خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:141)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 25 مارچ 2022ء بمطابق 21 شعبان 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ماہ مبارک رمضان انسان ساز مہینہ سال میں ایک بار ہمارے گناہوں کی بخشش کا ساماں لیکر آتا ہے، اس ماہ میں عبادت و ریاضت، تلاوت و نماز، نوافل و دعائوں اور خداوند کریم و مہربان سے راز و نیاز کرنے کے بے بہا مواقع میسر ہیں، رحمت باری تعالیٰ ہر لحظہ بحر بیکراں بنی ہے اور بخشش و جود و سخا کے دریا چل رہے ہوتے ہیں، اس ماہ میں جہاں ہر لحضہ تقویٰ الہیٰ کے حصول کا بہترین موقعہ میسر رہتا ہے۔لہٰذا استقبال ماہ رمضان کے طور پر ہمیں تقوی و پرہیزگاری کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا تاکہ ہم اس مہینے کی برکت سے وہ تقوی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو روزوں کے وجوب کا بہت اہم اور سب سے بڑا مقصد ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ
اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔(البقرہ:183)۔
لغت میں تقوی کے معنی: ہر اس چیز سے کہ جو مضر اور نقصان دہ ہے بچنے اور پرہیز کرنے کو تقوی کہا جاتا ہے۔
جبکہ دین میں تقویٰ کی اصطلاح سے مراد انسان کا اپنے آپ میں گناہ سے بچنے کا ملکہ(ٹھوس صلاحیّت) پیدا کرنا ہے۔ یعنی اپنے اندر گناہوں سے بچنے کی ٹھوس صلاحیّت پیدا کرنے کا نام تقویٰ ہے۔
تقوی کی حقیقی صورت قرآن اور کلام معصومؑ میں:
ایک جوان ہمیشہ اپنی نوجوانی کے عالم میں دوراہے پرہوتاہے، دو متضاد قوتیں اسے کھینچتی ہیں۔ ایک طرف تو اس کا اخلاقی اور الہی ضمیر ہے جواسے نیکیوں کی طرف ترغیب دلاتا ہے۔ دوسری طرف نفسانی غریزے، نفس امارہ اورشیطانی وسوسے اسے خواہشات نفسانی کی تکمیل کی دعوت دیتے ہیں۔ عقل و شہوت، نیکی و فساد،پاکی و آلودگی، اس جنگ اورکشمکش میں وہی جوان کامیاب ہوسکتاہے جو ایمان اور تقوی کے اسلحہ سے لیس ہو۔یہی تقوی تھا کہ حضرت یوسف، عزم مصمم سے الہی امتحان میں سربلند ہوئے اور پھر عزت و عظمت کی بلندیوں کوچھوا۔ قرآن کریم، حضرت یوسف کی کامیابی کی کلید، دو اہم چیزوں کو قرار دیتا ہے، ایک تقوی اور،دوسرا صبر۔ ارشادہے:” إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَ يَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنينَ(سورہ یوسف:90)۔اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ہے:” ذلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئاتِهِ وَ يُعْظِمْ لَهُ أَجْرا"(طلاق/5) یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیاں اس سے دور کر دے گا اور اس کے لیے اجر کو بڑھا دے گا۔
ایک مقام پر متقیوں کے اجر عظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: ” وَ إِنْ تُؤْمِنُوا وَ تَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظيمٌ( آل عمران/ 179)گر ایمان و تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے لئے اجر عظیم ہے۔
حضرت علی (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: ” يَا بُنَيَّ أَنَّ أَحَبَّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِهِ إِلَيَّ مِنْ وَصِيَّتِي تَقْوَى اللَّہ (نہج البلاغہ، امام حسن ؑ کو وصیت)بیٹا! جان لوکہ میرے نزدیک سب زیادہ محبوب چیزاس وصیت نامے میں تقوی الہی ہے جس سے تم وابستہ رہو۔امام جعفرصادق ؑ نے عمرو بن سعید سے بطور نصیحت فرمایا: اُوصيكَ بتَقوَى الله والوَرَعِ والاجتِهادِ ، واعلَم أ نّهُ لا يَنفَعُ اجتِهادٌ لا وَرَعَ فيهِ .(بحارالانوار : ۷۰ / ۲۹۶ / ۱)
میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، پرہیزگاری اور جدوجہد کی وصیت کرتا ہوں اور یادرکھو جس جدوجہد میں پرہیزگاری نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔جبکہ امام علی ؑ فرماتے ہیں:لا خَيرَ في نُسُكٍ لا وَرَعَ فيهِ . (المحاسن : ۱ / ۶۵ / ۹) جس عبادت میں پرہیزگاری نہ ہو اس میں کوئی اچھائی نہیں۔ایک اور مقام پہ فرمایا: اِتَّقِ اللہَ بَعضَ التُّقى وإن قَلَّ ، واجعَلْ بَينَكَ وبَينَ الله سِترا وإن رَقَّ . (نهج البلاغة : الحكمة ۲۴۲)اللہ سے کچھ تو ڈرو چاہے وہ کم ہی ہو اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو چاہے باریک سا ہی ہو۔
تقوی ایک مضبوط قلعہ
جوانوں کے لئے تقوی کی اہمیت اس وقت اجاگر ہوتی ہے جب زمانۂ جوانی کے تمایلات، احساسات اور رجحانات کو مدنظر رکھاجائے۔ وہ جوان جو جذبہ، خواہشات نفسانی، تخیلات اورتند و تیز احساسات کے طوفان سے دوچار ہوتا ہے، ایسے جوان کے لئے تقوی ایک نہایت مضبوط ومستحکم قلعے کی مانند ہے جو اسے دشمنوں کی تاخت وتاراج سے محفوظ رکھتا ہے، یہ تقوی ایک ایسی ڈھال کی طرح ہے جوشیاطین کے زہرآلود تیروں سے جسم کو محفوظ رکھتی ہے۔
امام فرماتے ہیں:اعلمواعباداللہ ان التقوی دارحصن عزیز۔(نہج البلاغہ خطبہ ١٥٧) اے اللہ کے بندو! جان لوکہ تقوی ناقابل شکست قلعہ ہے۔
پھر ایک خطبے میں آپ کا ارشاد مبارک ہے: فَإِنَّ تَقْوَى اللَّهِ مِفْتَاحُ سَدَادٍ وَ ذَخِيرَةُ مَعَادٍ وَ عِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ وَ نَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ(نہج البلاغہ خ:227)۔تقویٰ ہر دروازے کو کھولنے کی کنجی اورقیامت کے لیے ذخیرہ ہے اور شیطان کی ہرطرح کی غلامی سے آزادی کا باعث ہے اور ہر ہلاکت سے نجات ہے۔
ایک خطبے میں تقوی کو مضبوط سہارا قرار دیتے ہوئے فرمایا:اُوصِيكُم عِبادَ الله بتَقوَى الله ، فإنَّها الزِّمامُ والقِوامُ ، فتَمَسَّكوا بوَثائقِها ، واعتَصِموا بحَقائقها .(نهج البلاغة : الخطبة ۱۹۵)
اے اللہ کے بندو! میں تمہیں خوفِ خدا کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ یہ سعادت کی باگ ڈور اور دین کا مضبوط سہارا ہے۔ اس کے بندھنوں سے وابستہ رہو اور اس کی حقیقتوں کو مضبوطی سے پکڑو۔
اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ تقوی و پرہیزگاری ایک ایسی صفت اور ملکہ ہے کہ اگر کسی میں یہ صفت اور ملکہ راسخ ہوجائے تو بہت سے باطنی امراض سے بچنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر قوت ارادی پیدا ہوجاتی ہے اور شیطان کے دام اور جال سے بچنے کا طریقہ معلوم ہوجاتا ہے اور سب سے بڑٰی بات یہ ہے کہ وہ انسان خدا سے قریب ہوجاتا ہے۔
انسان جب گناہ کرے اور اگر خدانخواستہ اس گناہ کے بعد توبہ نہ کرے تو وہ اس کا ایک گناہ اسے دوسرے گناہ کرنے کی طرف ابھارتا ہے اور طرح یہ گناہوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اسی لئے اگر خدانخواستہ ہم سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم جلدی سے جلدی اس گناہ سے توبہ کرلیں تاکہ اور گناہ ہمارے دامن گیر نہ ہو، کیوں کہ اس طرح انسان گناہوں میں ڈوبتا چلاجاتا ہے اور اس کے دل میں ان کے نقصانات کا وسوسہ تک نہیں آتا اور یوں وہ توبہ اور استغفار کرنے سے غافل ہوجاتا ہے، اور آخر کار ایسا انسان بغیر توبہ کئے ہوئے گناہوں کا بوجھ لیکر اس دنیا سے چلا جاتا ہے اور یہ کسی بھی انسان کے لیے بڑی بدبختی ہے کہ وہ توبہ اور استغفار سے محروم رہ کر اس دنیا سے چلے جائے۔
ہاں! جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور گناہوں کو انجام نہ دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ بے شک معصوم تو نہیں ہو جاتے لیکن اس تقوے کی برکت سے انہیں اپنے گناہوں کے عذاب کا خوف ہمیشہ لاحق رہتا ہے اور اس کا یہ احساس اسے ہر وقت اہنے گناہ سے فوراً توبہ اور استغفار کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے، جس سے اللہ کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی ناراضی سے بچ جاتا ہے۔جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «إِنَّ الَّذينَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ[سورۂ اعراف، آیت:۲۰۱]بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے۔
