خطبات جمعہمکتوب خطبات

 خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:277)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 22 نومبر 2024ء بمطابق 19 جمادی الاول 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: عیب جوئی
دین مبین اسلام نے معاشرے کے اندر امن سکون اور وحدت کی حفاظت کے لئے زندگی کے اندر مختلف اصول و آداب وضع کیے ہیں جن کا خیال رکھ کر معاشرے کو پرامن معاشرہ بنایا جاسکتا ہے۔آج اگر ہمارے معاشرے بالخصوص مسلمان معاشرے میں بدامنی و بے سکونی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود مسلمان ہیں کیونکہ ہم اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو بھلائے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی زندگی پر عملی طور پر لاگو نہیں کرتے۔
ہمارے معاشرے میں انسانوں کے درمیان بہت سی اخلاقی برائیوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے آگاہ نہیں ہے۔اپنی ذات سے جہالت کی وجہ سے بہت سی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں۔انہی بڑی اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائی عیب جوئی ہے۔یعنی دوسرے کے عیب تلاش کرنا اور انہیں معاشرے میں پھیلا کر اس شخص کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔اسلام نے اس کی سختی سے مذمت کی ہے۔قرآن میں ارشاد ہے:
وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ
ہر طعنہ دینے والے عیب گو کے لیے ہلاکت ہے۔(سورۃ ھمزہ آیۃ1)
اسلام نے احترام آدمیت کو بہت اہمیت دی ہے۔انسان کی عزت و شرافت کو پامال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی۔ہاں اگر کوئی خود اپنی عزت کا خیال نہ رکھتا ہو اور کھلم کھلا برائی کرتا ہو تو وہ اپنی عزت خود ہی برباد کردیتا ہے۔ ورنہ اسلام کے نزدیک دوسرے کو طعنے مارنا اور ان کے عیب تلاشش کرنا اور انہیں پھیلانا اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے اور حرام کام ہے۔
” ابن عباس “کی ایک روایت میں آیاہے کہ وہ ان دونوں کی تفسیر میں اس طرح کہاکرتے تھے:
” ھم المشاوٴون بالنمیمة، المفرقون بین الاحبة، الناعتون للناس بالعیب“۔
” یہ وہ لوگ ہیں جوچغل خوری کرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں اور لوگوں میں عیب نکالتے ہیں “۔۔۔۔گویا ابن عباس نے اس بات کا اس حدیث سے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے استفادہ کیا ہے ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
” أَ لاَ أُنَبِّئُكُمْ بِشِرَارِكُمْ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اَللّٰهِ قَالَ اَلْمَشَّاءُونَ بِالنَّمِيمَةِ اَلْمُفَرِّقُونَ بَيْنَ اَلْأَحِبَّةِ اَلْبَاغُونَ لِلْبُرَآءِ اَلْمَعَايِبَ “
” کیا میں تمہیں شریر ترین افراد کی خبر نہ دوں؟ انہوں نے کہا : ہاں اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا: وہ لوگ جو بہت زیادہ چغل خوری کرتے ہیں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں اور پاکیزہ و بے گناہ افراد کے عیوب کی جستجو میں رہتے ہیں۔ (الکافي , جلد۲ , صفحه۳۶۹)
عیب نکالنے کی دنیوی سزا:
احادیث میں عیب جوئی کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔بعض احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص دوسروں کے عیب ٹٹولتا رہتا ہے اللہ تعالی اس بندے کے اپنے عیب لوگوں کے سامنے ظاہر کر کے اسے رسوا کر دیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تَتَّبِعوا عَوراتِ المُؤمِنينَ ؛ فإنَّهُ مَن تَتَبَّعَ عَوراتِ المُؤمِنينَ تَتَبَّعَ الله ُعَورَتَهُ ، ومَن تَتَبَّعَ اللهُ عَورَتَهُ فَضَحَهُ ولَو في جَوفِ بَيتِهِ.(ثواب الأعمال : ۲ / ۲۸۸ / ۱)
