سلائیڈرسیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

عزت و ذلت امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میں

محمد عباس اعظمی
یوں تو ہر خشک و تر قادر بے نظیر کا مرہون منت ہے لیکن خصوصیت سے عزت و ذلت کو اپنی ذات بے بدیل سے منسوب کرنا موضوع کی عظمت اور شدید سنگینی کا احساس دلاتاہے۔ یہ تو اس کا کرم ہے ورنہ انسان، انسان ہی کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہوتا اور خوف و ہراس کے بادل ذہنوں پر چھائے رہتے، تاریخ گواہ ہے کہ ذلیل کو اگر حکومت بھی مل جائے تو اسے عزت نہیں ملتی اور اس کے برخلاف جناب مریم کی عصمت پر پوری قوم نے انگلی اٹھائی لیکن جسے وہ عزت دیتاہے اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا اور جسے وہ ذلیل کردے اسے ساری کائنات مل کر بھی عزت دینا چاہے تو نہیں دے سکتی، یہی وجہ ہے کہ عزت کی موت، ذلت کی زندگی کے مد مقابل،ممدوح قرار پائی۔ ایک شریف انسان ظلم و ستم، فقر و ناداری کو تو برداشت کرلیتا ہے لیکن ذلت کے سایہ کوایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرتا غرض یہ کہ عزت و ذلت اس پل صراط کا نام ہے جس پہ لغزشِ قدم، انسان کی ہلاکت اور نابودی کا پیش خیمہ ہے اور عزت کی نرم و لطیف چادر سربلندی اور سرفرازی کی عکاس ہے۔ اسی لئے تعلیمات اسلام میں بھی اس مسئلہ پر خاص توجہ دی گئی ہے اور مسلمانوں پر ایک دوسرے کی عزت لازم قرار دیا گیا ہے، بدگوئی، بد فعلی اور ذلت آمیز کاموں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے، امیر سخن، حارث ہمدانی کو متوجہ کرتے ہوئے ایک خط میں فرماتے ہیں:
و لا تجعل عرضک غرضا لنبال القول
نہج البلاغہ ، نامہ ،٦٩
”اپنی عزت و آبرو کو لوگوں کی ملامت کا نشانہ نہ بناؤ”۔
حقیقی عزت
حقیقی عزت اس ذات سے مخصوص ہے جو منبع عزت ہے، جس کے کرم کا سورج رات میں بھی چمکتا ہے اور دن میں بھی، یہ وہ ذات ہے جو کبھی مغلوب نہیں ہوتی راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ ایسی ذات جو ہمیشہ غالب رہے اور کبھی مغلوب نہیں ہو، اسے عزیز کہتے ہیں۔ بلکہ تمام مخلوقات کونین اس کی قدرت کا کلمہ پڑھتی نظر آتی ہیں، جناب امیر یوں فرماتے ہیں:
”ہر عزیز خداوند عالم کے ماسواء ذلیل ہے اورہر قوی اس کے ماسواء ضعیف ہے”۔
نہج البلاغہ ، خطبہ ٦٤
یعنی انسان خودبخود عزت نفس کا حامل نہیں ہوسکتا بلکہ اگروہ عزت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے معنوی قوت کا حامل ہونا چاہئے اور اس کے حصول کے لئے حقیقی عزیز و قدیر سے متصل ہونا لازم و ضروری ہے تاکہ اس کی مدد سے عزت نفس سے مزین اور ذلت و رسوائی، بدزبانی سے مبرہ ہو سکے، قرآن مجیدمیں ارشاد ہوتا ہے:
”جسے عزت کی تلاش ہے پس (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) ساری عزت خدائے وحدہ لاشریک سے ہی مخصوص ہے”۔
فاطر: ١٠
یعنی اگر ہمیں عزت چاہئے تو معبود حقیقی سے اپنا رابطہ استوار کرنا ہوگا، اس کے احکام پر سر تسلیم خم کرنا ہوگااور جو افراد حقیقت کے سایہ تلے رب اکبر کی طرف چل پڑتے ہیں اور اس کی بندگی و اطاعت کے لئے سر تسلیم خم کردیتے ہیں، پاکیزگی اور تقویٰ اختیار کرلیتے ہیں نیز بغیر کسی قید و شرط کے سراپا تسلیم پروردگار ہوجاتے ہیں انہیں خداوند عزیز حقیقی عزت سے آراستہ کردیتا ہے، ذلت و رسوائی سے دور کردیتا ہے کہ جس کے بعد حادثات زندگی اس کے ثبات قدم میں لغزش نہیں لاپاتے۔
پروردگار کی دی ہوئی عزت کو مولائے کائنات اس طرح بیان فرماتے ہیں:
”جسے ارحم الراحمین عزت بخش دیتا ہے اسے سلطان بھی ذلیل نہیں کرسکتا”۔
