ایمانیاتسلائیڈرموضوعی احادیث

ایمان

ایمان کیاہے؟
1۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْإِیمَانِ فَقَالَ شَهَادَهُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ [وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ] وَ الْإِقْرَارُ بِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ مَا اسْتَقَرَّ فِی الْقُلُوبِ مِنَ التَّصْدِیقِ بِذَلِکَ قَالَ قُلْتُ الشَّهَادَهُ أَ لَیْسَتْ عَمَلًا قَالَ بَلَی قُلْتُ الْعَمَلُ مِنَ الْإِیمَانِ قَالَ نَعَمْ الْإِیمَانُ لَا یَکُونُ إِلَّا بِعَمَلٍ وَ الْعَمَلُ مِنْهُ وَ لَا یَثْبُتُ الْإِیمَانُ إِلَّا بِعَمَلٍ.
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعبداللّٰہ ؑ سے سوال کیاکہ:ایمان کیا ہے؟آپؑ نے فرمایا:یہ گواہی دینا کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللّٰہ وحدہ لا شریک کےاور محمداسی کے رسول ہیں۔جو کچھ خدا کی طرف سے آیاہےاس پر ایمان لانااور دل سے اس کے بارے میں تصدیق کرنا۔
(راوی کہتاہے)میں نے عرض کیاکہ کیا شہادت عمل نہیں ہے؟
آپؑ نے فرمایا: کیوں نہیں۔
پھر میں نے عرض کیاکہ کیا عمل ایمان سے نہیں ہے؟
آپؑ نے فرمایا:ہاں،ایمان نہیں ہوسکتا مگرعمل کے ساتھ اور عمل ایمان کا حصہ ہےاور ایمان عمل کے بغیر ثابت نہیں رہتا۔
(اصول کافی ج 3کتاب ایمان وکفر باب 18 ح3)
2۔ "وسُئِلَ عَنِ الإِيمَانِ – فَقَالَ علی علیہ السلام: الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ – وإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ.”
امیرالمؤمنینؑ سے ایمان کے بارے میں پوچھاگیا تو آپ ؑ نے فرمایا:”ایمان دل سے پہچاننا،زبان سے اقرار کرنااور اعضا وجوارح سے عمل کرنا ہے۔”
(نہج البلاغہ:کلمات قصار۔227)
3۔ وسُئِلَ عليه‌السلام عَنِ الإِيمَانِ – فَقَالَ الإِيمَانُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ – عَلَى الصَّبْرِ والْيَقِينِ والْعَدْلِ والْجِهَادِ –
مولائے کائنات ؑ سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:”ایمان” چار ستونوں پر قائم ہے۔صبر،یقین،عدل اور جہاد۔”
((نہج البلاغہ:کلمات قصار: 30)
4۔ قال الإمامُ علیٌّ علیه السلام :”الإیمانُ شَجَرَهٌ ، أصلُها الیقینُ ، و فَرْعُها التُّقی ، و نورُها الحَیاءُ ، و ثَمَرُها السَّخاءُ”
امام علیؑ نے فرمایا:۔ایمان ایک درخت ہے ،یقین اس کی جڑ ہے،تقویٰ اس کی شاخ ہے ،حیا اس کا نور ہے اور سخاوت اس کا پھل ہے۔
(میزان الحکمت جلد1،ص 453)
5۔ قال رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم :” لیسَ الإیمانُ بالتَّحَلّی و لا بالتَّمَنّی ، و لکنَّ الإیمانَ ما خَلَصَ فی القلبِ و صَدّقَهُ الأعمالُ۔”
رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: ۔خوش پوشی،تمناؤں اور آرزؤوں سے ایمان حاصل نہیں ہوتابلکہ ایمان یہ ہوتا ہے کہ دل میں خلوص ہو اور اعمال اسکی تصدیق کریں۔
(میزان الحکمت، ج 1 ص454)
6۔ قال الإمامُ علیٌّ علیه السلام :” الإیمانُ إخلاصُ العملِ۔”
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:۔ایمان عمل خالص کا نام ہے۔
(میزان الحکمت ج 1 ص 455)
7۔ قال رسولُ اللّهِ صلی الله علیه و آله وسلم:”الإیمانُ عَفیفٌ عَن المَحارِمِ ، عَفیفٌ عَن المَطامِعِ۔”
حضرت رسول اکرم ؐ نے فرمایا:۔ ایمان حرام کاموں سے پاکدامنی اور لالچ اور طمع سے دامن چھڑانے کا نام ہے۔
(میزان الحکمت ج 1 ص455)
8۔ قال رسولُ اللّهِ صلی الله علیه و آله وسلم:”الإیمانُ ، الصَّبرُ و السَّماحهُ۔”
حضرت رسول اکرم ؐنے فرمایا:۔”ایمان صبر اور سخاوت کا نام ہے۔”
(میزان الحکمت، ج 1 ص455)
9۔ قال الامام علی علیه السلام :”الإیمانُ صَبرٌ فی البَلاءِ ، و شُکْرٌ فی الرَّخاءِ”
حضرت علیؑ نے فرمایا:۔ایمان بلاؤں پر صبر اور نعمتوں پر شکر کا نام ہے۔
(میزان الحکمت، ج 1 ص455)
10۔ قال الإمامُ الصّادقُ عليه السلام : إنّ مِن حقيقةِ الإيمانِ أنْ تُؤْثِرَ الحقَّ وإنْ ضَرَّكَ علَى الباطلِ وإنْ نَفَعَكَ .
