خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:128)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 24 دسمبر2021ء بمطابق 19 جمادی الاول 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
آج ہماری گفتگو کا عنوان وہ ہے جو دراصل ہماری تخلیق کا انتہائی اہم مقصد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْانْسَ ِلاَّ لِیَعْبُدُون (الذاریات:56) اور میں نے جن وانس کوپیدا نہیں کیا مگراس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔
حدیث میں آیا ہے لِیَعۡبُدُوۡنِ سے مراد لیعرفون ہے۔ حدیث کے مطابق آیت کا مطلب یہ بنتا ہے: اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔عبادت، معرفت کے بعد ممکن ہے۔ اللہ کے کمال و جمال کی معرفت کے بعد کمال کے سامنے جھکنا کمال ہے۔ لہٰذا عبد کا کمال و ارتقا یہ ہے کہ وہ کمال کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کرے۔ لہٰذا خلقت انسانی کی غرض اسی صاحب کمال کی بندگی کرنے سے پوری ہوتی ہے، نہ کسی اور کی بندگی کرنے سے۔ اللہ نے انسان کو چونکہ بندگی کے لیے خلق کیا ہے اس لیے اس نے انسان کی خلقت میں بندگی کا شعور ودیعت فرمایا ہے:
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ۔۔۔۔ ( ۳۰روم: ۳۰)پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں (یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے۔
دین قَیم جس میں کسی قسم کا انحراف نہیں ہے عین فطرت ہے۔ اگر اللہ کی بندگی فطری نہ ہوتی تو اس بندگی سے انسان کو سکون حاصل نہ ہوتا جیساکہ مچھلی اگر پانی میں زندگی بسر کرنے کے لیے پیدا نہ ہوتی تو اسے پانی میں سکون نہ ملتا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کی بندگی فطری ہے تو سب لوگوں کو اس پر چلنا چاہیے کیونکہ فطرت سب کے لیے یکساں ہیں؟
جواب یہ ہے کہ کسی بات کے فطری ہونے سے فطرت کے مطابق چلنے میں سب لوگوں کا یکساں ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ دوسروں پر احسان کرنے کا احساس سب کے نزدیک فطری ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ کمزور لوگوں پر احسان کرنے کی جگہ ان کا خون چوستے ہیں۔

عبادت کا حکم کیوں دیا گیا؟
یہ روشن اور واضح حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ ہماری ہر قسم کی عبادت سے بے نیاز ہے، ہم عبادت ہمارے ٖغرض کے لئے کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ پورا کرتا ہے۔
اس کا ہر حکم ہمارے فائدے کے لئے ہے، ہم اللہ کے جس حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں درحقیقت ہم اپنی ہی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور جس حکم کی نافرمانی کرتے ہے حقیقت میں اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے:: «وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ[سورۂ فاطت آیت:۱۸] اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے گا وہ اپنے فائدہ کے لئے کرے گا اور سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہے»، اسی طرح ایک اور جگہ خدا اس طرح ارشاد فرمارہا ہے:«وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ[سورۂ لقمان، آیت:۱۲] اور جو بھی شکریہ ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت کرتا ہے اسے معلوم رہے کہ خدا بے نیاز بھی ہے اور قابل حمدوثنا بھی ہے»۔
