خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:164)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک26 اگست 2022ء بمطابق 27 محرم الحرام1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ الہی نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کا شمار بھی انسان کے بس کی بات نہیں ۔انسان کے لیے مال بھی اللہ کی بہترین نعمتوں میں سےایک ہے۔ہر نعمت کے بدلے میں انسان پر یہ حق بنتا ہے کہ اس کے لیے جس قدر ممکن ہو وہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرے تاکہ ان نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہے۔ہر نعمت کا شکریہ اس کے حساب سے مختلف ہوتا ہے۔اللہ نے انسان کو صحیح و سالم جسم عطا کیا ہے تو اس کے شکریے میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اس جسم کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ کرے۔ اسی طرح اگر اللہ انسان کو مال عطا کرتا ہے تو جہاں انسان اس سے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا عملی شکر ادا کرنا ضروری ہے۔مال کا شکرادا کرنا یہ ہے کہ انسان اپنے مال میں سے ایک حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو عربی میں انفاق کہتے ہیں۔ یہ لفظ "نفق” سے نکلا ہے۔ لغت عرب میں نفق اس سرنگ کو کہتے ہیں جس کے دو طرف راستےہوں۔اسی لیے مال خرچ کرنے کو انفاق کہا گیا ہے کیونکہ اس سے مال ایک طرف سے آتا ہے اور دوسری طرف خرچ کردیا جاتا ہے۔قرآن و حدیث میں انفاق فی سبیل اللہ کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿البقرۃ:۱۹۵﴾
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کیا کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو یقینا پسند کرتا ہے۔
یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہاں انفاق کے مقابلے میں ہلاکت ذکر کیا گیا ہے کہ انفاق کرو اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اس سے پتا چلتا ہے کہ انفاق کرنا دراصل انسان کے زندہ ہونے کی علامت ہے اور انفاق نہ کرنا مردہ اور ہلاک ہونے کی علامت ہے۔یعنی انفاق کرنے سے قوموں کو زندگی ملتی ہے اور جس قوم میں انفاق جیسی عظیم صفت نہ ہو وہ قومیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔
مگر خیال رہے کہ ہر طرح کا انفاق زندگی کی علامت نہیں بلکہ کچھ انفاق ایسے ہیں جو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں اور وہ ہے اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا۔جیسا کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام سے روایت ہے:
إِنَ‏ إِنْفَاقَ‏ هَذَا الْمَالِ‏ فِي طَاعَةِ اللَّهِ أَعْظَمُ نِعْمَةٍ وَ إِنَّ إِنْفَاقَهُ فِي مَعَاصِيهِ أَعْظَمُ مِحْنَةٍ.(عیون الحکم: ص: 143)
اللہ کی اطاعت میں مال خرچ کرنا بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ کی نافرمانی میں مال خرچ کرنا بہت بڑی گرفتاری ہے۔
پس مال خرچ کرتے وقت انسان کو اس جانب خصوصی توجہ رکھنی چاہیے کہ کہیں وہ اللہ کی نافرمانی میں مال خرچ کرنے کا مرتکب نہ ہوجائے۔
انفاق اور فیاضی ایک کائناتی اصول ہے، جس پر نظام کائنات استوار ہے۔ سورج اپنے حیات بخش نور کا فیض پہنچاتا ہے۔ پانی اپنی طراوت سے نوازتا ہے۔ ہوا اپنی تازگی سے فرحت بخشتی ہے اور زمین بھی جب اپنی آغوش میں مہر و محبت سے لبریز ماحول فراہم کرتی ہے تو دانہ بھی فیاضانہ جذبے کے تحت اپنا سینہ چاک کر دیتا ہے۔