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا؛”ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ حق کو باطل پر ترجیح دےدو خواہ حق سے تمہارا نقصان اور باطل سے تمہیں فائدہ ہو۔ ”
[بحار الأنوار : 70 / 106 / 2 . ] 11۔ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ ذَاتَ يَوْمٍ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ إِذْ لَقِيَهُ رَكْبٌ فَقَالُوا اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اَللَّهِ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ مَا أَنْتُمْ فَقَالُوا مُؤْمِنُونَ فَقَالَ مَا حَقِيقَةُ إِيمَانِكُمْ قَالُوا اَلرِّضَا بِقَضَاءِ اَللَّهِ وَ اَلتَّسْلِيمُ لِأَمْرِ اَللَّهِ وَ اَلتَّفْوِيضُ إِلَى اَللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ عُلَمَاءُ حُكَمَاءُ كَادُوا أَنْ يَكُونُوا مِنَ اَلْحِكْمَةِ أَنْبِيَاءَ فَإِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ فَلاَ تَبْنُوا مَا لاَ تَسْكُنُونَ وَ لاَ تَجْمَعُوا مَا لاَ تَأْكُلُونَ وَ اِتَّقُوا اَللَّهَ اَلَّذِي إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ .”
امام محمد باقر ؑ سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک سفر کے دوران کچھ سوار لوگوں نے ملاقات کی۔آپؐ نے ان سے پوچھا:تم کون ہو؟۔انہوں نے کہا:ہم اہل ایمان ہیں ۔حضورؐ نے دریافت فرمایا: تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟۔انہوں نے کہا: خدا کی قضا پر راضی رہنا،امر خدا کے سامنے سرِ تسلیم خم کردینااور اپنے تمام امور خدا کے سپرد کردینا۔یہ سن کر سرکارِ رسالتمآبؐ نے فرمایا:یہ لوگ علماء و حکماء ہیں اور حکمت کے لحاظ سے انبیاء کے قریب ہیں۔پھر ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:اگر تم اپنی باتوں میں سچے ہوتو جن گھرو ں میں تم نے نہیں رہنا وہ نہ بناؤ،جو تم کو نہیں کھانا وہ جمع نہ کرو اور اس خدا کا تقویٰ اختیار کرو جس کی طرف تمہیں پلٹ کر جاناہے۔
(میزان الحکمت ج 1 ص457)
12۔ عن ابی عبد اللہ علیه السلام :”لا یَبلُغُ أحدُکُم حقیقهَ الإیمانِ حتّی یُحِبَّ أبْعَدَ الخَلقِ مِنهُ فی اللّهِ ، و یُبْغِضَ أقْرَبَ الخَلْقِ مِنه فی اللّهِ .”
امام جعفر صادق ؑ نے ارشاد فرمایا:۔تم میں کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اپنے سے دور ترین انسان کو راہ خدا میں دوست اور اپنے قریب ترین انسان کو راہ خدا میں دشمن نہیں رکھے گا۔
(میزان الحکمت ج 1 ص459)
13۔ قَالَ علی ابن ابی طالب عليه‌السلام: "فَرَضَ اللَّه الإِيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ "
حضرت علیؑ نے فرمایا:۔ خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کےلیے۔
(کلمات قصار ۔252)
14۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ اَلصَّادِقِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: إِنَّ مِنْ أَوْثَقِ عُرَى اَلْإِيمَانِ أَنْ تُحِبَّ فِي اَللَّهِ وَ تُبْغِضَ فِي اَللَّهِ وَ تُعْطِيَ فِي اَللَّهِ وَ تَمْنَعَ فِي اَللَّهِ تَعَالَى.
ابوعبداللّٰہ امام جعفر صادق ؑسے مروی ہے کہ فرمایا۔” جو ایمان کی رسی کو مضبوط پکڑے ہو اس کو چاہئے کہ محبت یا عداوت ،عطا یا منع جو کچھ ہو محض خوشنودئ خدا کے لیے ہو۔”
(اصول کافی ج4 ص5باب 188)
15۔ عن فضيل بن يسار قال سألت أبا عبد الله (عليهم السلام) عن الحب والبغض، أمن الايمان هو؟ فقال: وهل الايمان إلا الحب والبغض؟ ثم تلا هذه الآية ” حبب إليكم الايمان وزينه في قلوبكم وكره إليكم الكفر والفسوق والعصيان أولئك هم الراشدون ”
فضیل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا: کیا حُب اور بُغض ایمان میں سے ہیں ؟ فرمایا:کیا ایمان حُب اور بغض کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے!پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔اس نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب قرار دیا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کو زینت دی ہےاور کفر و فسوق و عصیان سے تم کونفرت دلائی ہےیہی لوگ راشدین ہیں۔
(اصول کافی ج4 ص5باب 188)
16۔ عَنْ سَلاَّمٍ اَلْجُعْفِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ عَنِ اَلْإِيمَانِ فَقَالَ "اَلْإِيمَانُ أَنْ يُطَاعَ اَللَّهُ فَلاَ يُعْصَى۔”
سلام جعفی بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت ابوعبداللّٰہ ؑ سے سوال کیا۔ایمان کیاہے؟
آپؑ نے فرمایا:۔اللّٰہ کی اطاعت کرنا پس اسکی نافرمانی نہ کی جائے۔
(اصول کافی ج 3 ص281)
17۔ عن رسول اللہ صلى الله عليه و آله وسلم : "إنّ لكلّ شيءٍ حقيقةً ، وما بلَغَ عبدٌ حقيقةَ الإيمانِ حتّى يَعلَمَ أنّ ما أصابَهُ لَم يكُنْ لِيُخْطِئَهُ وما أخْطأهُ لم يَكُن لِيُصيبَهُ . "
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور ایمان کی حقیقت تک انسان اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کو یہ علم نہ ہوجائے کہ جو چیز اسے پہنچی ہےاس سے ہٹ نہیں سکتی تھی اور جو چیز اس سے ہٹ گئی ہے اس تک پہنچ نہیں سکتی تھی۔
[كنز العمّال : 12 ] 18۔ عن رسول اللہ صلى الله عليه و آله وسلم قال: لا يَحُقُّ العبدُ حقيقةَ الإيمانِ حتّى يَغْضَبَ للّه ِ ويَرضى للّه ِ ، فإذا فَعلَ ذلكَ فَقَدِ اسْتَحَقَّ حقيقةَ الإيمانِ .
