دعوت و تبلیغروش تبلیغسلائیڈر

روش تبلیغ

صابر حسین سراج

بلا شبہ دین حق کی دعوت و تبلیغ انبیاء الہی کے بعثت کے اہداف و مقاصد میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر نبی بارنبوت کو لیکر لوگوں کو ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے نکال کر نور ہدایت سے روشن و منور کرنے آتے تھے۔ اس راہ دعوت و تبلیغ دین میں انبیائے الہی نے طرح طرح کی زحمتیں بھی اٹھائیں لیکن اپنے تبلیغی مشن سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ اور یہ اعلان فرماتے رہے ۔ ” وما علینا الا البلاغ المبین۔” ( یٰس ۔ آیت،17) ختم نبوت کے بعد آئمہ اطہار ؑ نے اس عظیم ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر کما حقہ لوگوں کو اپنے قول و عمل سے دین حق کی جانب دعوت دیتے رہے۔ اگرچہ انبیاء الہی و آئمہ اطہار کے دور میں بھی ان کے اصحاب مقربین ان کی نمائندگی میں مختلف مقامات پر جاکر دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے تھے لیکن زمان غیبت کبری ٰ کے بعد تبلیغ دین کی یہ عظیم ذمہ داری مکمل طور پر علمائے کرام کے کندھوں پر آئی۔ آج چودہ سو سال بعد بھی اگر دین کی تعلیمات اپنی حقیقی ھیئت و کیفیت میں ہم تک پہنچی ہیں تو وہ انبیاء کرام ،آئمہ اہل االبیت ؑ کے بعد علماءو مبلغین کی تبلیغ و ترویج کا نتیجہ ہے۔اسی لئے علماء کے بارے معروف حدیث ہے، ” العلماء ورثۃ الانبیاء” علماء انبیاء کے وارث ہیں”(بحار الانوار، ج،1، ص:164)۔ اس حدیث کی وضاحت میں دور حاضر کے ایک نامور فقیہ آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں وراثت انبیاء کے تین پہلو پوشیدہ ہیں؛ علم ، ایمان اور تبلیغ۔

آج بھی تبلیغ دین کا یہ سلسلہ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جاری و ساری ہے اور دنیا کے ہر کوچہ میں مبلغین دین اپنی تبلیغی خدمات انجام دینے میں مصروف عمل ہیں۔لیکن آج جب ہم معاشروں میں عملی طور پر مشاہدہ کرتے ہیں تو تبلیغی کارواں کی کوششوں کے باوجود عوام الناس کا اور دین سے دور افراد کا دین کی جانب رجحان نہ صرف کم ہوتا جا رہا ہے بلکہ لوگ دین و دینی تعلیمات سے روز بروز دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں مبلغین و خطباء کی تبلیغ میں تاثیر ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ آخر اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ یہ جاننا اور اس کے بارے سوچنا ہم سب کا فریضہ ہے ۔ ہماری نظر میں ان وجوہات میں سے ایک بینادی وجہ قرآن و سیرت محمد و آل محمد ؑ کی روشنی میں روش تبلیغ کا نہ جاننا اور معصومین کی سیرت تبلیغی سے دوری ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات معاشروں میں علماء و مبلغین کے کسی اشتباہ و کوتاہی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ لوگ دین کے قریب نہیں آتے بلکہ دین سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں۔ لہذا اس تناظر میں ہم یہاں پر مبلغین عظام کی خدمت میں قرآن و سیرت اہلیبیت کی روشنی میں روش تبلیغ کے متعلق چند اہم نکات بیان کریں گے تاکہ مبلغین دین ان نکات کو اپناتے ہوئے بہتر اور موثر طریقہ سے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے سکیں۔ وہ نکات کچھ یوں ہیں۔

1۔ حکمت کے ساتھ دعوت: جیسا کہ ارشادخداوندی ہے :

"اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ”(النحل، آیت:125)

"(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے”

