سلائیڈرمکتوب مجالس

موت کی حقیقت اور فلسفہ

مجلس ترحیم بعنوان
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ﴿آل عمران: ۱۸۵﴾
ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تمہیں تو قیامت کے دن پورا اجر و ثواب ملے گا (در حقیقت) کامیاب وہ ہے جسے آتش جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے، (ورنہ) دنیاوی زندگی تو صرف فریب کا سامان ہے۔
۱۔ کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ: یہ ارضی زندگی عارضی ہے۔ اس نے گزر جانا ہے۔ اس وقتی زندگی کو کامیابی اور ناکامی کا معیار نہیں بنانا چاہیے۔ یہاں کسی کو فراوان نعمتیں دی گئی ہیں، کوئی جاہ و جلالت کی کرسی پر متمکن ہے توکوئی مصائب و مشکلات میں مبتلا ہے۔ یہ امور حق و باطل اور کامیابی و ناکامی کے حتمی نتائج نہیں ہیں۔ احد میں اگر کچھ لوگ قتل ہو گئے ہیں، یہ بات ذہن نشین کر لی جائے، ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اگر نہ مرنے والا مر جاتا تو افسوس کا مقام ہوتا، مرنے والے نے موت کا ذائقہ چکھا ہے اور راہ خدا میں شہادت کے مقام پر فائز ہو کر چکھا ہے، جو شہد سے بھی زیادہ شیرین ہے۔
۲۔ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ: یہ عام موت کی طرح بھی نہیں ہے۔ اس موت کے پیچھے اجر عظیم ہے، جو تمہیں پورا ملے گا۔
۴۔ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ: اس تصور کے تحت اس وقتی زندگی کو نہیں، بلکہ حیات ابدی کو کامیابی کا معیار بنانا چاہیے۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا: دنیاوی زندگی تو ایک فریب ہے۔ کامیاب وہ ہے جو عذاب جہنم سے نجات حاصل کر کے جوار رحمت میں جگہ حاصل کر سکے۔
۵۔ اس آزمائشی اور وقتی زندگی میں اجر و ثواب کی توقع نہ رکھو۔ یہ دار عمل ہے، دار ثواب نہیں ہے۔ اس لیے روز قیامت سارے کا سارا اجر و ثواب پاؤ گے۔
وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ تَحِیۡدُ﴿۱۹﴾
۱۹۔ اور موت کی غشی حقیقت بن کر آ گئی یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔
تَحِیۡدُ:( ح ی د ) پہلوتہی کرنے اور دور بھاگنے کے معنوں میں ہے۔
۱۔ وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ الۡمَوۡتِ: موت کی غشی حق اور حقیقت کو سامنے لے کر آتی ہے۔ یعنی نزع کی حالت میں انسان پر حق منکشف ہو جاتا ہے۔ بِالۡحَقِّ میں باء برائے تعدیہ لیاجائے تو آیت کا ترجمہ یہ ہو گا: سکرات موت اس حق کو لے کر آیا جس سے تو بھاگتا تھا۔ وہ حق موت کے بعد کی زندگی ہے۔ موت کے وقت نزع کی حالت میں انسان دوسرا عالم دیکھ لیتا ہے اور اس کی روح قبض کرنے پر مامور فرشتے اس کی قسمت کا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا:
الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (۱۶ نحل: ۳۲)
جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
۲۔ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ تَحِیۡدُ:ذٰلِکَ عالم آخرت کی طرف اشارہ ہو گا۔ یہ وہ عالم آخرت ہے جس سے تو گریزاں تھا اور اس کی تو تکذیب کرتا تھا۔
تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙالَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ۔ ( الملک:1،2)
بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضے میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔