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کا حق ادا نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنا غضب اور اپنی رضا صرف اللّٰہ کی خوشنودی کے لیے نہ کرے جب ایسا کرے گا(غضب اور رضا اللّٰہ کی خاطر کرے گا)تو گویا وہ حقیقتِ ایمان کا مستحق ہوگا۔”
[كنز العمّال : 99 ] 19۔ عن رسول اللہ صلى الله عليه و آله وسلم قال: لا يُؤمِنُ عبدٌ حتّى يُحِبَّ للنّاسِ ما يُحبُّ لِنفسهِ مِن الخَيرِ .
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے خیرمیں سے( نیک کاموں میں سے)وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
[ کنزالعمّال : 95 . ] 20۔ قال علی عليه السلام : "رأسُ الإيمانِ الصِّدقُ ".
امام علی ؑ نے فرمایا:”ایمان کی جڑ سچائی ہے۔”
[غرر الحکم :ح: 5222 . ] 21۔ قال علی عليه السلام: لا يَصْدُقُ إيمانُ عبدٍ حتّى يَكونَ بما في يَدِ اللّه ِ سبحانه أوْثَقَ مِنه بما في يَدِهِ .
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "کسی کا ایمان اس وقت تک سچا نہیں ہے جب تک وہ اس چیز پر زیادہ بھروسہ کرے جو اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے بہ نسبت اس چیز کے جو خود اس کے ہاتھ میں ہے۔”
[بحار الأنوار : 103/ 37/ 79 ] ایمان اور اسلام
22۔ عَنْ سَمَاعَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ أَخْبِرْنِي عَنِ اَلْإِسْلاَمِ وَ اَلْإِيمَانِ أَ هُمَا مُخْتَلِفَانِ فَقَالَ إِنَّ اَلْإِيمَانَ يُشَارِكُ اَلْإِسْلاَمَ وَ اَلْإِسْلاَمَ لاَ يُشَارِكُ اَلْإِيمَانَ فَقُلْتُ فَصِفْهُمَا لِي فَقَالَ اَلْإِسْلاَمُ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَ اَلتَّصْدِيقُ بِرَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ بِهِ حُقِنَتِ اَلدِّمَاءُ وَ عَلَيْهِ جَرَتِ اَلْمَنَاكِحُ وَ اَلْمَوَارِيثُ وَ عَلَى ظَاهِرِهِ جَمَاعَةُ اَلنَّاسِ وَ اَلْإِيمَانُ اَلْهُدَى وَ مَا يَثْبُتُ فِي اَلْقُلُوبِ مِنْ صِفَةِ اَلْإِسْلاَمِ وَ مَا ظَهَرَ مِنَ اَلْعَمَلِ بِهِ وَ اَلْإِيمَانُ أَرْفَعُ مِنَ اَلْإِسْلاَمِ بِدَرَجَةٍ إِنَّ اَلْإِيمَانَ يُشَارِكُ اَلْإِسْلاَمَ فِي اَلظَّاهِرِ وَ اَلْإِسْلاَمَ لاَ يُشَارِكُ اَلْإِيمَانَ فِي اَلْبَاطِنِ وَ إِنِ اِجْتَمَعَا فِي اَلْقَوْلِ وَ اَلصِّفَةِ .
