رسالاتسلائیڈرمحافلمناقب رسول خدا صمناقب و فضائل

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت از نظر قرآن

مقدمہ:
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو انسانی معاشرہ کی فلاح اور اصلا ح کی غرض سے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نازل کیا ۔دین درحقیقت ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو خالق کائنات کی جانب سے انسان کی ہدا یت کے تمام پہلوئوں پر مشتمل ہے ، قرآن مجید میں انسانی ضرورت کے تمام اصول و ضوابط کو بیان کیا گیا ہے ،انسان چونکہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا حامل ہے بنا بریں قرآن مجید کا اکثر و بیشتر حصہ بلکہ مکمل طورپر اجتماعی وسیاسی مسائل پر مشتمل ہے ،مباحث قرآن کا محور و مرکز توحید ہے،توحید کی اقسام میں سے جہاں تو حید ذاتی ،صفاتی ،افعالی اور عبادی پر بحث و تفسیر کی ضرورت ہے وہیں ”توحید ربوبیت‘‘ بھی حائز اہمیت ہے جو تو حید افعالی کی ایک قسم شمار ہو تی ہے جس سے انسان کو یہ درس ملتا ہے کہ جس طرح خدا کے علاوہ خالق کو ئی نہیں ہو سکتا اس طرح اللہ کے بغیر پورے عالم کے امور کی مدیریت کے لا ئق بھی کوئی نہیں ہو سکتا ،نظام کائنات کو چلانے میں خدا کا شریک تسلیم کر نے والا بھی اُسی طرح مشرک ہے جس طرح تخلیق کائنات میں خدا کا شریک ٹھہرانے والا مشرک ہے ۔حقیقت میں توحید خالقیت پر اعتقاد کا لازمی نیتجہ یہ ہے کہ تمام امور کی تدبیر کا مالک بھی ایک خدا ہے انسانی معاشرہ کی تدبیر کو عملی صورت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ،انبیا ء کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور معاشرے پر عادلانہ نظام کا قیام تھا ۔
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّیّینَ رَسُوْلاًمِّنْھُمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ
الجمعہ،٢
وہی (خدا )ہے جس نے ناخواندہ لو گوں میں انہی میںسے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پا کیزہ کر تا ہے ۔
نیز فرمایا
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَامَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِا لْقِسْطِ
الحدید،25
اور ہم نے اپنے انبیاء کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب (قانون ) اور میزان (عدالت )کو بھی نازل کر دیا تاکہ لو گوں میں انصاف کو قائم کریں۔اسلام کا بنیادی مقصد انسان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر تربیت کر نا ہے۔ بنا بریں تز کیہ نفس کے بعد معاشرتی تزکیہ (اصلاح) کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیا کو ایک مشترکہ لا ئحہ عمل دے کر بھیجاتاکہ کہ لوگوں کو خدا کے نظام کے تحت زندگی گزارنے اور ہر قسم کے غیر متعادل نظام سے پرہیز کرنے کا درس دیں ۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُ وااللّٰہَ وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوْتَ
النحل ،٣٦
یعنی ہم نے ہر زمانہ میں رہنے والے لوگوں کے لیے جو رسول بھیجا اس کا ایک ہی شعار تھا کہ اللہ کی بندگی و عبادت کرو اور ظالم طاغوت سے دور رہو۔اس آیہ اوردیگر بہت سی آیات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہر نبی نے اپنے زمانہ میں موجود غیر الٰہی حکمرانوں کے تسلط سے قوموں کو آزاد کرانے کے لیے نہ صرف زبانی تبلیغ کی ہے بلکہ طاغوتی حاکمیت کے خاتمہ کے لیے عملی جدوجہد کی اور بعض نے کامیابی کے بعد اللہ کی حاکمیت کو معاشرے پر نافذ بھی کیا ہے۔ حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی حکومت کا واضح ذکر قرآن میں موجود ہے ،اسی طرح دیگر انبیاء جن میں حضرت موسیٰ و حضرت ابراہیم علیہما السلام کی طاغوت شکن جدوجہد کا ذکر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ انسانوں پر صرف اللہ کی حکومت ہونے کی صورت میں ہی توحید عملی شکل اختیار کر سکتی ہے ۔ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت میں عقلی اعتبار سے تو کو ئی شک وشبہ نہیں ہے ، اس لیے کہ ایک طرف انسان کا بغیر حکومت کے زندگی گزارنا، نا ممکن ہے اور دوسری طرف خالق انسان کے علاوہ حکومت کا کامل نظام دینے کا کوئی اہل نہیں ہے نیز دیگر انبیا ء کی بعثت کا مقصد معاشرے پر اللہ کی حاکمیت کا نفاذ ہے تو خاتم الا نبیا ء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف تبلیغ وارشاد کی ذمہ داری تک محدود کرنا کس طرح ممکن ہے ؟