تفسیر آیات
کائنات کی ہر شے پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے مصادیق کا ذکر ہے۔
۱۔ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ: وہ ذات جس نے موت کو خلق کیا۔ موت، عدم حیات کا نام ہے اور عدم، مخلوق نہیں ہے چونکہ خلق، ایجاد کا نام ہے۔ جب خلق ہوا تو وجود میں آنا چاہیے؟ اس سوال کا حل یہ ہے: موت، عدم حیات کا نام نہیں ہے بلکہ انتقال حیات کا نام ہے۔ چنانچہ مادہ بذات خود حیات کا حامل نہیں ہوتا۔ مادے میں خاص شرائط موجود ہونے کی صورت میں حیات جنم لیتی ہے۔ مثلاً جدید انکشافات کے تحت ڈی این اے کے تین ارب چھوٹے سالموں کے منظم ترتیب میں آنے سے اللہ تعالیٰ اس میں حیات ڈال دیتا ہے اور موت یہ ہے کہ اس منظم ترتیب میں خلل آنے سے اللہ وہاں سے حیات نکال دیتا ہے۔ لہٰذا حیات کا نکال دینا ایک تخلیقی عمل ہے۔
۲۔ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا: تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے احسن عمل کی منزلت پر فائز ہونے والا کون ہے۔ غرض تخلیق نیک عمل ہے۔ آزمائش اسے معرض وجود میں لانے کا ذریعہ ہے۔ جو ہستی حسن عمل کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو وہی غرض تخلیق میں بھی اعلیٰ ترین مقام کی حامل ہو گی۔ اگر یہ نکتہ آپ کی سمجھ میں آ جائے تو آپ یہ فرمان بآسانی سمجھ لیں گے:
لو لاک ما خلقت الأفلاک۔۔۔۔ (بحار ۱۵: ۲۷)
یعنی (اے محمد! اے مجسمۂ احسن عمل!) اگر تو نہ ہوتا تو میں اس کائنات کو خلق نہ کرتا۔
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿الانبیاء:۳۵﴾
ہر نفس کو موت (کا ذائقہ) چکھنا ہے اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر ہماری ہی طرف آؤ گے۔
۱۔ کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ: ہر زندہ کو موت کا سامنا کرنا ہے۔ ہر صاحب نفس کی انتہا موت ہے۔
نَفۡسٍ عین ذات۔ ’’خود‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے:
کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۔۔۔۔ ( ۶ انعام: ۵۴)
تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔
موت کیا ہے؟ کیا موت نیستی‘ نابودی‘ فنا اور انہدام کا نام ہے یا تحول و تغیر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال اور ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقلی کو موت کہتے ہیں؟
یہ سوال شروع سے بشر کے سامنے تھا اور ہے‘ ہر شخص اس کا براہ راست جواب جاننا چاہتا ہے یا دیئے گئے جوابات پر ایمان اور اعتقاد پیدا کرنا چاہتا ہے۔
ہم مسلمان قرآن پر ایمان اور اعتقاد رکھتے ہیں‘ اس لئے اس سوال کا جواب بھی قرآن ہی سے حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ اس نے اس بارے میں کہا ہے‘ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔قرآن کریم نے موت کی ماہیت سے متعلق ایک خاص عبارت میں خصوصی جواب دیا ہے۔قرآن کریم نے موت کے بارے میں لفظ توفیٰ استعمال کیا ہے اور موت کو ” توفیٰ ” قرار دیا ہے۔
توفیٰ اور استیفاء دونوں کا مادہ "وفاء” ہے۔
جب کوئی کسی چیز کو پورا پورا اور کامل طور پر بغیر کم و کاست کے حاصل کر لے‘ تو عربی میں اس کے لئے لفظ توفیٰ استعمال کیا جاتا ہے۔عربی میں "توفیت المال” کا مطلب ہے کہ میں نے تمام مال بغیر کمی بیشی کے پا لیا۔