مومنین کے عیوب تلاش نہ کرو کیونکہ جو مومنوں کے عیب تلاش کرتا ہے، اللہ اس کے عیبوں کو ظاہر کردے گا۔اور جس کے عیب اللہ ظاہر کر دے وہ رسوا ہو جاتا ہے خواہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح معاشرے میں مکافات عمل کے تحت بھی لوگوں کے عیب اچھالنے والے کو ایک دن سزا مل جاتی ہے۔ مولا علی علیہ السلام اس بابت فرماتے ہیں:
مَن عابَ عِيبَ ، ومَن شَتَمَ اُجيبَ۔ (كنز الفوائد : ۱ / ۲۷۹)
جو دوسروں کو عیب لگاتا ہے لوگ اس کو عیب لگاتے ہیں اور جو کسی کو گالی دیتا ہے اس کا جواب بھی سن لیتا ہے۔
عیب تلاش کرنے ولا اللہ کی رحمت سے دور:
اسی طرح لوگوں کے عیب تلاش کرنے والا اللہ تعالی سے دور ہوجاتا ہے یعنی اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
أبعَدُ ما يَكونُ العَبدُ مِنَ الله أن يَكونَ الرَّجُلُ يُواخي الرَّجُلَ وهُوَ يَحفَظُ (علَيهِ) زَلاّتِهِ لِيُعَيِّرَهُ بِها يَوما ما۔ (الكافي : ۲ / ۳۵۵ / ۷)
بندہ اپنے اللہ سے اس وقت بہت دور ہو جاتا ہے جب وہ کسی انسان سے بھائی چارہ کرے اور اس کی لغزشوں کو یاد رکھے تاکہ کسی دن یہ عیب اس کے منہ پر ظاہر کر دے۔
عیب کے بجائے خوبی دیکھیں:
یہ درست ہے کہ کوئی انسان عیب سے پاک نہیں ۔کوئی معصوم عن الخطاء نہیں۔لیکن عیوب کے ساتھ ساتھ ہر انسان میں کئی خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔لہذا ہمیں عیب چھوڑ کر دوسروں کی خوبیوں پہ بات کرنی چاہیے اور عیب چھپانے چاہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے:
أنّ عيسى مَرَّ و الحَوارِيّونَ عَلى جيفَةِ كَلبٍ ، فقالَ الحَوارِيّونَ : ما أنتَنَ ريحَ هذا الكَلبَ ! فقالَ عيسى ع : ما أشَدَّ بَياضَ أسنانِهِ !۔(تنبيه الخواطر : ۱ / ۱۱۷)
حضرت عیسی اپنے حواریون کے ساتھ ایک مردار کتے پر سے گزرے تو حواریوں نے کہا: کس قدر بدبودار ہے یہ کتا! حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: کس قدر سفید ہیں اس کے دانت۔
یعنی حضرت عیسیٰؑ انہیں تعلیم دے رہے تھے کہ تمہیں اس کا عیب بیان کرنے کی بجائے اس کی خوبی بیان کرنی چاہیے تھی۔
اسی طرح روایات میں بعض ایسی چیزیں بھی بیان ہوئی ہیں جو انسان کے عیب چھپائے رکھتی ہیں:
مَن كَساهُ الحَياءُ ع ثوبَهُ ، لَم يَرَ النّاسُ عَيبَهُ۔ (نهج البلاغة : الحكمة 214)
جس کو حیا نے لباس پہنا دیا ہے اس کے عیب لوگوں کے سامنے نہیں آ سکتے۔
اسی طرح انسان کا علم بھی اس کے عیب چھپائے رکھتا ہے۔ مولا علی علیہ السلام ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں:
مَن كساهُ العِلمُ ع وبَهُ ، اختَفى عَنِ النّاسِ عَيبُهُ۔(تحف العقول : ۲۱۵)
جس کو علم نے لباس پہنا دیا ہے لوگوں سے اس کے عیب چھپے رہتے ہیں۔

تنہائی میں عیب بتانے کی تاکید:
البتہ ہر حال میں عیب چھپانا بھی ضروری نہیں۔ بلکہ لوگوں کے عیب اگر انہیں خلوت و تنہائی میں اور لوگوں سے الگ ہو کر بتائے جائیں تو وہ زیادہ موثر و مناسب ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام اس طرح سے بیان کیے گئے عیبوں کو ایک ہدیہ و تحفہ سمجھتے ہیں، فرمایا:
أحَبُّ إخواني إلَيَّ مَن أهدى إلَيَّ عُيوبي۔ (تحف العقول : ۳۶۶)
میرا محبوب ترین بھائی وہ ہے جو مجھے میرے عیوب کا ہدیہ دے (مجھے میرے عیبوں سے آگاہ کرے، لیکن تنہائی میں نہ کہ سب کے سامنے)۔
اسی بابت امام علی علیہ السلام ایک اہم نکتہ بیان فرماتے ہیں:
مَن كاشَفَكَ في عَيبِكَ حَفِظَكَ في غَيبِكَ ، مَن داهَنَكَ في عَيبِكَ عابَكَ في غَيبِكَ۔
(غررالحكم : ۸۲۶۰ ، ۸۲۶۱)
جو تیرےسامنے تیرے عیب بیان کرے وہ تیری غیر حاضری میں تیری حفاظت کرے گا اور جو تیرے سامنے تجھ سے فریب کاری کرے (اور تجھے تیرے عیب نہ بتائے) وہ تیری غیر حاضری میں تیری عیب جوئی کرے گا۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ بَصَّرَكَ عَيْبَكَ فَقَدْ نَصَحَكَ”، "جو شخص تمہارا عیب تمہیں دکھائے یقیناً اس نے تمہاری خیرخواہی کی ہے”۔ [غررالحکم، ص۵۷۹، ح۱۲۳]
انسان جب اپنا عیب کسی کی زبان سے سنتا ہے تو کم از کم دو سوچیں ذہن میں آسکتی ہیں جن میں سے ایک سوچ غلط ہے اور دوسری سوچ صحیح ہے:
۱۔ اسے اس کا عیب کیوں بتا دیا گیا!
