مصائب اسیران کربلا در شام

سہل بن سعد ساعدی کی روایت
اخبار آثار سے واضح و آشکار ہوتا ہے کہ جب اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لٹا ہوا قافلہ شام پہنچا، تحقیق کے مطابق اس روز یکم صفر 61 ھ تھی تو شہادت حسین علیہ السلام اور یزید کی ظاہری فتح کی تقریب کی مناسبت سے دار السلطنت شام کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اور اسے انواع و اقسام کی زیبائش و آرائش سے مزین و مرصع کیا گیا تھا ۔ مرد ، عورتیں لباس فاخرہ زیب تن کیے ہوئے، ہاتھوں میں مہندی ، آنکھوں میں سرمہ لگائے خوشی سے طبلے اور شادیانے بجا رہے تھے ۔ شہر کے باہر لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ عرصہ محشر معلوم ہوتا تھا اور دارالامارہ کی سجاوٹ تو حیطہ بیان سے باہر ہے یزید کے لیے انواع و اقسام کی زینت سے مرصع سر پر بچھائی گئی تھی اور ارد گرد سنہری ، رو پہلی کرسیاں بچھائی گئی تھیں جن پر عمائدین بیٹھے تھے ۔ یہ سب انتظام سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر دین کی ستم رسیدہ بیٹیوں کے استقبال کے لیے کیا جارہا تھا۔ آہ!
یصلی علی المبعوث من آل ھاشم و یغزیٰ بنوہ ان ذا العجیب
چناچہ سہل بن سعد ساعدی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ میں حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر آرہا تھا ۔ واپسی پر بیت المقدس کی زیارت کی جب شام پہنچا تو اس کی عجیب ہیئت دیکھی ۔ نہریں جاری ہیں،درخت لہلہا رہے ہیں ، لوگوں نے مخمل و دویبا کے زر نگار پردے لٹکائے ہوئے ہیں ، لوگ بہت خوش و خرم ہیں اور کچھ عورتیں فرط و مسرت و شادمانی سے دفیں بجا رہی ہیں ۔ میں نے دل میں کہا شایداس تاریخ کو شامیوں کی کوئی عید ہوگی جس کا مجھے علم نہیں ۔ بہر حال میں پریشان تھا کہ یہ جشن مسرت کیسا ہے؟ اس اثناء میں بعض لوگوں کو کچھ کھسر پھسر کرتے ہوئے دیکھا ۔ میں ان کے قریب گیا اور ان سے دریافت کیا ۔ آج تمہاری کوئی عید ہے جس کا مجھے علم نہیں؟ انہوں نے کہا ۔
اے شیخ تم کوئی اجنبی یا بادیہ نشین معلوم ہوتے ہو ۔
میں نے کہا میں سہل بن سعد ہوں جناب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کر چکا ہوں ۔
اس وقت انہوں نے کہا :
اے سہل تعجب ہے کہ آسمان سے خون کی بارش کیوں نہیں برستی اور زمین اپنے اہل سمیت پانی میں کیوں نہیں دھنس جاتی ؟ میں نے کہا۔ کیوں کیا بات ہے؟
انہوں نے کہا اس لیے کہ یہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کا سر عراق سے دربار یزید میں لایا جارہا ہے میں نے کہا۔ ہاں؟ حسین علیہ السلام کا سر لایا جارہا ہے اور لوگ خوش ہورہے ہیں َ۔
پھر میں نے کہا کس دروازہ سے داخلہ ہے؟ انہوں نے باب الساعات کی طرف اشارہ کیا۔ ابھی یہی گفتگو ہورہی تھی کہ اچانک دیکھتا ہوں یکے بعد دیگرے کئی علم آرہے ہیں اور ایک سوار کے ہاتھ میں نیزہ ہے جس پر ایک سر سوار ہے جو سب لوگوں سے زیادہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ ہے۔
کامل بہائی میں جناب سہل کی زبانی اس واقعہ کی جو منظر کشی لی گئی ہے وہ یوں ہے۔
