سلائیڈرمکتوب مجالس

مجلس عزاء بعنوان: اسمائے فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اسرار و اثرات ( حصہ اول)

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (١) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (٢) إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأبْتَرُ (٣)
ترجمہ :بے شک ہم نے آپ کو کو ثر عطا فرمایا لہذا آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں ۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔
رسول اللہ کے فرزند یکے بعد دیگرے جب انتقال کر گئے تو مکہ کے بڑے بڑے رئوسا جیسے ابوجہل ،عاص بن وائل ،ابو لہب ،عتبہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابتر (لا ولد)ہیں ۔جب وہ دنیا سے چلے جائیں گے تو ان کا نام مٹ جائے گا ۔جس پر یہ سورہ مبارکہ نازل ہو ا ۔جس میں یہ نوید سنائی ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے ،آپ ابتر نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہی ابتر ہیں ۔(الکوثر فی تفسیر القرآن )
”کوثر”فوعل کے وزن پر ہے یہ کثرت بیان کرنے کیلئے آتا ہے اور روایات میں کوثر کی تشریح خیر کثیر سے کی گئی ہے اس میں خیر کثیر کے مصداق کا تعین اگلی آیت ‘‘ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأبْتَرُ ”سے ہو تا ہے ۔آپ کو کوثر عنایت ہوا چنانچہ آپ ابتر نہیں ہے بلکہ آپ کا دشمن ابتر ہے ۔یعنی کوثر سے مراد حضوراکرم ،سرور دوعالم کیلئے اولاد کثیر ہے جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پھیلی ہے ۔
معصومین کے اسماء او ر القاب تشریفاتی اورتعارفی نہیں ہیں:
ایک نکتہ کی جانب توجہ دلاتا جاؤں کہ معصومین علیہم السلام کے القابات تعارفی نہیں ہیں جسطرح ہم لوگ ایک دوسرے کو دیتے ہیں بلکہ ان ذوات مقدسہ کا ہر لقب ان کے خاص صفت پر دلالت کرتا ہے جو ان کے وجود مبارک میں پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر حضرت کبریٰ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں کہتے ہیں :
آپ ؑ کے کئی القاب اور اسم مبارکہ کے ہیں ۔ فاطمہ ، زھرا، زکیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان اسماء مبارک کے معنیٰ رکھتے ہیں اس میں سے ہر اسم ایک حقیقت جو حضرت کے وجود مقدس میں نور افشانی کرتی ہے۔
ہمارے آپس میں جو اسم گزاری کرتے ہیں وہ تشریفاتی اور تعارفی ہیں ۔ مثلا ہم کہتے ہیں حجۃ الاسلام ،آیۃ اللہ، شریعت مدار ، نائب امام وغیرہ یہ القاب ہم بہ عنوان عزت و احترام کے طور پر دیئے جاتے ہیں ۔ لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور اسمای گرامی ایک حقیقت اوراسم بہ مسمیٰ ہوتے ہیں۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی مشہور اسماء گرامی
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا (س)کی اسمائے گرامی تاریخ کے کتابوں میں مختلف انداز میں درج ہیں اور مورخین نے ان اسماء کی سند کیلئے احادیث مبارکہ کا بھی سہارا لیا ہے ۔ہم یہاں پر ان مشہور اسماء کا ذکر کریں گے جن پر اکثر مورخین کا اتفاق ہے ۔جب ان مختلف طریقوں سے نقل شدہ اسماء کو جمع کیا جائے تو آپ کی مشہورومعروف اسمائے گرامی درج ذیل بنتے ہیں ۔
١۔فاطمہ ٢۔زہرا ٣۔بتول ٤۔سیدہ ٥۔طاہرہ ٦۔مبارکہ ٧۔صدیقہ ٨۔زاکیہ ٩۔راضیہ ١٠۔مرضیۃ ١١ ۔محدثہ
ان اسماء مبارکہ کی تفصیل اور وجہ تسمیہ بیان کرنے سے پہلے حضرت امام جعفر صادق بحق ناطق کا وہ مشہور حدیث مبارکہ جسے اکثر مورخین نے اپنے کتابوں میں درج کیا ہے نقل کروں گا ۔جس میں امام نے جناب سیدہ (س)کی مشہور نو (٩)نام ارشاد فرمایا ہے ۔
عن الامام الصادق علیه السلام قال :لفاطمة تعسة اسماء عندالله ،فاطمه والصدیقة والمبارکة والطاهرة والزاکیة والراضیة والمرضیة والمحدثة والزهرا۔ ( ١:سلوفاطمہ عن مصائبھا ص291٢:الدمعة الساکبہ ص241٣:نخبة البیان ص79)
ترجمہ :امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی نزدیک جناب فاطمہ (س)کی نو نام ہیں ۔فاطمہ ،صدیقہ ،مبارکہ ،طاہرہ ،زاکیہ ،راضیہ ،مرضیہ ،محدثہ اور زہرا ۔
