خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:268)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 20 ستمبر 2024ء بمطابق 15ربیع الاول 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: میلادِ صادقینؑ 
17 ربیع الاول کا بابرکت دن کائنات کی عظیم ترین ہستی پیغمبر خاتم کا یوم ولادت ہے اور یہی دن ان کے چھٹے جانشین کا بھی یوم ولادت ہے لہذا اسی مناسبت سے ہم ان دو عظیم ہستیوں کی تعلیمات بیان کریں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب انبیاء پر افضیلت قرآن و احادیث کی روشنی میں
اللہ کے تمام انبیاء اس کی باقی مخلوقات سے افضل ہیں اور رسول خاتم ان تمام انبیاء سے بھی افضل ہیں یوں آپ تمام مخلوقات سے افضل ہستی ہیں۔ قرآن کریم کی نظر میں سب انبیاء (علیہم السلام) ہم رتبہ اور برابر فضائل کے حامل نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالی نے بعض انبیاء کو بعض دیگر پر فضیلت دی ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد الہی ہے:
"تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّٰہ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ[سورہ بقرہ، آیت 253]"، ” ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن سے اللہ ہمکلام ہوا اور اس نے ان میں سے بعض کے درجات بلند کی”۔ نیز سورہ اسراء میں اللہ تعالی ارشاد فرما رہا ہے:
"وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا"[ سورہ اسرا٫، آیت 55]،
"اور(اے رسول)آپ کا رب آسمانوں اور زمین کی موجودات کو بہتر جانتا ہے اور بتحقیق ہم نے انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور عطا کی ہے۔”۔ پہلی آیت میں رسولوں کی بعض دیگر رسولوں پر فضیلت بتائی گئی ہے اور دوسری آیت میں نبیوں کی بعض دیگر نبیوں پر فضیلت کا ذکر ہوا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کے بھی درجات ہیں اور رسولوں کے بھی درجات ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۲۴ کی بنیاد پر جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحان اور امامت کے سلسلہ میں ہے، بعض انبیاء امام بھی تھے اور سورہ انبیاء کی آیات 69 سے 73 تک حضرات ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور لوط کو امام کہا گیا ہے، ارشاد الہی ہے:
"وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَینَا إِلَیهِمْ فِعْلَ الْخَیرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءَ الزَّكَاةِ وَ كَانُوا لَنَا عَابِدِینَ "[ سورہ انبیا٫، آیت 73]، اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے نیک عمل کی انجام دہی اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کے لیے ان کی طرف وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے ۔”
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "سادَةُ النَّبيّينَ و المُرسَلينَ خَمسَةٌ، و هُم اُولو العَزمِ مِن الرُّسُلِ و علَيهِم دارَتِ الرَّحى: نُوحٌ، و إبراهيمُ، و موسى، و عيسى، و محمّدٌ صلَّى اللّٰه  علَيهِ و آلهِ و على جَميعِ الأنبياءِ[الکافی، ج۱، باب طبقات الانبیا٫ والرسل، حدیث 3]"، "انبیاء اور رسولوں کے سردار پانچ ہیں اور وہ اولوالعزم رسول ہیں اور (نبوت کی) چکّی ان کے اردگرد گھومتی ہے: نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد، اللہ کا درود ہو آنحضرت پر اور آنحضرت کی آل پر اور سب انبیاء پر”۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب انبیاء و مرسلین پر افضلیت قرآن و حدیث کی روشنی میں:
اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی دلائل میں سے صرف تین دلائل پیش کیے دیتے ہیں:
۱۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے مسلمان: اللہ تعالی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ کہہ دیجیے: "وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ[سورہ انعام، آیت 163]"، "اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں”۔ اس آیت کریمہ میں اول المسلمین سے مراد رتبہ کے لحاظ سے اولیت ہے، کیونکہ حضرت آدم ابوالبشر، نوح شیخ الانبیاء اور ابراہیم خلیل الرحمن کے بارے میں اللہ تعالی نے اول المسلمین کے الفاظ ذکر نہیں کیے، جبکہ یہ حضرات زمانے کے لحاظ سے پہلے گزر چکے تھے، یہاں سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اس آیت میں اولیت، زمانی، تاریخی اور مادی نہیں، اس لیے کہ اگر زمانی اولیت مقصود ہوتی تو یقیناً ہر پیغمبر اپنی قوم کی بہ نسبت اول المسلمین تو ہے، لیکن اول المسلمین کے الفاظ صرف آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استمعال کیے ہیں، لہذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اول المسلمین ہونا، وجودی رتبہ کے لحاظ سے ہے، یعنی کوئی شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجودی رتبہ کے برابر اور ہم پلہ نہیں ہے، جیسا کہ قیامت کے دن پہلا شخص جو محشور ہوگا، وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہوں گے۔
۲۔ حضرت عیسی (علیہ السلام) کی بشارت: "وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ[سورہ صف، آیت 6]"، "اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے”۔ بشارت وہاں ہوتی ہے جہاں بعد والا پیغمبر، اپنی امت کے لئے نئی بات لائے، اگر پیغمبر خاتم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گذشتہ انبیاء کے برابر یا حضرت عیسی (علیہ السلام) کی رسالت کے برابر بات کی ہو تو پہلے تو یہ ہے کہ پھر نئے پیغمبر کے آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور دوسرا یہ کہ بشارت کی بھی ضرورت نہیں تھی، مگر حضرت عیسی (علیہ السلام) کی یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت عیسی (علیہ السلام) سے افضل ہیں اور قرآن کریم انجیل سے افضل ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی گئی تعلیمات، حضرت عیسی کی لائی گئی تعلیمات سے زیادہ ہیں، کیونکہ صرف اِسی صورت میں ہی بشارت کے معنی وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔
۳۔ پیغمبر اور پیغمبر کی کتاب کا باہمی تعلق: ہر پیغمبر کا علمی کمال اور معنوی مقام، اس کی آسمانی کتاب میں ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر نبی کی آسمانی کتاب اُسی نبی کی شخصیت کی تجلی اور ظہور ہے، لہذا حضرت موسی (علیہ السلام) کا مقام، توریت کی حد تک ہے اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کا مقام، انجیل کی حد تک ہے اور دیگر انبیاء کا مقام ان کی آسمانی کتب اور صحیفوں کی حد تک ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام قرآن کی حد تک ہے اور قرآن بھی توریت، انجیل اور دیگر صحیفوں کا محافظ و نگہبان (مہیمن) ہے، بنابریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت موسی کلیم اللہ اور عیسی روح اللہ اور دیگر انبیاء سے افضل ہیں۔
شیخ صدوق  نے نقل کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "ما خلق اللّٰه (عزّ و جلّ) خلقا أفضل منّي و لا أكرم عليه منّي "، "اللہ (عزوجل) نے کوئی مخلوق مجھ سے افضل اور مجھ سے زیادہ کریم خلق نہیں کی”، حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "يا رسول اللّٰه فأنت أفضل أو جبرئيل عليه السّلام"، "یا رسول اللہ! تو آپ افضل ہیں یا جبرئیل علیہ السلام؟” تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "يا عليّ انّ اللّٰه تعالى فضّل أنبيائہ المرسلين على ملائكته المقرّبين و فضّلني على جميع النبيّين و المرسلين و الفضل بعدي لك يا عليّ و للأئمّة من ولدك و انّ الملائكة لخدّامنا و خدّام محبّينا
[ سفینة البحار، شیخ عباس قمی، ج7، ص92]
"یا علی! بیشک اللہ تعالی نے اپنے مرسل نبیوں کو اپنے مقرب ملائکہ پر فضیلت دی ہے اور مجھے سب نبیوں اور رسولوں پر فضیلت دی ہے اور فضیلت میرے بعد آپ کے لئے ہے یا علی، اور آپ کی اولاد سے ائمہ کے لئے اور یقیناً ملائکہ ضرور ہمارے خادم ہیں اور ہمارے محبوں کے خادم ہیں”۔