” میں نے کئی سروں کو نیزوں کی نوکوں پر دیکھا آگے آگے عباس بن علی علیہما السلام کا سر تھا ان کے پیچھے امام کامقدس سر تھا ، ان کے پیچھے اسیران اہل بیت تھے سر مقدس کی حالت یہ تھی اس سے ہیبت و دبددبہ ٹپک رہا تھا ۔ ریش مبارک مدور تھی جس میں بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے ۔ خضاب لگا ہوا تھا ، آنکھیں سیاہ تھیں ، آبرو قوس کی طرح نوک دار تھے ، پیشانی کشادہ، ناک بلند، آنکھیں افق کی طرف، چہرہ آسمان کی طرف تبسم کناں معلوم ہوتا تھا اور ہوا ریش مبارک کو دائیں بائیں اڑائی تھی،یوں معلوم ہوتا تھا گویا ہو بہو امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔ان کے پیچھے چند عورتیں تھیں جو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار تھیں پہلے اونٹ پر ایک لڑکی سوار تھی میں اس کے قریب گیا اور جاکر دریافت کیا ۔
تم کون ہو؟
اس نے جواب دیا۔
میں نے کہا حدیثیں سن چکا ہوں اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں
بی بی نے کہا اسے سہل ! اس آدمی سے کہو جس کے ہاتھ میں سر ہے کہ وہ اسے آگے لے جائے تاکہ لوگ ان سروں کو دیکھنے میں مشغول ہوں اور حرم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےان کی توجہ ہٹ جائے اور میرے پاس جو چار سو دینار ہیں وہ لے لو۔
اس نے دریافت کیا ۔ تمہارا کیا مقصد ہے؟
میں نے مقصد بیان کیا تو اس نے آمادگی ظاہر کی اور سر مقدس کو آگے لے گیا ۔ اس لئے میں نے مقررہ رقم اس کے حوالے کردی۔
کافی دیر تک اس قافلہ کو دروازہ دمشق پر ٹھہرایا گیا شاید مقصد یہ تھا اگر بازار اور دربار کی سجاوٹ میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو وہ پوری کردی جائے۔ بعض کتب میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ پورے تین دن ان کو وہاں روکے رکھا گیا جو ناقابل اعتبار ہے۔
( سعادت الدارین فی مقتل الحسینؑ، ص:507)
داخلہ شام کے وقت اسیران آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیفیت
کافی دیر تک اس قافلہ کو دروازہ دمشق پر ٹھہرایا گیا شاید مقصد یہ تھا کہ اگر بازار اور دربار کی سجاوٹ میں کچھ کمی رہ گئی ہے تو وہ پوری کر دی جائے۔بعض کتب مقاتل میں لکھا ہے کہ ملاعین نے دروازہ میں داخل ہونے سے قبل یہ نیا ظلم ڈھایا کہ تمام زن و مرد، خورد و کلاں غرض یہ کہ تمام اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گلہ گوسفند کی طرح رسیوں میں جکڑ دیا اور اس حال میں کہ مخدرات عصمت و طہارت کے چہرے کھلے تھے ، ان کو بازار سے گزار کر دربار میں لایا گیا ۔ جبکہ وہ شریر سریر حکومت پر نشہ اقتدار میں چور متمکن تھا ۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
ما ظنک برسول اللہ ، لو یرانا علی ھذا الحال؟
اے یزید! تیرا کیا خیال ہے ، اگر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اس میں دیکھیں تو ان کا کیا حال ہوگا؟ امام علیہ السلام کے اس کلام کا یہ اثر ہوا کہ حاضرین رونے لگے اور یزید(لعین) نے رسیاں کاٹنے کا حکم دیا۔
بعض روایا ت میں اس اندوہ ناک واقعہ کی منظر کشی حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے یوں مروی ہے:
لما وفدنا علی یزید ابن معاویۃ اتو بحبال و ربقونا مثل الاغنام وکان الحبل بعنقی ع وعنق ام کلثوم و بکتف زینب و سکینہ والبنات تساق کلما قصرنا عن المشئ (ضربنا) ضربونا حتی اوقفونا بین یدی یزید فتقدمت وھو علی سریر مملکتہ وقلت لہ ما ظنک برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لو یرانا علی ھذہ الصفۃ۔۔۔
