مکتوب مجالس

مجلس عزاء بعنوان فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سورہ نور کی روشنی میں

بسم الله الرحمن الرحیم
اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم
ہمیں کچھ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو پہچاننا چاہئے ، وہ فاطمہ جس کا نام فاطمہ رکھا گیا ، چونکہ تمام مخلوقات ان کے معرفت کی تہہ تک پہنچنے سے عاجز ہیں ۔
لان الخلق فطموا عن معرفتها  لہذا ہمیں قرآن سے رابطہ کرکے یہ دیکھا جائے کہ خداوند متعالی کہ جو اس کا خالق ہے اس نے فاطمہ سلام سلام اللہ علیھا کے بارے میں کیا بتایا ہے ، اورقرآن کریم کی آیات اور سوروں میں کیا اشارہ کیا ہے ؟اس کے بعد ہمارے مقابلہ میں جو افراد ہیں ان سے پوچھیں کہ آپ ان خواتین کے شان میں ایک آیت لے آئیں جو حضرت فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیھا کے زمانے میں تھیں ؟ کہ قرآن کریم میں ان خواتین کی تعریف اور ان کے مقام ومنزلت کے بارے میں اشارہ کرنے والی بھی کوئی آیت موجود ہے۔

یہ بہت ہی عجیب ہےقرآن کریم میں لیلۃ القدر ؛ فاطمہ ہیں ، وہ لیلۃ القدر کہ خداوند متعالی اپنے پیغمبر سے بھی فرماتاہے :
وَ ما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ، قرآن کریم کا لیلہ مبارکہ ؛ فاطمہ سلام اللہ علیھا ہے ، اور آت ذی القربی حقہ ؛ فاطمہ ہیں ، اور بعض روایات کے مطابق ، فاسئلو اہل الذکر کے مصادیق میں سے ایک فاطمہ ہے ، سورہ دہر اور سورہ کوثر ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے مربوط ہے ، ان میں سے ہر ایک عناوین پر اگر ہم گفتگو کرنا چاہئے تو گھنٹوں وقت درکار ہے ۔ اس مختصر وقت میں میں سورہ مبارکہ نور کی آیت شریفہ کی طرف اشارہ کرتاہوں ، اگر اس پر توجہ دیں اور اس آیہ کریمہ کو اپنے اذہان میں جگہ دے دیں تو اپنےاندر ایک نورانیت کا احساس کریں گے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے مقام و منزلت کے بارے میں تقرب پیدا کریں گے ، اس مجلس کا ہدف یہی ہے۔
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے ، اس نور کو ہم درک نہیں کر سکتے ، نہ ظاہری آنکھوں سے اور نہ اس قلب اور ذہن اور محدود فکر سے ۔ یہ جوفرماتا ہے خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے ، نور خدا کیا ہے ؟ ہم ان ظاہری نور کو سمجھ سکتے ہیں ، لیکن نور خدا کیا چیز ہے ؟ خداوند متعالی قرآن کریم میں اپنے نور کے لئے ایک مثال بیان کرنا چاہتا ہے ، فرماتا ہے :
مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاة
خدا کے نور کی مثال ، ایک مشکات اور چراغدان کی ہے ،
فِيهَا مِصْبَاح
اس چراغدان میں ایک چراغ اور شعلہ روشن ہونے کا ایک جگہ ہے
الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ
یہ چراغ ایک شیشہ کے اندر ہے ، جو بھی اسے دیکھتا ہے وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ جب چراغ کے گرد میں ایک شیشہ ہے جو اس نور کی محافظت کرتا ہے یہ اس نور کی باقی رہنے اور خاموش نہ ہونے کا سبب ہے
الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ
اس چراغ کا منبع اور طاقت ایک مبارک درخت زیتون ہے جس کے بہت سی خصوصیات ہیں ،
يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ
یہ چراغ خود بہ خود روشن اور نور پھیلاتا ہے
وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ
حتی کہ اگر آپ اس کے نزدیک کسی آگ کو بھی نہ لائے ، یہ خود بہ خود روشن ہوتا ہے ۔ خداوند متعالی فرماتاہے کہ اگر اس دنیا میں میرے نور کو دیکھنا چاہتے ہو ، تو میرے نور کی مثال یہ چراغدان ہے جس کی یہ خصوصیات ہے ، اس کے بعد ، دوسری آیت میں فرماتا ہے :
في بُيُوتٍ أَذِنَ اللّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ
(ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی۔
بعض روایات میں مشکات کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود مبارک اور مصباح کو امیر المومنین علیہ السلام یا پیغمبر اکرم کا علم قرار دیا ہے ، اور زجاجۃ کو امیر المومنین قراردیتے ہیں ، اور بعض دوسری روایات میں مشکاۃ حضرت فاطمہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو قرار دیا ہے ، میں اسی مطلب کو بیان کرنا چاہتا ہوں، حتی کہ اگر ہمارے پاس کوئی روایت بھی نہ ہوتی ، تب بھی اسی آیت کے آخر میں فرماتا ہے:
في بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ
(ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی۔
یہ مشکاۃ ( چراغدان ) کہ خدا وند متعالی اپنے نور کو اس سے تشبیہ کرتا ہے ، کون ہے ؟انسان اگر زمین پر خدا کے نور کو دیکھنا چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ان گھروں کی طرف دیکھ لیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ یہ گھر کون سے ہیں کہ خداوند متعال نے اس کی بلندی ، جس کےنام اس آیت میں ذکر کیا ہے ؟ یہ گھر تمام انسانوں کے گھروں سے اور تمام مخلوق سے فرق رکھتا ہے ، یہ نورانی ذوات مقدسہ بشر کے درمیان چمکتے ہیں ، خداوند متعالی نے ان گھروں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ باطنی اور معنوی طور پر بلند و بالا ہو ۔ ان گھروں میں
يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ
خدا کے نام کو لیا جاتا ہے۔ صبح اور شام ان گھروں میں خداوند متعالی کی تسبیح ہوتی ہے ، بعد والی آیت میں اس گھر کی شخصیات کو بیان کرتا ہے ۔
رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ
ایسے لوگ ہیں جو ہمیشہ خدا کے یاد میں ہوتے ہیں ، ہمیشہ نماز قائم کرتے ہوئے اور زکات دیتے ہوئے ہوتے ہیں ۔
يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا کی قدرت اور مقام و منزلت کے بارے میں خوف ہے اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں ۔
ان آیات کو آپ ذہن نشین کر لیں ، خداوند متعال یہ فرمانا چاہتا ہے کہ اے انسان اگر تم میرے نور کا ایک جھلک دیکھنا چاہتے ہو تو فاطمہ کو دیکھ لیں ، علی کو دیکھ لیں ، آئمہ معصومین کو دیکھ لیں ، یہ سب زمین پر خدا کے نور ہیں ، امام ہادی علیہ السلام زیارت جامعہ کبیرہ میں فرماتے ہیں :
خلقکم الله أنواراً فجعلکم بعرشه محدقين حتّي منّ علينا
خدا وندعالم نے آپ کے نور کو خلق فرمایا اور آپ عرش کے ارد گرد موجود رہے یہاں تک کہ خداوندعالم نے ہم پر احسان فرمایا۔
یہ سب زمین پر خدا کے نور ہیں اور خدا کے نور کا مثال ہے ، ، فاطمہ نور خدا ہے ، جس طرح پیغمبر اکرم اور حضرت علی خدا کا نور ہیں ۔ ان آیات سے اہلبیت علیہ السلام کی مقام و منزلت خود بخود واضح ہوتا ہے ، اس کے لئے ہمیں روایت کی ضرورت نہیں ہے ، خدا فرماتا ہے ، میرے نور کی مثال یہ مشکاۃ (چراغدادن) ہے جس کی یہ خصوصیات ہے ، اور ان خصوصیات کے ساتھ اس مشکاۃ کا مصداق یہ بیوت( گھر ) ہیں ، کونسے گھر؟ وہ گھر جن میں
أَذِنَ اللّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَ اْلآصالِ‌‍
جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔
ہو ، قرآن کريم اپنے بلند ترین اور رسا ترین آواز میں یہ بتاتا ہے کہ اے انسان تمہاری نظر ان انوار الہی کی طرف ہونا چاہئے ، تمہاری نظر فاطمہ کی طرف ہونا چاہئے ، تم اگر میرے نور کے درپے ہو اور خدا کے نور سے مستفید ہونا چاہتے ہو تو تم میرے نور کو تو نہیں سمجھ سکو گے ! لیکن میں نے زمین پر اپنے لئے ایک مثل قرار دیا ہے
هم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها
وہ مَثَل ،فاطمه ان کا پدر بزرگوار ، ان کا شوہر امیر المومنین اور ان کے اولاد ہیں ۔ میں ایک وقت اس سوچ میں تھا کہ یہ روایت جسے آئمہ علیہم السلام نے فرمائے ہیں :
نحن حجج الله علی عباده و فاطمة حجةٌ علینا
فاطمہ آئمہ پر حجت ہے اس کا کیا معنی ہے ؟ اس آیت کریمہ کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہمارے تمام آئمہ کے محافظ ہے ، فاطمہ ، علی کا مشکاۃ ہے ، اور علی مصباح ہے ، حسن ، مصباح ہے ، اسی طرح امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف تک ، یہ سب چراغ ہیں اور جو اس چراغ کی نورانیت کو قدرت وطاقت کے ساتھ حفاظت کرتا ہے اور جسے خاص جلا بخشتا ہے وہ فاطمہ ہے ۔ ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام فرماتا ہے :
