سلائیڈرمصائب اسیران کربلامکتوب مصائب

تاراجی خیام اہل بیت علیہم السلام(شام غریباں کے دلسوز واقعات)

ظالموں نے فرزندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مظالم ڈھانے پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ انسان نما وحشی درندوں نے وحشت و بربریت کا وہ مظاہرہ کیا کہ انسانیت لرزہ براندام اور شراف آدمیت انگشت بدندان ہو کر رہ گئی ۔ ان ملاعین کو اگر کوئی کدو کاش یا کوئی نزاع تھی تو وہ صرف جناب سید الشہداء کی ذات قدسی صفات سے تھی جب وہ شہید ہوچکے تو اب ان لوگوں میں اسلام نہ سہی اگر انسانیت کی کوئی رمق ہوتا تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہو بیٹیوں کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچا دیتے۔ مگر افسوس ان اسلام کے دعویداروں اور در حقیقت اسلام و انسانیت کے دشمنوں نے وہ اسلام بلکہ انسانیت سوز ظلم و ستم ڈھائے کہ
ھیج کافرنہ کذر آنچہ مسلماں کردند
بعد ازیں اس بات میں کوئی شک و شبہ رہ جاتا ہے کہ ان دشمنان خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمان کہنا اسلام کی توہین اور انسان کہنا انسانیت کی تحقیر و تہجین ہے؟
مخدرات عصمت و طہارت کو احترام سے مدینہ پہنچانا تو درکنار، وہاں تو کچھ اس قسم کی آوازیں گونجنے لگیں جن کا مطلب یہ تھا،
لوٹو تبرکات علیؑ و بتولؑ کو قیدی

بنا کے لے چلو آل رسولؐ کو
چناچہ یہ وحشی جانور خیام حسینیؐ میں گھس آئے اور بے تحاشا لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ خیام میں جو کچھ ملا ، اسے لوٹ لیا بلکہ پردگیاں عصمت و طہارت کے سروں سے چادریں ، کانوں سے گوشوارے اور پاوں سے خلخال تک اتار لیے۔
جناب زینب عالیہ سلام اللہ علیھا کی جگر خراش روایت:
جناب زینب سلام اللہ علیھا بیان کرتی ہیں کہ جب عمر بن سعد نے ہمارے خیام کے لوٹنےکا حکم دیا تو اس وقت میں در خیمہ پر کھڑی تھی کہ ایک ازرق چشم ظالم خیمہ میں گھس آیا جو کچھ مال و اسباب ملا لوٹ لیا پھر امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف بڑھا جو چمڑے کے ایک بستر پر نجوری و بیماری کی حالت میں پڑے تھے اس نے امام کو زمین پر گرادیا اور چمڑا بھی نیچے سے کھینچ لیا اس کے بعد میری جانب بڑھا اور کانوں سے گوشوارے کھینچنے لگا وہ ظالم ظلم و ستم سے بھی کرتاجاتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ روتا بھی جاتا تھا میں نے اس سے رونے کی وجہ دریافت کی ؟
اس نے کہا آپ اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت و بے کسی رلاتی ہے جس میں آپ گرفتار ہیں
میں نے کہا ظالم اگر تجھے ہم سے اس قدر ہمدردی ہے تو پھر ہمیں لوٹتا کیوں ہے؟ کہا
اس اندیشہ سے کہ اگر میں نہ لوٹوں گا تو کوئی اور لوٹ لے گا۔
بی بی نے غصے کے عالم میں آکر فرمایا:
قطع اللہ یدیک و رجلیک واحرقک بنارالدنیا قبل نار الاخرۃ