انسان کی خلقت کا اہم مقصد خدا کی قربت کو حاصل کرنا ہے، تقوی خداوند متعال کی قربت حاصل کرنے کا سب اسے اہم ذریعہ ہے کیونکہ انسان تقوے کے ذریعہ ہی شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہتا ہے اور اپنے نفس اور دوسرے دشمنوں سے مقابلہ کرسکتا ہے، کیونکہ تقوی کے ذریعہ انسان کے اندر ایک خدائی طاقت وجود میں آجاتی ہے جس سے وہ ان دشمنوں کی کارستانیوں سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ انسان جب تقوی اختیار کرتا ہے تو وہ ہر کام میں خدا کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور جب وہ خدا کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو خدا اس کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے۔ جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذينَ اتَّقَوْا وَ الَّذينَ هُمْ مُحْسِنُونَ [سورۂ نحل، آیت:۱۲۸]․اللہ یقینا تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
امام المتقین امام علی ؑ فرماتے ہیں: إنّ التَّقوى مُنتَهى رِضَى الله مِن عِبادِهِ وحاجَتِهِ مِن خَلقِهِ .(غرر الحكم : ۳۶۲۰)
یقیناً تقویٰ خداوندعالم کی اپنے بندوں سے رضا و خوشنودی کی آخری حد اور مخلوق سے اپنا مدعا قرار دیا ہے۔
انسان قدم قدم پر اپنے رب کی رحمت کا محتاج ہے اور وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جنہیں اپنے رب کی رحمت سے کچھ نصیب ہو جائے ایسی رحمت جس کی وجہ سے انسان کی دنیا اور آخرت دونوں سنورجائے۔ کیونکہ ایک رحمت وہ ہے جو صرف اور صرف دنیا کے لئے ہے اور وہ سب کے لئے ہے چاہے وہ کافر ہو یامسلمان اور اسی رحمت کا اثر ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو دنیا میں دنیوی نعمتیں ملتی ہیں، اسی طرح کافروں کو بھی دنیوی نعمتیں ملتی رہتی ہیں، مگر آخرت میں انعامات اور رحمت صرف اہل ایمان کے لئے ہیں اور کافر اس دن سوائے افسوس کچھ نہ کر پائیں گے۔
یہ دونوں دنیوی اور اخروی رحمت اس شخص کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو متقی بنائے اور اپنا ہر کام خدا کی رضا کے لئے کرے جیسا کہ خود خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: «وَ رَحْمَتي‏ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ‏ءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذينَ يَتَّقُونَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ الَّذينَ هُمْ بِآياتِنا يُؤْمِنُون[سورۂ اعراف، آیت:۱۵۶] اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔
امام علی ؑ نے نہج البلاغۃ میں متعدد مقامات پر تقوی کی وصیت کی۔ آپ فرماتے ہیں: اُوصِيكُم عِبادَ الله بـتَقوَى الله الّـتي هِـي الزّادُ وبِها المَعاذُ ، زادٌ مُبلِغٌ ، ومَعاذٌ مُنجِحٌ . (نهج البلاغة : الخطبة ۱۱۴)
اے بندگانِ خدا! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوںاس لیے کہ یہی تقویٰ زادِ راہ ہے اور اسی کے ذریعے پناہ ملتی ہے۔ یہ زادِ راہ منزل تک پہنچانے والا اور نجات دینے والی پناہ گاہ ہے۔
پاکیزگی اور طہارت ایک ایسی صفت ہے جو ہر مہذب اور شائستہ قوم کے ہاں پسندیدہ خصائل میں شمار کی جاتی ہے اور اس کے برعکس ناپاکی، گندگی اور نجاست وخباثت ایسی بری خصلتیں ہیں جنہیں ہر قوم وملت کے ہاں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ طہارت اور پاکیزگی کا ایک تعلق انسان کے ظاہر کے ساتھ ہے اور ایک تعلق انسان کے باطن کے ساتھ ہے۔ انسان ظاہری نجاست سے بچنے کا اہتمام کرے تو یہ ”طہارت“ ہے اور اگر باطنی نجاستوں اور خباثتوں سے خود کو بچائے تو یہ ”تقویٰ“ ہے۔
