہ مزید خراب لگے گا لہذا اسے چاہیے کہ یا تو انہیں مناسب انداز میں سنوار کر رکھے یا پھر چھوٹے کر دے۔اگر بال بڑے ہوں اور ان کی صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو برا نظر آنے کے علاوہ بھی اس میں مختلف قسم کے نقصانات ہو سکتے ہیں جن کی طرف حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس روایت میں اشارہ موجود ہے:
اسْتَأْصِلْ‏ شَعْرَكَ‏ يَقِلُّ دَرَنُهُ وَ دَوَابُّهُ وَ وَسَخُهُ وَ تَغْلُظُ رَقَبَتُكَ وَ يَجْلُو بَصَرَكَ وَ فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى وَ يَسْتَرِيحُ بَدَنُكَ.(الکافي (ط – الإسلامية)، ج‏6، ص: 484)
"اپنے سر کے بال چھوٹے کرو کیونکہ بالوں کو چھوٹا رکھنے سے گندگی اور جوئیں کم ہو جاتی ہیں اور گردن قوی (موٹی) ہوتی ہے اور آنکھ کی روشنی بڑھ جاتی ہے۔اور ایک اور روایت میں یہ جملہ ہے کہ اس سے تیرے بدن کو راحت ملتی ہے۔”
بالوں میں کنگھی کرنے کے بارے میں اور اس پر مترتب ہونے والے فوائد کے سلسلہ میں بھی معصومین علیہم السلام سے متعدد روایات موجود ہیں،
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آیت شریفہ: خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِد
"ہر مسجد میں اپنی زینت اپنے ھمراہ لے جاؤ” میں لفظ زینت کی ایک تفسیر یوں بیان فرماتے ہیں:
الْمَشْطُ فَإِنَ‏ الْمَشْطَ يَجْلِبُ الرِّزْقَ وَ يُحَسِّنُ الشَّعْرَ وَ يُنْجِزُ الْحَاجَةَ وَ يَزِيدُ فِي الصُّلْبِ وَ يَقْطَعُ الْبَلْغَمَ.
( الخصال، ج‏1، ص: 268)
"آیت میں زینت سے مراد کنگھی ہے اس لئے کہ کنگھی روزی لاتی ہے بالوں کو خوبصورت بناتی ہے۔ حاجتوں کو برلاتی ہے اور بلغم کو ختم کردیتی ہے۔”
بالوں میں تیل رکھنے کے سلسلہ میں بھی حضرت امام جعفر صادق(ع)فرماتے ھیں:
إِذَا أَخَذْتَ‏ الدُّهْنَ‏ عَلى‏ رَاحَتِكَ، فَقُلِ:” اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الزَّيْنَ وَ الزِّينَةَ وَ الْمَحَبَّة۔۔۔
( کافي (ط – دار الحديث)، ج‏13، ص: 212)
"سر پرتیل لگانے کے لئے جب اپنی ہتھیلی پر تیل لو تو کہو: پروردگارا! میں تجھ سے خوبصورتی ، زینت اور محبت کا طلب گار ہوں”۔
چہرے کے بال (داڑھی) کا خیال رکھنا:
لڑکوں کے چہرے پر چودہ ۔ پندرہ سال کی عمر میں داڑھی کی صورت میں بال اگ آئے ہیں اور مرتب ومنظم داڑھی رکھنا مردوں کے وقار اور ان کی خوبصورتی کا جلوہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں مجسمے، نقوش اور تصاویر اس بات کی نشادہی کرتے ہیں کہ چہرے پر بال (ڈاڑھی) اس کی حفاظت گذشتہ زمانوں میں مردوں کے لئے زینت اور وقار مانا جاتا تھا۔
دین اسلام میں داڑھی رکھنے اور اس میں کنگھی کرنے کی بڑی سفارش ہوئی ہے جناب رسول خداﷺ کے بارے میں ملتا ہے کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص يُسَرِّحُ تَحْتَ لِحْيَتِهِ أَرْبَعِينَ مَرَّةً وَ مِنْ فَوْقِهَا سَبْعَ مَرَّاتٍ وَ يَقُولُ إِنَّهُ يَزِيدُ فِي الذِّهْنِ وَ يَقْطَعُ الْبَلْغَمَ. ( الخصال، ج‏1، ص: 268)
"جناب رسول خداﷺ اپنی داڑھی کے نچلے حصہ کو چالیس مرتبہ اور اوپری حصہ کو سات مرتبہ کنگھی کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: یہ کام ذہن کو زیادہ اور بلغم کو ختم کر دیتا ہے”۔