۲۔ عیب کو ختم کرنا چاہیے یا نہیں؟
ان دو سوچوں میں سے پہلی سوچ اس لیے غلط ہے کہ آدمی اپنا عیب سننے میں تکلیف محسوس کررہا ہے کہ اسے اس کا عیب کیوں بتا دیا گیا ہے، جبکہ اسے چاہیے کہ عیب بتانے والے کو اپنا خیرخواہ سمجھے۔
دوسری سوچ پر انتہائی توجہ کرنی چاہیے، یعنی آدمی سوچے کہ میرے اندر یہ عیب پایا جاتا ہے اور عیب بری چیز ہے جسے ختم کرنا چاہیےلہذا تکلیف اس سے ہونی چاہیے کہ یہ عیب میرے اندر کیوں ہے اور جلد از جلد اسے اپنے اندر سے ختم کروں، نہ یہ کہ مجھے میرا عیب کیوں بتا دیا گیا۔
عیب چھپانے کا اجر:
مومن کے عیب چھپانا بہت بڑا اجر ہے۔اس بابت احادیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔
رسولُ اللّٰهﷺ: مَن سَتَرَ عَلى مُؤمِنٍ خِزيَةً فكأنَّما أحيا مَوؤودَةً مِن قَبرِها.(كنزالعمّال : ۶۳۸۷)
جو شخص کسی مومن کی کوئی رسوا کن برائی چھپائے تو گویا اس نے کسی زندہ دفن لڑکی کو نجات دی۔
امام محمد باقر علیہ السلام :
يَجِبُ لِلمُؤمِنِ عَلَى المُؤمِنِ أن يَستُرَ علَيهِ سَبعينَ كَبيرَةً !۔ (الكافي : ۲ / ۲۰۷ / ۸)
ایک مومن کی طرف سے دوسرے مومن پر واجب ہے کہ اس کے ستر کبیرہ گناہوں کو چھپائے۔
رسولُ اللّٰهﷺ :
مَن عَلِمَ مِن أخيهِ سَيِّئَةً فسَتَرَها ، سَتَرَ اللّٰهُ علَيهِ يَومَ القِيامَةِ۔ (الترغيب والترهيب : ۳ / ۲۳۹ / ۷)
جس شخص کو اپنے کسی بھائی کی برائی کا علم ہو جائے اور وہ اسے چھپائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
سب سے بڑا عیب:
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو تمام عیوب سے پاک پیدا ہوتا ہے، آہستہ آہستہ وہ گناہ کے ذریعہ اپنے آپ کو معیوب کرتا چلا جاتا ہے، عیوب کئی طریقہ کے ہیں، جن میں سے کچھ، زبان کے عیب ہیں جیسے گالی دینا، تہمت لگانا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، دوسروں کی شخصیت کو پامال کرنا۔۔ اسی طرح دل کے عیب جیسے حسد، بخل، کینہ، بغض، وغیرہ۔ اسی طرح، روح کے عیب جیسےخود کو بڑا سمجھنا، تکبر، غرور وغیرہ۔ جب انسان کے اندر یہ گناہ راسخ ہوجاتے ہیں تو اس سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اسی لئے بہتر ہے کہ انسان اپنے آپ کو ان عیوب سے پاک اور صاف رکھے۔
اسی طرح بعض لوگ دوسروں کے اندر موجود کسی خامی کو بہت برا کہہ رہے ہوتے ہیں اور اس پر مزاق بنا رہے ہوتے ہیں جبکہ اسی جیسی کوئی برائی خود اس بندے کے اپنے اندر موجود ہوتی ہے،اس چیز کو روایات میں سب سے بڑا عیب کہا گیا ہے:
امام علی(علی السلام) عیب کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں:
امام علی علیہ السلام:أكبَرُ العَيبِ أن تَعيبَ مافيكَ مِثلُه۔ (نهج البلاغة )
سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو برا کہو جو خود تمھارے اندر موجود ہو۔
