سلائیڈرمصائب سید الشھدا امام حسین ؑمکتوب مصائب

مصائب سالار شہیداں امام حسین علیہ السلام ( مجلس عصر عاشورا)

خطیب: علامہ شیخ محمد شفا نجفی
اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قال رسول اللہ : ان الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاۃ
مؤمنین کرام !عشرہ محرم الحرام کے مجالس کے دوران حسب توفیق اہلبیت اطہار علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مرجعیت یعنی دین اسلام کے سر چشمہ کے طور پر اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مرجعیت کے بارے میں بعض معروضات آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اور گذشتہ مجالس کی روایت کی روشنی میں ہم اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں عزادارو! کہ جو کوئی جتنا ان ایام میں مغموم ہوگا، جس کسی کو جتنا ان ایام میں اللہ تعالیٰ، نواسہ پیغمبر کی مظلومیت کو یاد کر کے رونے کی توفیق دے گا اسی نسبت سے وہ خاتونِ جنت ؑکی شفاعت کا حقدار ہوگا۔ یہ خاتون جنت کی روایت ہے ، ہماری کتابوں میں ہے اور اہلسنت و الجماعت برادران کی کتابوں میں بھی ہے کہ اذا کان یوم القیامۃ، جب قیامت کا دن ہوگا خاتون جنت میدان محشر میں قدم رکھیں گیں، وفی یدھا قمیص مخدوم بدم الحسین، اس مکرمہ اور معظمہ کے ہاتھ میں بیٹے حسین ؑ کا خون آلود کرتہ ہوگا، بعض روایات میں ہے کہ بیٹے کا خون آلود کرتا ہوگا، بعض میں ہے کہ آپ کا کرتا خونِ حسینؑ سے رنگین ہوگا۔ اور پھر اللہ تعالی کی بارگاہ میں دست بدعا بلند کر کے کہے گیں کہ الٰہی انت العدل وانت الحکم، خدایا!تو عادل وحاکم ہے میرا فیصلہ اورمیرے بیٹے کے قاتل کا فیصلہ تو خود فرما۔روایت کہتی ہے کہ سنت رسول اللہ ؐکے مطابق فیصلہ کیا جائے گا اس کے بعد خاتون جنت یہ دعا فرمائے گیں خدایا! ان لوگوں کی شفاعت کی مجھے اجازت دے جو دنیا میں میرے بیٹے کے مصائب کو یاد کر کے روتے رہے ہوں۔ہم نے آج خاتون جنت کی شفاعت کا حقدار بننا ہے۔ یہ امیدیں ہم لے کے آئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کیوں روتے ہو کہاں لکھا ہوا ہے؟۔ یہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ شیخ جعفر شوستری، جو اپنے دور کے عالم باعمل اورواعظ تھے وہ کہتے ہیں میں قرآنی آیات میں اور بعض معتبر روایات میں مؤمن کی نشانیوں کو پڑھتا تھا؛ مؤمن وہ ہوتےہیں جب انکے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کا دل خوفزدہ ہو جاتا ہے الٰہی آیات کی جب تلاوت کی جائے ان کی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے نماز پڑھتے ہیں اللہ پر توکل کرتے ہیں راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں؛ اولٰٓئک ھم المؤمنون حقا، یہی حقیقی مؤمن ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان آیات کو دیکھ کے مجھے مایوسی ہوتی تھی کہ میں اپنے اندر اس طرح کی نشانیاں محسوس نہیں کرتا مگر میرا حوصلہ اس وقت بڑھا جب میں نے نواسہ پیغمبرؑ کا فرمان سنا، ایک نشانی نواسہ پیغمبر ؑنے مؤمن کی بتائی، پھرمیں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ نشانی میرے اندر پائی جاتی ہے۔ آپ بھی مبارک باد ی کے مستحق ہیں کہ اللہ نے آپ کو بھی اس نشانی سے نوازا ہے۔وہ نعمت کیا ہے؛ ما ذکرت عند مؤمن و مؤمنۃ الا استعبرۃ،مظلوم کربلا فرماتےہیں ؛ جس مؤمن مرد اور عورت کے سامنے میرا نام لیا جائے گا میرے نام کا اثر ہے کہ خود بخود اس کو رونا آجائے گا، الّا استعبرۃ، میں نہیں بھولتا کہ ایک دفعہ نجف میں قیام کے دوران شب جمعہ میں نواسہ پیغمبرؑ کی زیارت کے لیے گیا ہوا تھا، وہاں عربی زبان میں زیارت نامہ پڑھا جاتا ہے، اَادخل یا اللہ، اادخل یا رسول اللہ، اادخل یا امیر المؤمنین، جس امام کے حرم میں بھی داخل ہونا چاہے خدا سے اجازت لینے کا آغاز کیا جاتا ہے اادخل یا اللہ اادخل یا رسول اللہ، اادخل یا امیر المومنین ، اور آخر میں اس صاحب قبر سے، اَتاذن لی بالدخول کافضل ما اذنت باحد من اولیائک، اس کے بعد لکھا ہوا تھا ہم کیسے اجازت طلب کرتے ہیں؟ یہاں ہم دروازہ کھٹکھٹاتےہیں پھر اندر سے کوئی آواز آتی ہے کہ آجائیں، دروازہ کھول کے اندر چلے جاتے ہیں کیسا پتہ چلے کہ حسینؑ نےآپ کو اجازت دی ہے اپنے حرم میں داخل ہونے کی یا نہیں دی۔ لکھا ہوا تھا؛ اِن اغرورقت عیناک فانت ماذون، حسینؑ سے اجازت طلب کرنے کےبعد اگر تجھے رونا آتا ہے توسمجھ لے کہ حسینؑ نے اپنے گھر میں اپنے حرم میں داخل ہونے کی تجھے اجازت دے دی ہے۔ حج کے اندر چالیس لاکھ حاجی ہوتےہیں، نواسہ پیغمبرؑ کو خراج عقیدت پیش کرنے، قبر کو سلام کرنے کے لیےآنے والوں کی تعداد پچھلے سال ایک کروڑ تھی، ایک کروڑ، سب کی زبان پر یا حسینؑ، یا حسینؑ
یہی شیخ جعفر شوستری ہے وہ کہتے ہیں کربلا میں روز عاشور جو سب سے بڑی مجلس ہوتی تھی اس سے میں ہی ہر سال خطاب کرتا تھا، کبھی کسی کے مصائب پڑھے، کبھی کسی کے مصائب پڑھے، سب کا ہم پر حق بنتا ہے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ وہ بہتر کے بہتر شہداء کے مصائب تو نہیں پڑھ سکتا، کس کے پڑھوں؟عباس علمدار کے مصائب پڑھوں؟ جن کی شہادت نے حسینؑ کی کمر توڑ دی تھی، ہمشکل پیمبر کے مصائب پڑھوں؟ جس کے جانے کےبعد حسینؑ نے فرمایا؛ علی الدنیا بعدک العفا، بیٹے علی اکبرؑ اب تیرے جانے کے بعد اس دنیا کے اوپر خاک ہو، اب جینے کا مزہ نہیں رہا، کس کے مصائب پڑھیں؟ قاسمؑ کےمصائب پڑھوں؟ جس کو گلے لگا کے حسین ؑ اتنا روئے کہ چچا بھتیجا دونوں بے ہوش ہو گئے، کس کے مصائب پڑھوں؟ اس چھ مہینے کے آقا کے مصائب پڑھوں جس کو دشمن نے باپ کے ہاتھوں پر تڑپایا؟