١:۔فاطمہ
فاطمہ ”فطم”سے ہے جس کی معنی چھڑانا ہے ۔یا”چھڑا دینے والی ”کی ہے ۔
(فرہنگ عامرہ ص 347)
فاطمہ کس چیز سے علیحدہ اور جدا ہے ۔اس کے بارے میں فریقین کی کتب میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث نقل ہو ئی ہے اور یہ حدیث مختلف طرق سے الفاظ کی ردو بدل کے ساتھ مروی ہے ۔
پہلاجو حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ مروی ہے وہ یوں ہے۔
عن جابر قال قال رسول الله:انما سمیت فاطمه لان الله فطمها ومحبیها عن النار
(١:موسوعة الکبریٰ ج 18ص372٢:کنزالعمّال ج 12ص109٣:شرح فقہ اکبر ص 133)
ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بے شک (جناب سید ہ (س)کو) فاطمہ نام رکھا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ جناب سید ہ (س)اور ان کی چاہنے والوں کو جہنم کی آگ سے چھٹکارا عطا فرمائے گا۔
جب کہ دوسرے بعض کتب میں ”ولدھا ”یا ”ذریتھا”کا لفظ اضافہ ہے جیسا کہ کچھ کتب میں مولا علی علیہ السلام سے یہی حدیث یوں مروی ہے ۔
عن علی قال قال رسول الله:ا تدرین لم سمیت فاطمه ،قلت :یا رسول الله لم سمیت فاطمة ،قال :ان الله عزوجل قد فطمها وذریتها عن النار یوم القیامة ۔
( ١:سلو فاطمہ عن مصائبھا ص392٢:موسوعة سیرت اہل البیت ج9ص46٣:فضائل خمسہ من الصاح الستہ ص 155٤:ینابیع المودة ج2ص125٥:فاطمہ من المھد الیٰ الحدص50)
ترجمہ :حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میں بیان کروں کہ فاطمہ نام کیوں رکھا گیا ہے ،میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا کیوں رکھا ہے ،تو آپ نے فرمایا :بے شک اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے اولاد کو قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچا کے رکھے گا۔
ان روایات کے مطالے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جناب سیدہ (س )خود اور اپنے چاہنے والے اور اپنے اولاد کو جہنم کی آگ سے قیامت کے روز محفوظ رکھے گی۔
اس کے علاوہ جناب سید ہ (س) کیلئے فاطمہ نام رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے یذید ابن مالک نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے ایک حدیث نقل کیا ہے جو کہ بعض سیرت نگاروں نے اپنے کتابوں میں درج کیا ہے ۔
عن یذید ابن مالک عن ابی جعفر قال :لما ولدت فاطمه اوحی الله عزوجل فانطلق به لسان محمد فسماها فاطمة ثم قال انی فطمتک بالعلم وفطمتک عن الطمث ثم قال ابو جعفر والله فطمها الله تبارک وتعالی بالعلم وعن الطمث بالمیثاق
(١:الدمعة الساکبة فی احوال النبی والعترة الطاہرہ ص 242٢:سلو فاطمہ عن مصائبھا ص291)
ترجمہ :یذید ابن مالک سے روایت ہے کہ ابوجعفر(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام )نے فرمایا :جب جناب فاطمہ علیھا السلام کی ولادت ہو ئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل کیا کہ ان کا نام فاطمہ رکھا جائے اور فرمایا :بے شک میں نے ان کو جہالت سے دور رکھا ہے اور خواتین میں پائی جانیوالی عیوب سے پاک وپاکیزہ قرار دیا ہے ۔پھر امام نے فرمایا بے شک اللہ تعالی نے اپنے وعدے کی مطابق ان سے جہالت اور دیگر عیوب سے پاک کیا ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام ان کے پاس آئی اور یہ پیغام دیا:لِاَنَّھَا فَطَمَت شِیعَتُھَا مِن َالنَّارِ” آپؐ کی اس عظیم بیٹی کانام زمین پر فاطمہ ؑ اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کو جہنم سے نجات دلانے والی ہیں“
(بحارالانوار۔ ج 43، ص18)
حضرت امام رضا علیہ الصلاۃ والسلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراؑ سے فرمایا:یَا فَاطِمَۃُ اَتَدرِینَ لِمَ سُمِّیَت فَاطِمَۃُ؟” اے میری شہزادی فاطمؑہ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپؑ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا ہے ؟حضرت علی علیہ الصلاۃ والسلام آپ وہاں تشریف فرما تھے، اُنھوں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائیں کہ فاطمؑہ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا ہے؟