قرآن مجید میں متعدد آیات کے ذریعے امت قرآن کو انفاق فی سبیل اللّٰہ کی ہدایات دی جا رہی ہیں تاکہ ایک ایسی امت تشکیل دی جا ئے جو خدا کی پسندیدہ انسانی و اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ اقتصادی و باہمی تعاون کی اقدار پر بھی قائم ہو۔ اسلام سے پہلے غریب طبقہ سود اور استحصالی نظام میں پس رہا تھا۔ اسلام نے اس طبقے کو اقتصادی غلامی سے نجات دلا کر اس کے انسانی احترام کو بحال کر نے کے لیے انفاق پر زور دیا۔ ایسا انفاق جو محبت و اخوت کی فضا میں ہو نیز جو انفاق کرنے والے کے لیے تہذیب نفس اور لینے والے کے لیے باوقار ذریعہ زندگی ہو۔ ان آیات میں انفاق کی افادیت، آداب اور اس کے نفسیاتی پہلوؤں پر مشتمل ایک دائمی دستور موجود ہے، جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں امت مسلمہ ایک ہی خاندان کی مانند ہو جاتی ہے ، جس کے تمام افراد ہر اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔
چنانچہ اسی ذہنیت کی تخلیق اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسلام نے ربا اور سود کا دروازہ بند کر کے انفاق کا دروازہ کھولا اور انفاق کے بہت سے شعبے قائم کیے۔ مثلاً زکوٰۃ، خمس، مالی کفارے، مستحب صدقات و خیرات وقف، ہبہ، قرض حسنہ اور فدیہ وغیرہ۔
ذاتی ضروریات، اہل و عیال کی جائز ضروریات، حاجتمندوں کی امداد، رفاہ عامہ کے امور اور دین کی اشاعت پرخرچ کرنا وغیرہ، انفاق فی سبیل اللہ کے زمرے میں شامل ہیں۔
انفاق کے سلسلے میں انسان کو پاکیزہ اور عمدہ چیز خرچ کرنے کی تاکید کی گئی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿البقرۃ:۲۶۷﴾
اے ایمان والو! جو مال تم کماتے ہو اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ حصہ (راہ خدا میں)خرچ کرو اور اس میں سے ردی چیز دینے کا قصد ہی نہ کرو اور (اگر کوئی وہی تمہیں دے تو) تم خود اسے لینا گوارا نہ کرو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بے نیاز اور لائق ستائش ہے۔
اس اصول کی تعلیم دی جا رہی ہے کہ انفاق میں ایثار و قربانی کا عنصر کارفرما ہونا چاہیے جو ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب انسان اپنے مال میں سے عمدہ حصہ راہ خدا میں خرچ کرے۔ چنانچہ دیگر متعدد آیات میں اس انفاق کو فضیلت دی گئی ہے جو مال سے محبت( عَلٰي حُبِّہٖ ) کے باوجود کیا جائے۔ جیسے ارشاد ہے:
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ﴿آل عمران:۹۲﴾
جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے۔
پس یہاں ناکارہ اور ردی چیزوں کے انفاق کے بارے میں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا:اگر یہ ردی چیزیں خود تمہیں دی جائیں تو تم بھی انہیں قبول نہ کرو گے۔ لہٰذا ایسا انفاق سخاوت اور ایثار و قربانی نہیں کہلاتا۔ اس قسم کا انفاق ان ردی چیزوں سے جان چھڑانے کا ذریعہ ہو سکتا ہے، مگر ایک اعلیٰ انسانی اخلاق و اقدار کی نشاندہی نہیں کر سکتا۔ قرآن کے نزدیک اس انفاق کو فضیلت حاصل ہے جس کے ذریعے اعلیٰ اقدار کے مالک انسان کا سراغ ملتا ہو۔
اس آیت نے بتایا کہ اگر اللہ سے محبت ہو تو دنیا کی کوئی چیز اس کے مقابلےمیں عزیز نہ ہو گی۔ اگر کسی کے دل میں دنیا کی کوئی چیز حب خدا پر غالب آ جائے تو وہ سمجھ لے کہ نیکی کے مقام پر فائز نہیں ہے۔تمام نیکیوں میں انفاق مال کو ایک اہم خصوصیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انفاق مال کو بہت پسند فرماتا ہے۔ حتیٰ کہ ائمہ علیہم السلام کی عظیم نیکیوں میں خصوصی طور پر ان کے انفاق کو پسند فرمایا۔ چنانچہ امام علی علیہ السلام نے حالت میں رکوع میں جو زکوٰۃ دی وہاں خود رکوع سے زیادہ رکوع میں دی جانے والی زکوٰۃ کو درجہ دیا گیا۔
قرآن مجید میں انفاق کے نتیجے میں انسان کو دنیا میں جو فائدہ ملتا ہے اسے ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعے یوں بیان کیا گیا ہے:
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿البقرۃ:۲۶۱﴾
جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے۔
اس آیت میں حاکمانہ انداز میں نہیں، بلکہ تشویق و ترغیب کی صورت میں انفاق کا درس دیا جا رہا ہے۔ قرآن ایک نہایت ہی منافع بخش مادی و محسوس مثال پیش فرماتا ہے کہ دانے کا زمین میں ڈالنا اس دانے کا ضائع کرنا نہیں، بلکہ ایک منافع بخش عمل ہے۔ جس طرح مادی دنیا میں بیج کا ایک دانہ سات سو دانے دے سکتا ہے، بالکل اسی طرح راہ خدا میں خرچ کرنے سے بھی مال ضائع نہیں ہوتا، بلکہ خرچ کرنے والا سات سو گنا ثواب کی شکل میں اسے دوبارہ وصول کرتا ہے۔ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ کے تحت ایک ہزار چار سو گنا ہو سکتا ہے۔ مال کے انفاق کا یہ خاصہ ہے کہ ایک ہزار چار سو گنا ثواب مل سکتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ، جتنا خدا چاہے۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی حدیث میں ہے:
َ مَنْ‏ أَعْطَى‏ دِرْهَماً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ سَبْعَمِائَةِ حَسَنَةٍ (بحار الأنوارج‏66، ص: 382)
جو اللہ کی راہ میں ایک درھم (ایک روپیہ) دے گا اللہ اس کے نامہ اعمال میں سات سو نیکیاں لکھے گا۔
راہ خدا میں مال خرچ کرنے کا فائدہ پلٹ کر خود خرچ کرنے والے کو ہی ہوتا ہے۔جہاں آخرت میں اس کا ثواب کثیر ذخیرہ ہوتا ہے وہیں دنیا میں مال میں برکت ہوتی ہے اور جتنا وہ خرچ کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ اسے واپس بھی مل جاتا ہے اور اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا ہےکہ یہ مال کیسے آگیا۔اسی لیے روایات میں ملتا ہے کہ انسان کی روزی تنگ ہو تو اسے چاہیے کہ راہ خدا میں صدقہ دے کیونکہ صدقہ کے ذریعے گویا وہ اللہ سے تجارت کر رہا ہے اور اللہ کبھی اسے نفع کے بغیر نہیں لوٹائے گا کیونکہ اس کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔اس لیے نہج البلاغہ میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
إِذَا أَمْلَقْتُمْ‏ فَتَاجِرُوا اللَّهَ بِالصَّدَقَة(نہج البلاغہ حکمت: ۲۵۸)
جب تنگ دست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعے اللہ سے تجارت کرو۔ایک اور مقام پہ ارشاد فرماتے ہیں؛
مَنْ‏ أَيْقَنَ‏ بِالْخَلَفِ‏ جَادَ بِالْعَطِيَّة(نہج البلاغہ حکمت۱۳۸)
جسے عوض ملنے کا یقین ہوتا ہے وہ خرچ کرنے میں دریا دلی دکھاتا ہے۔
پس انفاق کے لیے لوگوں کو اپنا یہ وہم ختم کرنا ہوگا کہ اگر ہم کسی مستحق کو مال دیں یا اپنے مال سے ضروری زکوٰۃ و خمس نکالیں تو ہمارا مال ختم ہوجائے گا ۔ایسی سوچ ان لوگو ں میں ہوتی ہے جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے جبکہ جس کا ایمان یہ ہے کہ جب اللہ کی راہ میں دے رہا ہوں تو ناصرف آخرت میں اس کا اجر ملے گا بلکہ دنیا میں بھی مال میں برکت ہوگی اور اس سے بڑھ کر واپس ملے گا تو پھر وہ راہ خدا میں خرچ کرنے میں زرا بھر بھی کوتا ہی نہیں کرتا۔ورنہ کتنے ہی واقعات ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کا مال کسی ناگہانی آفت یا حادثے کے ذریعے جیسےچوری، ڈکیتی یا فصلیں کسی بیماری یا آندھی یا سیلاب کے نتیجے میں تباہ ہوجاتی ہیں۔
واقعہ:
صحابی رسولﷺ حضرت ابوطلحہ انصاری، انصار میں سب سے زیادہ دولت مند تھے۔ ان کی اپنی وسیع جائیداد تھی۔ اس جائیداد پر عالی شان کھجور کے باغات بھی تھے۔ ان باغوں سے آپ لاکھوں درہم کماتے تھے۔ آپ کا باغ تھا ’’ بَيْرَحَاء‘‘۔ یہ باغ آپ کو بہت پیارا تھا۔ اگر دنیا میں اپنے مال میں سے کوئی چیز حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کو پسند یا محبوب تھی تو وہ یہ ’’ بَيْرَحَاء‘‘ باغ تھا۔ یہ باغ انہیں کیوں محبوب تھا؟
