سلائیڈرمقالات قرآنی

وحدت نظام، وحدت معبود کی دلیل )برہان نظم)

1۔ لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿انبیاء؛۲۲﴾
اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے، پس پاک ہے اللہ، رب عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ: واضح رہے مشرکین معبود اسے بناتے تھے جو ان کے زعم میں کائنات کی تدبیر میں حصہ دار اور شریک ہے۔ لہٰذا تعدد معبود کا مطلب ان کے نزدیک تعدد مدبر ہے۔ چنانچہ وہ کسی ذات کو اپنے امور کا مدبر تسلیم کر کے اسے رب مانتے، پھر اس کی پرستش کرتے اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک مدبر اور رب کو مانتے تھے۔ مثلاً فتح و نصرت کا رب، رزق کا رب، آسمان کا رب، زمین کا رب وغیرہ وغیرہ ورنہ وہ بھی ایک ہی خالق کو مانتے تھے۔ وہ تعدد خالق کے قائل نہ تھے:
وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۔۔۔ (۴۳ زخرف:۸۷)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں: انہیں کس نے خلق کیا ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔
یہ آیت معبود کی وحدت پر اس طرح دلیل قائم کرتی ہے: اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ معبود و مدبر ہوتے تو ذاتاً ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔ ذات میں مختلف ہونے سے تدبیر میں اختلاف لازم آتا ہے۔ تدبیر میں اختلاف سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا نظام کی وحدت، نظام دہندہ کی وحدت کی دلیل ہے۔ قانون کی وحدت، قانون ساز کی وحدت کا واضح ثبوت ہے۔
چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن حکم روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے ایک ہونے پر کیا دلیل ہے؟ فرمایا:
اتصال التدبیر و تمام الصنع ۔۔۔۔ (ابن بابویہ۔ التوحید: ۲۵۰)
تدبیر میں ہم آہنگی اور صناعیت میں کمال۔
یعنی اگر ایک سے زائد مدبر ہوتے تو تدبیر میں خلا آ جاتا اور صناعیت میں نقص۔
۲۔ اگر ایک سے زیادہ معبود و مدبر ہوتے تو دونوں محدود ہوتے۔ محدود اپنی حدود میں محصور، دوسرے کی حدود میں مقہور ہوتا ہے۔ محصور اور مقہور معبود و مدبر نہیں ہو سکتا۔
۳۔ اگر دو مدبر ہیں تو ایک چیزپر ہر دو ارادوں کا نافذ ہونا لازم آتا ہے اور یہ بات ناممکن ہے کہ ایک چیز دو مرتبہ وجود میں آئے۔ مثلاً زمین پر ایک ارادہ نافذ ہونے سے اس میں روئیدگی آ گئی۔ دوسری مرتبہ ایک اور ارادہ نافذ ہوا تو زمین کی روئیدگی وجود میں نہیں آ سکے گی چونکہ ایک موجود پر دو ارادے نافذ نہیں ہو سکتے۔
۴۔ روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: معبود ایک ہونے کی دلیل اتصال التدبیر ہے۔ یعنی تدبیر میں ہم آہنگی۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے: موجودہ تدبیر میں خاک، پانی اور دھوپ میں ہم آہنگی ہے جس کی وجہ سے دانہ اُگتا ہے۔ اگر ایک مدبر نے خاک بنائی، دوسرے نے پانی بنایا تو خاک اور پانی میں ہم آہنگی نہ ہوتی۔ خاک پرپانی پڑنے سے خاک سٹر جاتی اور پانی خراب ہو جاتا چونکہ جس مدبر نے پانی بنایا وہ خاک کی خاصیت سے بے خبر ہے اور جس نے خاک بنائی وہ پانی کی خاصیت سے آگاہ نہیں۔ اگر دونوں نے اتفاق کیا ہے تو متفقہ فیصلہ ایک ہوا، دو نہ ہوئے۔ یعنی تدبیر ایک ہو گئی۔ اس طرح جو فرض کیا تھا وہ ایک ہو جاتا ہے۔