اسی سوچ میں سو گئے، خواب میں خاتون جنت کو دیکھا، فرمایا شیخ! اگر تو مجھے خوش کرنا چاہتا ہے تو کربلا کے عزاداروں کو میرے بیٹےکے وداع کے مصائب سناؤ، کس طرح وداع کر کے نکلے؟ ایک دفعہ نہیں، تین دفعہ وداع کیا، تین دفعہ۔ امام زین العابدینؑ فرماتےہیں؛ جب میرے بابا آخری بار وداع کے لیےآئے، آخری وداع کے لیے آنے کا مطلب یہ ہے کہ جہادکرکے اور اپنے نازنین بدن پر تیروں، نیزوں اور تلواروں کے زخم لے کے بیٹے سے اجازت کےلیے، رخصت کے لیے آئے،فرماتے ہیں جب میرے بابا آخری رخصت کےلیے آئے، آپ تصور کر سکتے ہیں؛ میں نے دیکھا سر سے لے کر پاؤں تک میرے بابا خون میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اب جب میرے بابا بات کرتے تھے، سانس لیتے تھے، تو جسم میں موجود نیزوں اور تلواروں اور تیروں کے زخموں سے خون کے فوارے نکلتے تھے ۔ اس وقت بھی، ان لمحات میں بھی نواسہ پیغمبر ؑنے اپنے فیض کو نہیں روکا، فرمایا بیٹا سجاد! میں تمہیں ایک دعا کی تعلیم دیکر جاتا ہوں جو میرے ماں زہرا ؑ نے مجھے سکھائی ہے، ان کو ان کے بابا نے، رسول خدا ؐ کو جبریل نے اور جبرئیل کو اللہ نے تعلیم دی ہے۔ بابا کون سی دعا؟ جب بھی کسی مشکل سے دوچار ہو، جب بھی کوئی پریشانی ہو، جب بھی کسی بڑی مشکل میں تم پڑھو یہ دعا پڑھا کرو؛
بحق یاسین والقرآن الحکیم، بحق طٰہٰ والقرآن العظیم، یامن یقدر علی حوائج السائلین، یا من یعلم ما فی الضمیر، یا منفسا عن المکروبین یا مفرجا عن المغمومین یا راحم الشیخ الکبیر یا رازق الطفل الصغیر، یا من لا یحتاج الی التفسیر صل علیٰ محمد وآل محمد،
اس دعا کو پڑھو، جو حاجت ہو، تیری پوری ہو جائے گی، وہ دل خراش وداع کے جملے ؛ یا زینبُ و یا ام کلثوم، ویا رقیۃ علیکن منی السلام،یہ کوئی معمولی منزل ہوتی خاتونِ جنت سفارش نہ کرتیں، زینب و ام کلثوم و سجاد کو پتا ہےیہ کتنا کٹھن مرحلہ ہے۔ علیکن منی السلام، میرا تمہیں آخری سلام ہو!، بعض روایا ت میں یہاں تک لکھا ہے سید سجاد ؑ نے جناب زینب سے کہا؛ علیّ بالعصا والسیف، پھوپھی مجھے تلوار اورعصا لاکے دے دو۔ بیٹے کیاکرو گے؟ کہا؛ میں چل نہیں سکتا،عصا کے سہارے جاکے بابا کی مدد کروں گا۔ امام ؑ نے سمجھایا، جناب زینبؑ نے بھی سمجھائی، وفادار سواری (ذوالجناح)پر نواسہ پیغمبر سوار ہوئے، میدان کارزار کی طرف روانہ ہونا چاہتےہیں لیکن معمول کے خلاف یہ اسپ وفادار قدم نہیں بڑھاتا، ایک دفعہ حسین ؑ کی نگاہ گھوڑےکی قدموں پر پڑی، دیکھا معصومہ جناب سکینہؑ قدموں سے لپٹی ہے، اور بابا سے کہتی ہے؛ ااستسلمت للموت؟ بابا آپ خود چل کے موت کی طرف جا رہے ہیں؟ فرمایا کہ فلا یستسلم للموت من لا ناصر لہ ولامعین، بیٹی جس کا کوئی ناصر و مددگار نہ ہو وہ موت کی طرف ہی جا سکتا ہے۔ بڑے معصومانہ انداز میں ایک جملہ کہا، آہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ فرماتی ہیں؛ اذاً ردنا الی مدینۃ جدنا، بابا اگر جا ہی رہے ہیں، تو پہلے ہمیں نانا کے مدینہ پہنچا دیجیے، اس کے بعد اشقیاء کے مقابلے کے لیے جائیے۔ جواب میں فرمایا؛ لو ترک القطا لنام، مطلب یہ ہے بیٹی کو بتانا چاہتے ہیں بیٹی نانا کی امت نے اگر مدینہ میں چین سے رہنے دیا ہوتا تومیں تمہیں اس بے آب و گیاہ صحرا میں نہ لے آتا۔
