امام جعفر صادق علیہ السلام کی نظر میں علماء کی قدر و منزلت

اما جعفر صادق علیہ السلام وہ مبارک ہستی ہیں جن کی برکت سے تمام حوزات علمیہ اور تمام علوم روا دواں ہیں۔ جن پر شیعہ آج فخر و مباہات کرتے ہیں، آپ دیکھیں کہ ہمارے پاس اس مبارک ہستی سے کتنی روایات موجود ہیں، کتنے اصحاب، اشخاص اور بزرگوں نے آپ علیہ السلام سے تمام فقہی مسائل میں روایات کو ہمارے لئے بیان کیے ہیں۔
میں یہاں پر دو مطلب کے بارے میں کچھ عرائض پیش کرنا چاہتا ہوں، ایک مطلب یہ ہے کہ حافظان دین کی تکریم اور احترام کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کی سیرت کیا تھی، اس بارے میں ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جو لوگ امام صادق علیہ السلام کی نظر میں دین کے حافظ تھے آپ کے نزدیک ان کی کیا حیثیت تھی؟، یہ مطلب ہم طلاب علوم دینی کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ ہم سب کا دعوا ہے کہ ہم دین کی حفاظت کے راستہ میں آئے ہیں اور اس راستہ میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں، اس بارے میں توجہ کرنے سے خود ہمیں بھی اپنے کام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی ان کی ذمہ داری مشخص ہو جاتی ہے، جب ایک انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ حافظان دین کی امام صادق علیہ السلام کے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت ہے، تو اس کے بعد علماء اور مراجع کو بھی ایک عام آدمی نہیں سمجھیں گے، اور ان کی اعتبار اور قدر و منزلت کو دوسرے لوگوں کے برابر قرار نہیں دیں گے، اس بارے میں، میں چند روایات کو نقل کرتا ہوں:
فضل بن عبد الملک کہتا ہے: سمعت ابا عبداللّٰه عليه السلام يقول أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ أَحْيَاءً وَ أَمْوَاتاً أَرْبَعَةٌ بُرَيْدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْعِجْلِيُّ وَ زُرَارَةُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَ الْأَحْوَلُ وَ هُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ أَحْيَاءً وَ أَمْوَات، میرے نزدیک محبوب ترین لوگ چاہے وہ زندہ ہو یا دنیا سے چلے گئے ہوں، چار نفر ہیں: بُرید، زرارہ، محمد بن مسلم و احوَل۔
جمیل بن دراج کی روایت میں فرماتےہیں: بَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ بِالْجَنَّةِ بُرَيْدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْعِجْلِيُّ وَ أَبُو بَصِيرٍ لَيْثُ بْنُ الْبَخْتَرِيِّ الْمُرَادِيُّ وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَ زُرَارَةُ أَرْبَعَةٌ نُجَبَاءُ أُمَنَاءُ اللّٰهِ عَلَى حَلَالِهِ وَ حَرَامِهِ لَوْ لَا هَؤُلَاءِ انْقَطَعَتْ آثَارُالنُّبُوَّةِ وَانْدَرَسَتْ؛امام صادق علیہ السلام جنت کی بشارت دیتے ہوئے نجبای اربعہ ( چار نجیب افراد) کا نام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں؛ اگر یہ چار نہ ہوتے تو آثار نبوت ختم ہو جاتے، یہ چار نفر، بریدبن معاویہ عجلی، محمد بن مسلم، زرارہ اور ابو بصیر لیث بن بختری مرادی ہیں۔