قرآن کریم کی چودہ آیات میں موت کے لئے لفظ توفیٰ استعمال ہوا ہے‘ ان تمام آیات سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ موت قرآن کی نظر میں قبضے میں لینا ہے‘ یعنی انسان موت کے وقت اپنی تمام شخصیت اور حقیقت سمیت اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کی تحویل میں چلا جاتا ہے اور وہ انسان کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔
قرآن کے اس بیان سے ذیل کے مطالب اخذ ہوتے ہیں:
(الف) مرگ‘ نیستی‘ نابودی اور فنا نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف انتقال ہے اور ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف منتقلی ہے‘ جس سے حیات انسانی ایک اور شکل میں جاری رہتی ہے۔
(ب) وہ چیز جو انسان کی حقیقی شخصیت کو تشکیل دیتی ہے اور اس کی حقیقی "میں” (خودی) شمار ہوتی ہے‘ وہ بدن اور اس کے مختلف حصے وغیرہ نہیں کیونکہ بدن اور اس کے اعضاء کسی اور جگہ منتقل نہیں ہوتے بلکہ رفتہ رفتہ اسی دنیا میں گل سڑ جاتے ہیں۔ جو چیز ہماری حقیقی شخصیت کو بناتی ہے اور ہماری حقیقی "میں” سمجھی جاتی ہے‘ وہی ہے جسے قرآن میں کبھی نفس اور کبھی روح سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(ج) روح یا نفس انسانی جسے انسان کی شخصیت کا حقیقی معیار قرار دیا گیا ہے اور جس کی جاودانی ہی سے انسان جاوداں ہے۔ مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے مادہ اور مادیات کے افق سے بہت بالا ہے۔ روح یا نفس اگرچہ طبیعت کے کمال جوہری کا ماحصل ہے‘ لیکن چونکہ طبیعت‘ جوہری تکامل کے نتیجے میں روح یا نفس میں تبدیل ہوتی ہے‘ لہٰذا اس کا مرتبہ اور حقیقی مقام تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ایک اعلیٰ سطح پر قرار پاتی ہے‘ یعنی اس کی جنس کو ماوراء طبیعت عالم سے شمار کیا جاتا ہے‘ موت کی وجہ سے روح یا نفس عالم مادی سے عالم روح کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں موت کے وقت اس ماوراء مادہ حقیقت کو واپس اپنی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔
عام طورپر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ موت ایک عدمی امر ہے اوروہ فنا کے معنی میں ہے،لیکن یہ نتیجہ ہرگز اس معنی کے ساتھ موافق نہیں ہے جوقرآن مجید میں بیان ہواہے، اور جس کی طرف دلائل عقلی رہنمائی کرتے ہیں ۔
موت قرآن کی نظر سے ایک امر وجود ہے ، ایک جہان سے دوسرے جہان کی طرف ایک انتقال اور عبور ہے اسی لیے قرآن کی بہت سی آ یات میں موت کو توفی سے تعبیر کیاگیاہے، جوواپس لینے اور فر شتوں کے ذ ریعہ رُوح کوبدن سے حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔
اوپروالی آ یات وَ جاء َتْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ موت کے شدائد حق کے ساتھ انسان کے پاس آ تے ہیں کی تعبیر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے (بحارالانوار ،جلد ٦،صفحہ ٥٥) بعض آیات میں موت کوصراحت کے ساتھ خدا کی مخلوق شمارکیاہے (الَّذی خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیاةَ (ملک۔٢)۔
اسلامی روایات میں موت کی حقیقت کے بارے میں مختلف تعبیریں آئی ہیں ۔
ایک حدیث میں منقول ہواہے کہ علی ابن الحسین امام سجّاد علیہ السلام سے لوگوں نے سوال کیا ماالموت ؟ موت کیاہے ؟
آپ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