خطبہ دیا نواسہ پیغمبر ؑ نے؛ اے قوم جفاکار!، اما ھذہ عمامۃ رسول اللہ انا لابسھا، یہ عمامہ جو میرے سر پر ہے یہ میرے نانا رسول اللہ کا عمامہ نہیں ہے؟ قالو بلی! یقینا یہ آپ کے نانا کا عمامہ ہے۔ اما ھذہ سیف رسول اللہ انا مقلدھا، یہ تلوار جومیں نے آویزاں کر رکھی ہے یہ میرے نانا کی تلوار نہیں ہے؟ قالو بلی! پھر فرمایا؛ میں نے تمہاری شریعت کو کوئی نقصان پہنچایا، تمہارے دین کو میں نے کوئی نقصان پہنچایا ہو، کلّا! ہرگز نہیں، آپ نے ہمارے دین و شریعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ کیا روئے زمین پر اس کائنات میں میرے علاوہ کوئی دوسرا نواسہ پیغمبر ؑ تمہیں مل سکتا ہے، کلّا! آپ واحد نواسہ پیغمبر ہیں۔ اذاًلم تقاتلوننی، پھر تم میرے قتل پر کیوں کمر بستہ ہو؟، جواب ملتا ہے؛ آپ نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، بغضاً لابیک،یہ علیؑ ، علی ؑکا ہم بدلہ لینا چاہتے ہیں آپ کے بابا کے سے بغض کی وجہ سے ہم یہ کر رہے ہیں۔ یزید کے الفاظ ہیں؛لست من قندفٍ مِن لان لانتقم من بنی احمد ما کان فعل، اگرمیں اولاد محمد ؑ سے اپنے بدر کے مقتولین کا بدلہ نہ لوں تو میرا نام قندف کی اولاد سے مٹا دو۔ اشارہ تھا اس کی طرف؛ بغضاً لابیک۔
عزادارو! نواسہ رسول کا جہاد شروع ہوتا ہے، غیرمسلم راوی کے الفاظ ہیں ما رایت رجلا قد قتل اصحابہ و اولادہ اربۃ جاشاً من۔ میں نے انسانیت کی تاریخ میں کسی ایسے انسان کو نہیں دیکھا جس کےآنکھوں کے سامنے اصحاب مارے گئےہوں، بیٹے مارےگئےہوں،کوئی عام بیٹےنہیں، جو ہمشکل پیغمبر تھے، رسول کی زیارت کرنا چاہتےتھے تو اسی کے چہرے کی طرف دیکھتے تھے، قاسم ان آنکھوں کے سامنے مارا گیا ، ان آنکھوں کے سامنے اصحاب بھی مارےگئے ہوں، اولاد بھی مارے گئے ہوں، بھائی بھی مارے گئے ہوں، اس کے باوجود جیسے جیسے موت کے قریب پہنچتےہیں چہرے پر رونق میں اضافہ ہوتا جاتاہے، یہ نواسہ پیغمبر کی خصوصیت تھیْ۔
عزادارو! نواسہ پیغمبر ؑ نے اشقیا پر حملہ کیا۔ ،مقتل والوں نے مختلف روایتیں لکھی ہیں، کم سے کم عمر سعد کی جو لشکرتھی تیس ہزار، ان میں سے کتنے افراد کو نواسہ پیغمبر ؑنے واصل جہنم کیا، کہتے ہیں دشمن کے لشکر کی تعدا دمیں نمایاں کمی محسوس ہونے لگی، اتنے افراد کو واصل جہنم کیا۔ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ خدایا تو گواہ رہنا یہ قوم جفا کار ایسے فرد کے قتل اور شہادت کے درپے ہے کہ جس کے علاوہ روئے زمین پر کوئی دوسرا نواسہ پیغمبر ؑ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بھی حسینؑ گواہ قرار دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں حسینؑ جہاد کر رہے ہیں، ایک منزل آئی، فوقف لیستریح ساعۃً، ایک بوڑھا انسان کہ جس کے کلیجے کے اوپر بھائی کا داغ بھی ہے، بیٹے کا داغ بھی ہے، بھتیجوں کا داغ بھی ہے بھانجوں کا داغ بھی ہے، سات تاریخ سے بھوکا بھی ہے اور پیاسا بھی ہے، فجلس لیستریح ساعۃً، چند لمحے کے لیے رکے اتنے میں ایک ظالم نے پیشانی پر پتھر کا وار کیا، نواسہ پیمبر ؑ کی پیشانی پر یہ پتھر آکے لگا خون جاری ہوا، نواسہ پیمبرؑ نے دامن قمیص کو اٹھایا خون صاف کیا، عزادارو! قیامت کا ایک مرحلہ آتا ہے، فَاتَاہ سھم مھدود مسموم لہ ثلاث شعب، ایک مسموم اور زہر