لیکن قرآنی آیات کے تناظر میں ہم ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبلغ احکام ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حاکمیت کے حامل بھی تھے جو در حقیقت خلافت کی شکل میں الٰہی حاکمیت ہے ، البتہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عقلی ادلہ اور بہت سی آیات کے باوجود بعض علما ء ٤ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیاسی منصب اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت کا انکار کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف اس طرح پیش کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف مبدا ومعاد کی تبلیغ پر مامور تھے اوران کا معاشرے کی سیاسی قیادت و راہبری سے کو ئی تعلق نہ تھا جس کی وجہ سے اس موضوع کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے ۔
دین اور معاشرہ :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی قیادت کے اثبات سے پہلے دین کی حقیقت کا سر سری جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس ”دین ”کے ”مبلغ ”تھے اُس کی صحیح صورت سامنے آسکے ،قرآن مجید کی نظر میں دین سے مراد ”انسانی زندگی کی عملی روش کا حدود اربعہ ”ہے جس کی ایک دلیل وہ آیات ہیں جن میں خداوند متعال نے کفارو مشرکین کے راہ و رسم اور زندگی گزارنے کی روش کو بھی دین سے تعبیر کیا ہے ۔
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ
الکافرون،٦
تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میر ادین ۔
اسی طرح فرعون جو اپنے علاوہ کسی کو خدا تسلیم نہیں مانتا تھا،لیکن حضرت موسیٰ ـکے مقابلے کے لیے عوام کو بھڑکا نے کی خاطر ”دین ” کاسہارا لیتے ہوے کہتا ہے :
اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ نُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَ رْضِ الْفَسَادَ
الغافر،٢٦
مجھے ڈر ہے کہ یہ (موسیٰ )تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد بر پا کر ے گا۔
خداوند کریم نے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے زندگی گزارنے کے چند طور طریقے بیان کرنے کے بعد لوگوں کو اسی راستے(دین) پر چلنے کی تاکید فرمائی ۔
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ
الانعام 153
اور بتحقیق یہی (دین )میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پر اگندہ کر دیں گے۔
بنابریں انسانی زندگی گزارنے کی روش اور طور طریقے دو قسم کے ہو سکتے ہیں ایک باطل راستہ ہے جو شیطان اور شیطانی حکمرانوں کا طور طریقہ ہے اور دوسر ا فطرت انسانی کا راستہ ہے کہ جس کی طرف خد انے اپنے نما ئندوں کے ذریعے دعوت دی ہے اور اسی راہ وروش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر نبی الہیٰ نے کو شش بھی کی ہے لیکن شیطانی و طاغوتی حکمرانوں کی عوام فریبی کی وجہ سے صر ف چند انبیا ء حاکمیت الہیٰ کو نافذکرنے میں کا میاب ہو ئے ہیں جس میں ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہا تھوں قائم ہو نے والی حکومت ایک بہترین نمونہ ہے ۔
عصر حاضر کے عظیم مفسر قرآن علامہ طباطبائی نے بھی انسانی معاشرہ میں راہ و روش کو دین سے تعبیر کیا ہے اور سورہ روم کی آیت ٣٠ کی تفسیر میں دین کودین فطرت کے طور پر ثابت کیا ہے ۔
المیزان فی تفسیر القرآن ،ج ٤،ص١٢٢،ج١٤،ص١٧٨
دین فطرت سے مراد یہ ہے کہ انسانی خلقت کے اندر خالق انسان نے زندگی گزارنے کے وہ طریقے جو انسان کو کمال وترقی تک لے جانے کا وسیلہ ہیں، ودیعت کر دئیے ہیں ،اسی بناپر اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ اسی فطری دین پر قائم رہو ،تا کہ اپنی امت کی قیادت و راہبری کر تے ہوئے انہیں کمال کی منزل پر فائز کر سکو ۔
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
الروم 30
پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رُخ دین (خدا)کی طرف مرکوز رکھیں ،اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو خلق کیا ہےاللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں آتی یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اس آیہ مجیدہ میں بھی خدا نے نظام حیات کو دین سے تعبیر کیاہے اور فرمایا یہ ایسا نظام حیات ہے جو دیگر نظام کائنات کی طرح نظم و ضبط اور ہم آہنگی پر قائم ہے اور چونکہ تخلیقی نظا م ہے لہذا کبھی تبدیلی نہیں آئے گی یعنی، فطرت اور شریعت میں وحدت واتحاد قائم ہے اسی بنا پر ابنیا ء کو بھیجا تاکہ ظالمانہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس مدفون فطری نظام کو روشن و اجاگر کریں ۔
علامہ طباطبائی کہتے ہیں :دین فطرت سے مراد وہ قوانین و ضوابط ہیں جو انسان پسند ہیں کیونکہ یہ انسان کی خلقت کے ساتھ مربوط ہیں اور انسانی عقل سے مکمل طور پر مطابقت رکھتے ہیں ۔
