سلائیڈرمکتوب مجالس

مجلس بعنوان: آیہ مباہلہ اور مقام فاطمہ سلام اللہ علیھا

فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہ دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
اگرچہ اَبۡنَآءَنَا ، نِسَآءَنَااوراَنۡفُسَنَامیں جمع ہونے کی وجہ سے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت اور بڑی گنجائش تھی کہ حضور (ص) اصحاب و انصار بلکہ خود بنی ہاشم کے بہت سے بچوں کو اَبۡنَآءَنَاکےتحت اورجلیل القدر خواتین کو نِسَآءَنَا کے تحت اور بہت سی قدآور شخصیات کو اَنۡفُسَنَاکےتحت اس تاریخ ساز مباہلے میں شریک فرما تے، لیکن اَبۡنَآءَنَامیں صرف حسنین علیہما السلام، نِسَآءَنَا میں صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اَنۡفُسَنَامیں صرف حضرت علی علیہ السلام کو شامل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت اسلام کا ان ہستیوں کے ساتھ ایک خاص ربط ہے اور یہی ہستیاں ارکان دین میں شامل ہیں۔
نہایت قابل توجہ امر یہ ہے کہ زمخشری نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَامیں تو ایک ایک ہستی حضرت فاطمہ(س) اور حضرت علی(ع) پر اکتفا کیا، لیکن اَبۡنَآءَنَامیں ایک ہستی پر اکتفا نہیں کیا۔ کیونکہ نساء اور انفس میں چونکہ حضرت فاطمہ (س) اور علی (ع) کی کوئی نظیر موجود نہیں تھی، لہٰذا ان کے وجود کے بعد کسی اور کے وجود کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لیکن حسنین (ع) میں سے کسی ایک کے وجود کی صورت میں بھی دوسرے کا وجود ضروری تھا، لہٰذا ان دونوں ہستیوں کو بلایا۔ (زمخشری، الکشاف۔)

اگر ان افراد کے علاوہ کسی اور فر دکے لیے کوئی گنجائش ہوتی تو حضور (ص) نجرانی وفد کی تعداد کے برابر افراد مباہلے میں شامل کر لیتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نجران کا وفد چودہ افراد پر مشتمل تھا۔
محدثین، مفسرین، مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور (ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین، فاطمہ اور علی علیہم السلام کو ساتھ لیا۔ چنانچہ چوتھی صدی کے مقتدر عالم ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:
رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّٰہ علیہ (و آلہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہم ثم دعا النصاری الذین حاجوہ الی المباہلۃ ۔ (احکام القرآن ۲:۱۵)
سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم نے حسن، حسین، فاطمہ اور علی علیھم السلام کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔
اگر ان افراد کے علاوہ کسی اور فر دکے لیے کوئی گنجائش ہوتی تو حضور (ص) نجرانی وفد کی تعداد کے برابر افراد مباہلے میں شامل کر لیتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نجران کا وفد چودہ افراد پر مشتمل تھا۔
واقعہ مباہلہ: فتح مکہ کے بعد غلبہ اسلام کا دور شروع ہوا اور اسلام نے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنا شروع کیا۔ چنانچہ ہرقل روم، کسرائے ایران، مقوقس، حارث شاہ حیرہ، شاہ یمن اور شاہ حبشہ تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی ان حالات سے نہایت پریشان تھے۔ اتنے میں ان کے پاس رسول اللہ ﷺکی طرف سے دعوت اسلام پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی پادریوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ان کے ارباب حل و عقد اور سرداران قبائل ایک جگہ جمع ہو گئے اور اسلام سے بچنے کی تجاویز زیر غور آئیں۔ اس گرما گرم بحث میں کچھ لوگ اسلام کے حق میں مؤقف رکھتے تھے، لیکن اکثر لوگ اسلام کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے۔ آخر میں اپنے رہنماؤں السید اور العاقب کی رائے معلوم کی تو ان دونوں نے کہا: دین محمد (ص) کی حقیقت معلوم ہونے تک اپنے دین پر قائم رہیں۔ ہم خود یثرب جا کر قریب سے دیکھتے ہیں کہ محمد (ص) کیا دین لائے ہیں۔ چنانچہ السید اور العاقب اپنے مذہبی پیشواء ابو حاتم کی معیت میں چودہ رکنی وفد اور ستر افراد کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لوگ نہایت نفیس لباس زیب تن کیے، نہایت تزک و احتشام کے ساتھ شہرمدینہ میں داخل ہوئے۔ اہل مدینہ کا کہنا ہے:

ما رأینا وفداً اجمل من ھؤلاء
ہم نے ان سے زیبا ترین وفد نہیں دیکھا تھا۔
چنانچہ جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی عبادت کا وقت آگیا۔ ناقوس بجا اور انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت شروع کر دی۔ لوگوں نے روکنا چاہا، لیکن حضور (ص) نے منع فرمایا۔ یہ آزادیٔ عقیدہ و عمل کا بے مثال نمونہ ہے کہ مسجد نبوی (ص) کی چار دیواری کے اندر بھی غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور اعمال بجا لانے کی آزادی دی گئی، جب کہ یہ لوگ رسالت محمدی (ص) کے منکر تھے۔ عقیدے کے معمولی اختلاف پر دیگر مسلمانوں کو واجب القتل قرار دینے والے دہشت گردوں کی پالیسی اور رسول رحمت (ص) کی پالیسی میں کس قدر فاصلہ نظر آتا ہے۔
انہیں تین دن تک مہلت دے دی گئی۔ تین روز کے بعد حضور (ص) نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی سے متعلق توریت میں موجود تمام اوصاف آپ (ص) کے اندر موجود ہیں، سوائے ایک صفت کے، جو سب سے اہم ہے۔ وہ یہ کہ آپ مسیح علیہ السلام کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی تکذیب کرتے ہیں، انہیں بندۂ خدا کہتے ہیں۔ حضور (ص) نے فرمایا: میں مسیح علیہ السلام کی تصدیق کرتا ہوں، ان پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتاہوں کہ وہ نبی مرسل اور عبد خدا تھے۔
وفد: کیا وہ مردوں کو زندہ نہیں کرتے تھے، مادر زاد اندھوں کو بینائی نہیں دیتے تھے اور برص کے مریضوں کو شفا نہیں دیتے تھے؟
حضور(ص): یہ سب باذن خدا انجام دیتے تھے۔
وفد: مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ بھلا کوئی بندہ بغیر باپ کے پیدا ہوتا ہے؟
حضور(ص): اللہ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے کہ اسے مٹی سے خلق فرمایا پھر حکم دیا: بن جاؤ، وہ بن گیا۔
نجران کا وفد اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ انہوں نے دلیل و برہان کو قبول نہیں کیا۔
اس وقت حضور (ص) پر غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور وحی نازل ہوئی:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿﴾
حضور (ص) نے یہ آیت پڑھ کر حاضرین کو سنائی اور فرمایا: اگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں۔
وفد والے اپنے ٹھکانے پر واپس چلے گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ محمد (ص) نے ہمیں ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ کل دیکھو وہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ مباہلے کے لیے نکلتے ہیں۔ اپنے سارے پیروکاروں کے ساتھ؟ یا اپنے بڑے اصحاب کے ساتھ؟ یا اپنے قریبی رشتہ داروں اور تھوڑے دیندار لوگوں کے ساتھ؟ اگر یہ بڑی جمعیت کی معیت میں جاہ و جلالت کے ساتھ شاہانہ انداز میں نکلتے ہیں تو کامیابی تمہاری ہے۔ اگر تواضع کے ساتھ چند ہی لوگوں کے ساتھ نکلتے ہیں تو یہ انبیاء کی سیرت اور ان کے مباہلے کا انداز ہے۔ اس صورت میں تمہیں مباہلے سے گریز کرنا چاہیے۔