غرر الحکم ص١٢٦
ایک بری رسم
گذشتہ اور موجودہ لوگوں میں ایک بری رسم یہ رائج رہی کہ عزت و ذلت کو ظاہری پہلو سے دیکھا جائے، اس کی اصل حقیقت کی طرف توجہ نہیں دی جاتی! جس کے پاس مال و مقام ہو اس کا اکرام کیا جاتا ہے اور اسی کی عزت کی جاتی ہے چاہے اس کا اقتدار یا مال، خیانت و جرائم کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کے پاس مال و دولت نہ ہو اسے ذلیل سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ طریقہ میرے مولا کے طریقہ کے بالکل برخلاف ہے آپ فرماتے ہیں:
”میرے نزدیک ذلیل، عزیز ہے یہاں تک کہ اس کا حق ظالموں سے لے لوں اور ہر قوی، ضعیف ہے یہاں تک کہ اس سے مظلوموں کا حق لے لوں”۔
نہج البلاغہ ٣٧
بعض کمزوریاں
دنیا میں ایسے بھی افراد پائے جاتے ہیں جو زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود ذلت برداشت نہیں کرتے لیکن ان میں بھی ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن کی مدد سے ان میں نفوذ کیا جاسکتا ہے اور ان کی قدرت استقامت کو درہم برہم کیا جاسکتا ہے؛ مثال کے طور پر بعض افراد ایسے ہیں جو مال و مقام پرست ہیں تو بعض چاپلوسی اور عوام کی آمد و رفت سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ لیکن خدائی رہبروں کی عزت چونکہ خداوندکریم کا خاص عطیہ ہے لہٰذا وہ مادی و معنوی کمزوریوں سے مبرہ ہیں، وہ زندگی کے نشیب و فراز میں گرفتار ہوکر بھی شکست نہیں کھاتے اورنہ ہی ان کی شخصیت و روحانیت میں ذرہ برابربال آسکتا ہے۔
مال دنیا
دنیا پرستی اور دنیا طلبی ایک بہت بڑی کمزوری ہے اور اس سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ ہم کسی کو اس کے مال و دولت کی وجہ سے عزت و احترام کے لائق سمجھیں، مال دنیا کے سلسلے میں مولائے کائنات نے ایک خط میں عثمان بن حنیف سے ارشاد فرمایا:
”خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے معمولی سا سونا و چاندی بھی اکٹھا نہیں کیا اور نہ ہی بہت زیادہ مال غنیمت ہی جمع کیا ہے اور نہ ہی میرے پاس اس لباس کے علاوہ متعدد پرانے لباس ہی ہیں”۔
نہج البلاغہ مکتوب بنام عثمان بن حنیف
مقام
جس وقت مولائے کائنات اپنے سپاہیوں اور جانبازوں کے ساتھ بصرہ کی طرف جارہے تھے تو عبد اللہ بن عباس مقام ”ذی قار ” پر آپ کے حضور میں شرفیاب ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اپنی نعلین سی رہے ہیں, حضرت نے عبد اللہ سے کہا اچھا یہ بتاؤ اس نعلین (جو بہت بوسیدہ تھی)کی قیمت کیا ہوگی؟ عبد اللہ بن عباس نے جواب دیا: اس کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے آپ نے فرمایا:
خدا کی قسم! اگر اقامہ حق اور دفع باطل نہ کرنا ہوتا تو میرے نزدیک یہ بے ارزش نعلین تم لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔
چاپلوسی
ایک شخص مولائے کائنات علیہ السلام کے حضور میں شرفیاب ہوا اور چاپلوسی شروع کردی اور آپ کی تعریف و تمجید میں افراط و تفریط کرنے لگا آپ نے اس سے فرمایا:
”تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ میں نہیں ہوں لیکن تمہارے تصور سے بہت بلند ہوں”۔
اسباب عزت
متعدداسباب و عوامل ایسے ہیں جو افراد و معاشرے کے حالات اورروز مرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، عزت داروں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور ذلیلوں کوعزت بخشتے ہیں مولائے کائنات نے اپنے خطبوں اور خطوط کے ضمن میں بعض اسباب و علل کی طرف یوں اشارہ کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