داود بن صرحان امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے: إنّه قال إنّ أصحاب أبيه كانوا زيناً أحياءاً و اموات؛ امام صادق علیہ السلام فرماتےہیں: میرے پدربزرگوار امام باقر علیہ السلام کے اصحاب دین اور لوگوں کی زینت ہیں، زندہ ہوں یا دنیا سے چلے گئے ہوں۔ یہ تاکید اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ ان افراد کی اہمیت صرف ان کی حیات پر منحصر نہیں ہے بلکہ جب دنیا سے چلے جائے تب بھی ان کی اہمیت باقی ہے، اس کے بعد آپؑ ان چار افراد کے نام لیتے ہیں:زرارہ، محمد بن مسلم، ابو بصیر و برید۔ اس کے بعد فرماتےہیں: هولاء القوامون بالقسط، هولاء القوالون بالصدق؛ یہ لوگ عدالت برپا کرنے والے ہیں، یعنی یہ اشارہ ہے اس قائمین بالقسط کی طرف جو قرآن کریم میں ذکر ہے اب اسی طرح السابقون السابقون کے عنوان کے تحت بھی وہ لوگ شامل ہیں جو دین کی حفاظت کرنے، دین کو بیان کرنے اور دین کو قوت پہنچانے میں دوسروں سے سبقت لے لیں۔
ایک اور روایت جو پہلے روایات کی نسبت کچھ مفصل ہے، اس میں جمیل بن دراج کہتا ہے: میں ایک دن امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو ایک شخص وہاں سے نکل کر جا رہا تھا، حضرتؑ نے مجھ سے فرمایا: لقيت الرجل الخارج من عندي؛ جو شخص یہاں سے نکل کر جا رہا تھا کیا تم نے اس کو دیکھا؟ فقلت بلي؛ عرض کیا: جی ہاں! هو رجلٌ من اصحابنا من أهل الكوفه؛ پہلے جمیل نے کہا یہ شخص ہمارے افراد میں سے ہے اور اہل کوفہ سے ہے، امام علیہ السلام نے فرمایا: لا قدّس اللّٰه روحه و لا قدّس مثله؛خدا اس کی روح کی تزکیہ نہ کرے! یہ یا نفرین ہے، یا یہ بھی وہ دعا ہے جو ہم عام طور پر کرتے ہیں قدس اللّٰه نفسه، حضرت فرماتے ہے: یہ دعا اس شخص کے لئے نہ ہو، یہ نفرین سے ایک درجہ کم ہے !یا یہ نفرین ہی ہے کہ ممکن ہے ایسا ہی ہو، یا یہ بتایا جائے کہ حضرت اس کو نفرین کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ نفرین سے ایک درجہ کم کو بیان فرمایا ہے، یعنی یہ دعا جو اولیاء خدا کے لئے ہے، ایسے افراد کے لئے نہ ہو ! إنّه ذكر اقوام؛اس کے بعد حضرت اس شخص کو نفرین کرنے کی علت کو بیان فرماتے ہیں۔
فرماتے ہیں اس کی علت یہ ہے کہ اس شخص نے میرے سامنے ان افراد کو برا بھلا کہنا شروع کیا جو میرے والد بزرگوار کے امین اور مورد اطمینان تھے، اور میرے والد گرامی ان پر اعتماد کرتے تھے ذكر اقوام یعنی ان کی عیب جوئی کی۔ كان أبي ائتمنهم علي حلال اللّٰه وحرامه؛ ان افراد کی برائی کی جو میرے والد کے ہاں خدا کے حلال اور حرام پر امین تھے۔ و كانوا عيبة علمه؛ یہ لوگ میرے باپ کے علم کے مخزن تھے، و كذلك اليوم هم مستودع سرّي؛ آج بھی میں اپنے اسرار کو ان کے پاس امانت رکھتا ہوں، دین کے تمام اسرار کو میں ان تک منتقل کرتا ہوں، اصحاب أبي حقّاً إذا أراد اللّٰه لأهل الأرض سوءاً صرف بهم عنهم السوء؛ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر خداوند متعال روئے زمین کے تمام لوگوں پر عذاب نازل کرنا چاہے تو انہیں چار نفر کی برکت سے عذاب کو ان سے ٹال دے گا۔ هم نجوم شيعتي احياءاً و اموات؛ یہ میرے شیعوں کے ستارے ہیں زندہ ہو یا اس دنیا سے چلے جائیں يحيون ذكر أبي؛ یہ لوگ میرے والد اور اجداد کے ذکر کوزندہ رکھنے والے ہیں بهم يكشف اللّٰه كلّ بدعةٍ؛ لوگوں کے لئے جو بھی بدعت پیش آتی ہے وہ ان لوگوں کے ذریعہ واضح ہوجاتی ہے، یہ لوگ کاشف بدعت ہیں، ينفون عن هذا الدين إنتحال المبطلين و تعوّل الغالين؛ یہ لوگ ان لوگوں کو اس دین سے جدا کرتے ہیں جو حقیقتا متدین نہیں ہیں لیکن اپنے آپ کو اس دین سے منسوب کرتے ہیں اور بغیر کسی ملاک اور معیار کے اس دین سے اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، ان سب کو یہ لوگ اس دین سے جدا کرتے ہیں۔
