خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:293)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 14 مارچ 2025 بمطابق 13 رمضان المبارک 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ماہ رمضان، بہارِ قرآن
ماہ رمضان کو قرآن کا مہینہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے میں اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ.”
"رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں،”(سورۃ البقرہ: 185)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ماہِ رمضان اور قرآن کریم کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ یہ مہینہ قرآن کی طرف خصوصی توجہ دلانے کا مہینہ ہے، کیونکہ اس کے نزول کا مقصد انسانوں کو ہدایت دینا اور ان کے لیے حق کا راستہ واضح کرنا ہے۔
اسی طرح حدیث میں ماہ رمضان کو قرآن کی بہار کہا گیا ہے:
لِكُلِّ شَيْءٍ رَبِيعٌ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَانَ
ہر چیز کی ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔
ماہ رمضان میں تلاوت قرآن کی فضیلت
رمضان میں قرآن کی تلاوت کی فضیلت کو اہل بیت کرام (علیہم السلام) نے بھی خاص طور پر واضح کیا ہے۔حدیث میں ہے:
"مَنْ قَرَأَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ آیَةً مِنْ كِتَابِ اللَٰهِ كَانَ لَهُ كَأَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِهِ.” (کشف الغمہ، جلد 2، صفحہ 396)
"جو شخص رمضان کے مہینے میں قرآن کی ایک آیت پڑھتا ہے، اس کو دوسرے مہینوں میں پورا قرآن ختم کرنے والا کا اجر ملتا ہے۔”
یہ حدیث واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن کی تلاوت کا اجر باقی مہینوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس مہینے میں قرآن کی تلاوت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ترجمہ و تفسیر کے ساتھ مطالعہ کی اہمیت:
اکثر لوگ ماہ رمضان میں کثرت سے تلاوت قرآن کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیل نہیں آتی اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جس آیت کی تلاوت کر رہے ہوں عملی زندگی میں اس آیت والے حکم کی مخالفت کر رہے ہوں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ تلاوت تو کرتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ قرآن میں کیا کہا گیا ہے۔ لہذا واضح ہوتا ہے کہ صرف قرآن کی تلاوت کافی نہیں بلکہ اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کوہماری ہدایت کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ پس اس کا معنی سمجھنے کے بغیر ہم اس سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔
صرف تلاوت ہی کافی نہیں، بلکہ قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ(سورہ ص، آیت 29)
ترجمہ: "یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔”
اسی طرح مشہور حدیث ہے:
"خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.”
ترجمہ: "تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔”
یہ حدیث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قرآن کے الفاظ کو جاننا اور اس کے معنی سمجھنا اور اس کی تعلیم دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس لیے رمضان کے دنوں میں ہمیں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کے مطالعہ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ هُوَ النُّورُ الْمُبِينُ، فَاعْرِفُوا فِيهِ رَبَّكُمْ وَاتَّبِعُوهُ.”(نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 110)
ترجمہ: "یہ قرآن واضح نور ہے، اس میں اپنے رب کو پہچانو اور اس کی پیروی کرو۔”
مزید فرمایا: "تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَحْسَنُ الْحَدِيثِ، وَتَفَقَّهُوا فِيهِ فَإِنَّهُ رَبِيعُ الْقُلُوبِ”
ترجمہ: "قرآن سیکھو، کیونکہ یہ بہترین کلام ہے، اور اس میں غور و فکر کرو ، کیونکہ یہ دِلوں کی بہار ہے۔”
اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے الفاظ کو صرف پڑھنا کافی نہیں بلکہ اس کے مفہوم کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔تاکہ اپنے رب کی پہچان حاصل ہو اور یہ بھی جان لیں کہ ہمارے رب نے ہمیں قرآن میں کیا احکامات دیئے ہیں تاکہ ا ن کی پیروی کر سکیں۔
قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے فوائد
1. روحانی ترقی: ماہ رمضان میں قرآن کی تلاوت اور اس کے معنی سمجھنا ایک شخص کی روحانی ترقی میں کافی مدد دیتا ہے۔کیونکہ اس طرح وہ شخص کلام خدا سے ڈائریکٹ منسلک ہو جاتا ہے۔
2. گناہوں کی معافی: رمضان میں قرآن کی تلاوت کے ذریعے گناہوں کی معافی کا وعدہ ہے۔ روایت میں ہے:
"مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ غُفِرَ لَهُ.” (بحار الانوار، جلد 93، صفحہ 342)
ترجمہ: "جو شخص رمضان میں قرآن پڑھتا ہے، اس کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔”
3. ہدایت: قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔اگر ہم اسے سمجھ کر پڑھنا جاری رکھیں تو یہ ہماری ہدایت کا بہترین ذریعہ ہے۔
4. آخرت کی تیاری:قرآن کے الفاظ کو سمجھ کر پڑھنے سے آخرت کی بھی تیاری ہوتی ہے کیونکہ قرآن کا ایک بڑا حصہ آخرت کی زندگی سے متعلق ہے۔
پس ہمیں چاہیے کہ روزانہ قرآن مجید ترجمہ و تفسیر کے ساتھ سمجھ کر پڑھنا شروع کریں اور اس پر عمل کرنا شروع کریں۔
حضرت جعفر الصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، أَدْخَلَهُ اللّٰهُ الْجَنَّةَ وَأَدْخَلَ مَعَهُ عَشَرَةً مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ.”