جناب سماعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعبداللّٰہ امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا۔اے مولا!آپ مجھے بتائیں کہ کیا اسلام اور ایمان دو مختلف چیزیں ہیں؟
آپؑ نے فرمایا: ایمان اسلام میں شریک ہے(ہر مومن مسلمان ہے)لیکن اسلام ایمان میں شریک نہیں ہے۔(ہر مسلمان کا مومن ہونا ضروری نہیں) میں نے عرض کیا: آپ ان دونوں کو میرے لیے واضح فرمائیں۔
آپؑ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ یہ گواہی دی جائے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللّٰہ کے اور رسول خداؐ کی تصدیق کی جائے اسی کے ساتھ خون محفوظ ہوجاتےہیں اور نکاح جاری ہوتے ہیں اور میراث مل جاتی ہےاور اس ظاہر پر لوگ ہیں۔ایمان وہ ہدایت ہے جس کی وجہ سے دلوں میں اسلام داخل ہوتا ہے اور ظاہر میں عمل ہوتاہے۔ایمان اسلام سے بلند درجہ ہے۔تحقیق ایمان علی الظاہر اسلام میں شریک ہے لیکن اسلام ایمان میں باطنا شریک نہیں ہے۔اگرچہ قول و صفت میں دونوں جمع ہو جائیں(شھادتین کا اقرار توحید و رسالت کی تصدیق دونوں کی شرائط میں ہیں)۔
(اصول کافی ج3ص264)
23۔ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ يَقُولُ: إِنَّ اَلْإِيمَانَ يُشَارِكُ اَلْإِسْلاَمَ وَ لاَ يُشَارِكُهُ اَلْإِسْلاَمُ ، إِنَّ اَلْإِيمَانَ مَا وَقَرَ فِي اَلْقُلُوبِ وَ اَلْإِسْلاَمَ مَا عَلَيْهِ اَلْمَنَاكِحُ وَ اَلْمَوَارِيثُ وَ حَقْنُ اَلدِّمَاءِ، وَ اَلْإِيمَانَ يَشْرَكُ اَلْإِسْلاَمَ وَ اَلْإِسْلاَمَ لاَ يَشْرَكُ اَلْإِيمَانَ.
فضیل بن یسار نے بیان کیا ہےکہ میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے سنا ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
ایمان اسلام میں شریک ہے۔لیکن اسلام ایمان میں شریک نہیں۔ایمان وہ ہے جو دل میں ثابت و مضبوط ہو اور اسلام وہ چیز ہے جس سے خون محفوظ اور نکاح جائز اور میراث دیتاہے۔ایمان اسلام میں شریک ہے لیکن اسلام ایمان میں شریک نہیں ہے۔
(اصول کافی ج3ص265)
24۔ عَنْ أَبِي اَلصَّبَّاحِ اَلْكِنَانِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ اَلْإِيمَانُ أَوِ اَلْإِسْلاَمُ فَإِنَّ مَنْ قِبَلَنَا يَقُولُونَ إِنَّ اَلْإِسْلاَمَ أَفْضَلُ مِنَ اَلْإِيمَانِ فَقَالَ اَلْإِيمَانُ أَرْفَعُ مِنَ اَلْإِسْلاَمِ قُلْتُ فَأَوْجِدْنِي ذَلِكَ قَالَ مَا تَقُولُ فِيمَنْ أَحْدَثَ فِي اَلْمَسْجِدِ اَلْحَرَامِ مُتَعَمِّداً قَالَ قُلْتُ يُضْرَبُ ضَرْباً شَدِيداً قَالَ أَصَبْتَ قَالَ فَمَا تَقُولُ فِيمَنْ أَحْدَثَ فِي اَلْكَعْبَةِ مُتَعَمِّداً قُلْتُ يُقْتَلُ قَالَ أَصَبْتَ أَ لاَ تَرَى أَنَّ اَلْكَعْبَةَ أَفْضَلُ مِنَ اَلْمَسْجِدِ وَ أَنَّ اَلْكَعْبَةَ تَشْرَكُ اَلْمَسْجِدَ وَ اَلْمَسْجِدُ لاَ يَشْرَكُ اَلْكَعْبَةَ وَ كَذَلِكَ اَلْإِيمَانُ يَشْرَكُ اَلْإِسْلاَمَ وَ اَلْإِسْلاَمُ لاَ يَشْرَكُ اَلْإِيمَانَ .
جناب ابو الصباح الکنانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعبداللّٰہ ؑ کی خدمت میں عرض کیا۔دونوں میں سے افضل کون ہے؟ ایمان یا اسلام؟۔کیونکہ ہمارے پاس کچھ لوگ ہیں جوکہتے ہیں کہ اسلام ایمان سے افضل ہے؟۔
آپؑ نے فرمایا: ایمان کا درجہ اسلام سے بلند ہے۔
میں نے عرض کیامیرے لیے اس کو واضح وروشن کریں۔
آپؑ نے فرمایا: جو بندہ مسجد الحرام میں جان بوجھ کر پاخانہ کرے۔اس کے بارے میں تو کیا کہے گا؟
میں نے عرض کیا : اس کی سخت پٹائی کی جائیں گی۔
آپؑ نے فرمایا: تو نے ٹھیک کہا۔
پھر آپؑ نے فرمایا: اگر کوئی بندہ جان بوجھ کر خود کعبہ میں پاخانہ کردے اس کے بارے میں تیرا کیا حکم ہے؟
میں نے عرض کیا: کہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔
آپؑ نے فرمایا: تو نے ٹھیک کہا ہے کیا تونے نہیں دیکھا کہ کعبہ مسجد سے افضل ہے کعبہ مسجد میں شریک ہےداخل ہے لیکن مسجد کعبہ میں داخل نہیں شریک نہیں۔ایسے ہی ایمان اسلام میں شریک ہے لیکن اسلام ایمان میں شریک نہیں ہے۔
(اصول کافی ج3ص265)
25۔ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فَقَالَ لَهُ سَلاَّمٌ إِنَّ خَيْثَمَةَ اِبْنَ أَبِي خَيْثَمَةَ يُحَدِّثُنَا عَنْكَ أَنَّهُ سَأَلَكَ عَنِ اَلْإِسْلاَمِ فَقُلْتَ لَهُ إِنَّ اَلْإِسْلاَمَ مَنِ اِسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ شَهِدَ شَهَادَتَنَا وَ نَسَكَ نُسُكَنَا وَ وَالَى وَلِيَّنَا وَ عَادَى عَدُوَّنَا فَهُوَ مُسْلِمٌ فَقَالَ صَدَقَ خَيْثَمَةُ قُلْتُ وَ سَأَلَكَ عَنِ اَلْإِيمَانِ فَقُلْتَ اَلْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَ اَلتَّصْدِيقُ بِكِتَابِ اَللَّهِ وَ أَنْ لاَ يُعْصَى اَللَّهُ فَقَالَ صَدَقَ خَيْثَمَةُ .