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: لِاَنَّھَا فَطَمَت شِیعَتُھَا مِن َالنَّارِ ”اس لئے اس کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے کیونکہ آپؑ اور آپ ؑکے پیروکار ان جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون رہیں“(بحار الانورج 43،ص4) ایک اور حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا وَ ذُرِّیَتَھَا مِنَ النَّارِ ،مَن لَقَی اللہَ مِنھُم بِالتَّوحِیدِ وَ الاِیمَانِ لِمَا جِئتَ بِہِ” ان کا نام اس لیے فاطمہؑ رکھا گیا ہے کیونکہ خداوند تعالی نے انھیں اور اُن کی اولاد کو، جس نے اللہ سے اس حالت میں ملاقات کی کہ وہ اس کی وحدانیت پر اور جو کچھ میں نے پیش کیا ہے اس پر ایمان رکھتے ہوں گے ،جہنم سے محفوظ کر دے گا“۔۔۔۔ ( بحار الانوار جلد 63 )
قندوزی حنفی نے ابوہریرہ سے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا :اِنَّمَا سُمِّیَت اِبنَتِی فَاطِمَۃَ لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا وَ ذُرِّیَتَھَا وَ مُحِبِّھَا مِنَ النَّارِ”میں نے اپنی شہزادی کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا اس لیے رکھا کہ اللہ تعالی نے اسے اور اس کی اولاد اور اس کے محبوں کو جہنم کی آگ سے محفوظ کر دیا ہے۔( تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 321 ذخائرالعقبیٰ ص 26 ، کنزالعمال جلد 13 صفحہ 94، فیض تقدیر جلد 1 صفحہ 6)
پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے قیامت کے دن خاتون جنت و جہنم کے دروازے کے قریب تشریف لائیں گی اور بارگاہ ربوبیت میں عرض کریں گیا۔اِلہِی وَ سَیِّدِی سَمَّیتَنِی فَاطِمَۃُ وَ فَطَمَۃُ بِی مَن تَوَلَّانِ وَتَوَلَّا ذُرِّیَّتَنِی مِنَ النَّارِ وَ وَعَدَکَالحَقُّ وَ اَنتَ لَا تُخلِفُ المِیعَادِ، اے میرے معبود برحق اےمیرے سید و سالار تو نے میرا نام فاطمہ رکھا ہے اور تو نے اپنے محبت خاص سے مجھے اور مجھ سے اور میری اولاد سے محبت کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے امان دی ہے ۔ اے میرے اللہ تیرا وعدہ حق ہے اور تو اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔اسی وقت خداوند تعالیٰ کی طرف سے جواب آئے گا اے فاطمہ سلام اللہ علیہا۔ تم نے سچ کہا ہے میں نے تیرا یہ نام اس لئے رکھا کہ میں نے تجھے اور تیرے پیروکاروں اور تیری اولاد کے پیروکاروں کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون کر دیا ہے میرا وعدہ سچا ہے اور میں وعدہ خلافی نہیں کرتا( بحارالانوار جلد 43،صفحہ 15)
گناہوں اور ناپسندیدہ امور سے امان:
راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا :تجھے معلوم ہے کہ اسم فاطمؑہ کی تفسیر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا :اے میرے سردار ارشاد فرمائیے آپ نے فرمایا: اسم فاطمہ کا معنی ہے کہ جس سے ہر ناپسندیدہ امر سے محفوظ کر دیا گیا ہو۔ پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اگر امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نہ ہوتے تو روئے زمین پر بنو آدم میں سے قیامت تک ان کا کوئی کفو نہ ہوتا ( الانوار جلد 43صفحہ 16 )
علمائے اہل سنت کے بہت سے علماء نے اس حدیث کو بیان کیا ہے ۔ان میں سے ابن شیرویہ دیلمی نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لَو لَم یَخلُقِ اللہُ عَلِّی لَمَا کَانَ لَفَاطِمَۃُ کُفوُا“ اگر اللہ تعالی امام علی علیہ السلام کو خلق نہ کرتا تو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے لئے کفو نہ ہوتا اسی مطلب کو خورزمی نے مقتل الحسین علیہ السلام میں ،محدث ترمذی نے مناقب میں ،مناوی نے کنزوالحقائق میں ،قندوزی نے ینابیع المودۃ میں حضرت اُمّ سلمہ سے روایت کی ہے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس سے سنا۔ .