نتیجہ: سب انبیاء کا مقام برابر نہیں ہے اور ان میں سے بعض، دیگر بعض سے افضل ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بھی تمام انبیاء سے افضل اور برتر ہے۔ جس کا ثبوت واضح قرآنی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث ہیں۔ بنابریں اللہ تعالی نے ہمیں اتنی عظیم رحمت سے نوازا ہے کہ ہم اس رسول کی امت ہیں جو دیگر سب رسولوں سے افضل ہے، جس کی کتاب، دیگر سب آسمانی کتب سے افضل ہے، لہذا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیم السلام) کے فرامین کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب (قرآن) کے احکام اور تعلیمات کی ہمیں پوری کوشش کے ساتھ قدردانی کرنی چاہیے اور فکر و عمل کے میدان میں ان دو منارہ ہدایت اور چراغ سعادت کے عین مطابق چلنا چاہیے تاکہ زندگی کے کسی موڑ پر لغزش نہ آنے پائے اور ان کی نافرمانی نہ ہونے پائے کیونکہ ان کی نافرمانی، اللہ ہی کی نافرمانی ہے۔
عظمت پیغمبر امام صادق (علیہ السلام) کی نظر میں
حسین ابن عبداللہ کا کہنا ہے کہ میں نے امام صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا: کیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) اولاد آدم کے سرور تھے؟ آنحضرتؑ نے فرمایا: اللہ کی قسم، آپؐ اللہ کی سب مخلوقات کے سرور تھے اور اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے بہتر کوئی مخلوق پیدا نہیں کی۔ (أصول الكافي، ترجمه مصطفوى، ج‏2، ص 325)۔
بہتری، برتری اور افضیلت کا معیار اللہ کی عبادت، اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ کوئی شخص جتنا زیادہ اللہ تعالی کا فرمانبردار ہوگا اتنا اس کا مقام زیادہ بلند ہے۔ اولاد آدمؑ میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جسے کسی نبی، امام، راہنما اور ہادی کی ضرورت نہ ہو اور جو شخص مقام نبوت یا امامت پر پہنچتا ہے وہ مکمل طور پر اللہ تعالی کے احکامات کو جاری کرنے والا ہے، تبھی وہ اللہ کے امر و نہی کو پہنچانے اور جاری کرنے میں دوسروں کا پیشوا اور رہبر ہے۔ سب سے بہتر طریقہ سے جس نے اللہ تعالی کے احکام اور شریعت کو کائنات میں جاری اور قائم کیا وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو آپؐ انبیاءؑ کے بھی سردار ہیں اورساری اولاد آدمؑ کے بھی سرور و سردار ہیں، لہذا آپؐ اللہ کی سب سے بہتر اور افضل مخلوق ہیں اور کوئی نبی، رسول یا امام صرف یہ نہیں کہ آپؐ سے افضل نہیں، بلکہ کوئی بھی صاحبِ فضیلت، آُپؐ کے واسطہ اور وسیلہ سے اللہ سے فضیلت حاصل کرتا ہے اور جب تک آپؐ بارگاہ الہی میں واسطہ فیض نہ بنیں تب تک کسی کو کوئی فضیلت عطا نہیں ہوتی۔
—-
امام صادقؑ  کی نظر میں عدل و انصاف:
وہ صفات جو ایک مؤمن کے لئے بیان کی جاسکتی ہیں ان میں سے ایک بہت اہم صفت اس کا اجتماعی طور پرعدالت کا نافذ کرنا ہے، قرآن اور احادیث میں اس کے بارے میں بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے یہاں تک خداوند متعال نے فرمایا:
«یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامینَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ وَ لا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى‏ أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى‏ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ خَبیرٌ بِما تَعْمَلُون[سورۂ مائدہ، آیت:۸] ایمان والو خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے»۔
عدالت کو قائم کرنے کی اتنی اہمیت ہے کہ امام صادق(علیہ السلام) اس کے بارے میں فرمارہے ہیں کہ چالیس دن کی بارش سے بہتر عدالت کا قائم کرنا ہے: «حَدٌّ یقَامُ لِلّٰهِ فِی الْأَرْضِ أَفْضَلُ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِینَ صَبَاحاً، زمین پر اللہ کے لئے ایک حد کو جاری کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے»[وسائل الشيعة، ج۲۸، ص۱۳]، بارش جو ہر چیز کے لئے ضروری ہے امام(علیہ السلام) عدالت کو اس چالیس دن کی بارش سے بہتر فرمارہے ہیں تو یقینا اس عدالت کو ہمیں اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں جاری کرنا چاہئے.