قرآن کی ان دو آیتوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اگر ہم عبادت کررہے ہیں تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے اور اگر اس کی عبادت نہیں کرتے ہیں تو اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ عبادت کی حقیقت کیاہے؟
کیاصرف رکوع وسجود ،قیام وقعوداورنماز وروزہ جیسے مراسم کاانجام دینامراد ہے ،یاان کے علاوہ کوئی اورحقیقت ہے؟اگرچہ رسمی عبادات بھی سب کی سب اہمیت کی حامل ہیں ۔اس سوال کاجواب معلوم کرنے کے لیے عبد وعبودیت کے الفاظ پرغور کرناہوگا ، اوران کی تحلیل وتجزیہ کرنا پڑے گا ۔عبد لغت کے لحاظ سے اس انسان کوکہتے ہیں جوسرتاپا اپنے مولا اور آقا ومالک سے تعلق رکھتاہے،اس کاارادہ اس کے ارادہ کے تابع ، اوراس کی خواہش اس کی خواہش اورمرضی کے تابع ہے یہ اس کے مقابلہ میں کسی چیزکامالک نہیں ہے، اوراس کی اطاعت میں کسی قسم کی کوتاہی اور سستی نہیں کرتا ۔دوسرے لفظوں میں عبودیت جیساکہ متون لغت میں آیاہے ،معبود کے سامنے آ خری درجہ کے خضوع کااظہارہے اوراسی بناء پر صرف وہی ذات معبود ہوسکتی ہے جس نے انتہائی انعام واکرام کیاہو، اوروہ خدا کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے ۔اس بناء پر عبودیت ایک انسان کے ارتقاء وتکامل کی انتہائی معراج اورخداسے اس کاقرب ہے ۔عبودیت اس کی ذات پاک کے آگے انتہائی تسلیم ہے ، عبودیت، بلا قید وشرط اطاعت اورتمام مراحل میں فرمانبرداری کرناہے ۔اورآخر میں عبودیت کامل یہ ہے کہ انسان سوائے معبود حقیقی یعنی کمال مطلق کے کسی کابھی تصور اورخیال نہ کرے، اس کی راہ کے علاوہ اور کسی راہ پر قدم نہ اٹھائے،اس کے سواہر چیز کوبھول جائے ، یہاں تک کہ خود اپنے آپ کوبھی ۔
اورخلقتِ بشر کاھدف اصلی یہی ہے،جس تک پہنچنے کے لیے خدانے آ ز مائش کامیدان فراہم کیاہے، اورانسان کوعلم وآگاہی عطا فرمائی ہے، اوراس کااصلی اور واقعی و حقیقی نتیجہ بھی اس کی رحمت کے سمندر میں خود کوسموناہے۔
عبادت ، احادیث میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :أفضَلُ النّاسِ مَن عَشِقَ العِبادَةَ فَعانَقَها ، وأحَبَّها بقَلبهِ ، وباشَرَها بِجَسَدِهِ ، وتَفرَّغَ لَها ، فَهُو لا يُبالي عَلى ما أصبَحَ مِنَ الدُّنيا : عَلى عُسرٍ أم عَلى يُسرٍ .(الكافي : ۲ / ۸۳ / ۳)
افضل ترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو عبادت سے عشق کرتے ہوئے اسے گلے لگاتے ہیں، اس سے دلی محبت کرتے، اپنے جسم کے ساتھ ہم نشینی کرتے اور اُسے دل میں جگہ دیتے ہیں، پھر انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ دنیا میں کس حال میں صبح کرتے ہیں؟ تنگی کی حالت میں یا آسانی کی حالت میں!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:كَفى بِالعِبادَةِ شُغلاً . (تحف العقول : ۳۵)