اطاعت خدا
کوئی بھی چیز خدا کی بندگی و اطاعت کی طرح انسان کو عزت نہیں بخشتی، خدا کی اطاعت ناچیز و حقیر کوبے پناہ عزیز و قوی بنادیتی ہے جب تک مخلوق و خالق کے درمیان یہ رابطہ موجود رہے گا عزت دار سمجھا جائے گا اور جیسے ہی یہ رابطہ منقطع ہوجائے گا ذلت کے دلدل میں جا پھنسے گا۔ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:
جب بھی عزت چاہنا تو اسے خدا کی بندگی و اطاعت میں تلاش کرنا۔
غررالحکم ، ج١،ص٢٧٩
تقویٰ الٰہی
تقویٰ الٰہی انسان کومحفوظ ، قوی اور فولاد بنادیتی ہے، تقوی کے سلسلہ میں امامؑ فرماتے ہیں:
”تقوی سے بہتر کوئی عزت نہیں ہے”۔
نہج البلاغہ حکمت ٣٧١
قرآن و اہل بیؑت
قرآن، خدا کی کتاب اور اہل بیت، اولیاء خدا ہیں کہ جن سے تمسک سعادت اور کنارا کشی گمراہی کا سبب ہے یہ بات واضح ہے کہ جو شخص صراط مستقیم پر گامزن ہو وہ عزیز ہوگا اور جو راہ سعادت سے منحرف ہو وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔امیر المومنین علیہ السلام قرآن مجید کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
اس کے بعد قرآن کو ان(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنازل کیا، قرآن ایسا نور ہے جو کبھی خاموش نہیں ہوتا ۔۔۔جو ایسی عزت ہے جس کے مددگاروں کو شکست نہیں ہے اور ایسی حقیقت ہے کہ جس کے مددگاروں کے لئے کوئی نقصان نہیں ہے۔
نہج البلاغہ ، خطبہ ١٩٨
اتحاد و اتفاق
اس سلسلہ میں جناب امیر علیہ السلام کے کلمات یوں ہیں:
آج عرب اگرچہ کم ہیں لیکن وہ اسلام کی برکت کی وجہ سے زیادہ ہیں، اجتماع کی وجہ سے عزیز و قوی ہیں۔
نہج البلاغہ ، خطبہ ١٤٦
علم و حلم
علم کی طرح کوئی شرافت نہیں ہے اور نہ ہی حلم و بردباری کی طرح کوئی عزت ہے۔
نہج البلاغہ ، حکمت ١١٢
انقلاب
انقلاب معاشرہ کے حالات کو بدل دیتا ہے، قاعدہ و قانون کو تبدیل کردیتا ہے، انقلاب کی وجہ سے ایک گروہ پسپاں ہوجاتا ہے اور دوسرا گروہ سربلند ہوجاتا ہے۔ بہت سے عزت دار ذلیل و رسوا ہوجاتے ہیں تو بہت سے ذلیل عزت دار ہوجاتے ہیں جناب امیر المومنینؑ ایک خطبہ میں رسول مقبول کے انقلاب اور اس کے نتائج کے سلسلہ میں یوں بیان کرتے ہیں:
دفن اللّٰہ بہ الضغائن و اطفأ بہ النوائر الف بہ اخواناو فرق بہ اقرانا اعز بہ الذلہ و ازل بہ العزة
خداوند قدوس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعہ لوگوں کے کینوں کو دفن کردیا اور مختلف نقصانات کو خاموش کردیا اور ان کے درمیان اسی کے ذریعہ ایمان و برادری کورائج کیا، جاہلیت کی رشتہ داریوں اور رابطوں کو درہم برہم کردیا اور اسی پیغمبر کے صدقہ میں ذلت کو عزت میں بدل دیا اور اسی کے ذریعہ عزت کو ذلت میں تبدیل کردیا۔جاہلیت کے زمانہ میں بتوں کا احترام ہوتا تھا، زندہ لڑکیوں کو دفن کرنا سربلندی و افتخار سمجھا جاتا تھا لیکن دامن اسلام میں یہ عمل ظلم و ستم قرار پایا، جاہلیت کے دور میں دادا گیری اور زور گوئی قدرت و بزرگی کی علامت ہوا کرتی تھی لیکن اسلام نے بزرگی اور عزت کا معیار عدالت، قانون اور انسانیت کی رعایت کو قرار دیا۔
جہاد
جو چیز فردی اور اجتماعی عزت و ذلت میں اساسی تاثیر رکھتی ہے وہ جہاد ہے جو لوگ حق کی سربلندی کے لئے کفن پہنے خداکاری اور جانثاری کے لئے آمادہ رہتے ہیں یقینا وہ عزت و بزرگی کے لائق ہیں اور جو لوگ جہاد سے گریز کرتے ہیں وہ عزت و بزرگی کی اہلیت نہیں رکھتے ایسے افراد کو ہمیشہ ذلیل و رسوا رہنا چاہئے۔حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں یوں فرماتے ہیں:
اما بعد فان الجہاد باب من ابواب الجنة فتحہ اللّٰہ لخاصة اولیائہ و ھو لباس التقویٰ و درع اللّٰہ الحصنیة و جنتہ الوثیقة فمن ترکہ رغبة عنہ البسہ اللّٰہ ثوب الذل و شملة البلاء و دیث بالصغار و القمائة
اما بعد ! یقینا جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے خداوند عالم نے اپنے اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے جہاد لباس تقوی ہے، جہاد محکم زرہ ہے اور مطمئن نگہبان ہے جس نے بے توجہی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا خداوند عالم اسے لباس ذلت سے آراستہ کردے گا، بلاؤں کا ہجوم کردے گا اور حقارت و ذلت سے دوچار کردے گا۔جناب امیر المونین علیہ السلام دوسرے خطبہ میں یوں فرماتے ہیں:
الف لکم لقد سئمت عتابکم ، أرضیتم بالحیاة الدنیا من الآخرة عوضاً ؟ و بالذل من العز خلفاً اذ دعوتکم الی جہاد عدوکم دارت اعینکم کانکم من الموت فی الغمرة و من الذھول فی سکرة
وائے ہو تم پر کہ میں تمہیں توبیخ کرنے سے سخت دل ملول ہوں، کیا تم لوگ آخرت کی زندگانی کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے؟ کیا ذلت کو عزت کا جانشین بنانے پر راضی ہو؟جب میں تمہیں دشمنوں سے جہاد کرنے کی دعوت دیتا ہوں تو تمہاری آنکھیں حیرت سے کھل جاتی ہیں گویا موت کے پنجہ میں گرفتار ہوگئے ہو اور غافل لوگوں کی طرح اپنی مصلحت سے بے خبر ہوگئے ہو۔
نہج البلاغہ
حکومت اور عوام کا رابطہ
جو چیز منشأ عزت و ذلت ہوسکتی ہے اور مختلف شرائط کے پیش نظر کسی گروہ یا معاشرہ کے لئے حقارت و ذلت یا عظمت و بزرگی کا معیارقرار پاسکتی ہے وہ حکومت اور عوام کے رابطہ کا انداز ہے، اس مطلب کو مولائے کائنات ایک خطبہ کے درمیان یوں بیان کرتے ہیں:
و اعظم ما افترض سبحانہ من تلک الحقوق حق الوالی علی الرعیة و حق الرعیة علی الوالی ، فریضة فرضھا اللّٰہ سبحانہ لکل علی کل فجعلھا نظاما لالفتھم و عزا لدینھم فلیست تصلح الرعیة الا بصلاح الولاة و لا تصلح الولاة الا باستقامة الرعیة فاذا ادت الرعیة الی الوالی حقہ وادی الوالی الیھا حقھا عز الحق بینھم و قامت مناھیج الدین
حقوقی اعتبارسے بزرگ ترین فریضہ الٰہی ”حاکم کا حق رعایہ پر اور رعایہ کا حق حاکم پر ” ہے یہ خود ایک فریضہ ہے جسے خداوند عالم نے تمام لوگوں پر واجب قرار دیا ہے، اور اسے اجتماعی اور عمومی روابط و الفت کے لئے معیار نظم قرار دیا ہے، ان کے دین کے لئے عزت و وقار بنایا پس عوام کی حالت رضایت بخش اس وقت تک نہ ہوگی جب تک حکام کا طریقہ کار اچھا نہ ہو اور حاکموں کا طریقہ کار اسی وقت اچھا ہوسکتا ہے جب عوام استقامت و پائیداری سے کام لے گی۔
نہج البلاغہ
پس جب حکام عوام کا حق ادا کریں اور عوام حکام کا حق ادا کریں تو اس وقت حق، معاشرے میں عزیز و بااحترام ہوجائے گا اور قوانین دین اجراء ہونگے۔
یعنی صالح و عادلانہ روابط حکام و عوام کو عزت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیں گے اور ظالمانہ و جابرانہ روابط انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کردیں گے۔
اور آخر میں خدائے رحمٰن و رحیم سے دعا ہے کہ ہمیں سراپا طہارت، مرکز فیضان رحمت آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح متمسک رکھے کہ کوئی آندھی و طوفان ہمیں آل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ کرسکے کیونکہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمسک یعنی راہ عزت اور ہرخوبیوں تک رسائی ہے اور ان سے جدائی ذلت اور ہر طرح کہ برائی کا پیش خیمہ ہے۔
http://shaoorewilayat.com/

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button