للمؤ من کنزع ثیاب وسخة قملة ، وفک قیود ، و اغلال ثقیلة ، والا ستبدال بافخر الثیاب، واطیبھا ر وائح، واوطی المراکب وانس المنازل ۔ وللکافر کخلع ثیاب فاخرة،والنقل عن منازل انیسة ، و الا ستبد ال باوسخ الثیاب واخشنھاواو حش المنازل، واعظم العذاب!:
مومن کے لیے توایساہے جیسے میلاکچیلا جوؤں سے پر لباس اتار پھینکنا،اوربھاری طوق وزنجیر کھولنا، اوراس کوبہترین لباس ، بہترین خوشبوؤں کے عطروں اور سُبک رفتار سوار یوں اور بہتر ین منزلوں سے بدل لینا،
اور کافر کے لیے ایسا ہے جیسے کہ فاخرہ لباس کواتار نا اورمانوس منازل سے منتقل ہوکرمیلے کچیلے اور سخت ترین لباس کوتبدیل کرنا، اور،اور وحشت ناک ترین منازل اور بزرگ ترین عذاب میں منتقل ہوجانا۔
امام محمد بن علی علیہ السلام سے بھی یہی سوال ہواتھا توآپ علیہ السلام نے فرمایا:
ھوالنوم الّذ ی یأ تیکم کل لیلة الاانہ طویل مدتہ ، لا ینتبہ منہ الایوم القیامة ۔
موت وہی نیندہے جو ہررات تمہیں آ تی ہے ،مگر یہ کہ اس کی مُدّت طولانی ہے اورانسان اس سے قیامت کے دن تک بیدار نہیں ہوتا۔ (معانی الاخبار،صفحہ ٢٨٩ باب معنی الموت حدیث ٣)
ہم نے برزخ سے مربوط مباحث میں بیان کیاہے،کہ برزخ میں اشخاص کی حالت مختلف ہے ،بعض جیسے سوئے ہوئے ہیں، اور بعض (شہدائے راہ خدا اور قوی الایمان مومنین کی مانند ) طرح طرح کی نعمتوںمیں غرق ہوں گے ، جابر اور اشقیاء کی جماعت عذاب میں گرفتار ہوگی ۔
امام حسین بن علی سید الشہداء علیہ السلام نے بھی کربلامیں عاشور کے دن اور جنگ کے شدت اختیار کرنے کے وقت موت کے بارے میں ایک لطیف تعبیر اپنے اصحاب سے بیان فر مائی تھی :
صبر ً ا بنی الکرام! فماالموت الا قنطرة تعبر بکم عن البؤ س والضواء الی الجنان الواسعة ، والنعیم الدّ ائمة ، فایکم یکرہ ان ینتقل من سجن الیٰ قصر ، وما ھو لاعدائکم الاکمن ینتقل من قصر الیٰ سجن وعذاب، ان ابی حدثنی عن رسُول اللہ (ص) ان الدُنیا سجن المؤ من وجنة الکا فر، والمو ت جسرھٰؤ لاء ِالی جنانھم، و جسرھٰؤ لاء الی جحیمھم:
صبر کرو!اے کریم اور بزر گوار لوگوں کے بیٹو!موت توصرف ایک پل ہے، جوتمہیں تکلیفوں اور ناراحتیوں اوررنج والم سے بہشت کے وسیع باگات اور جاودانی نعمتوں کی طرف منتقل کردیتی ہے ، تم میں سے کون ایساہے ،جوزندان سے قصر میں منتقل ہونے سے تکلیف میں ہو، لیکن تمہارے دشمنوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جسے قصر سے زندان اور عذاب کی طرف منتقل کریں ، میرے باپ نے رسُول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل فر مایا کہ دنیامومن کے لیے زندان ہے اور کافر کے لیے بہشت اور موت اُن کے لیے تو جنت کے باغات کے لیے ایک پل ہے اوراِن کے لیے جہنم کاپُل ہے۔ (معانی الاخبار ،صفحہ ٢٨٩،باب معنی الموت)
ایک اورحدیث میں منقول ہواہے کہ : امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام ایک ایسے شخص کے پا س گئے جوسکرات موت میں مبتلا تھا، اور کسی شخص کوجواب نہیں دیتاتھا، لوگوں نے عرض کیا ، اے فرزندِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہمارا دل چاہتاہے کہ آپ موت کی حقیقت کی ہمارے لیے تشریح فرمایئے اور ہمیں بتایئے کہ ہمارا بیمار اب کس حالت میں ہے؟