اللہ کی عبادت بہت بڑی مصروفیت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:يَقولُ رَبُّكُم: يَابنَ آدَمَ،تَفَرَّغْ لِعِبادَتي أملَأْ قَلبَكَ غِنىً وأملَأْ يَدَيكَ رِزقا ۔ يَابنَ آدمَ ، لا تَباعَدْ مِنّي فأملَأَ قَلبَكَ فَقرا وأملَأَ يَدَيكَ شُغلاً . (كنز العمّال : ۴۳۶۱۴)

تمہارا رب فرماتا ہے: اے فرزند آدم! میری عبادت کے لیے وقت نکال، میں تیرے دل کو تونگری سے بھر دوں گا اور دونوں ہاتھوں کو مالا مال کردوں گا، اے آدم کے بیٹے! مجھ سے دور نہ ہو ورنہ تیرے دل کو فقر و فاقہ سے اور تیرے ہاتھوں کو کام میں مشغٖول رکھوں گا۔
امام علی علیہ السلام:إذا أحَبَّ اللهُ عَبدا ألهَمَهُ حُسنَ العِبادَةِ .( غرر الحكم : ۴۰۶۶)
جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو اسے اچھی طرح عبادت کرنے کا الہام فرمادیتا ہے۔
امام علی علیہ السلام:العُبوديَّهُ خَمسَهُ أشياءَ : خَلاءُ البَطنِ ، وَقِراءةُ القرآنِ، وقِيامُ اللَّيلِ ، والتَّضَرُّعُ عِندَ الصُّبحِ ، والبُكاءُ مِن خَشيَةِ الله . (مستدرك الوسائل : ۱۱ / ۲۴۴ / ۱۲۸۷۵)
عبودیت (بندگی) پانچ چیزوں کا نام ہے: ۱۔خالی شکم ہونا۔۲۔قرآن کی تلاوت کرنا۔ ۳۔رات کو عبادت کے لیے کھڑا ہونا۔ ۴۔صبح کے وقت اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑانا۔ ۵۔اللہ کے خوف سے رونا۔
غور و فکر بھی عبادت ہے:
امام علی علیہ السلام:لا خَيرَ في عِبادَةٍ ليسَ فيها تَفَقُّةٌ .(تحف العقول : ۲۰۴)
اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں غور و فکر نہیں۔
امام زین العابدین علیہ السلام:لا عِبادَةَ إلاّ بالتَفَقُّهِ. (تحف العقول : ۲۸۰)
عبادت صرف غور و فکر ہی سے حاصل ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :اُعبُدِ اللہَ كَأ نَّكَ تَراهُ ، فَإن لَم تَكُن تَراهُ ، فَإنَّهُ يَراكَ .(كنزالعمّال : ۵۲۵۰)
اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔۔
عبادت کی مختلف صورتیں:
رزق حلال کمانے کے لیے محنت و کوشش کرنا بھی عبادت ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کسی شخص سے پوچھا:
ما تَصنَعُ ؟ قالَ : أتَعَبَّدُ ، قالَ : فمَن يَعودُ علَيكَ ؟ قالَ : أخي ، قالَ : أخوكَ أعبَدُ مِنكَ .(تنبيه الخواطر : ۱ / ۶۵)
کہ کیا کام کرتے ہو؟ عرض کیا عبادت کرتا ہوں! پوچھا کہ تمہارے اخراجات کون پورے کرتا ہے؟ عرض کیا: میرا بھائی! فرمایا: تمہارا بھائی تم سے زیادہ عبادت گزار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :العِبادَةُ عَشرَةُ أجزاءٍ ،تِسعَهُ أجزاءٍ في طَلَبِ الحَلالِ .(بحارالانوار : ۱۰۳ / ۱۸ / ۸۱)
عبادت کے دس اجزاء ہیں جن میں سے نو(۹) حلال (رزق) کی تلاش میں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
نَظَرُ الوَلَدِ إلى والِدَيهِ حُبّا لَهُما عِبادَةٌ . (تحف العقول : ۴۶)
اولاد کا محبت کے ساتھ اپنے والدین کو دیکھنا عبادت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
النَّظَرُ إلَى العالِمِ عِبادَةٌ ،والنَّظَرُ إلَى الإمامِ المُقسِطِ عِبادَةٌ ، وَالنَّظَرُ إلَى الوالِدَينِ بِرَأفَةٍ وَرحمَةٍ عِبادَةٌ ، وَالنَّظَرُ إلى أخٍ تَوَدُّهُ في الله عز و جل عِبادَةٌ .(أمالي الطوسيّ : ۴۵۴ / ۱۰۱۵)