جناب ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو جعفر امام محمد باقر ؑ کی خدمت اقدس میں موجود تھا میں نے آپؑ کو سلام عرض کیااور اس کے بعد آپ ؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ خیثمہ ابن ابو خیثمہ نے آپ سے ایک روایت ہمارے سامنے بیان کیا ہےاور اس نے آپ سے اسلام کے بارے میں سوال کیا ۔
آپؑ نے اس سے فرمایاوہ اسلام رکھتا ہے جو ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرے اور ہماری شھادت کی شھادت اور ہمارے طریقہ عبادت کے مطابق عبادت کرے اور ہمارے دوست کو دوست اور ہمارے دشمن کو دشمن رکھتا ہو۔یہ مسلمان ہے ۔آپؑ نے فرمایا: خیثمہ نے سچ کہا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ آپ سے ایمان کے بارے میں اس سے سوال کیاتھا آپ نےفرمایا: اللّٰہ پر ایمان اور کتاب خدا کی تصدیق اور خدا کی نا فرمانی نہ کرنا یہ ایمان ہے۔تو آپؑ نے فرمایا: ہاں یہ بھی خیثمہ نے سچ کہا ہے۔
( اصول کافی ج 3 ص 292)
26۔ قال الإمامُ الباقرُ عليه السلام :” الإيمانُ إقرارٌ وعملٌ ، والإسلامُ إقرارٌ بلا عملٍ۔”
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا:”ایمان (خدا ،رسولؐ اور ابدی حقیقتوں کو سمجھ کر)اقرار کرنے اور خدا کے احکامات پر عمل کرنے کا نام ہے۔جبکہ اسلام عمل کے بغیر صرف اقرار کا نام ہے۔
[ تحف العقول : 297 . ] ایمان اورعمل
27۔ قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وسلم :” الإيمانُ والعملُ أخَوانِ شَريكانِ في قَرَنٍ ، لا يَقْبلُ اللّه ُ أحدَهُما إلّا بصاحبِهِ۔”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”ایمان اور عمل دو شریک بھائی ہیں ۔خدا وند عالم کسی ایک کو دوسرے کے بغیر قبول نہیں کرتا ۔”
[ کنزالعمّال :ح: 59 ] 28۔ قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وسلم:” لُعِنَتِ المُرْجِئةُ على لِسانِ سَبعينَ نَبيّا ، الّذينَ يقولونَ : الإيمانُ قَولٌ بلا عملٍ .”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا م:”رجئہ پر ستّر نبیوں کی زبان سے لعنت کی گئی ہے اور مرجئہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں "ایمان عمل کا نہیں قول کا نام ہے”۔
[ کنزالعمّال : 637 . ]

29۔ قال الإمامُ عليٌّ عليه السلام :” لو كانَ الإيمانُ كلاما لم يَنْزِلْ فيهِ صَومٌ ولا صلاةٌ ولا حلالٌ ولا حرامٌ . "
امام علی ؑ نے فرمایا؛”اگر ایمان زبانی صرف اقرار ہوتا تو پھر نماز ،روزے اور حلال و حرام کے نازل کرنے کی ضرورت نہ تھی۔”
[ بحار الأنوار :ج 69 / 19 / 2 ] 30۔ قال الإمامُ الكاظمُ عليه السلام : "الإيمانُ عملٌ كلُّهُ والقَولُ بعضُ ذلكَ العملِ بِفَرضٍ مِن اللّه ِ بَيَّنَهُ في كِتابهِ .