جب ہم یزید (لعین) کے قریب پہنچے تو اس کے آدمی کچھ رسیاں لائے جن سے ہمیں بکریوں کے گلے کی طرح باندھ دیا گیا ۔ چنانچہ میری اور ام کلثوم سلام اللہ علیھا کی گردن میں اور جناب زینب سلام اللہ علیھاا ور سکینہ سلام اللہ علیھا کے کاندھوں سے رسی بندھی ہوئی تھی اور لڑکیوں کو ہانکا جاتا تھا اگر ہم چلنے میں تھوڑی سی بھی سستی کرتے تو ہمیں مارا جاتا تھا ۔ حتی کہ اس حالت میں ہمیں یزید کے دربار میں ٹھہرایا گیا ۔ اس وقت وہ اپنی سریر مملکت پر متمکن تھا ۔ میں نے آگے بڑھ کر کہا ۔
او یزید! تیرا کیا خیال ہے، اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اس حال میں مشاہدہ کریں تو ان کی کیا حالت ہوگی؟
بہر حال یہ لٹا ہوا قافلہ اسی خستہ حالت میں بازار سے گزارا جارہا تھا ، مگر ودائع نبوت وعقائل امامت کی شکل و ہیئت سے جمال و کمال کے آثار نمایاں تھے ۔ چناچہ شام کے بعض لئام نے کہا:
ما راینا سبایا احسن من ھولاء فمن انتم؟
ہم نے اتنے بہترین قیدی کبھی نہیں دیکھے تم کس خاندان کے قیدی ہو؟
جناب سکینہ نے جواب دیا :
نحن سبایا آل محمد!
ہم اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
بعض اخبار میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ابراہیم بن طلحہ بن عبید اللہ نے طنزا امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا:
من غلب؟
بتاو غلبہ کسے حاصل ہوا؟
امام نے فرمایا:
اذا اردت ان تعلم من غلب و دخل الصلوۃ فاذن وا قم!
اگر یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ غلبہ کس کو حاصل ہوا تو جب نمازکا وقت وقت آئے تو اذان و اقامت کہنا معلوم ہوجائے گا فاتح کون ہےاور مفتوح کون؟
جب یہ قافلہ بازار سے گزر رہا تھا تو جا بجا لوگوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ نیز استقبال کرنے والوں میں سے کچھ لوگ پتھر بھی ہمراہ لائے تھے وہ بھی اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و شہداء کے سروں پر نثار کررہے تھے۔
چناچہ سہل بن سعد ساعدی کی روایت میں وارد ہے کہ جب یہ تباہ حال قافلہ بازار شام سےگزر رہا تھا تو میں نے ایک مکان کے ڈربہ پر پانچ عورتوں کو کھڑئے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک بوڑھی اور کبڑی عورت بھی تھی ۔ جب سید الشہداء علیہ السلام کا مقدس سر ان کے قریب پہنچا تو اس بوڑھی عورت نے پتھر اٹھایا اور امام کے دندان مبارک پر دے مارا۔
جب مجھ سے یہ کیفیت دیکھی نہ گئی تو میں نے دعا کی ۔
اللھم اھلکھا و اھلکن معھا بحق محمد وآلہ اجمعین
سہل بیان کرتے ہیں کہ میری دعا ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ڈربہ ٹوٹ گیا اور وہ بڑھیا گر کر ہلاک ہوگئی اور اس کے ساتھ دوسری عورتیں بھی ہلاک ہوگیئں۔
منہال بن عمرو بیان کرتا ہے کہ میں نے شام میں دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک سناں پر سوار تھا آگے آگے ایک شخص سورہ کہف کی تلاوت کرتا جاتا تھا جب وہ اس آیت پر پہنچا:
اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
تو یکا یک سر مقدس بزبان فصیح گویا ہوا اور کہا :
اعجب من اصحاب الکھف قتلی و حملی
اصحاب کہف کے قصے سے میرا شہید ہونا اور نوک سناں پر سوار ہونا زیادہ تعجب خیز ہے۔
یہی وجوہ تھے جن کی بناء پر اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قافلہ دربار میں بہت دیر سے پہنچا ۔ بعض آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ قافلہ اگلے پہر بازار میں داخل ہوا اور زوال کے بعد دربار یزید میں پہنچا۔