آ پ علیہ السلام نے فر مایا: موت تصفیہ کاایک ذ ریعہ ہے جومومنین کوگناہ سے پاک کرتی ہے، اور اس جہاں کی آخری تکلیف اور نا راحتی ہے اوران کے گناہوں کاآخری کفارہ ہے ، جب کہ فروں کوان کی نعمتوں سے جداکرتی ہے، اوروہ آخری لذت ہے جوانہیں پہنچتی ہے اوران کے اچھے کام کا جوکبھی کبھارانجام دیاکرتے تھے ، آخری اجر ہے ، باقی رہاتمہارا یہ شخص جوحا لت احتضار میں ہے، تووہ کلی طورپرگناہوں سے پاک ہوچکاہے، اورمعاصی سے خارج ہوچکاہے، اورخالص ہوگیاہے، جس طرح سے کہ میلا کچیلا لباس دھونے سے پاک صاف ہوجاتاہے اوراس نے ابھی سے یہ شائستگی اور لیاقت پیداکرلی ہے کہ وہ ہمیشہ کے گھر میں اہم ہل بیت کی معاشرت میں رہے ۔
1۔اس بارے میں کہ "بالحق”میں”با” کے کیامعنی ہیں؟مفسرین نے مختلف احتمال دیئےہیں، بعض نے اس کو”باءتعدیہ” لیاہے اورحق کوموت کےمعنی میں ،جس سے اس جُملہ کامعنی یہ ہوگا۔سکرات موت اس مطلب کوجوایک حقیقت ہے۔ یعنی موت ۔ کوساتھ لاتے ہیں، اورکبھی اس کو” ملابست کے معنی میں” لیتے ہیں "سکرات موت حق کے ساتھ آپہچنے ہیں”۔
امام باقرعلیہ السلام سے ایک روایت نقل ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :” قِيلَ لِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع ”امام سجاد علیہ السلام سے عرض ہوا” مَاالْمَوْتُ قَالَ لِلْمُؤْمِنِ كَنَزْعِ ثِيَابٍ وَسِخَةٍ قَمِلَةٍ ”مومن کے لئے موت ایک ایسے کپڑے کے اتار دینے کی طرح ہے جو بہت ہی گندھا ہواہو” وَ فَكِّ قُيُودٍ وَ أَغْلَالٍ ثَقِيلَةٍ ”بدن سے سنگین زنجیروں اورطوق کواتاردینے کی طرح ہے”وَالِاسْتِبْدَالِ بِأَفْخَرِالثِّيَابِ ”اوربہت ہی فاخرکپڑے کو پہنے کی طرح ہے،اسی طرح ایک اورروایت جسے ہم نے پہلے بیان کیا جس میں تھا : ” أَعْظَمُ سُرُورٍ يَرِدُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ’‘اوراسی طرح صفحہ ١٥٥ پرنقل ہے ”ما الموت قال ہونوم الذی یعطیکم کل لیلۃ الا انہ طویل مدتہ لا ینتبہ مما الا یوم القیامۃ۔ موت ایک بہت ہی طولانی نیند کی طرح ہے کہ قیامت کے دن انسان اس نیند سے بیدار ہو جائیں گے ، لوگوں کی بھی دوقسمیں ہیں :بعض اس نیند میں ” مِنْ أَصْنَافِ الْفَرَحِ” ہیں اور بعض دوسرے ” مِنْ أَصْنَافِ الْأَهْوَالِ” ہیں،کچھ بہت ہی خوشی اورمسرت میں ہیں اوربعض قیامت کی سختیوں اور گرفتاریوں کے فکر میں ہوتے ہیں ۔
ہمیں ان دو قسم کی روایات کو آپس میں جمع کرنا چاہئے ،اور ان کو آپس میں جمع کرنے کے دو طریقے ہیں :پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ تفصیل دیں گے کہ مومنین کے دو قسمیں ہیں اوراسی طرح کافروں کے بھی دو قسمیں ہیں،بعض مومنین کے لئے سخت قسم کی سکرات ہیں اوربعض کے لئے سکرات نہیں ہے بلکہ ان کے لئے ‘‘ كَنَزْعِ ثِيَابٍ ”جو لوگ دنیا میں گناہ انجام دیئے ہیں ان کے لئے سکرات اورمشکلات ہیں ،اور جو لوگ دنیا میں گناہ میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں ان کے لئے سکرات موت نہیں ہے ایک روایت میں ہے :” دَخَلَ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ ع عَلَى رَجُلٍ قَدْ غَرِقَ فِي سَكَرَاتِ الْمَوْتِ وَ هُوَ لَا يُجِيبُ دَاعِياً ”امام کاظم علیہ السلام ایک ایسے شخص سے جو سخت قسم کے سکرات موت میں گرفتار تھا اور کسی کے بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھاکے پاس تشریف لے آئے تو ” فَقَالُوا لَهُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ”وہاں پر موجود لوگوں نے آپ سے عرض کیا :یابن رسول اللہ ‘‘ وَدِدْنَا لَوْ عَرَفْنَا كَيْفَ الْمَوْتُ وَ كَيْفَ حَالُ صَاحِبِنَا” ہم موت کی حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں ،اورہمارا یہ دوست جو ابھی حالت احتضار میں ہےیہ کس حالت میں ہے ؟ ” فَقَالَ الْمَوْتُ هُوَ الْمِصْفَاةُ يُصَفِّي الْمُؤْمِنِينَ مِنْ ذُنُوبِهِمْ’‘موت ایک ایسی چیز کی طرح ہے جو اے پاک وصاف کر رہا ہے ، جو افراد گناہگار ہیں ،موت انہیں پاک وصاف کرتا ہے ” فَيَكُونُ آخِرُ أَلَمٍ يُصِيبُهُمْ ‘‘ یہ ان کےلئے آخری درد ہے ” كَفَّارَةَ آخِرِ وِزْرٍ بَقِيَ عَلَيْهِمْ ”۔
ایک اورروایت میں ہے :امام صادق علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا :’‘ يَا مُفَضَّلُ إِيَّاكَ وَ الذُّنُوبَ ” گناہ سے بچے رہو ” وَحَذِّرْهَا شِيعَتَنَا” ہماری شیعوں کو گناہوں سے دور رکھو ،ان کو موت سے ڈراؤ” فَوَ اللَّهِ مَا هِيَ إِلَى أَحَدٍ أَسْرَعَ مِنْهَا إِلَيْكُمْ ”’گناہ انسان میں بہت جلد اثر کر لیتا ہے’‘ أَسْرَعَ مِنْهَا إِلَيْكُمْ ”یعنی اگر تم شیعہ ان گناہوں کو انجام دیں تو تمہارے اندر یہ بہت جلد اثر کرے گا ، یہ بھی ایک مہم مطلب ہے کہ مسلمان اورشیعہ جو گناہ انجام دیتے ہیں اورجو گناہ کافر انجام دیتے ہیں ان دونوں میں فرق ہے ،اگر شیعہ کوئی گناہ انجام دیں تو یہ اس میں بہت جلد اثر کرے گا ،کیوں؟فرماتے ہیں:” إِنَّ أَحَدَكُمْ لَتُصِيبُهُ الْمَعَرَّةُ مِنَ السُّلْطَانِ” معرہ اذیت کے معنی میں ہے ، تم میں سے کوئی ایک اگرظالم بادشاہ کے اذیت کا شکار ہوجائے ” وَ مَا ذَاكَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ” یہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے کوئی گناہ انجا م دیا ہے ” وَ إِنَّهُ لَيُصِيبُهُ السُّقْمُ وَ مَا ذَاكَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ’‘ایک اور اگر مریض ہوتا ہے تو یہ اس کی گناہ کی وجہ سے ہے ” وَ إِنَّهُ لَيُحْبَسُ عَنْهُ الرِّزْقُ”تم میں سے بعض کی روزی کم ہو جاتی ہے ” وَ مَا هُوَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ” یہ بھی اس کی گناہوں کی وجہ سے ہے ،اورموت کے وقت مومن شیعہ کو بہت سخت اذیت ہوتی ہے ” وَإِنَّهُ لَيُشَدَّدُ عَلَيْهِ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ مَا هُوَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ حَتَّى يَقُولَ مَنْ حَضَرَهُ لَقَدْ غُمَّ بِالْمَوْتِ ”یہ موت اس شخص کے لئے تمام قسم کی سختیوں کو ساتھ لے آتی ہے ، ان روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو مؤمن گناہکارہواس کے پا ک وصاف ہونے کا ایک مقام اس کے قبض روح کا وقت ہے ، قبض روح کے وقت جو سختیاں اورمشکلات اس کے لئے پیش آتی ہے اس طریقہ سے اس کی گناہوں کی بخشش ہوتی ہے ۔
روایت :وَأَمَّا صَاحِبُكُمْ هَذَا فَقَدْ نُخِلَ مِنَ الذُّنُوبِ نَخْلًا”غربل غربالا، یعنی یہ شخص گناہوں سے دھلایا جاتا ہے ،یعنی موت کے ذریعہ گناہ اس کے بدن سے خارج ہوتا ہے” وَ صُفِّيَ مِنَ الْآثَامِ تَصْفِيَةً ”گناہوں سے پاک ہوتا ہے ” وَ خُلِّصَ حَتَّى نُقِّيَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ مِنَ الْوَسَخِ ”اس طرح سے گناہو ں سے پاک ہوتا ہے جس طرح گندگی سے دھلے ہوئے ایک قمیض کی طرح ،اس میں ایک مہم بات یہ ہے کہ ” وَ صَلُحَ لِمُعَاشَرَتِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فِي دَارِنَا دَارِ الْأَبَدِ ”یہ شیعہ جسے قبض روح کے وقت سخت تکلیف ہوتی ہے ، یہ اس لئے ہے کہ یہ گناہوں سے پاک ہو جائے اور اس کی گناہیں ختم ہو جائے اور اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ قیامت کے دن ہم اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ ہمنشین ہوجائے