امام موسی ٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:”ایمان سارے کا سارا عمل ہے اور قول بھی عمل ہی ہے جو خدا کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور جسے اللّٰہ نے اہنی کتاب میں واضح کردیا ہے۔”
[ الکافی : 2 / 38 / 7 . ] ایمان کے درجات
31۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي اَلْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَضَعَ اَلْإِيمَانَ عَلَى سَبْعَةِ أَسْهُمٍ عَلَى اَلْبِرِّ وَ اَلصِّدْقِ وَ اَلْيَقِينِ وَ اَلرِّضَا وَ اَلْوَفَاءِ وَ اَلْعِلْمِ وَ اَلْحِلْمِ ثُمَّ قَسَمَ ذَلِكَ بَيْنَ اَلنَّاسِ فَمَنْ جَعَلَ فِيهِ هَذِهِ اَلسَّبْعَةَ اَلْأَسْهُمِ فَهُوَ كَامِلٌ مُحْتَمِلٌ وَ قَسَمَ لِبَعْضِ اَلنَّاسِ اَلسَّهْمَ وَ لِبَعْضٍ اَلسَّهْمَيْنِ وَ لِبَعْضٍ اَلثَّلاَثَةَ حَتَّى اِنْتَهَوْا إِلَى اَلسَّبْعَةِ ثُمَّ قَالَ لاَ تَحْمِلُوا عَلَى صَاحِبِ اَلسَّهْمِ سَهْمَيْنِ وَ لاَ عَلَى صَاحِبِ اَلسَّهْمَيْنِ ثَلاَثَةً فَتَبْهَضُوهُمْ ثُمَّ قَالَ كَذَلِكَ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى اَلسَّبْعَةِ ۔”
جناب عمار بن ابی الاحوص بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو عبداللّٰہ ؑ نے فرمایا:اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان کو ساتھ حصوں پر تقسیم کیا ہے۔نیکی کرنا،سچ بولنا،یقین،رضا،وفا،علم،بردباری۔پھر خدا نے اس کو لوگوں میں تقسیم کیا ہے پس جس کو سات حصے عطا فرمائے اس کا ایمان کامل ہے۔بعض لوگ وہ ہیں جن کو ایک حصہ عطا کیا ہے اور بعض لوگ وہ ہیں جن کو دو حصے عطا فرمائے ہیں۔بعض وہ ہیں جن کو تین عطا فرمائے ہیں اسی طرح سات حصے تک۔پھر فرمایا:جس کو خدا نے ایمان کا ایک حصہ عطا کیاہے اس سے دو کامطالبہ نہ کرو جس کو دو حصے عطا کیے ہیں ان پر تین والے احکام تحمیل نہ کرو ۔یہاں تک کہ آپ ساتویں درجہ تک گئے۔
. [ الکافی , : 2 / 42 / 1 ، ] 32۔ قال الإمامُ الصّادقُ عليه السلام : إنّ الإيمانَ عَشْرُ دَرَجاتٍ بِمَنزِلَةِ السُلَّمِ، يُصْعَدُ مِنهُ مِرْقاةً بَعدَ مِرْقاةٍ، فلا يَقُولَنَّ صاحبُ الاثنَينِ لِصاحِبِ الواحدِ : لَستَ على شَيءٍ ، حتّى يَنْتهيَ إلَى العاشِرِ . فلا تُسْقِطْ مَن هُو دُونَكَ فيُسْقِطَكَ مَن هُو فَوقَكَ ، وإذا رأيتَ مَن هُو أسْفَلُ مِنكَ بدرجةٍ فارْفَعْهُ إليكَ برِفْقٍ ، ولا تَحْمِلَنَّ علَيهِ ما لا يُطيقُ فَتَكْسِرَهُ ، فإنّ مَن كَسَرَ مؤمنا فعلَيهِ جَبْرُهُ۔”
امام صادق ؑ نے فرمایا:”ایمان کے دس درجات ہیں جو سیڑھی کے زینے کی مانند ہیں جس پر ایک کے بعد دوسرے پر چڑھا جاتاہےپس جو دوسرے زینے پر ہے اس کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پہلے زینے والے سے کہےکہ تو کچھ بھی نہیں ہے اور تیرے پاس ایمان نہیں ہے۔یہاں تک کہ آپؑ نے دسویں زینے تک کو بیان فرمایا۔پس جو تم سے نیچے والے درجے پر ہے اس کو حقیر نہ جان تاکہ تیرے سے اوپر والا تجھے حقیر نہ قرار دےپس جب ت وکسی کو دیکھےکہ وہ تیرے سے ایک درجہ کم ہےتو اس کو نرمی اور محبت سے اپنے والے درجہ تک لے کر آنے کی کوشش کرو۔اور اس کے ذمہ وہ امور نہ لگاؤ جس کی وہ طاقت ہی نہیں رکھتا تاکہ وہ ٹوٹ نہ جائےپس جو کسی مومن کو توڑے گااس کے ذمہ ہوگا کہ وہ اس کا جبران کرے۔”
[الکافی ,: 2 / 45 / 2 ] ایمان کے ارکان
33۔ قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وسلم:” الإيمانُ في عَشرَةٍ : المعرفةُ ، والطّاعةُ ، والعِلمُ ، والعَملُ ، والوَرَعُ ، والاجتِهادُ ، والصَّبرُ ، واليقينُ ، والرِّضا ، والتَّسْليمُ ، فأيَّها فَقدَ صاحِبُهُ بَطَلَ نِظامُهُ . "
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”ایمان دس چیزوں میں ہے۔معرفت ، اطاعت ،علم ، عمل ، پرہیزگاری ، اجتہاد ، صبر ،یقین ، رضا و تسلیم۔”
[بحار الأنوار :ج 69 / 175 / 28 ] 34۔ قال الإمامُ عليٌّ عليه السلام :” الإيمانُ على أربَعةِ أرْكانٍ : التَّوكُّلُ علَى اللّه ِ، والتَّفْويضُ إلَى اللّه ِ ، والتَّسْليمُ لأمرِ اللّه ِ ، والرِّضا بِقَضاءِ اللّه "
امام علی ؑ نے فرمایا: ایمان چار ستونوں پر قائم ہے۔
1۔خدا پر بھروسہ کرنا۔
2۔اپنے معاملات اللّٰہ کے حوالے کردینا۔
3۔اللّٰہ کے احکامات کے سامنے سرِ تسلیم خم کردینا۔
4۔اللّٰہ کے فیصلے پر راضی ہونا۔
[ بحار الأنوار : 78 / 63 / 154 . ] 35۔ قال الامام علی عليه السلام : "حُسْنُ العَفافِ والرِّضا بالكَفافِ مِن دعائمِ الإيمانِ .”