المیزان فی تفسیر القرآن،ج٦،ص189
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت سے مراد کیا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کے جملہ امور کی قیادت و راہبری اور حکمرانی کا حق خداوند تعالیٰ نے اپنے معصوم نمائندے حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیا ہے ،یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف احکام الہیٰ کو بیان کر نے والے نہیں یا لوگوں کے باہمی اختلافات اور مشاجرا ت کے حل کے لیے صر ف قاضی تحکیم نہیں کہ قضاوت کر تے ہو ئے صرف فیصلہ سنا دیں بلکہ اس قضاوت اور فیصلہ پر عمل در آمد کرانے کے بھی ذمہ دار ہیں ، حاکمیت کا لفظ ”حکم ”سے ماخوذ ہے اور قرآن مجید میں حکم سے مراد تشریع یعنی قانون وضع کر نا اور معاشرے پر قانون کوحاکم قرار دینا ہے ،جو کہ ذاتی طورپر اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا :
وَ مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فِیۡہِ مِنۡ شَیۡءٍ فَحُکۡمُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ
الشوریٰ١١
اور جس بات میں تم اختلاف کر تے ہو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہو گا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فیصلے کوعملی طور پر نافذ کر انے کے لیے اپنا اختیار اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تفویض کر تے ہو ئے اعلان فرمایا :
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ
النساء١٢
(اے رسول) ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ پر نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلہ کر یں۔
اگر چہ یہ آیت شان نزول کے لحاظ سے ایک چوری کے فیصلہ سے متعلق نازل ہو ئی ہے لیکن یہ ثابت شدہ ہے کہ شان نزول مراد متکلم کومحدود ومنحصر کرنے کا باعث نہیں بنتا ،اس بناپر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کے فیصلے کرنے اور انہیں عملی طور پر نافذ کر نے کے ذمہ دار ہیں با الفاظ دیگر معاشرے پر حکومت کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔
امام خمینی کا نظریہ:حکم عقل اور ضرورت ادیان کی روسے انبیا ء کی بعثت کا مقصد اور کار انبیا ء صرف مسئلہ گوئی اور بیان احکام نہیں تھا اور ایسا نہیں ہے کہ مسائل و احکام بذریعہ وحی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچے ہو ں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و امیر المومنین ـ اور دیگر ائمہ صرف ‘مسئلہ گو ‘ رہے ہو ں کہ خدا و ند عالم نے ان حضرات کو صرف اس لیے معین کیا ہے کہ مسائل و احکام کو کسی خیانت کے بغیرلوگوں کے سامنے بیان کر دیں اور انہوں نے بھی اس امانت کو فقہا کے حوالے کر دیاہو کہ جو مسائل انبیا ء سے حاصل کیے ہیں کسی خیانت کے بغیر لوگوں تک پہنچا دیں اور اس طرح الفقہا ء امناء الرسل کا مطلب یہ ہو کہ فقہاء بیان مسائل میں امین ہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ انبیاء کااہم ترین فریضہ قوانین و احکام کو جاری کر کے عادلانہ اجتماعی نظام قائم کر نا ہے جو یقینا بیان احکام و نشر تعلیمات الہیٰ کے ساتھ ساتھ ایک طاقتور حکومت کا خواہاں ہے۔نیز فرماتے ہیں کہ :خداوند عالم نے جو خمس کے سلسلہ میں فرمایا ہے :
وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی
الانفال41
اور جان لوکہ جو کچھ مال کسب کرو اس کا پانچوایں حصہ اللہ ،رسول اور اس کے قرابت دارروں کے لیے مخصوص ہے ۔یازکوة کے لیے جو فرمایا ہے :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَةً
التوبہ 103
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجئے۔حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم کوصرف احکام بیان کر نے کے لیے معین نہیں کیا بلکہ ان احکام کے نفاذ اوراجراء کی ذمہ داری کو بھی ان کے سپرد کر دیاہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر مامور تھے کہ خمس ،زکات اور خراج جیسے ٹیکسوں کووصول کر کے مسلمانوں کو نفع پہنچانے پر خرچ کر یں قوموں اور افراد کے درمیان عدالت کو وسعت دیں، حدود کو جاری کریں ،سرحدوں کی حفاظت کر یں، ملک کی آزادی کو قائم کریں اور حکومت اسلامی کے ٹیکسوں کو خوردبرد سے بچائیں ۔
حکومت اسلامی ،ص٧١۔٧٠
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت سے متعلق آیات :
اس سلسلے میں کثیر تعداد میں آیات موجود ہیں جنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:۔