عالم کی طرف دیکھنا عبادت ہے، امام عادل (معصوم) کی طرف دیکھنا عبادت ہے، پیار بھرے انداز میں والدین کو دیکھنا عبادت ہے، جس بھائی (دوست) کے ساتھ راہِ خدا میں دوستی کرتے ہو، اس کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔
امام علی علیہ السلام:
التَّفَكُّرُ في مَلَكوتِ السّماواتِ والأرضِ عِبادَةُ الُمخلِصينَ .(غرر الحكم : ۱۷۹۲)
(اللہ تعالیٰ کی) آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں غور و فکر کرنا، مخلص لوگوں کی عبادت ہے۔
امام علی علیہ السلام:
إنّ مِنَ العِبادَةِ لِينَ الكَلامِ وإفشاءَ السَّلام .(غرر الحكم : ۳۴۲۱)
نرمی سے گفتگو کرنا اور سلامتی کو عام کرنا عبادت میں شمار ہوتا ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:
إنّ فَوقَ كلِّ عِبادَةٍ عِبادَةً ، و حُبُّنا أهلَ البَيتِ أفضَلُ عِبادَةٍ . (المحاسن : ۱/۲۴۷/۴۶۲)
ہر عبادت پر ایک اور عبادت فوقیت رکھتی ہے اور ہم اہلبیت ع کی محبت تمام عبادتوں سے افضل ہے۔
عبادت گزاروں کی اقسام
امام جعفرصادق علیہ السلام کا فرمان ہے اور اسی جیسا کلام نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام سے بھی بیان ہوا ہے:
(إنّ) العُبّادَ ع لاثةٌ : قَومٌ عَبَدوا اللہَ عز و جل خَوفا فتِلكَ عِبادَةُ العَبيدِ،وَقَوم عَبَدوا اللہَ تَباركَ وتَعالى طَلَبَ الثَّوابِ فتِلكَ عِبادَةُ الاُجَراءِ ، وقَوم عَبَدوا اللہَ عز و جل حُبّا لَهُ فَتِلكَ عِبادَةُ الأحرارِ ، وهِيَ أفضَلُ العِبادَةِ۔. (الكافي : ۲ / ۸۴ / ۵)
عبادت گزار بندوں کی تین قسمیں ہیں: ایک جماعت اللہ کے خوف کے پیشِ نظر عبادت کرتی ہے، یہ غلاموں کی عبادت ہے، ایک جماعت اللہ کی عبادت ثواب کے پیشِ نظر لالچ میں کرتی ہے ، یہ مزدوروں والی عبادت ہے اور ایک جماعت اللہ کی محبت میں اس کی عبادت کرتی ہے یہ سب سے افضل عبادت ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:
من أطاعَ رَجُلاً في مَعصِيَةٍ فقَد عَبَدَهُ . (الكافي : ۲ / ۳۹۸ / ۸)
جو شخص گناہ کی باتوں میں کسی کی اطاعت کرتا ہے وہ اُسی کا بندہ ہوتا ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام:
مَن أصغى إلى ناطِقٍ فقَد عَبَدَهُ ، فإن كانَ النّاطِقُ يُؤَدّي عَنِ الله عز و جل فقَد عَبَدَاللہَ ، وإن كانَ النّاطِقُ يُؤَدّي عنِ الشَّيطانِ فقَد عَبَدَ الشَّيطانَ .(الكافي : ۶ / ۴۳۴ / ۲۴)
جو شخص کسی بولنے والے کی طرف کان لگاتا ہے (اور غور سے اس کی باتوں کو سنتا ہے) وہ گویا اس کی عبادت کررہا ہوتا ہے، اگر بولنے والا اللہ کی باتیں کررہا ہو تو سننے بھی والا خدا کی عبادت میں شریک ہوگا اور اگر ابلیس لعین کی طرف سے بول رہا ہو تو وہ ابلیس کا عبادت گزار ہوگا۔
افضل ترین عبادت
امام علی رضا علیہ السلام:
لَيسَتِ العِبادَةُ كَثرَةَ الصِّيامِ وَالصَّلاةِ ، وَإنَّما العِبادَةُ كَثرَةُ التَّفَكُّرِ في أمرِ الله .(تحف العقول : ۴۴۲)