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے :
مَشْطُ الرَّأْسِ‏ يَذْهَبُ بِالْوَبَاءِ وَ مَشْطُ اللِّحْيَةِ يَشُدُّ الْأَضْرَاسَ.( من لا يحضره الفقيه، ج‏1، ص: 128)

"سر میں کنگھی کرنے سے وبا(بیماری) دور ہوتی ہے اور داڑھی میں کنگھی کرنے سے دانت مضبوط ہوتے ہیں”۔
مونچھوں کے بارے میں پیغمبرخداﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ مِنَ السُّنَّةِ أَنْ تَأْخُذَ مِنَ‏ الشَّارِبِ‏ حَتّى‏ يَبْلُغَ الْإِطَار۔(کافي (ط – دار الحديث)، ج‏13، ص: 127)
"مونچھوں کو ہونٹوں کی کنارے تک تراشے رہنا سنت ہے "۔
بدن کی کھال کا خیال رکھنا:
انسانوں کی شکل ظاھری کے اہم عناصر میں سے ایک بدن کی کھال کا سالم رکھنا ہے، پرانے زمانے سے جلد کی سلامتی اور اس کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے طرح طرح کی گھاسوں اور مفید تیلوں سے استفادہ رائج رہا ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سماج کے تمام افراد (مرد ھوں یاعورت) کے لئے یہ کام بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
الدُّهْنُ‏ يُلَيِّنُ‏ الْبَشَرَةَ وَ يَزِيدُ فِي الدِّمَاغِ وَ يُسَهِّلُ مَجَارِيَ الْمَاءِ وَ يُذْهِبُ الْقَشَفَ وَ يُسْفِرُ اللَّوْنَ.
( الکافي (ط – الإسلامية)، ج‏6، ص: 519)
"تیل (کی مالش) کھال کو نرم دماغ کو زیادہ، کھال کی گندگی کو بر طرف اور رنگ و روپ میں نکھار پیدا کرتا ہے”۔
اسی طرح حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
دُهْنُ‏ اللَّيْلِ‏ يَجْرِي فِي الْعُرُوقِ، وَ يُرَوِّي الْبَشَرَةَ، وَ يُبَيِّضُ الْوَجْه۔‏( کافي (ط – دار الحديث)، ج‏13، ص: 212)
"رات میں تیل کی مالش رگوں میں جاری ہوتی ہے ،کھال کو سیراب اور چہرے کو حسین (سفید) کرتی ہے”۔
ناخن چھوٹا کرنا:
ایک اور خداداد نعمت اور خوبصورتی کا جلوہ جو پہلی نظر میں ھو سکتا ھے نظر نہ آئے ہاتھ اور پیر میں ناخن کا ہونا ہے۔ اور اس نعمت کااس وقت اندازہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ جب کسی بیماری یا حادثہ میں کوئی ایک ناخن ختم ہوجاتا ہے اور ہاتھ اور پیر کی ظاہری خوبصورتی پر بھی اس کااثر پڑتا ہے۔
بدن کے اس جزو کے بارے میں نیز اس کی صفائی محفوظ رکھنے کے سلسلہ میں حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:
إِنَّمَا قُصَّتِ‏ الْأَظْفَارُ لِأَنَّهَا مَقِيلُ الشَّيْطَانِ وَ مِنْهُ يَكُونُ النِّسْيَانُ.( بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏73، ص: 123)
"ناخنوں کو اس لئے چھوٹا کیا جاتا ہے چونکہ یہ شیطان کی قیامگاہ ہے اور اس سے نسیان (بھولنے کا مرض) پیدا ہوتا ہے”۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ:
تَقْلِيمُ‏ الْأَظْفَارِ يَمْنَعُ الدَّاءَ الْأَعْظَمَ وَ يُدِرُّ الرِّزْقَ.( الکافي (ط – الإسلامية)، ج‏6، ص: 490)
"ناخنوں کو کاٹنے سے بڑی بڑی بیماریاں نا پید ہوجاتی ہیں اوررزق و روزی میں اضافہ ہوجاتا ہے”۔
روایات میں جمعہ کے دن ناخن کاٹنے کی تاکید کی گئی ہے۔امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