آیت کی ابتدا میں جس اسلوب تبلیغ کا ذکر آیا ہے وہ ہے حکمت کے ساتھ دعوت دین دینا۔اس حکمت کی وضاحت تفسیر نمونہ میں کچھ اس طرح سے کی گئی ہے۔ "حکمت علم و دانش اور منطق و استدلال کے معنی میں ہے۔ اصل میں یہ لفظ منع کرنے کے معنی میں ہے اور علم و دانش اور منطق و استدلال چونکہ فتنہ و فساد اور انحرافات سے مانع ہیں لہذا انہیں حکمت کہا جاتا ہے۔ بہر حال راہ حق کی طرف دعوت دینے کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ صحیح منطق اور جچے تلے استدلال سے کام لیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں لوگوں کی فکر و نظر کو دعوت دی جائے اور ان کی سوچ و بچار کی صلاحیت کو ابھارا جائے اور عقل خوابیدہ کو بیدار کیا جائے۔ ” (تفسیر نمونہ، ج۔6، ص:462)

علامہ شیخ محسن علی نجفی "تفسیر الکوثر ” میں اس حکمت کی تشریع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ” دعوت الی الحق تین بنیادوں پر استور ہے: ایک حکمت، دوسری موعظہ حسنہ اور تیسری مناظرہ۔ حکمت یعنی حقائق کا صحیح ادراک۔ لہٰذا حکمت کے ساتھ دعوت دینے سے مراد دعوت کا وہ اسلوب ہو سکتا ہے جس سے مخاطب پر حقائق آشکار ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ لہٰذا واقع بینی کی دعوت دینا حکیمانہ دعوت ہو گی۔دعوت کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی و فکری صلاحیت، نفسیاتی حالت، اس کے عقائد و نظریات اور اس کے ماحول و عادات کو مدنظر رکھا جائے۔ موقع اور محل اور مقتضی حال کے مطابق بات کی جائے کہ مخاطب کو کون سی دلیل متاثر کر سکتی ہے۔ اس بات پر بھی توجہ ہو کہ ہر بات، ہر جگہ نہیں کہی جاتی بلکہ ہر حق کی بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی۔ جیسا کہ ہر دوائی سے ہر مریض کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ ہر صحیح علاج بھی ہر مریض کے لیے مناسب نہیں ہوتا، اگر مریض کا معدہ اس دوائی کو ہضم کرنے کے قابل نہ ہو۔ جیسا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اسلام میں تدریجی حکمت عملی اختیار فرمائی اور شروع میں صرف قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحوا پر اکتفا فرمایا چونکہ یہ حکیمانہ تقاضوں کا منافی تھا کہ شریعت کے تمام احکام بیک وقت تبلیغ اور نافذ کیے جائیں۔” ( تفسیر الکوثر، ج:4، ص:478)

ان دونوں تفاسیر کی روشنی میں واضح ہو جاتی ہے کہ تبلیغ کو مؤثر بنانے کے لئے ایک مبلغ دین کو حکمت و دانائی سے کام لینا ہوگا۔ اور مقتضیٰ حال کو سمجھتے ہوئے دعوت و تبلیغ انجام دینا ہوگا۔کونسی محفل میں کونسی بات ہونی چاہیے اس کا مبلغ کو ادراک ہونا ضروری ہے تاکہ تبلیغ کا عمل موثر ہوسکے۔

2۔ تبلیغ موعظہ حسنہ پر مشتمل ہو۔ مذکورہ بالا آیت میں روش تبلیغ کا دوسرا اسلوب تبلیغ کا موعظہ حسنہ پر مشتمل ہونا ہے۔موعظہ حسنہ کیا ہے ؟ اور کیسے اس کو اختیار کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے تفسیر الکوثر میں آیا ہے کہ، "موعظہ حسنہ۔ موعظہ کے ساتھ حسنہ کی قید سے معلوم ہوا کہ موعظہ غیر حسنہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دعوت میں ہر قسم کا موعظہ درکار نہیں ہے۔ مثلاً وہ موعظہ جس میں واعظ اپنی بڑائی دکھانا چاہتا ہے اور مخاطب کو حقیر سمجھتا ہے یا صرف سرزنش پر اکتفا کرتا ہے۔موعظہ حسنہ کے لیے سب سے پہلے خود واعظ کے لیے اس موعظہ کا پابند ہونا ضروری ہے ورنہ اس کا موعظہ حسنہ اور مؤثر نہ ہو گا بلکہ ایسا کرنا قابل سرزنش ہے۔ موعظہ حسنہ ہونے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ یہ موعظہ دل سوزی، خیر خواہی کے ساتھ ہو اور مخاطب اس بات کو محسوس کرے کہ ناصح کے دل میں اس کے لیے ہمدردی ہے۔ وہ اس کی خالصانہ اصلاح چاہتا ہے۔” ( تفسیر الکوثر، ج:4، ص:478)