روزہ، نمازوں کو کثرت کے ساتھ ادا کرنےکا نام عبادت نہیں، بلکہ امور الٰہی میں کثرت کے ساتھ غور و فکر کرنے کا نام عبادت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
أفضَلُ العِبادَةِ الفِقهُ . ( الخصال : ۳۰)
افضل عبادت غور و فکر سے کام لینا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
أعظَمُ العِبادَةِ أجرا أخفاها . (قرب الإسناد : ۱۳۵ / ۴۷۵)
اجر کے لحاظ سے عظیم ترین عبادت وہ ہے جو نہایت مخفی طریقہ پر بجالائی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
العِبادَةُ مَعَ أكلِ الحَرامِ كالبِناءِ عَلَى الرَّملِ ، وقيلَ : عَلَى الماءِ .(عدّة الدّاعي : ۱۴۱)
حرام کھا کر عبادت کرنا ایسا ہے جیسے ریت پر عمارت تعمیر کی جائے۔یا۔ پانی پر۔
امام علی علیہ السلام:
أفضَلُ العِبادَةِ العَفافُ . (الكافي : ۲ / ۴۶۸ / ۸)
پاکدامن رہنا بہت بڑی عبادت ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام:
أفضَلُ العِبادَةِ الإخلاصُ . (تنبيه الخواطر : ۲ / ۱۰۹)
افضل ترین عبادت،خلوص کے ساتھ انجام دینا ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:
أفضَلُ العِبادَةِ العِلمُ بِالله والتَّواضُعُ لَهُ .(تحف العقول : ۳۶۴)
افضل عبادت اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم اور اس کے لیے تواضع اور فروتنی اختیار کرنا ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:
أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ إِدْمَانُ التَّفَكُّرِ فِي اللهِ وَفِي قُدْرَتِهِ .(الكافي : ۲ / ۵۵ / ۳)
اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اور اس کی قدرت کے بارے میں سوچ و بچار سے کام لیتے رہنا افضل ترین عبادت ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:
والله ما عُبِدَ اللهُ بِشيءٍ أفضَلَ مِن أداءِ حَقِّ المُؤمِنِ .(الاختصاص : ۲۸)
خدا کی قسم! مومن کا حق ادا کرنے سے بڑھ کر اللہ کی عبادت کسی اور چیز کے ذریعہ نہیں کی جاتی۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:
أعبَدُ النّاسِ مَن أقامَ الفَرائضَ . (الخصال : ۱۶ / ۵۶)
سب سے بڑا عابد وہ ہے جو فرائض کو پابندی کے ساتھ بجالاتا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام:
بِحقٍّ أقولُ لَكُم: إنَّهُ كَما يَنظُرُ المَريضُ إلى طَيِّبِ الطَّعامِ فلا يَلتَذُّهُ مَعَ ما يَجِدُهُ مِن شِدَّةِ الوَجَعِ ، كذلِكَ صاحِبُ الدّنيا لا يَلتَذُّ بِالعِبادَةِ ولا يَجِدُ حَلاوَتَها مَعَ ما يَجِدُ مِن حُبِّ المالِ . (تحف العقول : ۵۰۷)
میں تم سے حق بات کہتاہوں وہ یہ کہ جس طرح ایک مریض لذیذ طعام کو دیکھتا ہے لیکن درد کی شدت میں اس سے لذت نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح دنیا دار آدمی مال کی محبت کی وجہ سے نہ تو عبادت کی لذت اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی شیرینی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
آفَهُ العِبادَةِ الفَترَةُ . (تحف العقول : ۶)
عبادت کی آفت سستی ہے۔
قالت فاطمه الزهراء سلام الله علیها: من أصعد إلی الله خالص عبادته، أهبط الله عزوجل إلیه أفضل مصلحته.