۵۔ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ: پاکیزہ ہے اللہ مشرکین کے وہم و خیال سے، جس میں وہ اللہ کے معبود اور مدبر کے مقام پر اس کی مخلوق کو بھی شریک کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ پروردگار عرش ہے۔ اس جگہ رب العرش کہنے سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کے مقام تدبیر سے عبارت ہے۔ چنانچہ اکثر جہاں بھی تدبیر سے مربوط کسی موضوع کا ذکر آتا ہے وہاں عرش کا ذکر بھی آتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ قرآنی تصریحات میں اللہ، خالق، رب اور مدبر ایک ہی ذات سے عبارت اور ناقابل تفریق ہے۔
۲۔ شرک کا بنیادی عقیدہ اللہ، خالق، رب اور مدبر میں تفریق پر قائم ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 232)

2۔ مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿ۙمومنون:۹۱﴾
اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر جدا ہو جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کر دیتا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ: تشریح کے لیے بقرہ ۱۱۶، الانبیاء : ۲۷ ملاحظہ فرمائیں۔
۲۔ وَّ مَا کَانَ۔۔۔۔ اِذًا لَّذَہَبَ: اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے تو وہ اس وقت معبود ہو سکتا ہے جب وہ خالق ہو۔ اگر تمہارے سب معبود بھی خالق ہیں تو:
i۔ ہر معبود کی مخلوقات کی تشخیص ہو جاتی یہ کس معبود کی مخلوقات ہیں۔ اس معبود کی خلق دوسرے معبود کی خلق سے جدا ہوتی۔ اس صورت میں ہر معبود اپنا اپنا نظام قائم کرتا اور آپس میں کسی قسم کا ارتباط نہ ہوتا بلکہ ہر ایک کا اپنا اپنا مستقل نظام ہوتا۔
مثلاً ایک معبود سمندر کا نظام اور دوسرا خشکی کا نظام چلا رہا ہوتا تو خشکی کو سمندر سے کوئی ربط نہیں ہونا چاہیے۔ اسے اگر بادل، بارش کی ضرورت ہے تو اس کا انتظام سمندر سے ہٹ کر اپنے پاس ہونا چاہیے۔ دوسرے کے نظام کے بخارات اور بادل و بارش کے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جب کہ موجودہ نظام اس بات کی تائید کرتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز دوسرے سے مربوط ہے:
مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ۔۔ (۶۷ ملک: ۳)
تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا۔
لہٰذا نظام کی وحدت سے خالق اور نظام دہندہ کی وحدت ثابت ہوتی ہے۔
سوال: مشرکین اللہ کو خالق سمجھتے تھے:
وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۔۔۔۔ (۳۱ لقمان: ۲۵)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔
آیت میں کیسے ان معبودوں کے ساتھ خلق کو فرض کر لیا گیا ہے؟
جواب: اول تو ممکن ہے لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ کا جواب بزبان حال ہو، بزبان مقال نہ ہو۔ ثانیاً مشرکین اگرچہ آسمانوں اور زمین کا خالق اللہ کو تسلیم کرتے تھے تاہم وہ روز مرہ زندگی سے مربوط جزئیات کا خالق اپنے معبودوں کو سمجھتے تھے چونکہ وہ اپنے معبودوں کو مالک و مدبر سمجھتے تھے اور خلق و تدبیر قابل تفریق نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں وہ اپنے معبودوں کو مدبر سمجھتے تھے ان کو خالق بھی سمجھتے تھے۔ اس بات پر یہی آیت گواہ ہے۔ اس آیت کے علاوہ دیگر آیات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں:
وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ (۱۶ نحل: ۲۰)
اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا ۔۔۔۔ (۲۲ حج:۷۳)
اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بنانے پر بھی ہرگز قادر نہیں ہیں۔۔۔۔
صاحب المیزان کہتے ہیں: مشرکین اپنے معبودوں کے خلق افعالی کے قائل تھے۔ خلق ایجادی کو صرف اللہ کے ساتھ مخصوص سمجھتے تھے۔