رسولُ اللّٰهﷺ :كَفى بِالمَرءِ عَيبا أن يَنظُرَ مِنَ النّاسِ إلى ما يَعمى عَنهُ مِن نَفسِهِ ، ويُعَيِّرَالنّاسَ بِما لا يَستَطيعُ تَركَهُ ، ويُؤذي جَليسَهُ بِما لا يَعنيهِ۔ (الخصال : ۱۱۰ / ۸۱)
انسان کے لیے اتنا ہی عیب کافی ہے کہ وہ لوگوں کے ان عیوب کو دیکھتا ہے جن عیوب سے اپنی ذات کے لیے اندھا بن جاتا ہے ، لوگوں کو ان عیوب پر طعن و تشنیع کرتا ہے جن کے ترک کرنے کی خود قدرت نہیں رکھتا اور اپنے ہم نشین کو ایسی باتوں سے دکھ پہنچاتا ہے جو اس کے کام کی نہیں ہوتیں۔
اپنے عیب تلاش کریں:
اسی طرح بہت سی روایات میں تاکید کی گئی ہے کہ انسان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے کی بجائے اپنے عیب تلاشش کرتا رہے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
امام علی علیہ السلام:مَن أبصَرَ عَيبَ نَفسِهِ شُغِلَ عَن عَيبِ غَيرِه۔ (تحف العقول : ۸۸)
جو اپنے عیبوں کو دیکھتا ہے اسے دوسروں کے عیبوں کی فرصت نہیں ملتی۔
امام جعفرصادق علیہ السلام: أنفَعُ الأشياءِ لِلمَرءِ سَبقُهُ النّاسَ إلى عَيبِ نَفسِهِ۔ (الكافي : ۸ / ۲۴۳ / ۳۳۷)
انسان کے لیے سب سے زیادہ مفید بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کی عیب گیری سے پہلے اپنی عیب گیری کرے۔
عیب جوئی کے بارے چند مزید احادیث:
عیب جوئی سے متعلق یہ چند احادیث حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے مروی ہیں:
"تَتَبُّعُ الْعُیُوبِ‏ مِنْ أَقْبَحِ الْعُیُوبِ‏ وَ شَرِّ السَّیِّئَاتِ”، "عیبوں کو تلاش کرنا سب سے برا عیب ہے اور بدترین گناہ ہے”۔ [غررالحکم، ص۳۲۵، ح۱۱۹]
آپؑ فرماتے ہیں: "ألحسدُ رأسُ العُيوبِ”، "حسد عیبوں کی بنیاد ہے”۔ [غررالحکم، ص۳۸، ح۶۱۰]
آپؑ فرماتے ہیں: "ألكبرُ شَرُّ العُيوبِ”، "تکبر، بدترین عیب ہے”۔ [غررالحکم، ص ۳۸، ح۶۱۱]
"إِيَّاكَ وَ الْكِبْرَ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ الذُّنُوبِ وَ أَلْأَمُ الْعُيُوبِ وَ هُوَ حِلْيَةُ إِبْلِيسَ”، "تکبر سے پرہیز کرو کیونکہ وہ سب سے بڑا گناہ ہے، سب سے زیادہ لائقِ مذمت عیب ہے اور وہ ابلیس کا زیور ہے”۔ [غررالحکم، ص۱۶۶، ح۲۲]
آپؑ فرماتے ہیں:
"ألكِذْبُ عَيْبٌ فاضِحٌ”، "جھوٹ بولنا، رسوا کرنے والا عیب ہے”۔ [غررالحکم، ص۳۷، ح۶۰۵]
آپؑ فرماتے ہیں:
"قِلَّةُ العَفوِ أقبَحُ العُيوبِ”، "تھوڑا معاف کرنا سب سے برا عیب ہے”۔ [غررالحکم، ص۵۰۰، ح۵۴]
آپؑ فرماتے ہیں: "کَثْرَةُ الْأَکْلِ مِنَ الشَّرَهِ وَ الشَّرَهُ شَرُّ الْعُیُوبِ”، "زیادہ کھانا لالچ کے غلبہ سے (جنم لیتا) ہے، اور لالچ کا غلبہ بدترین عیب ہے”۔ [غررالحکم، ص۵۲۶، ح۲۹]

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button