ہمارے پاس بہت ساری ایسی روایات ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن کے لئے موت کی سختیاں ہیں ، پس ہم آتے ہیں اس طرح بتاتے ہیں کہ قبض روح کے لحاظ سے مومن کی دو قسمیں ہیں :بعض مومن ایسے ہیں کہ انہوں نے کوئی گناہ انجام نہیں دیا ہے ان کاقبض روح بہت ہی آسان ہے ایک خوشبو سونگھنے کی طرح ہے اس کے لئے کوئی مشکل اور سختی نہیں ہے ،لیکن بعض مومن ایسے ہیں کہ وہ گناہگار ہیں ان سے گناہ سرزد ہوئے ہےں ،خصوصاً اس پندرہویں روایت سے ایک قانون کلی استفادہ ہوتا ہے کہ یہ خدا کے شیعوں اور مسلمانوں پر ایک منت ہے کہ اگر کوئی کافر کوئی گناہ انجام دیں تو ایسا نہیں ہے کہ اس گناہ کا اثر وضعی اس دنیا میں اسے گھیر لے ،خدا نے کافر کے گناہ کے تمام آثار کو قیامت کے دن کے لئے چھوڑ دیا ہے یہ جو روایات مےں ہے کہ دنیا کافر کی جنت ہے تو اس ایک بیان اور تفسیر یہی ہے کہ اگر گناہ کا کوئی اثروضعی ہو تو وہ اثر اس کافر کے لئے اس دنیا مےں نہیں ہے ،لیکن اگر کوئی شیعہ اسی گناہ کو انجام دیں تو وہ اس کے اثار میں مبتلاء ہو جاتا ہے اور اس کا اس گناہ کے بلا ء میں مبتلا ہونا اسے پاک و صاف کرنے کے لئے ہے اگر کسی نے کوئی گناہ انجام دیا ہے اور ظالم بادشاہ اسے اذیت کرے تو یہ اس کی گناہ کا کفارہ ہے ، اس کا مریض ہونا اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اسی طرح قبض روح میں سختی ہونا بھی اس کی گناہوں کوختم کرنے کے لئے ہے یہ ایک بہت اہم بات ہے جس کی طرف ہم بہت ہی کم توجہ کرتے ہیںمسلمان بالخصوص اس روایت کے مطابق شیعہ اگر کوئی گناہ انجام دیں تو اس دنیا میں اس کے اثراورجزاء کو دیکھ لیتا ہے تا کہ اس کے گناہ ختم ہو جائے لیکن کافروں میں ایسا نہیں ہے ۔
اس پندرہویں روایت سے ایک قانون کلی استفادہ ہوتا ہے کہ گناہگارمومن ليشدّد عليه عند الموت مرتے وقت اسے سختیاں ہوتیں ہیں پس ان روایات کو آپس میں جمع کرنے کا راستہ یہ ہے کہ : مومن کے دو قسم ہیں ، بعض مومن ایسے ہیں کہ ان کی قبض روح بہت ہی آسان ہے اوربعض مومن ایسے ہیں کہ ان کے لئے قبض روح میں سختی ہے ، اسی طرح کافر کے قبض روح کے بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہیں جن کے لئے قبض روح آسان ہے ، ایک روایت کے مطابق جسے ہم نے پہلے بیان کیا کہ کوئی کافر ممکن ہےاس دنیا میں کسی کو حتی کہ ایک مچھر کو بھی کوئی اذیت نہیں پہنچایا ہو خدا وند متعالی اس کے لئے زندگی کی آخری راحتی کو اس کےقبض روح کے وقت قرار دیتا ہے اور اس کا قبض روح آسانی سے ہوتا ہے لیکن وہ کافر جس نے دنیا میں سب کو اذیت پہنچایا ہوجس کا کام ہی جرم جنایت کے علاوہ کچھ نہ ہو تواس کے عذاب کے مراحل میں سے ایک اس کے قبض روح کا وقت ہے پس اس بارے میں موجود روایات کو آپس میں جمع کرنے کا ایک طریقہ یہی ہے ،اس سے پہلے والے درس میں چھٹی روایت جوہم نے پڑھی ہے وہ اس کے لئے ایک اچھی گواہی ہے