۲۔ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ: ایک مستقل خالق کو اپنے تخلیقی و تدبیری عمل میں جب استقلال حاصل ہے تو وہ کسی دوسرے خالق سے قطع نظر اپنا تخلیقی عمل جاری رکھے گا۔ اسی طرح دوسرا خالق بھی۔ لہٰذا دو مستقل خالقوں کی تخلیق ایک دوسرے کی تخلیق سے ٹکرائے گی اور دونوں کا نظام تخلیق درہم برہم ہو جائے گا۔ اگر نہ ٹکرائے اور اپنی حد میں تخلیقی عمل جاری رکھے تو دو مستقل نظام وجود میں آئیں گے جو ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہوں گے۔ یہ فرض آیت کے پہلے جملے میں باطل ثابت کیا گیا ہے۔ ہمارے اس بیان سے وہ سوال پیدا نہیں ہوتا جو عموماً اٹھایا جاتا ہے:
ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ دو حکیم و دانا خالق اپنے اپنے دائرے میں نظام و خلق چلائیں اور ایک دوسرے پر چڑھ نہ دوڑیں؟
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 401)
3۔ لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ﴿یس:40﴾
"نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔”
تشریح کلمات
یَّسۡبَحُوۡنَ:( س ب ح ) السباحۃ پانی میں تیرنے کو کہتے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ: سورج اور چاند کے مدار جدا ہیں۔ ہر ایک کو اپنے مدار میں پابند رکھا گیا ہے۔ نہ سورج چاند کے مدار میں آ سکتا ہے، نہ ہی چاند سورج کے مدار میں داخل ہو سکتا ہے۔ چاند زمین کے گرد ایک مختصر مدار میں گھومتا ہے جب کہ سورج اپنے ایک وسیع مدار میں گھوم رہا ہے۔ لہٰذا سورج اور چاند کے مدار میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اس لیے فرمایا: سورج کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ اپنے تابع سیارات میں سے ایک سیارے (زمین) کے تابع چاند کے مدارمیں آ جائے۔ یعنی اپنے تابع کے تابع کے مدار میں آ جائے۔ اسی لیے فرمایا: سورج کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ لہٰذا نظام کائنات میں سورج اور چاند دونوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ دوسرے کے مدار میں آ جائیں کہ سورج کے طلوع کے موقع پر چاند اور چاند کے طلوع کے موقع پر سورج نکل آئے۔
۲۔ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ: نظام کائنات میں سورج اور چاند دونوں کے لیے ممکن نہیں کہ دوسرے کے مدار میں آ جائیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے یا دن کے آنے کے مقررہ وقت سے پہلے رات آ جائے۔ اربوں سال سے دن اور رات اپنے اپنے مقررہ وقت پر آرہے ہیں۔ یعنی شب و روز کا آنا جانا ایک دقیق حساب کے مطابق ہے۔ اس میں کروڑوں سال میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آ سکتا۔ جب فرق آئے گا تو یہ نظام درہم برہم ہو جائے گا:
فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ (۷۵ قیامت:۷ تا ۱۰)
۷۔ پس جب آنکھیں پتھرا جائیں گی، اور چاند بے نور ہو جائے گا، اور سورج اور چاند ملا دیے جائیں گے تو انسان اس دن کہے گا: بھاگ کر کہاں جاؤں؟
یہ محکم نظام ایک نظم دہندہ پر دلالت کرتا ہے۔ کسی غیر اللہ کے بس میں نہیں ہے کہ وہ ایسا نظام اور تدبیر بنائے۔
۳۔ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ: یعنی کل من الشمس والقمر فی فلک یسبحون۔ سورج اور چاند میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ سورج مرکز ہونے کے باوجود حرکت میں ہے جس طرح چاند حرکت میں ہے۔ اس جملے میں دیگر اجرام کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا کُلٌّ سے مراد تمام اجرام لینا خلاف ظاہر ہے اگرچہ تمام اجرام حرکت میں ہیں۔