فوائد معرفت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے حضرت فاطمہ زہرا کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کہ اللہ کی مخلوق ان کی معرفت کے حصول کے بعد جہنم سے نجات پائے گی۔
امتیازات:
لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا بِالعِلمِ:
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پیدا ہوئیں تو اللہ تعالی نے ایک فرشتے کی طرف وحی فرمائی کہ اسم فاطمہ ؑ کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری کرے۔ یہی وجہ تھی کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر کا اسم فاطمہ سلام اللہ علیہا رکھا۔پھر اللہ تعالی ٰنے خاتون جنت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :میں نے تجھے علم و دانش سے نوازا ہے اور تجھے دوسروں سے جدا کیا ہے اور سبھی لوگوں پر برتری عطا کی ہے اور میں نے تجھے طیب وطاہر بنایا ہے ۔پھر امام علیہ السلام نے فرمایا :اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے انہیں علم و دانش کی بدولت دوسروں پر نشان امتیازی عطا کی ہے اور عالم زر سے ہی انہیں طاہر طیب بنایا۔.
قال رسول اللہ ﷺ:شَقَّ اَللَّهُ لَكِ يَا فَاطِمَةُ اِسْماً مِنْ أَسْمَائِهِ فَهُوَ اَلْفَاطِرُ وَ أَنْتِ فَاطِمَةُ.
اے فاطمہ، خدا نے تیرے ایک نام کو اپنے اسما سے مشتق کیا ہے، وہ فاطر (خالق) ہے اور تو فاطمہ ہے۔
( بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۵، ح ۱۳ کے ذیل میں)
اسمِ فاطمہ کی بلندیاں:
خاندان نے وحی کو اس نام سے بے پناہ محبت تھی وہ اس نام کا احترام کرتے تھے جس خاتون کا بھی یہ نام ہوتا اُس کا بھی احترام کرتے ۔
(الف)حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا: اگر اللہ آپ کو دختر عطا کرے تو اس کا کیا نام رکھے گا؟ ُاس نے عرض کیا میں اس کا نام فاطمہ رکھوں گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تو فاطمہ رکھے گا؟خدا فاطمہ سلام اللہ علیہا پر درود بھیجے ۔اگر تو اس کا نام فاطمہ ؑ رکھے تو پھر خیال رکھنا اسے طمانچہ نہ مارنا اور اسے گالیاں مت دینا ،بلکہ اس کا احترام کرنا۔
(ب) سکونی سے روایت ہے کہ میں حیرانی و پریشانی کی صورت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا انھوں نے فرمایا: اے سکونی! خیر ہے کیوں پریشان ہے ؟سکونی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے :آپ نے فرمایا تو نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا میں نے اس کا نام فاطمہ رکھا ہے ۔آپ نے فرمایا :آہ، آہ، آہ،ا گر تو نے اس کا نام فاطمہ رکھا ہے تو اس سے کبھی گالی نہ دینا ،اس پر لعنت نہ کرنا اور اس سے مت مارنا۔
(ج) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا فرمان ہے : لَا یَد خُلُ الغَفَر بَیتَا فِیہِ اِسمُ مُحَمَّدُٗ وَفَاطِمَۃُ ٗ مِنَ النِّسَاءِ(سفینۃ البحار)
”اس گھر میں فقر داخل نہیں ہوتا کہ جس گھر میں محمد ﷺاور فاطمہ علیھاسلام نام کے افرادہوں“
• کوثر
کوثر کثرت میں مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، علامہ زمخشری بیان کرتے ہیں :
کوثر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی کثرت کا اندازہ نہ ہو۔ چنانچہ ایک بادیہ نشین عورت سے جس کا فرزند سفر پر گیا تھا کہا گیا : بم اب ابنک ؟ قالت : اب بکوثر ‘‘ تمہارا فرزند کیا لے کر آیا ہے؟
اس نے کہا : بے حساب فائدہ کے ساتھ پلٹا ہے۔
راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:کوثر یعنی کسی چیز کی انتہا ہوجانا۔