أنا فرعٌ من فروع الزیتونة من شجرة مبارکةٍ زیتونة و قندیل من قنادیل بیت النبوة
میں شجر مبارکہ زیتون کے شاخوں میں سے ایک شاخ ہوں۔ یہ فاطمہ جو کہ نور خدا ، پیغمبر اور آئمہ اطہارعلیہم السلام کا مشکاۃ ہے اور خداوند متعال نے زمین پر انہیں اپنے نور کا مثل قرار دیا ہے ، لہذا ہمیں چاہئے کہ ان کی شناخت پیدا کرے ، غور کریں کہ کیسی عظیم ہستی تھی ؟
حضرت انس اور بریدۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سوال کیا: یا رسول اللہ! یہ کون سے گھر ہیں؟ قال بیوت الانبیاء ۔ فرمایا: انبیاء کے گھر ہیں۔ حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا علی اور فاطمہ کا گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے؟
قال نعم من افاضلھا ۔ (۱ الدر المنثور ۔۵:۵۰ نیز ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ۔۱:۵۳۳، تفسیر ثعلبی الکشف والبیان ۷:۱۰۷ روح المعانی ۹:۳۶۷)
فرمایا: ہاں! ان میں افضل گھروں میں سے ہے۔
جابر بن یزید جعفی عن ابی جعفر علیہ السلام فی قول اللہ تعالیٰ اللہ نور السموات والارض مثل نورہ کمشکاۃ فالمشکاۃ صدر النبی فیھا مصباح والمصباح ھو العلم فی الزجاجۃ و الزجاجۃ امیر المومنین و علم نبی اللہ عندہ
اسی طرح ایک اور روایت میں جابر بن یزید جعفی امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں اللہ نور السموات والارض مثل نورہ کمشکاۃ میں مشکاۃ (چراغدان) سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب مبارک ہے اور مصباح سے مراد علما اور زجاجۃ امیر المومنین علیہ السلام اور علم نبی ہیں۔
(تفسیر نور الثقلین ج 5 ص 157)
ایک اور جگہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے بارے میں فرمایا:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین،وھی بضعۃ منی وھی نور عینی،وھی ثمرۃ فؤادی،وھی روحی التی بین جنبی
میری بیٹی فاطمہ ؑعالمین میں موجود اولین و آخرین تمام عورتوں کی سردار ہے اور فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے،میری آنکھوں کا نور ہے، میرے دل کا پھل ہے، میری وہ روح ہے جو میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔
(امالی شیخ صدوق،ص175 ،بحار الانوار،جلد43، ص172)
کسی مکان کی اہمیت کا اندازہ اس کے مکین کی فضیلت اور اُن کے بلند مرتبے سے ہوتا ہے۔ اہلِ دنیا اُن علاقوں کو اہمیت دیتے ہیں جہاں حکمرانوں کے مکانات ہو تے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سلاطین اور بادشاہوں کے محلات اور ان کی رہائش گاہیں لوگوں کے لیے نمائش اور عبرت کے مقامات ہوتے ہیں۔ مگر خداپرست لوگوں کے مکان نہ صرف یہ کہ نیکوکار افراد کے لیے زیارت گاہ ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اور اعمال صالحہ کے ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئ جگہ کسی ولیءخدا سے منسوب ہوجاتی ہے تواُس کی اہمیت اور منزلت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کی مثال کے لیے خانہ کعبہ ہے جسے اللہ نے ‘بیت الله’ کہہ کر خود سے منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح مقام ابراہیم علیہ السلام ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،غار حرا ، مسجد قبا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہ مقامات بھی اسلام کی نظر میں محترم ہیں جہاں خانوادہء انبیاء مقیم رہے تھے۔ سورہ نور کی اس آیت میں اللہ عزوجل انبیاء کے گھروں کا ذکر اس طرح فرمارہا ہے۔
نزل قول سبحانه: في بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ علي قلب سيد المرسلين و هو صلي اللَّه عليه و آله و سلم في المسجد الشريف، فقام إليه رجل فقال: أي بيوت هذه يا رسول اللَّه؟ قال: بيوت الأنبياء، فقام إليه أبوبكر، فقال: يا رسول اللَّه: أهذا البيت منها؟ – مشيراً إلي بيت علي و فاطمة عليهماالسلام- قال: “نعم، من أفاضلها
(الدر المنثور: ۲۰۳: ۶، تفسير سورة النور؛ روح المعاني: ۱۷۴: ۱۸)
اہل تسنّن کے مشہور و معروف مفسّرِ قرآن علامہ جلال الدین السیوطی اپنی تفسیر الدر المنثور میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہء اقدس پر نازل ہوئی کہ “ان گھروں میں اللہ اجازت دیتا ہے کہ ان گھروں کو بلند کیا جائے اور اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔
” تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یہ کون سے گھر ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: یہ انبیاءکے مکانات ہیں۔ اس پر ابوبکر نے کھڑے ہوکر علی علیہ السلام و فاطمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا :”کیا یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے؟”۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا:”ہاں! یہ گھر انبیاء کے افضل ترین گھروں میں سے ہے”۔
اس آیت کی تفسیر میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الله نے مقام و منزلتِ بیتِ علی علیہ السلام و فاطمہ علیہما السلام کا ذکر کیا ہے۔ اس روایت میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انبیاء کے گھروں کا ذکر کیا تو ابوبکر نے بیتِ فاطمہ سلام اللہ علیھا  کے بارے میں سوال کیا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ کے مکان کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ابوبکر کو بیتِ فاطمہ سلام اللہ  علیہا کی عظمت کا علم تھا۔ پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ ” یہ مکان، انبیاء کے مکانوں میں افضل ترین مکانات میں سے ایک ہے” نے اس مکان کی اہمیت امت کے لیے اور آشکار کردی۔
اس بافضیلت مکان کے رہنے والوں کی عظمت میں ایک روایت قابل ذکر ہے جس کی صحت پر اہل تسنّن کے علماء کا بھی اجماع ہے۔
قال السيوطي: أخرج الترمذي و صححه، و ابن جرير و ابن المنذر و الحاكم و صححه، و ابن مردويه، والبيهقي في سننه من طرق عن أُمّ سلمة رضي اللَّه عنهاقالت: في بيتي نزلت: إِنّما يُريدُ اللَّهُ لِيذهبَ عَنْكُمُ الرِّجْس أَهْل البَيْت و في البيت فاطمة، و علي و الحسن، و الحسين عليهم السلام، فجلّلهم رسول اللّه صلي اللَّه عليه و آله و سلم بكساء كان عليه، ثمّ قال: “هولاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهيراً”
(الدر المنثور: ۶۰۴: ۶- ۶۰۵، ط دار الفكر، بيروت، المصنف: ۵۲۷: ۷)
علامہ سیوطی اپنی تفسیر میں یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ ترمذی نے اپنی صحیح میں،ابن جریر نے، ابن منذر نے اور حاکم نے اپنی اپنی کتابوں میں اور ابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی اپنی سنن میں ام المومنین جناب ام سلمہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آیت
انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت
میرے گھر میں نازل ہوئی اس وقت فاطمہ علیھا السلام ، علی علیہ السلام ،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام میرے گھر میں موجود تھے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الله نے ان سب کو اپنی چادر کے اندر جمع کیا اور ارشاد فرمایا :”(پروردگار) یہی میرے اہل بیت علیہم السلام ہیں، پس تو اِن سے رجس کو دور کردے اور انہیں اس طرح پاک کردے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ دستور ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روز نماز فجر کے لیے جب مسجد جاتے تو در سیّدہ سلام اللہ علیھا پر پہنچ کر سلام کرتے۔ کتاب در المنثور میں یہ روایت بھی معتبر ذرائع سے نقل ہوئی ہے۔
و أخرج ابن أبي شيبة و أحمد والترمذي و حسنه، و ابن جرير و ابن المنذر و الطبراني و الحاكم و صححه و ابن مردويه عن أنس: انّ رسول اللَّه صلي اللَّه عليه و اله و سلم كان يمرّ بباب فاطمة عليهاالسلام إذا خرج إلي صلاة الفجر، و يقول: “الصلاة يا أهل البيت الصلاة -إِنّما يريدُ اللّه لِيذهب عنكمُ الرِّجس أَهل البيت وَ يُطهّركُمْ تَطهيراً
اس روایت کو متعدد اہل تسنّن کے علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب بھی نماز فجر کے لیے جاتے تو فاطمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر سلام کرتے اور نماز کے لیے ان کو آواز دیتے اور آیہ تطہیر کی تلاوت فرماتے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button