ایسی آیات جن میں اطاعت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کیا گیا ہے ،وہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت و حکومت سے متعلق ہیں ،اور وہ آیات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام امور اجتماعی میں محورومرکز قرار دیتی ہیں ۔
اطاعت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق آیات :
اس قسم کی آیات میں مختلف صورتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو مورد تاکید قراردیاگیا ہے،بعض آیات میں بلا تفریق تمام انبیاء کی اطاعت کیے جا نے کو اہداف بعثت میں شمار گیاکیا ہے۔
وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اَلَّا لیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ
النساء64
ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے۔بعض آیات میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کا تسلسل قرار دیا ہے
مَنْ یُّطِعِ الرَّ سُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ
النساء 80
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
مندرجہ بالا آیات میں درحقیقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اہمیت کو مختلف انداز میں پیش کیا تاکہ لوگ دل و جان سے اپنے راہبر کی پیروی کریں ،اس کے علاوہ کچھ آیات ایسی ہیں جن میں براہ ِ راست پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ
النساء 59
اللہ کی پیروی کرو اور اس کے رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی پیروی کرو۔ایک اور مقام پر فرما یا :
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَلَا تَوَ لَّوْعَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ
الانفال20
اور اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور تم حکم سننے کے بعد اس سے روگردانی نہ کرو۔اگر چہ ان آیات میں اطاعت خداوند کا بھی ذکر ہے لیکن اصل مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو بیان کر نا ہے،چونکہ بعد والی آیات میں ان لو گوں کی مذمت کی گئی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنتے لیکن عمل نہیں کرتے تھے ایسے لوگوں کو بدترین جانوروں سے تعبیر کیا گیا ہے ،جبکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظام کے مطابق چلنے کو حیات بخش قرار دیا ہے ۔
علاوہ بریں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم علیحدہ طور پر کسی آیت میں ذکر نہیں ہوا جب کہ بہت سے آیات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو علیحدہ بھی بیان کیا ہے۔
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُواالزَّکٰوةَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ
النور 56
اور نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
گویا جس طرح نماز و زکات یا دیگر احکام ،عملی زندگی کا حصہ ہیں اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم بھی عملی زندگی کا حصہ ہے سیکنٹروں احکام میں سے نماز وزکات جیسے دو نمونے ذکر کرنے کامقصد شاید یہ تھا کہ جس طرح نماز و زکات کے بغیر انسانی معاشرہ کمال و ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا اسی طرح حاکم اسلامی کی اطاعت اور ان کے دیگر اوامر کی پیروی کے بغیر بھی انسانی کمال کا راستہ طے کرنا نا ممکن ہے ۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ رسول کی اطاعت و پیروی کو مستقل طور پر بیان کیاہے جس کالازمی نیتجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ ایسے اوامر واحکام بھی صادر ہو ں گے جن کا ذکر قرآن میں درج نہیں ہے وگرنہ پیغمبر کی اطاعت کی الگ سے تاکید کرنا لغوو بیہودہ قرار پائے گا نیزیہ کہ بعض انبیاء کی زبا ن سے تو خدا نے واضح طور پر بیان کیا کہ نبی کی اطاعت کے بغیر تقویٰ کامقام بھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی نقل فرمایا:
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْل اَمِیْن فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ
الشعراء107،108
میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
حضرت نوح علیہ السلام کا اطیعوا اللہ یا اطیعوا ربی جیسی تعبیر کی بجائے اطیعونی کہنا ااس بات کی دلیل ہے کہ بہت سے احکام کتاب اللہ میں موجود نہ بھی ہوں رسول کو امانت دار نمائندہ الہیٰ سمجھتے ہو ئے اطاعت کرنے میں انسان کی فلاح و سعادت مضمر ہے ۔اس قسم کی جملہ آیات کااندازیہ بتا تا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرتی و اجتماعی احکامات صادر کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں اور اللہ کی جانب سے ان احکام کو نافذ کرنے کا اختیار بھی انہیں کو حاصل ہے ،نیز بعض آیات کی روسے اللہ کارسول اپنے اختیار حاکمیت میں دیگر افراد کو بطور نائب منصوب کرنے کا مجاز بھی ہے ،جیسے حضرت موسی ـ نے حضرت ہارون ـ کو فرمایا:
وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ
الاعراف 142
میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کر تے رہنا ۔
حضرت ہارون علیہ السلام نے بھی قوم سے یہی کہا کہ جب رحمن پروردگار پر ایمان لے آئے ہو تو میرے راستے پر چلو اور میرے ہر حکم پر عمل کرو۔
وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطیْعُوْ اَمْرِیْ
طہٰ90
اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ اے میری قوم ! بے شک تم اس (بچھڑے)کی وجہ سے آزمائش میں پڑگئے ہو جب کہ تمہارا پروردگار تورحمن ہے لہذا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو ”بعض آیات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بطور مطلق اور عمومیت کے ساتھ بیان ہو ئی ہے یعنی لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے ہر قسم کے انفرادی واجتماعی امور میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں ۔
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا
الحشر07
اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاو۔
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ملتا ہے کہ یہ فئے (بغیر جنگ کے ہا تھ آنے والے مال )کی تقسیم کے موقع پر نازل ہو ئی جس میں مسلمانوں پر واضح کر دیا گیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی مصلحت کی بنا پر غیر مساوی تقسیم بھی کر تا ہے تو اس کے ہر فیصلہ پر دل وجان سے عمل کیا جا ئے۔اگر چہ ما مطلق ہے اور ہر قسم کے فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شامل ہے اور روایات میں بھی اس آیہ کے ضمن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام فرامین کو مراد لیا گیا ہے ۔جس کا معنی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک الٰہی نمائندے واسلامی معاشرے کے حکمران ہو نے کی حیثیت سے احکام صادر کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اس ”حق حاکمیت ”کی بنا پر واجب الا طاعت بھی ہیں ۔
ایک اعتراض کا جواب :
کچھ لوگوں نے اطاعت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اعترافات و شبھات پیدا کیے ہیں ،منجملہ یہ کہ بعض آیات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر قسم کے اختیار کی نفی کی گئی ہے اور تمام امور کو خدا کی طرف نسبت دی گئی ،جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:
لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیئ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّ بَھُمْ
آل عمران128
(اے رسول )اس بات میں آپ کا کو ئی دخل نہیں ،اللہ چاہے تو انہیں معاف کر دے یا چاہیے تو سزا دےنیز فرمایا:
اِنَّ الْاَ مْرَ کُلَّہ لِلّٰہِ
آل عمران154
ہر قسم کا امر (اختیار )اللہ کے ساتھ مختص ہے۔
ا س کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت کا اس مطلب کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت کا مزاج رکھنے والوں کے شک کے جواب میں فرمایا کہ ہر قسم کی فتح یا شکست اللہ کے ہا تھ میں ہے ،نیز جنگ احد میں شکست کے وقت کفریہ جملے کہنے والوں کی سزا یا بخشش کے بارے میں تو حید کا درس دینے کی غرض سے فرمایا ۔دوسری آیہ مجیدہ میں اگرچہ ہر قسم کے امور کو اللہ کے ساتھ مختص ہو نا بیان ہوا ہے لیکن یہ کو ئی عجیب بات نہیں اکثر امور کو خدا نے اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔ مثال کے طورپر ہدایت کے مسئلے میں ایک مقام پر فرمایا ۔
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یھْدِیْ مَنْ یَّشَآ ءُ
القصص56
(اے محمد )جسے آپ چاہتے ہیں اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدا یت دیتا ہے۔
جب کہ دوسرے مقام پر فرما یا:
اِنَّکَ لَتَھْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
الشوریٰ52
بے شک آپ ہی سیدھے راستے کی جانب راہنمائی کر رہے ہیں۔
اس قسم کی آیات ، کئی مقامات پر ملتی ہے کہ خداوند متعال بعض امور کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے پھر انہی امورکو اپنے نمائندے کی طرف بھی نسبت بھی دیتا ہے،جس کی مفسرین نے یہ وضاحت کی ہے کہ تمام امورکا تعلق ذاتی طور پر اللہ کے ساتھ ہے لیکن اللہ اپنے اذن اور اجازت سے یہ امور اپنے انبیا ء کو سپر د کر تا ہے اگر غور کیاجا ئے تو توحید ونبوت کی حقیقت بھی یہی ہے ،پس نیتجہ یہ نکلا چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تسلسل ہے اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف مبلغ دین ہیں ،بلکہ اسلامی حاکم ہو نے کے عنوان سے دینی احکام کو عملی طو ر پر نافذ کر نے کے ذمہ دار بھی ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت وحکومت سے متعلق آیات :