آلود تیر جو تیرِ سہ شعبہ تھا، وہ آیا ، وَوَقع علیٰ قلبہٖ، نواسہ پیغمبر کے قلب پاک کو آکے لگا، وہ جسم کے اندر اس قدر پیوستہ ہوا مقتل کی کتابیں کہتی ہیں؛ مظلوم کربلا نے اس تیر کو پشت کی طرف سے نکالا اور وہ خون کا فوارہ چھوٹا، فَانقلب علیٰ قربوسِ جوادہٖ، اس تیر کے لگنے کے بعد فاطمہ کا لال زین فرس پر سنبھل نہ سکا، میں نے مقتل کی کتابیں پڑھی ہیں، سیدمحمد تقی آل بحرالعلوم کی مقتل کی کتاب، واقعۃ مقتل او واقعۃ الطف، اس میں لکھا ہے اس اسپ وفادار نے مظلوم کربلا کو کربلا کی زمین پر گرنے نہیں دیا، اپنے پشت پر لیے پھر رہا ہے، اور ایک ایسی جگہ جا کے اپنے چاروں قدم زمین پر پھیلا کے نواسہ پیغمبر کو آرام سے کربلا کی زمین پر اتارا، ہاں جب اتر رہے تھے اب امام زمانؑ کا جملہ سن لیجیے کہ وہ کیسے اترے؟ امام فرماتے ہیں؛ السلام علیٰ من حملہ رؤوس السہام، سلام ہو میرا اس مظلوم جد امجد پر، کہ جس کا جنازہ کربلا میں کسی مسلمان نے نہ اٹھایا ہاں کربلا میں آپ کا جنازہ وہ تیروں اور نیزوں کی انیوں نے اٹھایا، السلام علیٰ من حملہ رؤوس السہام۔ مظلوم کربلا کربلا کی خاک پر ہے، یہ وفادار گھوڑا/ذولجناح امام کا طواف کر رہا ہے، عمر سعد کے کچھ سپاہی نیزے لے کے آگے بڑھے، عمر سعد کہنے لگا دیکھو اس گھوڑے کوکوئی نقصان نہ پہنچنے پائے، فَاِنّہ من جِیاد رسول اللہ، یہ رسولِ خدا کے گھوڑوں میں شمار ہوتا ہے، مولانا صفدر حسین فرماتے تھے؛ خدا تجھ پر لعنت کرے، تجھے رسول کی سواری کا اتنا خیال ہے مگر تیرے سامنے دوشِ رسول کا شہسوار ایڑیاں رگڑ رہا ہے، تجھے اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔
ایسی ایسی عبارتیں ہیں عزادارو! بہت ہمت چاہیے ان کو بیان کرنے کے لیے۔ میں عرض کرتا رہتا ہوں صادقِ آل محمدکا ایک فرمان میں نے پڑھا ہے جو مصیبتیں ہمارے اوپر پڑی ظلم کے جو پہاڑ ہمارے اوپر توڑے گئے ان کو ہمارے شیعوں سے مت چھپاؤ، ساری تفصیل بتاؤ۔ ہاں امام کے حکم کی تعمیل میں عرض کرتا ہوں، روایات کہتی ہیں مظلوم کربلا تشہد کی حالت میں سر سے لے کر پاؤں تک خون آلود کربلا کے خاک پر پڑے ہوئے تھے وہ شقی ابدی آگے بڑھا، میں اب کیسے عرض کروں اس جملے کو؟ اس ظالم نے ہاتھ نہیں لگایا مگر ایسی گستاخی کی، میرے آقا سجدے کی حالت میں چلےگئے۔ عربی عبارت پڑھے دیتا ہوں علما کرام کے لیے، فرفسہ برجلہ، اس گستاخی کے نتیجے میں میرے آقا سجدے کی حالت میں چلے گئے۔ اور امام زمان کو یہ کہنا پڑا؛ السلام علیٰ الخد التریب، سلام ہو میرا آپ کے ان رخساروں پر کہ جن پر کربلا کی خاک تھی، السلام علی خد التریب