علامہ طبرسی بیان کرتے ہیں:
کوثر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی شان کثرت ( وزیادتی) ہو اور کوثر خیر کثیر ہے۔
کوثر ایک صفت ہے جسے کثرت سے لیا گیا ہے اور اس کے معنیٰ بہت زیادہ خیر و برکت کے ہیں نیز سخاوت مند افراد کو بھی کہتے ہیں۔
’’انا اعطیناک الکوثر‘‘ ہم نے آپ کو کوثر ( یعنی کثیر خیر و برکت) عطا کیا ’’فصل لربک وانحر ‘‘ پس اپنے پروردگار کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے، ’’ ان شانئک ھوالابتر‘‘ بے شک آپ کا دشمن ابتر و بے نسل ہے۔
اس سورہ مبارکہ کے شان نزول میں ہے کہ ’’ عاص بن وائل ‘‘ جو مشرکوں کا سرغنہ تھا اس نے پیغمبر اسلامؐ کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا اور کافی دیر آنحضرت ؐ سے بات چیت کی ، قریش کے بعض سرغنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور اس کا منظر کا دور سے مشاہدہ کررہے تھے۔ جب عاص بن وائل مسجد میں داخل ہوا تو انہوں نے اس سے کہا : کس سے بات کررہے تھے؟ اس نے کہا : اس ابتر آدمی سے۔
پیغمبر اسلام ؐ کے فرزند عبد اللہ کا انتقال ہوچکا تھا اور عرب جس کے فرزند نہیں ہوتا تھا اسے ابتر و بے نسل کہتے تھے ، اسی بنا پر فرزند پیغمبر کے انتقال کے بعد قریش نے پیغمبر کو ابتر کہنا شروع کردیا۔ اسی مناسبت سے سورہ کوثر نازل ہوا جس میں پیغمبر کو کثیر نعمتوں اور کوثر کی بشارت دی گئی اور ان کے دمشنون کو ابتر کہا گیا۔
پیغمبر اسلامؐ کے حضرت خدیجہ کبریٰؑ سے دو فرزند تھے۔ ایک قاسم اور دوسرے طاہر ( کہ جسے عبد اللہ کہتے ہیں) دونوں کا انتقال مکہ میں ہوا۔ ان کے بعد پیغمبر اسلامؐ کے کوئی فرزند نہیں ہوا، لہٰذا قریش آپ کو طعنہ دینے لگے اور آپ کے لئے لفظ ’’ابتر‘‘ کا انتخاب کیا۔ اگرچہ پیغمبر اکرمؐ کے ۸ھ؁ مدینہ میں ماریہ قبطیہ سے ایک فرزند ہوا جس کا نام ابراہیم تھا مگر اس کا بھی دوسا ل سے پہلے ہی انتقال ہوگیا جس کے انتقال سے پیغمبر اسلام ؐ کو بہت صدمہ پہنچا۔
قریش اپنی عادت کے مطابق فرزند کیلئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے اور بیٹے کو باپ کے منصوبوں کا جاری و باقی رکھنے والا سمجھتے تھے ، اس بنا پر وہ سوچ رہے تھے کہ وفات پیغمبر ؐ کے بعد آپ کا مقصد فرزند نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوجائے گا اور اس سے وہ بہت خوش تھے۔
سورہ کوثر نازل ہوا اور خداوند عالم نے انہیں دندان شکن جواب دیا اور خبردی کہ دشمن ابتر رہیں گے اور اسلام و قرآن کا منصوبہ و مقصد منقطع نہیں ہوگا۔ اس سورہ میں جو بشارت دی گئی ہے اس میں ایک طرف دشمنان اسلام پر سخت ضرب ہے اور دوسری طرف پیغمبرؐ کو تسلی دی گئی ہے۔( تفسیر نمونہ ، ج ۲۷، ص ۳۶۸، ۳۶۹،)
کوثر کے ’’خیر، کثر، و فراواں، بہت زیادہ مصادیق ہیں۔ (تفسیر فخر رازی)
بہت سے شیعہ علماء حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود مقدس کو کوثر کا بالکل روشن مصداق جانتے ہیں، کیونکہ آیہ کریمہ کے شان نزول میں بیان ہوا ہے کہ قریش ہمیشہ پیغمبرؐ پر طعنہ زنی کرتے تھے کہ ان کی نسل منقطع ہوجائے گی ، قرآن ان کی بات کی نفی کرتے ہوئے بیان کرتا ہے : ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا، اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیر کثیر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہی ہیں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام ؐ کی نسل انہی کے ذریعہ چلی ہے۔ آپ کے تمام مقاصد و اسلام کی حفاظت اور انسانوں کی ہدایت و تبلیغ کی اور یہ بات صرف اماموں ہی تک محدود نہ رہی بلکہ آپ کی نسل میں بہت سے علماء و فضلاء مصنفین و مولفین ، فقہا ، محدثین اور مفسرین گزرے ہیں جو بلند مرتبہ تھے اور انہوں نے ایثار و فدا کاری کے ساتھ مقاصد اسلام کی حفاظت کی۔