چونکہ اس روایت میں یہی مسئلہ بیان ہوا ہے اورامام صادق علیہ السلا م سے عرض ہوا کہ مرنے کو ہمارے لئے بیان کرو صف لنا الموت،‌ قال(ع( للمؤمن كأطيب ريحٍ يشمه فينعس لطيبه وينقطع التعبوالألم كله عنه آپ علیہ السلام نے فرمایا :یہ مومن کے لئے ایک پھول کو سونگھنے کی طرح ہے لیکن وللكافر كلسع الأفاعي ولدغ العقارب أو أشد کافر کے لئے سانپ اوربچھو کے ڈسنے کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی شدید ہے اس کے بعد امام سے عرض ہوا : فإن قوما يقولون: إنه أشد من نشر بالمناشير اما م سے عرض ہوا کہ ہم نے سنا ہے کہ مرنا جسم کو آری سے ٹکڑے کرنے کی طرح ہے وقرض بالمقاريض، ورضخ بالأحجار، وتدوير قطب الأرحية على الأحداق پتھر مارنے کی طرح ہے ،ایسا ہے جیسا کہ آنکھوں کوچکی کے پتھر کے نیچے رکھا گیا ہو،آپ نے فرمایا : : كذلك هو علي بعض الكافرين والفاجرين یہ بعض کافروں اورفاجروں کے لئے ہے ،تویہ چھٹی روایت ہمارے روایات کو آپس میں جمع کرنے کے طریقہ کے لئے ایک بہترین گواہ ہے ۔
ان روایات کو آپس میں جمع کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ :”اطیب طیب” موت کے بعد کے لئے ہے ، یعنی خودبدن سے روح نکلنے کے وقت کے لئے سکرہ اورسختیاں ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے استفادہ ہوتا ہے وجاءت سكرة الموت بالحق کہ ہرمرنے والے کے لئے موت کی سختیاں ہیں اور وہ روایت جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے نقل ہوئی کہ آپ نے ا س میں سکرۃ الموت کی وقت کے لئے دعا فرمایا : اللهم أعنّي علي سكرات الموت ہم یہ بتائیں کہ ہر موت حتی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے موت کی سختیاں ہے ، لیکن جب مرجاتا ہے اس کے بعد آپس میں فرق ہے کہ مومن کے لئے ایک پھول کو سونگھنے کی طرح ہے یا کسی گندھے کپڑے کو بدن سے اتارنے کی طرح ہے لیکن کافر کے لئے یہ سختیوں کی ابتداء ہے عذاب کا شروع ہے ۔
روایات کو جمع کرنے کا تیسرا طریقہ : یہ وجہ کچھ حد تک پہلے طریقہ کے لئے موید ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ بتائیں : ”یہ سکرۃ الموت (موت کی سختیاں) غالب اوراکثرکو بیان کرنے کے لئے ہے یعنی چونکہ موت غالباً سکرات کے ساتھ ہے اس وجہ سے قرآن کریم میںفرمایا ہے : جاءت سكرة الموت یعنی سو میں سے ٩٥ موارد میں سکرۃ الموت ہے ۔
اب تک ہم یہ بتا رہے تھے کہ آیت کریمہ سے یہ استفاد ہ ہوتا ہے کہ ذات موت میں ہی سختیاں ہیں جس طرح بخار کی ذاتی صفت یہ ہے کہ اس میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ کہیں پربخارہولیکن درجہ حرارت بڑھ نہ جائے ، اسی طرح موت کی ذات میں ہی سختیاں ہیں ،روایات کو آپس میں جمع کرنے کے اس تیسرے طریقہ میں ہم اس بات سے ہٹ جاتے ہیں بلکہ یہاں پرہم یہ بتائیں گے کہ قرآن کریم میں جو  وجاءت سكرة الموت بیان ہوا ہے یہ غالبی عنوان کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ غالباً موت میں سختیاں ہیں لیکن بعض افراد اوروہ مومن جس نے زندگی میں کوئی گناہ انجام نہیں دیا ہے اس کے لئے یہ سختیان نہیں ہے ۔
ہم نے یہاں پرجمع کرنے کی تین طریقوں کو بیان کیا اوراس سے زیادہ اور طریقے ذہن میں نہیں آتے پس انہیں تین طریقوں میں سے ایک کے ذریعہ نتیجہ لینا پڑھے گا ۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button