اس قسم میں بعض آیات ولایت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ولا یت خد ا کی صف میں بیان کر تی ہیں اور بعض آیات میں علیحدہ سے ولایت پیغمبر کو ذکر کیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ
المائدہ55
تمہار ا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔
وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ
المائدہ56
اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی (سر پرست)بنائے گا (تو وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا )اور اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے نیز فرمایا:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ
الاحزاب 06
نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔
ان آیات سے واضح ہو تا ہے کہ لوگوں کے تمام انفرادی واجتماعی امور میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ولایت وحاکمیت حاصل ہے یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے مقابلے میں لوگوں کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کے معاشرتی و اجتماعی امور میں دخالت کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ ان امور میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہی نافذ العمل سمجھا جا ئے گا ۔
اس ضمن میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں،ان کے نفسوں (انفسھم )سے مراد خود مومنین ہیں پس آیت کا معنی یہ ہوا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنین پر مومنین سے زیادہ حق تصرف رکھتے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عام لو گوں کی رائے میں تعارض یا اختلاف پیدا ہو جائے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے کو ترجیح اور برتری حاصل ہو گی مختصر یہ کہ مومنین جن امور میں ذاتی اختیار رکھتے ہیں جیسے حفاظت ،محبت عزت ،کسی کی دعوت کو قبول کرنے یا اپنے ارادے پر عمل کرنے میں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب امور میں ان پرحق اولویت رکھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارادہ فوقیت رکھتا ہے ۔
المیزان ،ج١٦،ص٢٧٦
ان آیات کی روشنی میں یہ نیتجہ اخذ ہوتاہے کہ معاشرتی و سیاسی امور میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ئی فیصلہ کردیں تو اسے مقدم سمجھا جائے گا اور اس کی روایات میں بھی وضاحت موجود ہے نیز تمام علما ء اسلام کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باذن اللہ ولا یت تشریعی (قوانین کے وضع و نفاذ)کے منصب پر فائز ہیں۔

تمام معاشرتی و سیاسی امور میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محورقرار دینے والی آیات:
قرآن مجید میں خداوند متعال نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاشرے کا ایسا محور و مرکز قرار دیا ہے کہ جس کے گرد جملہ امور کی گردش ہونی چاہیے ،سورہ نور میں مومنین کو تاکید کی گئی ہے کہ ”ایمان ”کی شرط یہ ہے کہ تمام امور میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع رہیں ۔
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤی اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ یَذۡہَبُوۡا حَتّٰی یَسۡتَاۡذِنُوۡہُ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ
النور62
مومنین تو بس وہ لو گ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول کے ساتھ ہوں تو ان کی اجا زت کے بغیر نہیں ہلتے جو لوگ آپ سے اجا زت مانگ رہے ہیں یہ یقینا وہ لوگ ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں ”اس آیت سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجتماعی مسائل میں مومنین کے مشورے کو شامل کر کے انہیں اعتماد میں لیتے تھے لیکن آخری فیصلہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہو تا اور مومنین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلوں کے پا بند ہو تے تھے نیز اس آیت میں خداوند حکیم نے ایک کلی قانون بھی بیان کر دیا ہے کہ معاشرتی و سیاسی امور میں ذاتی و انفرادی رائے کی کو ئی حیثیت نہیں بلکہ ہمیشہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے معاملات طے ہو نگے ۔اس کے بعد والی آیت میں فرمایا:
لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا
النور63
(اے مومنو!) تمہارے درمیان رسول کو پکارنے کاانداز ایسا نہ ہو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ۔
دعاء الرسول کے معنی میں بعض نے دواحتمال دئیے ہیں ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا دوسرا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پکارنا ۔ پہلے معنیٰ کے لحاظ سے تو ایک اخلاقی نکتہ کی طرف راہنمائی ہے کہ جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح مت پکارو اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اضح و انکساری ضرورفرماتے ہیں ،لیکن امت کو رسالت کی منزلت کا لحاظ رکھنا چاہیے ،جب کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے کو عام آدمیوں کے بلانے کی طرح مت سمجھو ،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلانا ،اللہ کا بلانا ہے،اس لیے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر فوری لبیک کہنا ایمان کا تقاضا ہے ۔احتمال کی حد تک تو پہلا معنی بھی درست ہے اور اخلاقی دستور کے لحاظ سے صحیح بھی ہے لیکن آیت میں موجود بعض تعبیرات سے معلوم ہو تا ہے کہ یہاں پر دوسرا معنی مقصود ہے کیونکہ اس حکم کے فوری بعد فرمایا :
فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ
النور63
جو لو گ حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف رہنا چاہیے کہ مبادا وہ کسی فتنے میں مبتلا ہوجائیں یا ان پر کوئی درد ناک عذاب آجائے۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں :
دعا ء الرسول سے مراد پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لوگوں کو کسی کام کے لیے بلانا ہے جیسے ایمان و عمل صالح کی طرف بلانا ، اجتماعی کاموں میں مشورت کے لیے بلانا ،نماز جامعہ کے لیے بلانا یا دنیا وی واخروی معاملات کے سلسلہ میں احکامات صاد ر کرنے کی غرض سے بلانا ہے ،لہذا یہ سب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے میں شامل ہیں۔
المیزان ،ج١٥،ص١٦٦
پس معلوم ہو ا کہ اگر کبھی کسی جنگ کی طرف روانہ ہو نے کے لیے بلائیں یااجتماعی و معاشرتی زندگی کے لحاظ سے ایک نجات بخش تحریر لکھنے کے لیے بلا ئیں تواس قسم کی اجتماعی دعوت کی مخالفت کرنے والا حقیقی مومن کہلا نے کا حقد ار نہیں ہو سکتا ۔بنابریں دونوں احتمالات کے باوجود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجتماعی و سیاسی معاملات میں مرکزیت کو کسی صورت میں رد نہیں کیا جا سکتا ۔علاوہ ازیں سیاسی حاکمیت کے لیے مالی امور کو ایک اہم رکن کی حیثیت حاصل ہے اور قرآن مجید میں زکات وخمس ا ور انفال کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں دینے سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا وند متعال اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلام کا سیاسی حاکم متعارف کرانا چاہتا ہے ،ارشاد رب العزت ہے :
وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوۡنَ
التوبہ59
اور کیا ہی اچھا ہو تا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جا تے اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ،ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ”اس آیت میں زکات کی تقسیم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کلی اختیار دیاگیا ہے نیز فرمایا :
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ
الانفال01
(اے رسول )آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انفال (مال غنیمت)کے متعلق پو چھتے ہیں کہہ دیجیے یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں۔ اگر چہ انفال کا حکم جنگ بدر کی غنیمت کے بارے میں آیا ہے تاہم یہ حکم ہر قسم کے انفال یعنی اموال زائد کو شامل ہے مثلا ً متروک آبادیاں،پہاڑوں کی چوٹیاں ،جنگل ،غیر آباد زمینیں اور لا وارث املاک وغیرہ جو کسی کی ملکیت نہ ہوں اس طرح وہ اموال جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے قبضے میں آئے ہوں جنہیں ”فئی” کہتے ہیں یہ سب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہیں یعنی اسلامی حکومت کی جائیداد میں شامل ہیں ۔
بلاغ القرآن ،ص٢٣٦
مندرجہ بالا امور کی سر پرستی رسول کے سپرد کرنا یا جہاد کے امور کی سر پر ستی کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مختص کر نا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیاسی امور پر بھی حاکمیت حاصل تھی ۔
……………

سرورق

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button