حدیث کے باقی حصوں کو بیان کرنے سے پہلے یہاں پر ایک مطلب کو بیان کروں؛ اگر واقعاً کسی زمانہ میں زرارہ، محمد بن مسلم اور برید وغیرہ میں یہ خصوصیات تھیں جسے امام صادق علیہ السلام بیان فرما رہے ہیں، اور چونکہ کسی شخص نے ان کی برائی کی تھی تو امام علیہ السلام اس شخص کو نفرین کرتے ہیں، ہمارے زمانہ میں کون لوگ حافظان دین ہیں؟ ہمارے زمانہ میں کونسے مراکز اور کون لوگ دین کی حفاظت کو اپنے ذمہ لیے ہوئے ہیں؟ علماء، حوزات علمیہ، بزرگان اور مراجع عظام، دین کے حافظان ہیں، اور یہ لاقدّس اللّٰه مثله ولاقدّس اللّٰه روحه وہی نفرین ہے جسے اس زمانہ میں امام صادق علیہ السلام نے کیا ہے، یہ ہمارے زمانہ میں بھی ان لوگوں کو شامل ہوتا ہے جو حافظان دین کی نسبت بے اعتنائی کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ یہ حضرات بیان کرے ان کے خلاف کچھ بولے، آج خدا کے حلال اور حرام کے امین کون ہیں؟ وہ یہی علماء، حوزات علمیہ، بزرگان اور مراجع عظام، دین کے حافظان ہیں۔
امام علیہ السلام اس روایت میں آگے فرماتے ہیں: ثم بكي؛ بہت ہی عجیب ہے، کسی شخص نے جب زرارہ کی برائی کی، محمد بن مسلم اور برید کی برائی کی توامام صادق علیہ السلام اتنے زیادہ ناراض ہوتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں آتے ہیں اور بعد میں گریہ بھی کرتے ہے کہ کیوں ایسا ہوا ہے؟
روایت میں فرماتا ہے: عليهم صلوات اللّٰه و رحمته أحياءاً و اموات؛ یہ لوگ زندہ ہو یا اس دنیا سے چلے جائیں خدا کی صلوات اور رحمت ان پر ہو، یہ علماء کے کام کی اہمیت کو ان لئے بیان کرتا ہے، یہ عظیم دورس جو حوزات علمیہ میں موجود ہیں یہ سب اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں حلال اور حرام کو جان جائیں! اس سے بڑھ کر کوئی افتخار نہیں ہے کہ انسان کا وجود خدا کے حلال اور حرام کا امین قرار پائے، خدا کے حلال اور حرام کا حافظ قرار پائے، اگر کسی جگہ دیکھ لیا ہے حلال ہے تو بیان کرے حلال ہے اور اگر دیکھ لیا حرام ہے تو اس کا مقابلہ کرے! اور اس کو بیان کرنے میں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہ کرے، بنیادی طور پر حلال اور حرام کے امین کی خصوصیات ہی یہی ہیں کہ ان میں کوئی خوف اور ڈر نہیں ہوتا، اگر کوئی کسی خوف اور ڈر کی وجہ سے کسی چیز کے حرام کو بیان نہ کرے سکے کہ کہیں اس سے مقابلہ نہ کرے، کہیں اس کی جو عزت و احترام ہے وہ ختم نہ ہو جائے، تو اس کے بعد یہ امین نہیں ہے! حلال اور حرام میں خدا کے امین وہ لوگ ہیں جو اگر کوئی چیز واقعا حلال ہے تو بیان کرے یہ حلال ہے اور اگر کوئی چیز حرام ہے توبیان کرے یہ حرام ہے اور اس کو بیان کرنے میں کسی سے نہ ڈرے۔