قرآن کریم نے تقویٰ کے موضوع کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، تقویٰ کی حقیقت اور ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس تقوی پرملنے والے عظیم انعامات بھی کافی تفصیل کے ساتھ گنوائے ہیں۔
تقویٰ اور محبت الٰہی
قرآن مجید نے تقوی کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بیان کیا ہے کہ اس سے انسان کو اللہ تعالی کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ” بَلى‏ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ وَ اتَّقى‏ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقين"(آل عمران/76)ہاں!(حکم خدا تو یہ ہے کہ) جو بھی اپنا عہد پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تقویٰ والوں کو یقینا دوست رکھتا ہے۔
امام محمد باقر ؑسعد الخیر سے فرماتے ہیں: اُوصِيكَ بِتَقوَى الله ؛ فـإنّ فيها السَّلامَةَ مِن التَّلَفِ ، والغَنيمَةَ في المُنقَلَبِ .(الكافي : ۸ / ۵۲ / ۱۶)میں تمہیں خدا کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ اس میں ضائع ہونے سے سلامتی ہے اور دوسرے جہاں میں پلٹ جانے میں غنیمت ہے۔
رحمت خدا کے شمول کا سبب
انسان قدم قدم پر اپنے رب کی رحمت کامحتاج ہے اور وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جنہیں اپنے رب کی رحمت سے کچھ حصہ نصیب ہو جائے۔ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ ایک رحمت تو وہ ہے جو دنیا میں ہر انسان کو حاصل ہے، خواہ کافر ہو یامسلمان اور اسی رحمت کا اثر ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو دنیا میں دنیوی نعمتیں ملتی ہیں، اسی طرح کافروں کو بھی دنیوی نعمتیں ملتی رہتی ہیں ،مگر آخرت میں انعامات اور رحمت صرف اہل ایمان کو ملے گی اور کافر اس دن سوائے افسوس کچھ نہ کر پائیں گے۔ یہ دنیوی اور اخروی رحمت جن خوش نصیبوں کو ملتی ہے ان کی ایک صفت تقویٰ ہے ۔ قرآن بیان کرتا ہے:” وَ رَحْمَتي‏ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ‏ءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذينَ يَتَّقُونَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ الَّذينَ هُمْ بِآياتِنا يُؤْمِنُون”․(الاعراف/156) اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔
خدا سے تقرب کا سبب
تقوی اختیار کرنے سے ایک اہم فائدہ یہ ملتا ہے کہ اہل ایمان کو شیطان، نفس اور دیگر دشمن، مثلا کفار و منافقین کے مقابلے میں خدا کی معیت ، نصرت اور تائید حاصل ہوجاتی ہے، جس سے وہ ان دشمنوں کی کارستانیوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:” إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذينَ اتَّقَوْا وَ الَّذينَ هُمْ مُحْسِنُونَ "(․النحل/128)اللہ یقینا تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔امام علی ؑ:إنّ التَّقوى مُنتَهى رِضَى الله مِن عِبادِهِ وحاجَتِهِ مِن خَلقِهِ .(غرر الحكم : ۳۶۲۰)یقیناً تقویٰ خداوندعالم کی اپنے بندوں سے رضا و خوشنودی کی آخری حد اور مخلوق سے اپنا مدعا قرار دیا ہے۔
ناگاہانی خطرات سے بچنے کاسبب
دنیا میں کتنے شریر و فتنہ پرور انسان اور جنات ہیں جو اہل ایمان کے جان ومال اور ایمان و اعمال صالحہ کو تباہ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں، اس صورت میں ضرورت ہے کہ کوئی ایسا محفوظ قلعہ ہو جہاں انسان کو ان خطرات سے پناہ ملے اور آخرت میں ناکامی سے حفاظت ہوجائے تو ایسا محفوظ قلعہ تقویٰ ہے۔ قرآن کریم بتلاتا ہے:” وَ يُنَجِّي اللَّهُ الَّذينَ اتَّقَوْا بِمَفازَتِهِمْ لا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَ لا هُمْ يَحْزَنُون(الزمر/61) اور اہل تقویٰ کو ان کی کامیابی کے سبب اللہ نجات دے گا، انہیں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