جب اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یزید کےمحل کے نزدیک پہنچے(جو کہ جامع مسجد کے قریب ہی تھا) تو محضر بن ثعلبہ نے باآواز بلند کفریہ کلمات کہے :
ھذا محضر بن ثعلبہ جاء امیر المومنین بالئام الفجرۃ
اس ملعون کا یہ کلام نا فرجام سن کر امام زین العابدین علیہ السلام جنہوں نے کوفہ سے شام تک ان سے کوئی کلام نہیں کیا تھا فرمایا:
ما ولدت ام محضرۃ اشرواللئام
ام محضر کا بیٹا سب سے بڑا شریر و لئیم ہے۔
بالآخر وہ قیامت خیز ساعت آگئی کہ اس لٹے ہوئے قافلہ کو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے پاس ٹھہرایا گیا جہاں عام قیدی ٹھہرائے جاتے تھے اور سید الشہداء علیہ السلام کا سر مقدس یزید(لعین) کے سامنے طشت طلائی میں رکھ کر پیش کیا گیا۔
راویان اخبار کا بیان ہے کہ اس وقت یزید شراب نوشی میں مشغول تھا۔
امام علی رضا علیہ السلام سے اس سلسلہ میں جو حدیث مروی ہے اس میں قدرے تفصیل کے ساتھ یزید عنید کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ فضل بن شاذان بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعْتُ اَلرِّضَا عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ يَقُولُ :
لَمَّا حُمِلَ رَأْسُ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ إِلَى اَلشَّامِ أَمَرَ يَزِيدُ لَعَنَهُ اَللَّهُ فَوُضِعَ وَ نُصِبَ عَلَيْهِ مَائِدَةٌ فَأَقْبَلَ هُوَ وَ أَصْحَابُهُ يَأْكُلُونَ وَ يَشْرَبُونَ اَلْفُقَّاعَ فَلَمَّا فَرَغُوا أَمَرَ بِالرَّأْسِ فَوُضِعَ فِي طَسْتٍ تَحْتَ سَرِيرَةٍ وَ بُسِطَ عَلَيْهِ رُقْعَةُ اَلشِّطْرَنْجِ وَ جَلَسَ يَزِيدُ لَعَنَهُ اَللَّهُ يَلْعَبُ بِالشِّطْرَنْجِ وَ يَذْكُرُ اَلْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ وَ أَبَاهُ وَ جَدَّهُ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ وَ يَسْتَهْزِئُ بِذِكْرِهِمْ فَمَتَى قَامَرَ صَاحِبَهُ تَنَاوَلَ اَلْفُقَّاعَ فَشَرِبَهُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ صَبَّ فَضْلَتَهُ عَلَى مَا يَلِي اَلطَّسْتَ مِنَ اَلْأَرْضِ فَمَنْ كَانَ مِنْ شِيعَتِنَا فَلْيَتَوَرَّعْ عَنْ شُرْبِ اَلْفُقَّاعِ وَ اَللَّعِبِ بِالشِّطْرَنْجِ وَ مَنْ نَظَرَ إِلَى اَلْفُقَّاعِ أَوْ إِلَى اَلشِّطْرَنْجِ فَلْيَذْكُرِ اَلْحُسَيْنَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَ لْيَلْعَنْ يَزِيدَ وَ آلَ زِيَادٍ يَمْحُو اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِذَلِكَ ذُنُوبَهُ وَ لَوْ كَانَتْ بِعَدَدِ اَلنُّجُومِ
جب امام حسین علیہ السلام کا سر مقدس شام میں یزید کے پاس لایا گیا تو یزید نے حکم دیا کہ اس کے اوپر دستر خوان بچھایا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور یزید نے اپنے یار دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر شراب نوشی کی ۔ بعد ازاں سر انور طشت طلائی میں رکھ کر سریر کے نیچے رکھ دیا گیا اور اوپر بساط شطرنج بچھا کر شطرنج کھیلنا شروع کردی۔ اور ساتھ ہی امام حسین علیہ السلام اور ان کے اب و جد کا برائی کے ساتھ ذکر کرتا جارہا تھا۔ جب کھیل میں اپنے ساتھیوں پر غلبہ حاصل کرتا تو شراب کے تین جام چڑھا جاتا اورتلچھٹ سر مقدس کے پاس زمین پر انڈیل دیتا ۔
امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں جو ہمارا شیعہ ہے اس پہ لازم ہے شراب نوشی اور شطرنج بازی سے اجتناب کرے اور جو شخص کبھی شراب یا شطرنج کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ امام حسین علیہ السلام کو یاد کرے (ان پر درود و سلام بھیجے) اور یزید و آل یزید ( آل زیاد) پر لعنت کرے۔ ایسا کرنے سے خدا اس کے گناہ معاف کردے گا اگرچہ تعداد میں ستارہ ہائے آسمان کے برابر بھی کیوں نہ ہوں۔
آہ؎
ہجوم عام کجا ! آل بو تراب کجا
سر حسیؑن کجا مجلس شراب کجا؟
بہر حال جب جناب سید الشہداء علیہ السلام کا سر مقدس یزید لعین کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ بہت مسرور و شاد ہوا ۔ اورکہا:
یوم بیوم بدر
آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے۔
ثمّ دعا يزيد بقضيب خيزران، فجعل ينكث به ثنايا الحسين عليهالسلام
اسی پر اکتفاء نہ کی بلکہ چھڑی سے جناب سید الشہداء کے لب و دندان مبارک کی بے ادبی کی اور اس کے ساتھ ساتھ نشہ فتح و سرور سے چور ہو کر حصین ہمام مری کے یہ شعر پڑھے؎
ابیٰ قومنا ان ینصفونا فانفصت
قواضب فی ایماننا تقطر الدماء
نفلق ھاما من رجال اعزۃ
علینا و ھم کانوا اعقا واظلما
اس وقت ابو برزہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں موجود تھے و ہ کیفیت دیکھ کر تاب ضبط نہ لاسکے اور پکار کر کہا :
ويحك يا يزيد، أتنكت بقضيبك ثغر الحسينعليهالسلام ابن فاطمة؟! أشهد لقد رأيت النبي صلىاللهعليهوآله يرشف ثناياه وثنايا أخيه الحسن ويقول: أنتما سيّدا شباب أهل الجنّة، قتل الله قاتليكما ولعنه وأعدّ له جهنّم وساءت مصيراً
وائے ہو تم پر اے یزید! تم چھڑی سے حسین ابن فاطمہ علیھما السلام کے لب و دندان کی بے ادبی کرتے ہو ؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان اور ان کے بھائی حسن علیہ السلام کے لب و دندان پر بوسہ دیتے ہوئے دیکھا اور یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو! خدا تمہارے قاتل کو قتل کرے ، لعنت کرے اور اس کے لیے عذاب جہنم مہیا کرے اور وہ بہت بری بازگشت ہے۔
راوی کا بیان ہے کہ ابو برزہ کا یہ کلام حق ترجمان سن کر یزید غضب ناک ہوگیا اور اسے دربار سے نکال دینے کاحکم دیا ۔ چنانچہ درباریوں نے کھینچ کر اسے دربار سے نکال دیا۔
( سعادت الدارین فی مقتل الحسین ؑ، ص-511)
اسیران آل محمد ﷺ زندان شام میں:
بالآخر یزید نے قتل کا ارادہ ترک کر کے سید سجاد ؑ اور اہل بیت کو زندان بھیجنے کا فیصلہ کیا چنانچہ اس کے اقامتی محل کے قریب جو زندان تھا اس میں اسیران آل محمدؐ کو بھیج دیا۔ اس زندان کی اجمالی کیفیت ارباب مقاتل نے یہ لکھی ہے کہ
لا یکنھم من حرّ و لا برد فاقاموا بہ حتی تقشرت وجوھم و کانوا فی مدۃ اقماتھم ینحون علی الحسین علیہ السلام
"جو گرمی اور سردی سے حفاظت نہیں کرتا تھا (یعنی اس پر چھت نہ تھی) اتنا عرصہ ان کو زندان میں رکھا گیا کہ ان کے چہروں کے رنگ بدل گئے۔ اور پوری مدت قیام کے دوران وہ برابر حسین ؑ پر نوحہ و ماتم کرتے رہتے تھے۔
اس کے بعد یزید کے حکم سے جناب سید الشھداءؑ کا سر اقدس قصر الامارہ کے دروازہ پر لٹکا دیا گیا جو تین دن تک لٹکا رہا اور بروایتے جامع مسجد کے منارہ پر چالیس دن تک لٹکا رہا اور دوسرے شہداء کے سر ہائے مقدسہ میں سے بعض کو شہر شام کے مختلف دروازوں پر اور بعض کو جامع مسجد کے دروازوں پر لٹکایا گیا۔