امام علی ؑ نے فرمایا:”بہترین پاک دامن اور بقدر ضرورت ملنے والی چیز پر راضی رہنا ایمان کے ارکان میں سے ہے۔”
[ غرر الحکم: ح: 4838 . ] مومن کی عظمت
36۔ قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله :” المؤمنُ هَيِّنٌ لَيِّنٌ ، حتّى تَخالَهُ مِن اللِّينِ أحمقَ .”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” مومن اتنا نرم مزاج ہوتا ہے کہ لوگ اس کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔”
[ کنزالعمّال : 690 ] 37۔ قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله: المؤمنُ مَن آمَنَهُ النّاسُ على دِمائهِم وأموالِهم .
38۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”مومن وہ ہے جسے لوگ اپنے خون اور مال کا امین سمجھیں۔”
[ کنزالعمّال :ح: 739 ] 39۔ قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله: "المؤمن يَبدأ بالسَّلامِ ، والمنافقُ يقولُ : حتّى يُبْدأَ بي! "
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”مومن سلام کی ابتداء خود کرتا ہے جبکہ منافق چاہتا ہے کہ لوگ اس کو سلام کریں۔”
[ کنزالعمّال : 778 . ] 40۔ قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله:” المؤمنُ يألَفُ ويُؤلَفُ ، ولا خيرَ فيمَن لا يألَفُ ولا يُؤلَفُ ، وخيرُ النّاسِ أنفَعهُمْ للنّاسِ .”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”مومن دوسروں سے محبت کرتا ہے اور لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔جس میں یہ صفتِ محبت نہ ہو اس میں کوئی اچھائی نہیں ہوتی۔بہترین انسان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔”
[ کنزالعمّال : 679 ] 41۔ قال رسول اللہ صلى الله عليه و آله : "مَن سَرَّتْهُ حَسَنتُهُ وساءَتْهُ سَيّئتُهُ فهُو مؤمنٌ .
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” جو اپنی کی ہوئی نیکی کی وجہ سے خوش ہوجائے اور اپنی برائی سے ناراحت ہوجائے وہ مومن ہے۔”
[ كنز العمّال : 700 . ] 42۔ قال الإمامُ عليٌّ عليه السلام : المؤمنُ بِشْرُهُ في وجهِهِ ، وحُزنُهُ في قلبِهِ ، أوسَعُ شَيءٍ صَدْرا ، وأذَلُّ شَيءٍ نَفْسا ، يَكْرَهُ الرِّفْعةَ ، ويَشْنَأُ السُّمْعةَ ، طويلٌ غمُّهُ ، بَعيدٌ هَمُّهُ ، كثيرٌ صَمتُهُ ، مَشغولٌ وقتُهُ ، شَكورٌ ، صَبورٌ ، مَغمورٌ بفِكرَتِهِ ، ضَنينٌ بخَلّتِهِ ، سَهلُ الخَليقةِ ، لَيِّنُ العَرِيكةِ ، نَفسُهُ أصْلَبُ مِن الصَّلْدِ ، وهُو أذَلُّ مِن العبدِ .
امام علی ؑ نے فرمایا؛”مومن کاچہرہ خوش،دل غمگین رہتا ہے۔اس کا دل سب کےلئے کھلا ہوا ہوتا ہے۔خود کو دل میں حقیر گنہگار اور معمولی انسان سمجھتا ہےمگر اس کے ارادے ہمیشہ بلنداور مضبوط ہوتےہیں زیادہ تر خاموش اور مصروف رہتا ہے۔ہمیشہ خداکا شکر ادا کرتا ہے،بلاؤں میں صبر کرتا ہے ،غوروفکر میں ڈوبا رہتا ہے ،نرم مزاج دوستوں کا دوست،خوش اخلاق، سخت محنتی اور غلاموں سے زیادہ خدا کا فرمانبردار ہوتا ہے۔
[ بحار الأنوار: 69/410/127 . ] 43۔ قال علی عليه السلام : "المؤمنُ شاكرٌ في السَّرّاءِ ، صابرٌ في البلاءِ ، خائفٌ في الرَّخاءِ . "
امام علی ؑنے فرمایا:”مومن خوشحالی میں شکر کرنے والا،مصیبت پر صبر کرنے والااور کشائش میں خوف کھانے والا ہے۔
[غرر الحکم : ح:1743 ] 44۔ قال علی عليه السلام: المؤمنُ غِرٌّ كريمٌ ، مأمونٌ على نفسِهِ ، حَذِرٌ مَحزونٌ .
امام علی ؑنے فرمایا ؛”مومن عزیز اور گرانقدر ،اپنے نفس کا محافظ اور احتیاط کے ساتھ محزون و مغموم ہے۔”
[غرر الحکم : 1901 ] 45۔ قال علی عليه السلام: المؤمن مَن طَهّرَ قلبَهُ مِن الدَّنِيَّةِ .
امام علی ؑنے فرمایا :”مومن وہ ہےجو اپنے قلب کو پستی یا شک سے پاک کرلے۔”
[غرر الحکم : 1956 ] 46۔ قال الامام علی عليه السلام : "المؤمنُ مَن وَقى دِينَهُ بدُنياهُ ، والفاجرُ مَن وقى دُنياهُ بدِينِهِ .”