تَقْلِيمُ‏ الْأَظْفَارِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يُؤْمِنُ مِنَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ وَ الْعَمَى‏۔( الکافي (ط – الإسلامية)، ج‏6، ص: 490)
"جمعہ کے دن ناخن تراشنا جزام اور برص کی بیماری اور اندھے پن سے محفوظ رکھتا ہے۔”
بعض روایات میں عورتوں کے لئے خاص طور سے ناخن کے ظاہری پہلو اور ان کی خوبصورتی کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔نبی کریم ﷺسے روایت ہے کہ آپ نے مردوں سےفرمایا: قُصُّوا أَظَافِيرَكُم‏ ، اپنے ناخنوں کوچھوٹاکرو،
اورعورتوں سے فرمایا کہ: اتْرُكْنَ‏؛ فَإِنَّهُ أَزْيَنُ لَكُن‏ اپنے ناخنوں کو چھوڑ دو(یعنی بڑا رکھو) اس لئے کہ ناخن تم عورتوں کے لئے مززید زینت کا باعث ہے۔(الکافي (ط – دار الحديث)، ج‏13، ص: 141)
یہاں ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ خواتین کے لیے جو چیزیں بھی زینت کا شمار ہوتی ہیں ان میں سے جن کاموں کی شریعت میں اجازت دی گئ ہے اس میں ضروری ہے کہ عورت اسے نامحرم کو دکھانے کے لیے وہ کام نہ کرے۔ مثلا جیسے عورت کے لیے لمبے ناخن زینت شمار ہوتے ہیں اور ان کی اجازت بھی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس پر نامحرم کی نگاہ نہ پڑے۔ پس لمبے ناخن یا دیگر زینت کی چیزوں کو نامحرم سے چھپانا واجب ہے اور نامحرم کو دکھانا حرام ہے۔

خوشبو کا استعمال:
ہو سکتا ہے ظاہری خوبصورتی کا تعلق قابل دید اور جن چیزوں کو آنکھیں دیکھ سکتی ہیں تک محدود ہو اور لغوی اعتبار سے بھی ہو سکتا ہے یہ معنی اخذ کرنا درست ہو، عرف عام میں دنیا کے تمام لوگوں کی عادت ہے کہ پسینہ کی ناپسندیدہ بو کو ختم کرنے کے لئے یا صرف اپنے یا دوسروں کو اچھا لگنے کے لئے خوشبو کا استعمال کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کی زبان پر ایک جملہ بڑا رائج اور مشھور ھے کہ جناب رسول خداﷺ اپنے اموال کا زیادہ تر حصہ خوشبو پر صرف کرتے تھے بہت احتمال ہے کہ یہ شہرت جناب امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس ارشاد گرامی سے حاصل ہوئی ہو:
يُنْفِقُ‏ عَلَى‏ الطِّيبِ‏ أَكْثَرَ ما [مِمَّا] يُنْفِقُ عَلَى الطَّعَامِ.( بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏16، ص: 248)
"پیغمبر خداﷺ کھانے سے زیادہ خوشبو پر مال صرف کیا کرتے تھے”۔
امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:
لَا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ‏ يَدَعَ‏ الطِّيبَ‏ فِي كُلِّ يَوْمٍ فَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَيْهِ فَيَوْمٌ وَ يَوْمٌ لَا فَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ وَ لَا يَدَعْ.
"مرد کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہر زور خوشبو لگانے سے باز رہے ،اگر اس پر قدرت نہ رکھتا ہو تو ایک روز چھوڑ کر ایسا کرے اور اگر اس کی بھی قدرت نہ ہوتو ہر جمعہ کو خوشبو استعمال کرے اور اس کو مکمل نہ چھوڑے۔
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
رَكْعَتَانِ يُصَلِّيهِمَا مُتَعَطِّرٌ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِينَ رَكْعَةً يُصَلِّيهِمَا غَيْرُ مُتَعَطِّرٍ.
( ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، النص، ص: 40)
"خوشبو لگانے والے کی دو رکعت نماز بغیر خوشبو لگانے والے کی ستر رکعت نماز سے افضل ہے۔”

مسواک کرنا:
بلا شک وشبہ صاف وشفاف اور چمکدار دانتوں کا رکھنا ہر آراستہ و صاف رہنے والے انسان کی خواہش وتمنا ہوتی ہے کیونکہ دانتوں کی صفائی نہ صرف یہ کہ جسمانی صحت و سلامتی میں بڑی موثر ہے بلکہ ظاہری خوبصورتی میں بھی کافی موثر ہے ۔ اس کے علاوہ دوسروں سے محو گفتگو ہوتے وقت لازم ہے کہ دانت صاف ہوں۔ دانتوں کی صحت وسلامتی کا ڈائریکٹ تعلق اس کا خیال رکھنے سے ہے جس کا نتیجہ اس کی سلامتی ہے اس سلسلہ میں بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ طَهُورٌ وَ طَهُورُ الْفَمِ‏ السِّوَاک‏
"ہر شیء کے لئے ایک پاک کرنے والی چیز ہوتی ہے اور منہ کی صفائی دانتوں میں مسواک کرنا ہے”۔
زیادہ احتمال یہ ہے کہ انسان نے اپنی خوبصورتی اور حسن کو باقی رکھنے یا خوبصورتی حاصل کرنے کے لئے دانتوں میں مسواک کرنے کا آغاز کیا ہوگا۔ اس لئے کہ انسانوں کے اندر خوبصورتی کی طرف کشش اور کھنچاؤ سلامتی و تندرستی کی سمت کھنچاؤ سے زیادہ قوی ہے۔ بہر حال دانتوں کی صفائی کا خیال رکھنا بھی خوبصورتی کی طرف رجحان پیغمبروں کی آمد اور ان کی تاکید سے سنت کی شکل اختیار کر گیا ہے اور ہھت سی روایات اس کی تائید کرتی ہیں ،حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
السِّوَاكُ‏ مِنْ‏ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ.( الکافي ج‏6، ص: 495)
” مسواک کرنا انبیاء و مرسلین کی سنت ہے ۔” پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰﷺنے مسواک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
مَا زَالَ يُوصِينِي‏ بِالسِّوَاكِ‏ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيَجْعَلُهُ فَرِيضَة۔(من لا يحضره الفقيه، ج‏4، ص: 13)
” جبرئیل امین نے مسواک کرنے کی مسلسل تاکید کی تو مجھے گمان ہوا کہ عنقریب مسواک کو فریضہ قرار دے دیں گے” ۔

آپ ﷺسے منقول ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:
لَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ‏ بِالسِّوَاكِ‏ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ.( المحاسن، ج‏2، ص: 561)
"اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں حکم دے دیتا کہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کریں”۔
مسواک کرنے کے جسمانی فوائد اور بہت سی عبادتوں میں اس کے سبب ثواب اور اس کی زیادتی کے سلسلہ میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے صرف ایک نمونہ پر اکتفاء کرتے ہیں :
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
فِي السِّوَاكِ‏ اثْنَتَا عَشْرَةَ خَصْلَةً هُوَ مِنَ السُّنَّةِ وَ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ وَ مَجْلَاةٌ لِلْبَصَرِ وَ يَرْضَى الرَّبَّ وَ يُبَيِّضُ الْأَسْنَانَ وَ يَذْهَبُ بِالْحَفَرِ وَ يَشُدُّ اللِّثَةَ وَ يُشَهِّي الطَّعَامَ وَ يَذْهَبُ بِالْبَلْغَمِ وَ يَزِيدُ فِي الْحِفْظِ وَ يُضَاعِفُ الْحَسَنَاتِ وَ تَفْرَحُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ.( الکافي (ط – الإسلامية)، ج‏6، ص: 496)