دوسری طرف رات بھر مسلمان آپس میں قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ کل رسول خدا (ص) اَبۡنَآءَنَا، نِسَآءَنَااوراَنۡفُسَنَامیں کن کن ہستیوں کو شامل کریں گے؟
۲۴ذی الحجۃ کی صبح طلوع ہوئی اور حق و باطل میں ہمیشہ کے لیے فیصلہ کن دن آ گیا۔ رسول خدا (ص) نے حکم دیاکہ دو درختوں کو کاٹ کر ان کی درمیانی جگہ کو جھاڑو دے کر صاف کیا جائے۔ صبح ہوئی تو ان دونوں درختوں پر ایک سیاہ کساء (چادر) خیمے کی شکل میں ڈال دی گئی۔
نجرانی وفد میں السید اور العاقب اپنے دونوں بیٹوں کی معیت میں نکلے۔ وفد کے دیگر ارکان یعنی قبائل کے سردار بھی بہترین لباس زیب تن کیے نہایت تزک و احتشا م کے ساتھ ہمراہ تھے۔
دوسری طرف رسول اللہ (ص) حسنین (ع) کا ہاتھ پکڑے نکلے۔ پیچھے حضرت فاطمہ (س) اور ان کے پیچھے علی (ع) تھے۔ اس کساء کے نیچے پانچوں تن تشریف فرما ہوئے اور حضور (ص) نے فرمایا: میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ اس کے بعد حضور (ص) نے السید اور العاقب کو مباہلے کی دعوت دی۔ ان دونوں نے عرض کی: آپ (ص) کن لوگوں کو ساتھ لے کر ہمارے ساتھ مباہلہ کر رہے ہیں؟ حضور (ص) نے فرمایا: باھلکم بخیر اھل الارض ۔ میں اہل زمین میں سب سے افضل لوگوں کو ساتھ لے کر تمہارے ساتھ مباہلہ کر رہا ہوں۔
یہ دونوں اپنے اسقف (پادری) کے پاس لوٹ گئے اور اس سے پوچھا: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ پادری نے کہا: انی لأری وجوھاً لوسئل اللہ بہا ان یزیل جبلاً من مکانہ لازالہ ۔ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص (محمدؐ) ان کو وسیلہ بنا کر خداسے دعا کرے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ضرور ہٹ جائے گا۔ خبردار ان کے ساتھ ہرگز مباہلہ نہ کرنا، ورنہ روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں رہے گا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے اور جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے واپس چلے گئے۔ (سید ابن طاؤسؒ کی الاقبال)
عیسائیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو باہم مشاورت میں مصروف ہوگئے اور کہا کہ اگر یہ محمد (ص) اللہ کے سچے نبی ہوئے (کیونکہ جو قافلہ یہ ساتھ لائے ہیں، اس کی زبان سے اگر ہمارے خلاف ایک لفظ بھی باہر آگیا) تو ہمیں اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ انہوں سے دستبردار ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے۔ مباہلے کییہ صورت اس سے قبل عرب کی سرزمین پر نہیں دیکھی گئی کہ جس میں اس قدر مختصر قافلہ شامل ہو، لیکن اس قدر پاک اور مقدس ہستیاں شامل ہوں۔ اس سے جہاں ان پانچ ہستیوں کے اپنے اللہ کے ساتھ قرب و تعلق کی حقانیت ثابت ہوتی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پانچ ہستیوں کی سچائی کی تائید ثابت ہوتی ہے۔ ان کی عصمت کی تصدیق ثابت ہوتی ہے۔ ان کی طہارت پر مہر ثابت ہوتی ہے اور انسانوں کو ان کی پیروی، "تقلید”، احترام اور تسلیم کرنے کی تاکید ثابت ہوتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: عذاب نے اپنے بدترین سائے کو نصرانیوں کے نمائندوں کی طرف پھیلا دیا تھا۔ اگر وہ لوگ مباہلہ کر لیتے تو نتیجے کے طور پر اپنی انسانی شکل و صورت سے ہاتھ دھو بیٹھتے، صحرا میں جلنے والی آگ میں وہ راکھ بن جاتے اور عذاب کا دائرہ نجران تک پھیل جاتا۔ بعد ازاں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے صلح نامہ تحریر فرمائے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مباہلے کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چار افراد کو کالے رنگ کی عبا پہنائیں اور ان کو اپنے ہمراہ لیا، اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے مباہلے کے لئے چلے: إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً (احزاب/33) “بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیتؑ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے، جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔”
واقعہ مباہلہ یوں تو نبی اکرم (ص) سمیت پانچ ہستیوں کی عظمت و رفعت کی عظیم مثال ہے، لیکن اس میں سیدہ فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کو خاص امتیاز اور مقام حاصل ہے، کیونکہ آپ بظاہر صنفِ نازک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک عورت کو مباہلے جیسے خطرناک مرحلے میں ساتھ لے جانا بہت سارے سوال جنم لیتا ہے، لیکن یہ اللہ کے رسول (ص) کا تنہا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ سارا قافلہ وحی الہیٰ کے تحت تشکیل پایا۔ نبی اکرم (ص) ہمیشہ اللہ کے حکم سے بولتے ہیں، بالخصوص آیاتِ قرآن تو نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہیں، اس کا مصداق وہی سب سے بہتر جان سکتا ہے، جس پر وحی نازل ہوئی ہو۔ حضور (ص) کا تمام عورتوں میں سے صرف سیدہ فاطمہ کو ہمراہ لے جانا، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عورت کا مصداق ہی فاطمہ (س) ہے، کیونکہ جو فقط جنتی عورتوں کی سردار نہ ہو بلکہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہو، اسے ہی عورتوں کی ترجمانی اور نمائندگی کا حق حاصل ہے۔ جمع کے صیغے کے باوجود حضور (ص) کا صرف ایک عورت کا ساتھ لے جانا بھی اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا حکم اور منشا ہے کہ فاطمہ ہی اس اعزاز کے لائق ہیں کہ وہ ساری عورتوں کے مقام پر اکیلی موجود ہوں۔
اتنی واشگاف تائید ِایزدی کے باوجود بعض طبقات مباہلہ کے واقعے کے بیان میں من مانی تشریح کرتے ہیں۔ آیت مباہلہ کی من مانی تفسیر کرتے ہیں۔ مباہلہ میں شامل ہستیوں کی عظمت پر اپنی من مانی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔ فضائل سیدہ (س) پر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ سیدہ (س) کی عصمت و طہارت میں علمی اور تاریخی حوالوں کا بہانہ کرکے شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض دریدہ دہن اب مباہلہ کی ملکہ پر غلطی اور خطاء کے الزامات لگا کر جہاں لوگوں کے اذہان مسموم کر رہے ہیں، بلکہ اپنی جہنم بھی پکی کر رہے ہیں۔ ہر مسلمان آیتِ مباہلہ پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ مباہلے کے واقعے ہر کامل یقین رکھتا ہے۔ مباہلے میں شامل شخصیات کو مقدس، معصوم، طاہر، مطہر، افضل، اعلیٰ، برتر اور اپنا ملجا و ماویٰ سمجھتا ہے۔ ان پانچوں کی خوشی کو اپنے لئے جنت اور ان پانچوں کی ناراضگی کو اپنے لئے جہنم کا ذریعہ جانتا ہے۔ ان پانچوں پر ایمان لائے بغیر کوئی مومن نہیں بن سکتا۔ ان پانچوں کے لیے اپنا جان و مال و عزت و آبرو قربان کرنے میں سعادت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مباہلہ والوں کے دامن کی پناہ میں رکھے اور ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔(آمین)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button