یعنی ایک مبلغ کا دعوت دین دیتے ہوئے وعظ و نصیحت کا انداز اور اہداف مناسب ہونا چاہیے۔ دوران تبلیغ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی روش اور بیان سے کسی کی تحقیر اور بدگمانی کا پہلو نہ آئے، اپنی بڑائی کا اظہار نہ کرے، ہٹ دھرمی نہ دکھائے اور نرم و ملائم انداز میں گفتگو کرے تاکہ لوگ ان کے قریب ہوں اور ان کا تبلیغی پیغام مؤثر طریقے سے ان تک پہنچ سکے۔

3۔ مباحثہ و مناظرہ میں احسن انداز اپنانا۔ مذکورہ آیت کے ضمن میں ایک اور اہم اسلوب تبلیغ دین جس سے تبلیغ کا عمل مؤثر و ثمر آور ہو سکتا ہے وہ مباحثہ و مناظرہ کو احسن انداز میں بروئے کار لانا ہے۔ اس مطلب کو علامہ شیخ محسن علی نجفی یوں واضح فرماتے ہیں۔ ” بہتر انداز میں مباحثہ و مناظرہ یہ ہے کہ اس بحث و مناظرے کا مقصد کج بحثی، حریف مقابل پر بالا دستی اور غلبہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس مناظرے کا مقصد حریف مقابل کو راہ راست پر لانا ہو۔ مناظرے میں غالباً الزام تراشیاں ہوتی ہیں۔ حریف مقابل اور اس کے مقدسات کی توہین ہوا کرتی ہے۔ نازیبا کلمات استعمال کرنے، بہتان تراشی اور کذب و افترا کی نوبت آتی ہے۔ اس لیے مناظرے کے لیے اَحسن کی شرط لگائی جب موعظہ کے لیے حسنۃ ہونا کافی ہے۔ہر انسان انانیت کا شکار رہتا ہے اور اپنی انانیت پر آنے والی ہر آنچ کا پوری قوت سے مقابلہ کرتا ہے۔ مناظرے میں اگر حریف مقابل شکست کا احساس کرے اور اپنی انا متاثر ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس پر کوئی دلیل اثر نہیں کر سکتی لیکن اگر مناظرہ احسن طریقے پر ہو تو حریف مقابل کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو گا اور دلیل اس پر اثر کرے گی۔” (تفسیر الکوثر، ج:4، ص:478)

گروہ محققین "تفسیر نمونہ ” میں اس مجادلہ احسن کی وضاحت اس انداز میں کرتے ہیں۔ ” یہ روش ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے کہ جن کے ذہن میں پہلے سے غلط مسائل اور نظریات سمائے ہوئے ہوں ۔ مناظرے اور مباحثے کے ذریعے ان کا ذہن ان کے نظریات سے پاک کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ حق قبول کرنے کے قابل ہو سکیں۔ واضح رہے کہ مجادلہ و مباحثہ تبھی موثر ہوگا جب وہ "بالتی ھی احسن” ہو جب وہ حق ، عدالت، درستی، امانت وصداقت کے ساتھ ہو جب اس میں کسی قسم کی تحقیر، توہین، غلط بیانی اور تکبر نہ ہو، مختصر یہ کہ اس میں تمام انسانی اقدار کا احترام ملحوظ رکھا گیا ہو۔ ”

4۔ تبلیغ عملی ہو۔ تبلیغ میں قول سے زیادہ عمل کی اہمیت ہے۔ اگر مبلغ اپنی بات پر خود عمل نہ کرے تو ان کی تبلیغ قطعا موثر نہیں ہوگی۔ جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے۔

"یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡن۔ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ” (الصف:آیت2،3)

"اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو”

اور امام جعفر صادق ع سے معروف روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

"کونوا دعاۃ الناس بغیر ألسنتکم” "لوگوں کو اپنی زبان کے بغیر (اپنے عمل سے)دعوت دو۔” (الکافی، ج:2، ص:78)

اور ہمیں سیرت محمد ص و آل محمد ؑ میں یہی چیز بہت زیادہ نظر آتے ہیں کہ وہ اپنے کردار و عمل سے لوگوں کو دین کی جانب موڑ لیتے تھے۔ امام حسن مجتبی ؑ اور مرد شامی کا واقعہ تبلیغ عملی کی ایک بہترین مثال ہے۔

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button