فخر رازی’’ کوثر‘‘ کی مختلف تفسیروں کے ضمن میں بیان کرتے ہیں : تیسرا قول یہ ہے کہ یہ سورہ ان لوگوں کی رد میں نازل ہوا جو پیغمبر اسلام ؐ کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مقطوع النسل سمجھ رہے تھے لہٰذا اس سورۂ مبارکہ کے معنی یہ ہیں کہ : خداوند عالم انہیں ایک ایسی نسل عطا فرمائے گا جو طولانی زمانے تک باقی رہے گی۔ اہل بیتؑ کے بہت سے افراد شہید کردیئے گئے لیکن پھر بھی پوری دنیا میں آباد ہیں، حالانکہ بنی امیہ، جو اسلام کے دشمن تھے ان کی نسل میں کوئی قابل ذکر آدمی نہیں ہے اور آپ دیکھیں کہ ان میں کس درجہ بلند پایہ کے علماء ہیں۔ مثلاً ’’باقر‘‘ ’’ صادق‘‘ و ’’ رضا‘‘ اور نفس زکیہ ( نفس زکیہ حضرت امام حسن مجتبیٰ کے فرزند محمد بن عبد اللہ کا لقب ہے جس کی منصور دوانیقی کے ہاتھوں شہادت ہوئی)۔۔۔
(تفسیر نمونہ ، ج ۲۷، ص ۲۷۵، ۲۷۶، نقل از تفسیر فخر رازی ، ج ۲۲، ص ۱۲۴)
علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں بیان کرتے ہیں:
کوثر جو پیغمبر اسلامؐ کو عطا کیا گیا اس سے مراد کثرت نسل اور ذریت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے، پس کوثر سے مراد یا صرف ذریت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے ، یا بہت زیادہ خیر مراد ہے کہ جس کے ضمن میں کثیر نسل پیغمبرؐ بھی ہے۔ کیونکہ اگر کثیر نسل پیغمبرؐ موجود نہ ہو تو آخری آیت ، ’’ ان شانئک ھو الابتر‘‘ آپ کا دشمن بے نسل و ابتر رہے گا۔ بے معنیٰ ہوجائے گی۔ پس ضروری ہے کہ پہلی آیتیں نسل پیغمبرؐ سے متعلق ہوں تاکہ دشمن پیغمبرؐ کے ابتر ہونے کے معنیٰ کئے جاسکیں اور آیت بے معنیٰ نہ ہو۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۲۰، ص ۳۷۰،)
خیر کثیر کا مصداق
جب یہ سورہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر لاولد کہنے والوں کی رد میں نازل ہوئی ہے اور کوثر کا مطلب خیر کثیر ہے تو اس خیر کثیر کے مصداق کا تعین اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ’’آپ کا دشمن بے اولاد رہے گا‘‘ سے ہوتا ہے۔ تیرا دشمن لاولد ہے ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے۔ یعنی آپ کو اولاد کثیر عطا کی ہے یا خیر کثیر عطا کیا ہے جس کا مصداق اولاد کثیر ہے۔ اگر کوثر سے مراد اولاد کثیر نہیں ہے تو اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ کاکوئی مفہوم نہیں رہتا جیسا کہ صاحب تفسیر المیزان نے کہا ہے۔ اس جگہ مولف تفہیم القرآن نے لکھا ہے:
۔۔۔ اس پر مزید آپ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کے بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بتائی جا رہی تھی جو ایسے ایک شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی تھیں۔ جس نے اپنے تو اپنے غیروں تک سے انتہائی نیک سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مختصر ترین سورہ کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری دی جس سے بڑی خوش خبری کسی انسان کو نہیں دی گئی اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن،ج10)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button