خدا تیرے ہاتھ اور پاوں قطع کرے اور آخرت کی آگ سے پہلے تجھے دنیا کی آگ جلائے۔
ثانی زہرا ء سلام اللہ علیھا کی اس بد دعا کا اثر مختار کے ہاتھوں ہوا کہ اس نے اس ملعون کے ہاتھ پاوں قلم کرنے کے بعد زندہ نذر آتش کردیا تھا۔
جناب فاطمہ بنت الحسین علیھما السلام کی زبانی جانگداز واقعات:
ایسے ہی ایک خسیس الطبع شقی کا واقعہ جناب فاطمہ بنت حسین سلام اللہ علیہما بیان کرتی ہیں کہ جب غارت گر ہمارے خیمہ میں گھس آئے تو ایک ظالم میرے پاوں سے خلخال اتارنے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ روتا جاتا تھا
میں نے پوچھا
ما یبکیک یا عدو اللہ ؟
اے دشمن خد اتو روتا کیوں ہے؟
کیف لا ابکی وانا اسلب ابنۃ رسول اللہ
بھلا کیوں کر نہ رؤں جبکہ رسول زادی کو لوٹ رہا ہوں ۔
میں نے کہا
فلا تسلبنی؟
اگر تجھے اس قدر احساس ہے تو پھر نہ لوٹ۔
تو کہا
اخاف یجیئ غیری فیاخذہ
مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی اور آکر نہ لوٹ لے۔
بی بی کہتی ہے پس خیام میں جو کچھ تھا وہ سب کچھ لوٹ کر لے گیا حتی کہ ہمارے سروں سے چادریں بھی اتار لیں۔
بحار وغیرہ کتب معتبرہ میں انہی جناب فاطمہ صغریٰ سلام اللہ علیھا سے ان کی مظلومیت کی داستان قدرے تفصیل کے ساتھ مرقوم ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ میں در خیمہ پر کھڑی اپنے بابا اور ان کے اصحاب و اعزاء کی لاشوں کو دیکھ رہی تھی جو قربان گاہ کربلا میں بے گور و کفن پڑی تھیں۔ اور اپنے انجام قید یا قتل کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ ایک ظالم گھوڑے سوار خیمہ میں گھس آیا جس کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا جو اس نیزہ کی انی سے بی بیوں کو اذیت پہنچا کر ان کی چادریں اور زیور اتار رہا تھا بی بیاں داد و فریاد کررہی تھیں۔
اسی اثنا میں وہ سفاک یکا یک میری طرف بڑھا میں یہ سمجھ کر دوڑی کہ شاید اس طرح میں اس کے چنگل سے بچ جاؤں مگر اس ظالم نے میرا تعاقب کیا اور اچانک میرے دونوں کندھوں کے درمیان نیزہ مارا۔ جس سے میں منہ کے بل گر گئی ۔ پھر اس نے میرے سر سے چادر اور کانوں سے گوشوارے اتار لیے میرے کانوں سے خون بہنے لگا اور میں شدت غم و دہشت سے بے ہوش ہوگئی۔کچھ دیر کے بعد افاقہ ہوا تو دیکھا کہ پھوپھی اماں میرے پاس بیٹھ کر رورہی ہیں اور فرما رہی ہیں کہ اٹھ جا کر دیکھیں کہ دوسری مستورات اور تمہارے بیمار بھائی پر کیا گذری ہے؟
میں نے کہا:
یا عمتاہ ! ھل من خرقۃ استربھا راسی عن اعین النظار؟
کیا کپڑے کا کوئی ٹکڑا نہیں ہے جس سے میں اپنے سر کو ڈھانپ سکوں ؟
پھوپھی نے فرمایا:
یا بنتاہ! عمتک مثلک
تیری پھوپھی بھی تیری مانند ہے میں نے جب نظر اوپر اٹھائی
فرایت راسھامکشوفۃ متنھا قد اسود من الضرب
دیکھا کہ پھوپھی اماں کا سر ننگا ہے اور مار کی وجہ سے پشت مبارک سیاہ ہو چکی ہے
واپس خیمے میں پہنچیں تو دیکھا سب مال و اسباب لٹ چکا ہے اور بیمار امام منہ کے بل زمین پر پڑے ہیں جو کثرت بھوک وپیاس اور شدت بیماری کی وجہ سے حس و حرکت نہیں کر سکتے تھے۔