ترجمہ: "جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کے ساتھ اس کے گھر کے دس افراد بھی جنت میں داخل کیے جائیں گے۔”(بحار الانوار، جلد 92، صفحہ 105)
قرآن کو تدبر کے ساتھ پڑھنے کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ امام باقرؑ سے منقول ہے:
"لَا شَيْءَ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ بِالتَّدَبُّرِ”( بحار الانوار، جلد 89، صفحہ 191)
ترجمہ: "شیطان پر سب سے زیادہ سخت چیز قرآن کی تلاوت تدبر کے ساتھ کرنا ہے۔”
عملی اقدامات:
ماہِ رمضان کو بہارِ قرآن بنانے کے لیے چند عملی اقدامات ضروری ہیں۔اس میں آپ اپنی سہولت سے مزید اضافہ بھی کرسکتے ہیں:
1. روزانہ تلاوت کا معمول: ہر روز کم از کم ایک پارہ پڑھنے کی کوشش کریں۔
2. ترجمہ و تفسیر کا مطالعہ: معتبر تفاسیر جیسےتفسیر الکوثر یا تفسیر نمونہ سے استفادہ کریں۔
3. تدبر و عمل: آیات کے معانی پر غور کریں اور انہیں اپنی زندگی میں نافذ کریں۔
4. دعا: اللہ سے قرآن کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق مانگیں۔
تاریخی مناسبت: ولادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
امام حسن علیہ السلام 15 رمضان المبارک سنہ 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ آپ کا نام رسولِ خدا نے "حسن” رکھا، جو عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنی خوبصورتی ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"حَسَنٌ وَحُسَینٌ سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ”
ترجمہ: "حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔”
1. امام حسن علیہ السلام کی سخاوت
امام حسن علیہ السلام کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو آپ کی بے مثال سخاوت ہے۔ آپ اپنا مال غرباء و مساکین پر خرچ کرتے اور کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا” (سورۃ الإنسان: 8)
ترجمہ:”اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔”
مفسرین کے مطابق یہ آیت اہلِ بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی، جن میں امام حسن علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے تین بار اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں تقسیم کیا اور خود کفاف پر اکتفا کیا۔
2. صبر و حلم
امام حسن علیہ السلام کو "حلیم” کہا جاتا ہے، یعنی بردبار اور صابر۔ آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے مصائب برداشت کیے، لیکن کبھی اپنے حلم و ضبط کو نہ چھوڑا۔
امام حسن علیہ السلام کے حلم کا سب سے مشہور واقعہ ایک شامی شخص سے متعلق ہے۔ روایت کے مطابق، ایک دن امام حسن علیہ السلام مدینہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک شامی شخص، جو دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر تھا، آپ کے پاس آیا اور آپ کو گالیاں دینے لگا۔ وہ آپ کے خاندان اور شخصیت پر بے جا الزامات لگاتا رہا۔ لیکن امام حسن علیہ السلام خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے اور کوئی سخت جواب نہ دیا۔ جب وہ شخص تھک گیا، تو امام نے نرمی سے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا:
"يَا هَذَا، إِنْ كُنْتَ غَرِيبًا فَقَدْ ضَلَلْتَ الطَّرِيقَ، وَإِنْ كُنْتَ جَائِعًا فَسَنُطْعِمُكَ، وَإِنْ كُنْتَ عَارِيًا فَسَنَكْسُوكَ، فَتَعَالَ إِلَى دَارِنَا وَكُنْ ضَيْفَنَا”(بحار الانوار، جلد 43، صفحہ 344)
ترجمہ: "اے شخص! اگر تو اجنبی ہے تو یقینا تو راستہ بھول گیا ہے، اگر تو بھوکا ہے تو ہم تجھے کھانا کھلائیں گے، اگر تو بے لباس ہے تو ہم تجھے لباس دیں گے، آ ہمارے گھر چل اور ہمارا مہمان بن۔”
اس نرمی اور محبت بھرے جواب نے شامی کو شرمندہ کر دیا۔ وہ رو پڑا اور کہنے لگا: "میں آپ سے نفرت کرتا تھا، لیکن آج مجھے معلوم ہوا کہ آپ ہی حق پر ہیں۔” اس واقعے سے امام کا حلم اور اعلیٰ اخلاق واضح ہوتا ہے، جو قرآن کے اس حکم کی عملی تفسیر ہے:
"ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ”(سورۃ فصلت: 34)
ترجمہ: "آپ (برائی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔”
سبق: مومنین اس واقعے سے سیکھ سکتے ہیں کہ جب کوئی ان سے بدسلوکی کرے، تو اس کا جواب نرمی اور احسان سے دینا چاہیے، کیونکہ یہ دلوں کو بدلنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
امام علیہ السلام نے خود ایک مقام پہ فرمایا: "الْحِلْمُ زَینَةُ الْعِلْمِ”(بحار الانوار، جلد 78، صفحہ 102)
ترجمہ: "حلم علم کی زینت ہے۔”
3. عبادت و زہد
امام حسن علیہ السلام کی عبادت کا عالم یہ تھا کہ آپ 25 بار پیدل حج کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ راتوں کو عبادت میں گزارتے اور دن کو روزہ رکھتے۔
4. صلحِ حسن اور حکمتِ عملی
امام حسن علیہ السلام کی صلح آپ کی سیاسی بصیرت اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کے لیے حکمتِ عملی کا شاہکار تھی۔ اس صلح کا مقصد خونریزی سے بچنا اور دین کی حفاظت تھا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَالصُّلْحُ خَيْرٌ”(سورۃ النساء: 128) ترجمہ: "اور صلح بہتر ہے۔”
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:
"لَوْ لَمْ أَصْنَعْ ذَلِكَ لَمَا تَرَكَ مِنْ شِيعَتِنَا أَحَدٌ إِلَّا ذُبِحَ”(بحار الانوار، جلد 44، صفحہ 21)
ترجمہ: "اگر میں یہ نہ کرتا تو ہمارے شیعوں میں سے کوئی زندہ نہ بچتا، سب ذبح کر دیے جاتے۔”
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