حضرت لقمان کی نصیحتیں امام صادقؑ  کی زبانی:
امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
اے بیٹا ! ہر چیز کی کوئی علامت ہے کہ جس سے وہ پہچانی جاتی ہے اور وہی چیز اس کی گواہی دیتی ہے اور دین کی تین نشانیاں ہیں: علم ، ایمان ، اور اس پر عمل۔
ایمان کی تین نشانیاں ہیں: خدا پر ایمان ، اس کی کتاب پر ایمان ،اس کے بھیجے ہوئے رسول پر ایمان ۔
عالم کی تین نشانیاں ہیں: خدا کی پہچان، اس چیز کی پہچان جسے خدا پسند کرتا ہے،اور جسے پسند نہیں کرتا۔
عامل کی تین نشانیاں ہیں: نماز ، روزہ ، زکات۔
دکھاوا کرنے والے کی تین نشانیاں ہیں: اپنے سے بڑی چیز سے مقابلہ کرتا ہے ، وہ بولتا ہے جس کا اسے علم نہیں ہے ، ایسی چیز کے پیچھے ہے جس تک نہیں پہنچ سکتا۔
ظالم کی تین نشانیاں ہیں: گناہ کے ذریعے اپنے بڑی ہستی پر ظلم کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹوں پر غلبہ کرتا ہے ، ظالم کی مدد کرتا ہے۔
منافق کی تین نشانیاں ہیں: اس کی زبان اس کے دل کی مخالف ہوتی ہے، اس کا دل اس کے کام کے مخالف ہوتا ہے، اس کا ظاہر اس کے باطن کے مخالف ہوتا ہے۔
گنھگار کی تین نشانیاں ہیں: خیانت کرتاہے، جھوٹ بولتا ہے، اور اپنی بات کی مخالفت کرتا ہے۔
ریاکار کی تین نشانیاں ہیں: جب تنہا ہوتا ہے تو سستی کرتا ہے، جب لوگوں کے درمیان ہو تو تیزی دیکھاتا ہے، اور ہر کام میں اپنی تعریف کےلیے اعتراض کرتا ہے۔
حاسد کی تین نشانیاں ہیں: جب کوئی سامنے نہ ہو تو اسکی غیبت کرتا ہے، جب حاضر ہو تو تعریف کرتا ہے، مصیبت کے وقت ملامت کرتا ہے۔
اسراف کرنے والے کی تین نشانیاں ہیں: اسے خریدتا ہے کہ جو اسے ضرورت نہیں ، اسے پہنتا ہے کہ جو ضروری نہیں ، اسے کھاتا ہے کہ جس کی حاجت نہیں۔
سست انسان کی تین نشانیاں ہیں: اتنی سستی کرتا ہے کہ قصور وار ٹھہرتا ہے ، اور جب قصور وار ٹہرتا ہے تو ایک چیز کو ضائع کر بیٹھتا ہے، اور جب ضائع کرتا ہے تو گنہگار بنتا ہے۔
غافل کی تین نشانیاں ہیں: خطا کرنا ، فضول کام کرنا، بھول جانا۔
(حكمت نامہ لقمان : حدیث نمبر : 100375)
امام صادقؑ  کی نظر میں برادرِ ایمانی کے حقوق:
لوگوں کو اجتماعی بیماریوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ دشمنوں کی جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور حرام کاموں کے مرتکب ہوجاتے ہیں لیکن اگر لوگوں کو ان کی اطلاع ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو ان سے بچاسکتے ہیں اور اپنے دامن کو ان سے آلودہ نہیں ہونے دیتگے اور خدا کی بنائی ہوئی پاک فطرت پر پاقی رہتے ہیں، امام صادق(علیہ السلام) ان میں بعض کی طرف اس طرح اشارہ فرمارہے ہیں:
« أَنْ لَايَظْلِمَهُ، وَ أَنْ لَايَغُشَّهُ، وَ أَنْ لَايَخُونَهُ، وَ أَنْ لَايَخْذُلَهُ، وَ أَنْ لَايُكَذِّبَهُ، وَ أَنْ لَايَقُولَ لَهُ: أُفٍّ، وَ إِذَا قَالَ لَهُ: أُفٍّ، فَلَيْسَ بَيْنَهُمَا وَلَايَةٌ، وَ إِذَا قَالَ لَهُ: أَنْتَ عَدُوِّي، فَقَدْ كَفَرَ أَحَدُهُمَا وَ إِذَا اتَّهَمَهُ انْمَاثَ الْإِيمَانُ فِي قَلْبِهِ كَمَا يَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاء؛