امام علی ؑ نے فرمایا:”مومن وہ ہے جو اپنے دین کو اپنی دنیا سے بچاتا ہے اور فاجروہ ہےجو اپنی دنیا کو اپنے دین سے بچاتا ہے۔”
[غرر الحکم : 2160 . ] 47۔ قال الإمامُ زينُ العابدينَ عليه السلام : "المؤمنُ يَصمُتُ لِيَسْلَمَ، ويَنْطِقُ لِيَغْنَمَ ”
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:”مومن ہمیشہ خاموش رہتا ہے تاکہ گناہوں سے بچا رہے اور بات صرف اس وقت کرتا ہے جب کسی کا فائدہ ہو”۔
[الکافی , : 2 / 231 / 3 ] 48۔ قال الامام الصادق عليه السلام :” المؤمنُ لَه قوّةٌ في دِينٍ ، وحَزْمٌ في لِينٍ ، وإيمانٌ في يقينٍ ، وحِرْصٌ في فِقهٍ ، ونَشاطٌ في هُدىً … وصَلاةٌ في شُغلٍ .
امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:”مومن میں دین و ایمان کی قوت ہوتی ہے۔نرمی اور احتیاط ہوتی ہے اس کے یقین میں ایمان ہوتا ہے۔وہ دین کی گہری سمجھ حاصل کرنے کا حریص ہوتا ہے۔ہدایت پاکر خوش ہوتا ہے اور نماز میں مشغول رہتا ہے۔”
(الکافی : 2 / 231 / 4 ] 49۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ فِيهِ ثَمَانِي خِصَالٍ وَقُوراً عِنْدَ اَلْهَزَاهِزِ صَبُوراً عِنْدَ اَلْبَلاَءِ شَكُوراً عِنْدَ اَلرَّخَاءِ قَانِعاً بِمَا رَزَقَهُ اَللَّهُ لاَ يَظْلِمُ اَلْأَعْدَاءَ وَ لاَ يَتَحَامَلُ لِلْأَصْدِقَاءِ بَدَنُهُ مِنْهُ فِي تَعَبٍ وَ اَلنَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ إِنَّ اَلْعِلْمَ خَلِيلُ اَلْمُؤْمِنِ وَ اَلْحِلْمَ وَزِيرُهُ وَ اَلْعَقْلَ أَمِيرُ جُنُودِهِ وَ اَلرِّفْقَ أَخُوهُ وَ اَلْبِرَّ وَالِدُهُ "
امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: کہ مومن میں آٹھ خصلتیں ہونی چاہئیں۔فتنہ و فساد کے وقت صاحبِ قابو ہو، مصیبتوں میں صابر ہو، عیش میں شکر گزار ہو،جو رزق اللّٰہ نے دیا ہے اس پر قانع ہو، دشمنوں پر ظلم نہ کرے،اور دوستوں پر بوجھ نہ ڈالے،یا بناوٹی باتیں نہ کرے،اس کا بدن اس سے تعب میں رہے لوگ اس سے راحت میں رہیں۔ علم مومن کا دوست ہے حلم اس کا وزیر ہے عقل اس کے لشکر کا امیر ہے نرمی اس کا بھائی ہے نیکی اس کا باپ ہے۔”
.(الکافی ,, جلد۲ , صفحه۴۷)
50۔ عَنْ أَبِي اَلْحَسَنِ اَلرِّضَا عَنْ أَبِيهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: رَفَعَ إِلَى رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ قَوْمٌ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ فَقَالَ مَنِ اَلْقَوْمُ فَقَالُوا مُؤْمِنُونَ يَا رَسُولَ اَللَّهِ قَالَ وَ مَا بَلَغَ مِنْ إِيمَانِكُمْ قَالُوا اَلصَّبْرُ عِنْدَ اَلْبَلاَءِ وَ اَلشُّكْرُ عِنْدَ اَلرَّخَاءِ وَ اَلرِّضَا بِالْقَضَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ حُلَمَاءُ عُلَمَاءُ كَادُوا مِنَ اَلْفِقْهِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ إِنْ كُنْتُمْ كَمَا تَصِفُونَ فَلاَ تَبْنُوا مَا لاَ تَسْكُنُونَ وَ لاَ تَجْمَعُوا مَا لاَ تَأْكُلُونَ وَ اِتَّقُوا اَللَّهَ اَلَّذِي إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ .
امام رضا ؑ نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی ہے کہ ایک غزوہ میں کچھ لوگ رسول اللّٰہ ؐ کے پاس آئے آپؐ نے پوچھا یہ لوگ کون ہیں ؟انہوں نے کہا اے رسول اللّٰہؐ ہم مومن ہیں۔فرمایا:تمہارا ایمان کس چیز سے کامل ہوا؟انہوں نے کہا ہم مصیبت میں صبر کرتے ہیں اور عیش میں شکر کرتے ہیں اور قضائے الہی پر راضی ہیں۔فرمایا یہ لوگ حلیم اور عالم ہیں قریب ہے کہ یہ اپنے علم دین کی بدولت نبی ہوجائیں گے اگر ایسا ہی ہےجیسا بیان کرتے ہیں ۔اپنی ضرورت سے زیادہ مکان نہ بناؤ اور ضرورت سے زیادہ کھانے کا سامان مہیا نہ کرو اس اللّٰہ سے ڈرو جس کی طرف لوٹ کرجاناہے۔
( الکافی , جلد۲ , صفحه۴۸)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button