( بحار الانوار جلد ۶۸ ص ۱۸۴ )
جو خدا کے سامنے اپنی خالصانہ عبادت پیش کرے گا،تو خداوند متعال بھی اپنی بہترین مصلحتوں کو اس کے لئے نازل کر یگا۔
عبادت میں اعتدال و میانہ روی:
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نماز کو بہت زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ وہ نماز سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور فرماتے تھے میرا دل یہ چاہتا ہے کہ میں نماز کو اور زیادہ پڑھوں لیکن آپ نماز کے درمیان لوگوں کی رعایت کیا کرتے تھے اور نماز کو زیادہ طویل نہ کرتے تاکہ لوگوں کو طولانی نمازوں کے ذریعہ کوئی اذیت نہ ہو۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کی بارگاہ میں اتنی راز و نیاز کرتے تھے کہ خداوند متعال نے آپ سے فرمایا: «قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيْلًا[سورۂ مزمل، آیت:۱،۲،۳] رات کو اٹھو مگر ذرا کم آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دو»، اس کے باوجود آپ نماز جماعت میں لوگوں کی رعایت کرتے تھے،
ایک واقعہ:
عمومی مواقع پر لوگوں کی رعایت کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر اس وقت ان کی رعایت نہیں کی گئی تو وہ لوگ دین سے متنفر ہوجائیں گے جیسا کہ امام صادق(علیہ السلام) اس واقعہ کے ذریعہ فرمارہے ہیں:
صدر اسلام کے زمانے میں دو لوگ ایک دوسرے کے پڑوسی تھے ایک مسلمان اور دوسرا عیسائی، اس مسلمان نے عسائی کے سامنے اسلام کی اتنی تعریف کی کہ وہ عیسائی اسلام سے محبت کرنے لگا اور آخر کار وہ مسلمان ہوگیا، جس دن وہ عیسائی مسلمان ہوا اسی رات سحر کے وقت اس کے دروازے پر کسی نے کھٹکھٹایا، وہ عیسائی پریشان ہوگیا اور پوچھا کون ہے؟ باہر سے آواز آئی کہ میں تمھارا مسلمان پڑوسی ہوں، عیسائی نے پوچھا کہ رات کے اس وقت تمھیں مجھسے کیا کام ہے؟ مسلمان نے کہا کہ وضو کرو اور میرے ساتھ مسجد چلو وہاں پر نماز شب اور سحر کی عبادتوں کو انجام دینا ہے۔ وہ عیسائی جو مسلمان ہوگیا تھا اس مسلمان کے ساتھ مسجد کی جانب روانہ ہوگیا اور وہیں پر صبح کی طلوع ہونے تک عبادتوں میں مصرورف رہا۔ اس کے بعد وہ جدید مسلمان اپنے گھر جانے لگا تو مسلمان نے کہا: کہاں جارہے ہو نافلہ پڑھو اور قرآن کی تلاوت کرو! نو مسلمان، نافلہ اور قرآن کو پڑھنے میں مصروف ہوگیا، اس کے بعد جب وہ اپنے گھر جارہا تھا تو مسلمان نے کہا کہ آج روزہ کی نیت کرو کیونکہ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ آہستہ آہستہ ظھر کا وقت جب نزدیک ہوگیا تو وہ نو مسلمان گھر جانے لگا تو مسلمان نے کہا تھوڑا صبر کرلو تاکہ ظھر کی نماز جماعت سے اداء کرلیں، اسی طرح مغرب تک اس مسلمان نے نئے مسلمان کو ان چیزوں میں مصروف رکھا اور اس کے بعد وہ لوگ اپنے اپنےگھر واپس ہوگئے۔دوسری رات سحر کے وقت اس نئے مسلمان کے دروازے کو کسی نے کھٹکھٹایا، اس نے پوچھا کون ہے؟مسلمان نے کہا کہ میں تمھارا مسلمان پڑوسی ہوں، اس لئے آیا ہوں تاکہ تمھیں مسجد لیکر جاؤ۔نئے مسلمان نے کہا: میں کل رات جب مسجد سے واپس لوٹا، اسی وقت میں نے تمھارے دین کو چھوڑ دیا تھا۔ جاؤ ایک بیکار آدمی کی تلاش کرو جو سارا دن مسجد میں گزار سکے، میں ایک فقیر آدمی ہوں مجھے اپنے بیوی بچوں کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔امام صادق(علیہ السلام) نے اس واقعہ سے نتیجہ لیتے ہوئے فرمایا: اس مسلمان نے ایک نئے مسلمان پر اتنی سختی کی کہ اس نے اسلام کو ہی چھوڑ دیا، خبردار تم لوگ، دوسروں پر اس طرح کی سختی نہ کرنا، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرے اور ہماری طرح اعتدال کے ساتھ اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہو۔(وسائل الشیعه، ج۱۶، ص۱۶۱)

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button