نواسہ پیغمبر کے جسم میں حرکت نہیں ہےعمر سعد کے لشکر میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئی۔ کسی نے کہا کہ ہاں فرزند رسول شہید ہو گئے، کسی نے کہا کہ نہیں ابھی رمق حیات باقی ہے ابھی زندہ ہیں۔ عمر سعد ہی کا ایک سپاہی جو امام کی غیرت و حمیت سے باخبر تھا آگے بڑھا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حسینؑ زندہ ہے یا شہید ہو چکے، اگر جاننا چاہتے ہو کہ حسینؑ زندہ ہے یا شہید ہو چکے اپنے گھوڑوں کا رخ خیموں کی طرف کر کے دیکھو ، مجھےمعلوم ہے یہ بہت غیرت مند انسان ہے اگر زندہ ہوگا اٹھ تو نہ سکے گا مگر اٹھنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ ہاں عزادارو! میرے آقا اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں زمین پر گر جاتے ہیں پھر اٹھنے کی کوشش کی اور پھر زمین پر گرے اور ایک جملہ کہا؛ یاشیعۃ آل ابی سفیان!، اے ابو سفیان کی اولاد! ان لم تکن دین ولا تخافون المعاد، تم اگر دین نہیں رکھتے خدا کا خوف نہیں ہے تو؛ فارجعوا فکونوا احراراً فی دنیاکم،دنیا میں آزاد انسان ہونے کا ثبوت دو، وارجعوا الیٰ انسابکم اور اپنے عرب روایات کی طرف رجوع کرو، شمر نے کہا؛ ہاں فاطمہ کے بیٹے کیا کہنا چاہتے ہو؟ کیا کہنا چاہتے ہو؟ امام فرماتے ہیں کہ؛ انا الذی اقاتلکم و تقاتلون، میری تم سے جنگ ہے تمہاری مجھ سے جنگ ہے، وھٓؤلآ النسوۃ، یہ نبی کی نواسیاں، یہ علیؑ کی بیٹیاں، اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا، فامنَعوا ۔۔۔ عن التعرض لحرم ما دمت حیا، دیکھو جب تک میں زندہ ہوں میرے سامنے اور مجھے دکھا دکھا کے اہل حرم کی توہین مت کرو۔ شمر نے کہا ہاں اس کا حق بنتا ہے، کفو کریم، یہ بڑا شریف النفس مد مقابل ہے، جب تک زندہ ہے اہل حرم سے دور رہو۔ عزادارو! ایسا ہی ہوا جب تک حسینؑ زندہ تھے یہ اشقیا اہل حرم سے دور رہے، ادھر کربلا کی فضاؤں میں یہ آواز گونجی؛ الا قد قتل الحسینؑ بکربلا الا قد ذبح الحسینؑ بکربلا، عمر سعد کا فرمان جاری ہوا؛ احرقوا بیوتھم، لوٹو تبرکاتِ رسول و بتول کو قیدی بنا کے لے چلو آل رسول کو۔ یہ امام کی غیرت تھی عزادارو! مقتل نے لکھا ہے چالیس کے قریب اشقیا کو اس اسپ وفادار نے واصل جہنم کیا وہ طواف کر رہا ہے اور جب امام کی زندگی سے مایوس ہوا آگے بڑھا اپنی پیشانی کو امام کی خون سے رنگین کیا خیمہ گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ اب امام زمان کی زبانی مصائب سنیے؛ فَلَمّا رئین جوادہ محضیا، جب علی کی بیٹیوں نے دیکھا یہ اسپ وفادار سوار سے خالی خیموں کی طرف بڑھ رہا ہے، باگیں کٹی ہوئی ہیں، زین ایک طرف کو ڈھلی ہوئی ہے، خرجن من الخدور، علی کی بیٹیاں خیموں سے باہر آئیں، علی الخدود اللاتی مآت، اپنے رخساروں پرطمانچے مار رہی تھیں، ھذہ تنادی؛وا اخا، کوئی بھائی بھائی کر کے پکارتی ہے، وھذہ تنادی؛ وا ابا، اور کوئی بابا بابا کر کے پکارتی ہے، ایک ایک بی بی کے بین دلخراش تھے، مگر جناب سکینہ نے ایسا جملہ کہا جو آپ کو اور قیامت تک آنے والے حسینؑ کےمحبین کو خون کے آنسو رلانے کے لیے کافی ہے، اسپ وفادار کے لگام کو ہاتھ میں لیا، اور ایک سوال کیا؛ یا جواد ابی، اےمیرے بابا کےاسپ وفادار! تجھے خبر ہے میرے بابا تین دن کے بھوکے اور پیاسے تھے، ا سقی ابی ام قتل عطشانا؟ ان ظالموں نے میرے بابا کو ایک پانی کا قطرہ دیا یا پیاسے شہید کردیے گئے۔

الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button