اپنے ایمانی بھائی پر ستم مت کرو، اسے فریب نہ دو، اس کے ساتھ خیانت نہ کرو، اس کو حقیر نہ سمجھو، اس سے جھوٹ نہ کھو، اور اس کو”اف” نہ کہو اگر اس کو "اف” کہوگے تو ان دونوں کی آپس میں ولایت ٹوٹ ہوجائگی،اور اگر اپنے ایمانی بھائی کو تم یہ کہو کہ تم میرے دشمن ہو تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوجائیگا اور اگر اس پر تھمت لگائی تو اس کا ایمان گھل کر رہ جائیگا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے»[کافی، ج۳،ص۴۴۰]۔
نوجوانوں کی تربیت:
ہر معاشرے میں جوان ایک ایسا نایاب خزانہ ہے اگر اس پرتربیت کرنے والوں نے صحیح طریقوں سے تربیت کی اور اگر اس پر صحیح طریقے سے محنت کی جائے اور اس کو عزت اور احترام سے کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اگر اسے صحیح طریقے صحیح مقاصد کی طرف ہدایت کی جائے تو وہ ایک نایاب گھر بن کر اس معاشرے سے نکل سکتا ہے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے اس اجتماع کی برائیوں سے آشنا کیا جائے تاکہ وہ برائیوں کو جانے اور ان سے دوری اختیار کرے، کیونکہ جب تک برائیوں کے بارے میں اسے اطلاع نہیں ہوگی اس کے نیک کام اس پر اثر انداز نہیں ہوتے جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «عَلَيْكَ بِالْأَحْدَاثِ فَإِنَّهُمْ أَسْرَعُ إِلَى كُلِّ خَيْر؛ نوجوانوں کی تربیت تم لوگوں پر ہے کیونکہ وہ لوگ دوسروں کی بانسبت اچھائیوں کو جلدی اپناتے ہیں»[کافی، ج۱۵،ص۴۳۱]۔ اور نیکیوں میں سب سے بہترین نیکی اہل بیت(علیہم السلام) کی معرفت ہے جس کے بارے میں ہمیں اپنے جوانوں کو بتانا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ان کی محبت کے ذریعہ بہت جلدی صحیح راستے کو اپنا سکتے ہیں جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں:
«بَادِرُوا أَحْدَاثَكُمْ بِالْحَدِيثِ قَبْلَ أَنْ تَسْبِقَكُمْ إِلَيْهِمُ الْمُرْجِئَة؛
پنے نواجوانوں کو ہماری حدیثوں سے آشنا کرو اس سے پہلے کہ ان کا شمار مرجعہ(ایک منحرف گروہ) میں ہوجائے»[کافی، ج۱۱، ص۴۴۲]۔
امام صادقؑ کی نظرمیں دوست کی قسمیں:
انسان اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی اور مسرت کا احساس کرتا ہے اور اس کے ساتھ رہ کر ایک تازگی اور طاقت کا پیدا کرتا ہے، انسان کی طبیعت میں ہے کہ اس کے لئے کوئی دوست ہو اگر انسان کا کوئی دوست نہ ہو تو وہ اس دنیا میں تنھا ہوکر رہ جاتا ہے لیکن ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے لئے ایک اچھے اور نیک دوست کا انتخاب کرے کیونکہ انسان اپنے دوستوں کی ہی وجہ سے اچھا یہ برا بنتا ہے اسی لئے دوست کے انتخاب کے لئے انسان کو بہت ہوشیار ہونا چاہئے تاکہ وہ اسے گمراہی اور ضلالت کی طرف لیکر نہ جائے امام صادق(علیہ السلام) اس کی طرف اس طرح اشارہ فرمارہے ہیں:
«الْإِخْوَانُ ثَلَاثَةٌ : فَوَاحِدٌ كَالْغِذَاءِ الَّذِي يُحْتَاجُ إِلَيْهِ كُلَّ وَقْتٍ فَهُوَ الْعَاقِلُ وَ الثَّانِي فِي مَعْنَى الدَّاءِ وَ هُوَ الْأَحْمَقُ وَ الثَّالِثُ فِي مَعْنَى الدَّوَاءِ فَهُوَ اللَّبِيب‏؛
دوست تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک دوست وہ ہے جو کھانے کے طرح ہوتا ہے ہر وقت اس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ایک عقلمند دوست ہے، دوسرا دوست ایک بیماری کی طرح ہوتا ہے وہ بیوقوف دوست ہے اور تیسرا دوست انسان کی دوا کی طرح ہے جو اس کی بیماریوں کو دور کرتا ہے اور یہ روشن فکر دوست ہے»[بحار الانوار، ج۷۵، ص۲۳۸]۔
زبانی تبلیغ سے زیادہ اہم عملی تبلیغ:
جیسے عمارت ستون پر کھڑی ہوتی ہے، دین اسلام بھی ستون پر کھڑا ہے، وہ ستون نماز ہے، اگر انسان نماز کو قائم رکھے تو اس کا دین قائم ہے اور اگر نماز کو اہمیت نہ دے تو اس نے اپنے دین کو گرا دیا ہے۔ نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ، نماز کی اہمیت، ادائیگی اور قائم کرنے کی تبلیغ بھی کرنی چاہیے اور زبانی تبلیغ سے زیادہ عملی تبلیغ کا اثر ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "كوُنوُا دُعاةً لِلنَّاسِ بِغَيْرِ الْسِنَتِكُمْ لِيَرَوْا مِنْكُمُ الْوَرَعَ وَ الْاجْتِهادَ وَ الصَّلاةَ وَالْخَيْرَ، فإنَّ ذلكَ داعِيَةٌ(الکافی، ج2، ص78)
"لوگوں کو زبان کے بغیر (حق کی طرف) بلانے والے بنو تا کہ وہ تمہارے وَرَع اور جدوجہد اور نماز اور نیکی کو دیکھیں، کیونکہ یہی (کام) بلانے والے ہیں”۔ جب ہم فضیلت کے وقت میں نماز پڑھیں گے تو دیکھنے والے لوگ نماز کو دوسرے کاموں سے زیادہ اہم سمجھیں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کے اہم کاموں میں مصروف ہونے کے باوجود اذان سے پہلے نماز کی تیاری شروع کردی،صاف کپڑے پہنے، وضو کیا، عطر لگایا، مسجد کی طرف روانہ ہوئے، پہلی صف میں دائیں طرف کھڑے ہوئے، نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھا، اس کے بعد تسبیح پڑھی، پھر اللہ کی اس عظیم توفیق پر سجدہ شکر کیا اورکھڑے ہوکر اہل بیت (علیہم السلام) کو سلام دیا اور پھر اطمینان اور قلبی سکون کے ساتھ مسجد سے باہر آگئے تو دیکھنے والے لوگوں کے لئے اس عملی تبلیغ کا اثر زبانی تبلیغ سے زیادہ ہوگا۔

امام زمانہ عج کی غیبت (غائب رہنے) کا سبب امام جعفر صادقؑ  کی زبانی:
عبد اللہ ابن فضل جو امام صادق(علیہ السلام) کے ایک صحابی تھے وہ کہتے ہیں کہ امام صادق(علیہ السلام) سے میں نے امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی غیبت کی وجہ کے بارے میں سنا کہ انھوں نے یہ فرمایا:
إِنَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ غَيْبَةً لَا بُدَّ مِنْهَا يَرْتَابُ فِيهَا كُلُّ مُبْطِلٍ؛
بے شک اس امر کے صاحب کے لئے ایک غیبت جس کے بارے میں ہر باطل پر رہنے والا شک کریگا۔ اس کے بعد عبد اللہ ابن فضل نے عرض کیا کہ اس غیبت کی کیا وجہ ہے؟ امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ہمیں اجازت نہیں ہے کے اس کی وجہ کو بیان کیا جائے،عبد اللہ ابن فضل نے پھر عرض کیا کہ حضرت کی غیبت میں کونسی حکمت پوشیدہ ہے؟ امام(علیہ السلام) نے فرمایا:ان کی غیبت میں وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے والوں کی غیبت میں حکمت تھی، اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ان کی غیبت کی وجہ ان کے ظھور کے بعد روشن ہوجائیگی جس طرح جناب خضر(علیہ السلام) کا کشتی میں سوراخ کرنا اور بچے کو قتل کرنا اور دیوار کی مرمت کرنا جناب موسیٰ(علیہ السلام) کے لئے روشن نہیں تھا لیکن بعد میں روشن ہوگیا۔
امام صادق(علیہالسلام) نے سب سے آخر میں فرمایا: اے فضل کے بیٹے! یہ اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ اللہ حکیم ہے اور تصدیق کرتے ہیں کہ اس کے ہر فعل میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے حالانکہ ہمارے لئے وہ حکمت روشن نہ ہو۔ [کمال الدین و تمام النعمه، ج۲، ص۴۸۲]۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button