یہ باغ انہیں اس لیے محبوب نہیں تھا کہ اس سے منافع زیادہ ہوتا تھا بلکہ اس لیے کہ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ آپ ﷺ نماز کے بعد کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس باغ سے تازہ پانی نوش فرماتے تھےاور وضو کیا کرتے تھے۔ ابوطلحہ انصاریؓ کو یہ باغ بس اس وجہ سے زیادہ محبوب تھا اس میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ پانی نوش فرماتے تھے اور وضو کیا کرتے تھے۔۔ دوسری وجہ مسجد نبوی کے سامنے واقع ہونے کی وجہ سے آپ ﷺکی معیت میں نماز ادا فرما لیتے تھے۔ آپﷺکی محفل میں شرکت کا شرف مل جاتا تھا یعنی دین اور دنیا ساتھ ساتھ چل رہے تھے، اس لیے حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کو یہ باغ بہت عزیز تھا۔
ایک روز آپ ﷺپر قرآن کی ایک آیت نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ﴿آل عمران:۹۲﴾
جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے۔
آپ ﷺنے جب اس حکم خداوندی کو صحابہ تک پہنچایا تو حضرت ابوطلحہ انصاریؓ یہ ارشاد سن کر چونک اٹھے۔
روایت ہے کہ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ بارگاہ رسولﷺ میں حاضر ہوئے۔ عرض کرنے لگے: یارسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور مجھے اپنے سارے مال سے سب سے زیادہ محبوب ’’ بَيْرَحَاء‘‘ ہے، اس لیے اب وہی میری طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے صدقہ ہے۔ مجھے امید ہے آخرت میں مجھے اس کا ثواب ملے گا اور میرے لیے ذخیرہ ہوگا لہٰذا آپ ﷺاس کے بارے میں فیصلہ فرما دیں‘‘ رسول اللہﷺکے چہرئہ انور پر مسکراہٹ بکھرگئی۔ فرمایا:بَخْ بَخْ ذَلِكَ مَالٌ‏ رَابِحٌ‏ لَك‏
مبارک ہو مبارک ہو یہ مال تو تمہارے لیے بہت نفع بخش ہوگا۔پھر فرمایا میں تمہارے لیے اس چیز میں بہتری دیکھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے ضرورتمند قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں یہی کروں گا۔‘‘ چنانچہ حضرت ابوطلحہ انصارنے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔
(مستدرک الوسائل ج‏7، ص: 249)
اس واقعے سے دو اہم سبق ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان نیکی کی معراج تک تب پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی قیمتی اور پسندیدہ چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور دوسرا یہ کہ مال خرچ کرتے وقت اپنے قریبی رشتہ داروں کو دوسروں پر ترجیح دے۔یعنی جب تک قریبی ترین رشتہ داروں میں کوئی اہل موجود ہو تو باہر خر چ کرنے کی بجائے انہیں قریبیوں کو ترجیح دے۔
جبکہ معاشرے میں اکثر اس کے الٹ کام کیا جاتا ہے۔جو لباس اپنے پہننے کے قابل نہیں رہتا یا جو سامان اپنے استعمال کے قابل نہیں رہتا تب لوگ کہتے ہیں اسے اللہ کی راہ میں دے دیتے ہیں جبکہ اگر کوئی اور انہیں پرانی چیز دے تو وہ قبول نہیں کریں گے۔اسی طرح لوگ دور دراز جاکر صدقہ و خیرات کرتے پھرتے ہیں جبکہ ان کے اپنے گھر میں یا قریبی رشتہ داروں میں مستحق موجود ہوتے ہیں ان کو محروم رکھتے ہیں۔یہ سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
ایک گزارش:
پاکستان کے صوبہ سندھ و بلوچستان کے مختلف علاقے اسی طرح خیبرپختونخوا میں ڈی جی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سیلاب سے شدید متاثر ہورہے ہیں اور باقی علاقوں میں بھی سیلاب کا خدشہ ہے۔ اس لیے تمام مومنین انفاق فی سبیل اللہ کے تحت ان متاثرین کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں اور اس کے لیے یا تو خود پہنچیں یا قابل بھروسہ افراد کے ذریعے ان متاثرین تک مدد پہنچائیں۔جزاکم اللہ خیرا

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button