نوربصیرت اور تقویٰ
مومن کو اللہ ایسا نور بصیرت عطا کرتا ہے جس سے وہ اپنے نفع ونقصان کو اچھی طرح پہچان لیتا ہے اور پھر اسے نفع بخش امور کی توفیق مرحمت کر دی جاتی ہے اوراس کے دل میں نقصان دہ امور کی نفرت ڈال دی جاتی ہے۔ یہ نورِ بصیرت خاص اہل ایمان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ خاص اہل ایمان وہ ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا یہ بیان ملاحظہ کریں:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖ یُؤۡتِکُمۡ کِفۡلَیۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور تمہیں وہ نور عنایت فرمائے گا جس سے تم راہ طے کر سکو گے اور تمہاری مغفرت بھی کر دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے۔(الحدید:28)
اس آیت میں جس نور کے ملنے کاتذکرہ ہے اس سے دو قسم کانور مراد ہے: 1۔دنیا میں نور،یعنی ایمان اور اعمال صالحہ اور بصیرت قرآنی کا نور، جو انسان کو حق پر قائم رکھتا ہے، خواہ ایسا شخص دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے، یہ نور اس کے ساتھ رہتا ہے۔
2۔ آخرت میں نور، یعنی جب انسان پل صراط سے گزرنے لگے گا تو یہ نور اس کے لیے روشنی پیدا کرے گا تاکہ اس کے لیے چلنا آسان ہوجائے.امام علی ؑ فرماتے ہیں:مَن غَرَسَ أشجارَ التُّقى جَنى ع مارَ الهُدى. (بحارالانوار : ۷۸ / ۹۰ / ۹۵)
جو لوگ تقویٰ کے درخت لگاتے ہیں وہ ہدایت کا پھل چنتے ہیں
تقویٰ اور گناہوں کو سمجھنے کا شعور
انسان کے لیے گناہ اس قدر خطرناک نہیں ہے جس قدر گناہ کی ہولناکی اور نقصانات سے غفلت خطرناک ہے، کیوں کہ اس طرح انسان گناہوں میں ڈوبتا چلاجاتا ہے اور اس کے دل میں ان کے نقصانات کا وسوسہ تک نہیں آتا اور یوں وہ توبہ اور استغفار سے یکسر غافل ہوجاتا ہے اور اس طرح ایسا انسان نافرمانیوں کا بوجھ لیے اس دنیا سے چلاجاتا ہے اورتوبہ کے بغیر مر جاتا ہے اور یہ کسی انسان کے لیے بڑی سخت بدبختی ہے کہ وہ توبہ اور استغفار سے محروم رہ کر اس دنیا سے گیا ہو۔ ہاں! جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں وہ بے شک معصوم تو نہیں بن جاتے لیکن اس تقوے کی برکت سے انہیں گناہوں کی خطرناکی کا ادراک ہوجاتا ہے اور یہ احساس ہوتے ہی وہ فوراً توبہ اور استغفار کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، جس سے اللہ کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی ناراضی سے بچ جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے یوں سمجھایا ہے:” إِنَّ الَّذينَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ "۔ بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے۔ (الاعراف/201)
گناہوں کی بخشش اور اجرعظیم کاحصول
سورہ طلاق میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:” وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئاتِهِ وَ يُعْظِمْ لَهُ أَجْرا․ اور جوکوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا اور اس کوزبردست ثواب دے گا۔(الطلاق/5)
امام علی ؑ فرماتے ہیں:إنّ التَّقوى في اليَومِ الحِرزُ والجُنَّةُ ، وفي غَدٍ الطّريقُ إلَى الجَنّةِ ، مَسلَكُها واضِحٌ وسالِكُها رابِحٌ . (نهج البلاغة : الخطبة ۱۹۱)یقیناً تقویٰ آج (دنیا میں)پناہ و سپر ہے اور کل (آخرت میں)جنت کی راہ ہے، اس کا راستہ آشکار ہے اور اس کا راہ پیما نفع میں رہنے والا ہے۔
پس اس ماہ رمضان سے پہلے ہی ہم نے خود کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ اس بابرکت مہینے کی برکات سے صحیح معنوں میں فائدہ حاصل کریں اور اپنی ذات اور معاشرے میں تقوی کی روح بیدار کریں۔ان شاء اللہ تعالیٰ

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button