فجعلنا نبکی علیہ ویبکی علینا
ہم ان کی حالت پر رونے لگیں اور وہ ہماری حالت پر رونےلگے۔
خاندان نبوت کے انہیں مصائب و شدائد سے متاثر ہو کر بکر بن وائل کے خاندان کی ایک عورت جو اپنے شوہر کے ساتھ پسر سعد کے لشکر میں تلوار میں ہاتھ لے کر نعرہ بلند کرتی ہوئی خیام اہل بیت علیہم السلام کے دروازے پر آکھڑی ہوئی اور باآواز بلند کہا :
یا ال بکر ابن وائل اتسلب بنات رسول اللہ ! لا حکم الا للہ یا لثارات رسول اللہ
اے آل بکر بن وائل! تم موجود ہو اور بنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوٹا جارہاہے؟ خدا کے سوا کسی حکم قابل قبول نہیں ۔ اے لوگو! آو خاندان رسولؐ کا بدلہ لو!
یہ کیفیت دیکھ کر اس کا شوہر آیا اور اسے اپنی قیام گاہ کی طرف لے گیا۔
بیمار کربلا کے قتل کا ارادہ اور اس میں ناکامی کا سبب:
یہ خونخوار درندے لوٹ مار کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں امام بیمار بستر بیماری پر پڑے ہوئے تھے اب باہم اختلاف کرنے لگے ۔ بعض نے کہا کہ صنف ذکور میں سےکسی چھوٹے یا بڑے کو نہ چھوڑو اور بعض نے کہا جلدی نہ کرو۔ امیر عمر سعد سے مشورہ کر لو۔
اسی دوران شمر ذی الجوشن تلوار سونت کر پہنچ گیا اور چاہا کہ امام بیمار کو شہید کردے حمید بن مسلم نے کہا :
یا سبحان اللہ ! اتقتل الصبیان انما ھو صبی مریض؟
سبحان اللہ! کیا لڑکے اور وہ بھی بیمار قتل کیے جاتے ہیں؟
اتنے میں عمر سعد بھی آگیا اور اس نے شمر کو ایسا کرنے سے منع کردیا۔
بعض روایات میں ہے کہ جب شمر نے امام کو قتل کرنے پر اصرار کیا تو جناب زینب عالیہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
لایقتل حتی اقتل
پہلے مجھے قتل کر پھر ان کو قتل کرنا۔
یہ دیکھ کر ظالم رک گیا۔ یہ ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں شریکۃ الحسین نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے بیمار بھتیجے زین العابدین علیہ السلام کو بچانے میں کامیاب کوشش فرمائی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ظالموں کے ترکش ظلم و جور میں کچھ تیر باقی تھے چناچہ سب کچھ لوٹنے کے بعد خیام کو آگ لگا دی :
فخرجن حواسرات مسلبات حافیات باکیات یسبین فی اسرالذلۃ
بی بیبیاں اس حال میں باہر نکلیں کہ سر ننگے ، لوٹی ہوئی، پاؤں ننگے، روتی ہوئی اور بہیمانہ طریقے سے قید میں مبتلا تھیں۔ اور اسی طرح ان لوگوں نے اپنی اسلام انسان دشمنی کے جذبے کو عریاں کردیا۔
لعنۃ اللہ علیھم اجمعین۔
امام حسین علیہ السلام کے پسماندگان میں صرف ایک بیمار علی بن حسین علیھما السلام پردہ نشین خواتین اور کچھ چھوٹے بچے رہ گئے تھے جو رات بھر خیموں کے جلنے کے بعد کھلے ہوئے صحراء میں مقیم رہے۔
(اقتباس از : سعادت الدارین)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button