سورج اور چاند کی حرکت کو پانی میں تیرنے کے ساتھ تعبیر کرنا قابل توجہ ہے کہ یہ اجرام فضائے آسمان میں اس طرح گھوم رہے ہیں جس طرح مچھلی پانی میں تیر رہی ہوتی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 261)
4۔الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ۔ ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ﴿الملک:3-4﴾
اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟ پھر پلٹ کر دوبارہ دیکھو تمہاری نگاہ ناکام ہو کر تھک کر تمہاری طرف لوٹ آئے گی۔
تشریح کلمات
حَسِیۡرٌ:( ح س ر ) تھک جانا، ناکام ہو جانا۔
تفسیر آیات
۱۔ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا: سات آسمانوں کو یکے بالائے دیگرے بنایا یا معنی یہ ہو سکتے ہیں: ساتوں آسمان ایک دوسرے کے مطابق ایک جیسے بنائے چونکہ ان تمام آسمانوں کو ایک ہی چیز دخان سے بنایا ہے۔
ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ۔۔۔۔ (۴۱ فصلتٔ: ۱۱)
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا۔
۲۔ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ: تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا۔ کائنات کی تمام چیزیں باہم مربوط، نتیجہ خیز اور حیات بخش ہیں۔
فری مین ڈائسن (Freeman Dyson) کہتے ہیں:
جوں جوں میں کائنات کو دیکھتا اور اس کی ساخت کا مطالعہ کرتا ہوں اتنا میرے اس یقین پر اضافہ ہو جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اسے ہماری آمد کی پیشگی اطلاع مل چکی ہو گی۔ (مختصر تاریخ موجودات)
سورج کی دھوپ سے سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں، بادل وجود میں آتے ہیں، ہوا بادلوں کو چلاتی ہے، خشک علاقوں میں بارش برستی ہے، دانے اور میوے اُگتے ہیں، دسترخوانوں کی زینت بنتے ہیں، غذا بن جاتے ہیں، پھر خون بن جاتے ہیں، یہ خون تحلیل شدہ جسم کی تلافی کر کے اس کا حصہ بن جاتے ہیں، تحلیل شدہ جسم کاربن کی شکل میں کسی درخت کا حصہ بن جاتے ہیں، وہ درخت پھل دیتا ہے، یہ دورہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔
۳۔ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ: پھر پلٹ کر نظرثانی کرو۔ جدید تحقیق کرو۔ اپنے تجربات کو دہراؤ۔ تمام وسائل بروئے کار لے آؤ۔
۴۔ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ: اس پورے سلسلے اور اس نظم میں موجود کسی کڑی اور اس حکیمانہ گردش میں کوئی خلل ہے؟ دھوپ اور مٹی میں، مٹی اور پانی میں، پانی، مٹی اور جانداروں میں پھر گردش لیل و نہار وغیرہ وغیرہ میں کوئی تضاد ہے؟
۵۔ ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ: اللہ تعالیٰ کی صناعی کا بار بار مطالعہ کرنے کا حکم ہے کہ تلاش کرو کہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نظام میں کہیں خلل نظر آتا ہے؟ کَرَّتَیۡنِ صرف دو مرتبہ کے لیے نہیں بلکہ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ کی طرح بار بار کرنے کے لیے ہے۔ یعنی اپنی تحقیق نسلاً بعد نسلٍ جاری رکھو۔
۶۔ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ: آخرکار ان تمام پے در پے تحقیقات کے بعد نگاہیں ناکام ہو کر لوٹ آئیں گی۔ خَاسِئًا ناکام اور تھک ہار کر رہ جائیں گی اس کائنات میں کوئی خلل تلاش نہیں کر سکیں گی۔
جہاں چون چشم و خط و خال و آبرو است
کہ ہر چیزش بجای خویش نیکو است
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 241)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button