"مسواک میں بارہ خصوصیات ہیں: پیغمبروں کی سنت ہے، ذہن کی صفائی کا باعث ہے ا،ٓنکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوتا ہے، خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، دانتوں کو سفید کردیتاہے، دانتوں کے پیلے پن اور خرابی کو زائل کرتا ہے ،جبڑے کو محکم کرتا ہے ،بھوک بڑھاتا ہے، بلغم کو ختم کرتاہے، حافظہ قوی کرتی ہے ثواب کئی گنا بڑھا دیتی ہے ملائکہ کو خوش کر دیتاہے۔”
صاف ستھرا لباس:
اور خوبصورت لباس پہننا انسان کے اوپر خدا کے لطف وکرم میں سے ایک لطف یہ ہے کہ اسے سارے جانوروں سے جدا کر دیا ہے انسان کی فطرت میں حیاء وحجاب ودیعت کیا ہے اور فطری رجحان کے ظھور کی سب سے بڑی علامت بدن کو دوسروں کے گناہوں سے پوشیدہ رکھنا ہے اور کتنا اچھا ہے کہ یہ چھپانا، خوبصورت صاف وشفاف اور انسان کی سماجی شان ومنزلت کے لائق ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کی نظر میں بھی بھلا معلوم ھو، لباس کی خوبصورتی کے سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس طرح فرماتے ہیں:
الْبَسْ‏ وَ تَجَمَّلْ‏ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُحِبُّ الْجَمَالَ مَا كَانَ مِنْ حَلَالٍ.( وسائل الشيعة، ج‏5، ص: 17)
خوبصورت اور اچھا لباس پہنو کیونکہ خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو دوست رکھتا ہےجب تک وہ مال حلال سے ہو ۔
لباس کی صفائی و نظافت کے حوالے سے حضرت رسول خداﷺ کا ارشاد ہے:
مَنِ اتَّخَذَ ثَوْباً فَلْيُنَظِّفْهُ.( الکافي ج‏6، ص: 441)
جو شخص کسی لباس کو پہنے تو اسے پاک وپاکیزہ بھی رکھے۔ اسی طرح آپﷺ سے روایت ہے:
غَسْلُ‏ الثِّيَابِ‏ يَذْهَبُ بِالْهَمِّ وَ طَهُورٌ لِلصَّلَاة۔(تحف العقول، النص، ص: 102)
لباس دھلنے سے ہم وغم دور ہوتا ہے اور یہ نماز کے لئے پاکیزگی شمار ھوتا ہے ۔
نتیجہ گفتگو:
اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام میں پاکیزگی کی دو قسمیں ہیں ایک روحانی اور دوسری جسمانی ۔ روح کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تما م برائیوں سے پاک صاف رکھے ۔ روح کی ناپاکی سے مراد وہ برے اعمال ہیں جن کے اختیار کرنے سے انسان کی روح گندی اور میلی ہوتی ہے ۔ روح کی پاکیزگی کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر برائی اور گناہ سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو اچھی عادتوں اور اچھے اخلاق سے سنوارنے کی کوشش کرے . .جس قدر انسان گناہوں اور برائیوں سے بچے گا اسی قدر اس کی روح پاک و صاف ہوتی چلی جائے گی اور اس کا اثر جسم کی پاکیزگی پر بھی پڑتا چلا جائیگا ۔
دوسری پاکیزگی جسمانی پاکیزگی ہے ۔ جسم کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کو ظاہری ناپاکیوں سے پاک و صاف رکھے ، گندہ اورمیلا نہ ہونے دے ، انسان کا لباس بھی جسم کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا آئینہ دار ہوتا ہے اسلام اگرچہ لباس میں شان و شکوہ ‘ اسراف بیجا اور تکلف کو پسند نہیں کرتا لیکن لباس میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا مطالبہ ضرور کرتا ہے ۔ اور ظاہری شکل و صورت کو بھی قرینہ سے رکھنے کی تاکید کرتا ہے کیوں کہ یہ بات بھی پاکیزگی اور صفائی کے ضمن میں آتی ہے . اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی شکل و حشیوں کی سی بنائے رکھے اور بدن کو میلا کچیلا اور بالوں کو پراگندہ رکھے۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button