اسی منصور دوانیقی کے بارے میں نقل ہے کہ ایک دن اس نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: لم لا تغشانا كما يغشانا ساير الناس؛ جس طرح دوسرے سارے لوگ ہمارے پیچھے آتے ہیں، ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمارے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، کیوں آپ لوگ نہیں آتے؟ آپ نے جواب میں فرمایا: ليس لنا ما نخافك من اجله، بہت اچھا جواب ہے، فرمایا: ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے تم سے ڈر لگے، یعنی ہمیں کوئی خوف اور ڈر نہیں ہے کہ اس خوف کی وجہ سے تمہارے پاس آجائیں تا کہ محفوظ رہیں۔ و لا عندك من أمر الأخرة ما نرجوك له؛ اور آخرت کے لحاظ سے تمہارے پاس کوئی ایسی اہم چیز نہیں ہے کہ ہم اس کی امید سے تمہارے پاس آجائیں تا کہ یہ بولے کہ تمہارے پاس آنے سے خدا کے پاس ہمارے لئے ثواب ملے گا، اگر تمہارے پاس آجائے تو خدا سے تقرب حاصل ہو گا، ہماری آخرت کے لئے فائدہ مند ہو، کوئی ایسی چیز بھی تمہارے پاس نہیں ہے۔و لا أنت في نعمةٍ فنهنّيك عليه؛ ایسا بھی نہیں ہے کہ تمہارے پاس ایسی نعمت ہو کہ ہم آکر تمہیں اس کی مبارک بادی پیش کریں، اور یہ عمومی نعمتیں تو سب کے پاس ہیں، اب اگر لوگو کے اموال کو تم نے لے کر کھایا ہے اور ناحق طور پر ان کو خرچ کیا ہے تو یہ تمہارے لئے عذاب ہے۔ و لا تراها نقمةٌ فنعزيكاور؛ تم پرکوئی مصیبت بھی نہیں آئی ہے کہ میں تسلیت کے لئے تمہارے پاس آجاؤں، ملاحظہ فرمائیں کہ امام علیہ السلام کیسے جواب دے رہیں ہیں، یہ ان لوگوں کی خصوصیات میں سے ہے جو خدا وند تبارک و تعالی میں محو ہوتے ہیں، یہ حضرات یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے پاس جانا ان کے لئے دنیوی کسی فائدہ کا سبب بنے گا۔
بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ان کے پاس جانا ان کے آخرت کے لئے فائدہ دیتا ہے یا نہیں، ہمارہ ملاک اور معیار بھی یہی ہونا چاہئے، لوگوں کے ساتھ ہمارے ارتباط میں ملاک اور معیار اور بنیاد یہی چیز ہونی چاہئے، اگر کسی سے ارتباط قائم کرنا چاہیں تو دیکھیں واقعا علمی لحاظ سے ان کے پاس کچھ معلومات ہیں جن سے ہم استفادہ کر سکیں یا نہیں ہے؟ تقوی کے لحاظ سے اس کےساتھ ہونے کا کچھ فائدہ ہے یا نہیں؟ حوزات علمیہ میں یہ دیکھا جاتا تھا کہ کس نے اپنی عمر کو تہذیبِ نفس میں بسر کیا ہے؟ اور خدا کے لئے زحمت اٹھائی ہے، اس کے تلاش میں رہتے تھے اور اس سے معنوی طور پر بہرہ مند ہوتے تھے۔
یہ امام صادق علیہ السلام کی دین کے حافظوں کی نسبت عملی سیرت ہے اور ان افراد کے ساتھ بھی آپ علیہ السلام کی سیرت ہے جو دین کے کام نہیں آتے جیسے منصور دوانیقی، ملاحظہ فرمایا کہ امام علیہ السلام نے کس طرح اس سے برتاؤ کیا، کیسا جواب دیا، یہ ایک مطلب ہے۔
دوسرا مطلب: ایک جامع وصیت ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند گرامی امام موسی کاظم علیہ السلام کے لئے کیا ہے کہ آپ اس میں فرماتے ہیں: يا بنيّ إقبل وصيّتي واحفظ مقالتي فإنّك إن حفظتها تعيش سعيدا و تموت حميدا، يا بنيّ من رضي بما قسّم له استغني، من مدّ عينه إلي ما في يد غيره مات فقير۔۔۔؛ اے میرے بیٹے! میری وصیت کو سن لیں اور اس پر عمل کریں، اگر تم نے اسے سن لیا اور عمل کیا تو سعادتمند زندگی گزاروگے اور قابل تعریف ہو کر اس دنیا سے چلے جاؤ گے، اے بیٹا!جو شخص اس رزق و روزی پر راضی ہوا جو اسے نصیب ہوئی ہے وہ بے نیاز ہوا، لیکن جس نے اپنی آنکھ کو دوسروں کی ہاتھوں کی طرف کر لیا وہ فقیر مر ے گا۔
https://fazellankarani.com/urdu/news/20670/