خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:161)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک29 جولائی 2022ء بمطابق 29 ذی الحج1443 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ماہِ محرم میں نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کی شہادت کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے جو غم کی تقریبیں منعقدکی جاتی ہیں عزاداری کے واضح اور ظاہر ترین مصداق ہیں ۔

مظلوم کے غم میں شریک ہونا، ا نسانی فطرت کا تقاضہ اور ستم دیدہ سے ہمدردی وحمایت کا اظہا رہے .یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے عقل و فطرت دونوں ہی بے چون وچرا تسلیم کرتے ہیں .مگر کچھ لوگ مخصوص اغراض کی وجہ سے اس مقدس عمل پر طرح طرح کے اعتراض وارد کرتے ہیں جن میں سے اہم ترین یہ ہے کہ:

عزاداری اور گریہ و ماتم قضا و قدر الٰہی کے خلاف ہے .کیونکہ خدا وندِ عالم نے نا خوش آیندحالات اور ناگوار حادثات و مصیبات کے مقابلے میں صبر و ضبط سے کام لینے کا حکم فرمایا ہے .لہٰذا ، گریہ و زاری اور ماتم و عزاداری خدا کی حکم عدولی اور نافرمانی ہے . اس کے علاوہ شہدائے راہِ حق ہمیشہ زندہ ہیں جوایک عظیم مرتبہ اور خوشی کا مقام ہے اب اس پر رونا دھونا اور ماتم منانا ان کی شان کے خلاف اور ان کے مرتبہ کے منافی ہے ۔

اسی قسم کے اوربھی دیگر اعتراضات ہیں جنہیں بیان کرنا طوالت کا باعث ہو گا یہاں صرف مذکورہ دو اعتراض ہی کا جواب دیکر بات کو واضح کیا جائے گا۔

مصیبتوں پر آہ و فغاں اور بیقراری کی حالت میں اول فول بکنا اور بے صبری کا اظہار کرنا دین وشریعت کی نظر میں ایک باعث نفرت عمل ہے .سید الشہداء کا کوئی بھی عزادار، اس عمل کا مرتکب نہیں ہوتا .صبر کا مطلب گریہ و زاری نہ کرنا بھی نہیں ہے .قضاو قدرِ الٰہی پر صبر کرنے سے مقصودخدا وندِعالم کی مشیئت کے آگے سراپا تسلیم ہوجانا ہے .جس دل پرچوٹ لگتی ہے اس سے آہ نکلنا طبیعی اور انسانی عمل ہے .اس وقت احساسات کی عنان کو ہاتھ میں رکھکر دل میں ابھرنے والے بے جا توہمات سے گریز کرنا صبر کہلاتا ہے جس سے ہر عزادار ، اچھی طرح واقف ہے .پھرعزاداری محض گریہ و زاری ہی پر تو منحصر نہیں اس کے اور بھی بہت سے ارکان ہیں جو ہمارے معصوم رہنماؤں کی تعلیمات سے دستیاب ہوتے ہیں جیسے گریہ سے پہلے معرفت کا ہونا عزاداری کا ایک اہم ترین رکن ہے .جس کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی صحیح معرفت ہوتی ہے اس کا گریہ عزادارانہ ہوتا ہے اموات پر گریہ کرنا اور سید الشہداء پر گریہ کرنا دونوں برابر نہیں ۔ سید الشہداء پر گریہ و زاری کا ایک خاص مقصدہے جس کی تکمیل پر عرفانِ الٰہی کے گوہرِ آبدار میسر ہوتے ہیں .اس گریہ میں صبر کے معنی کومتحمل اور گریہ کرنے والے کو صابر کا رتبہ ملتا ہے .یہ گریہ آنکھوں کے ساتھ دل کو بھی صاف کرتا ہے یہ گریہ ظالم کے خلاف خدا کی دی ہوئی طاقت کو صرف کرنے کی دعوت دیتا ہے ایثار کی تربیت اور حق کی راہ میں قربانی پیش کرنے کی تعلیم دیتا ہے .یہ گریہ عدل وانصاف کی حکمرانی کا خواہاں ہے اور مظلوم ومحروم سے حمایت وہمدردی کا مشتاق .شہنشاہِ کربلا کی یاد میں عزا داری منا کر عزادار خود کوخداکی مشیت کے نزدیک محسوس کرتا ہے۔

دوسرے اعتراض میں غور فرمائیں تو نظر آتا ہے کہ کتنی سادہ سی بات کو کتنا پیچیدہ بنایا جاتا ہے کہ شہید زندۂ جاوید ہوتا ہے اور زندہ کی عزاداری جائز نہیں .یہ کسے نہیں معلوم کہ عزادار کا ہدف شہادت پر گریہ کرنا نہیں بلکہ اس پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھ کر ہوتا ہے . عزاداری میں عزادار اپنی آنکھوں میں اشکوں کے ساغر لے کر پیاسوں سے ہمدردی اور وفا داری کا عہد کرتا ہے .اسے شہیدو ں کی شہادت سے حاصل ہونے والے مرتبہ کا افسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کا گریہ اس بات پر ہوتا ہے کہ آج تقریباً چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان کے دشمن ان کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں اور جس طرح کل میدانِ نبرد میں انکے سامنے آنے والے نام نہاد مسلمان باطل کے ہمراہ تھے آج بھی اسی طرح ان کے اہداف کے دشمن صف باندھ کر ان پر ہمہ جانب حملے کر رہے ہیں اگر ان حملوں کا زور گھٹ گیا ہوتا تو عزادار کو غم نہ ہوتا اس کے سامنے ہر روز ایک نئی کربلا ہوتی ہے ہر دن ایک نئی رودادِ ظلم ثبت ہوتی ہے ا سکے سامنے جب بھی کہیں کسی بیکس کا خون بہتا ہے کربلا والوں کے خون کی لالی اس میں نظر آ جاتی ہے ۔

محرم ، خون کی شمشیر پر فتح کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جو دنیا کی تمام نسلوں اور ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو پیغام دیتا ہے کہ زندگی گذارنی ہے تو آزاد رہ کرگذارو، ظلم و ستم اور استبداد کے سامنے کبھی بھی سر نہ جھکاؤ اور نہ ہی ذلت آمیز زندگی تحمل کرو کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اگر کربلا نہ ہوتی تو آج ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے کسی میں بھی ہمت نہ ہوتی ۔ کربلا نے دنیا کے تمام انسانوں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ کم تعداد میں رہنے کے با وجود بھی ظالموں کی کثرت سے ٹکرا سکتے ہیں اگر ایمان اور اللہ پر بھروسہ ہے تو بڑی سے بڑی جنگی مشینریوں کو ناکام بنا کر ہر دور کے یزید کے لئے روسیاہی کا اسباب فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ یزید و حرملہ کربلا کے بعد اب کسی شخص کے نام ہی نہیں رہ گئے بلکہ یہ ظلم و بربریت اور سفاکی کی علامت بن چکے ہیں ۔

واقعہ کربلا کے مسئلے اور قیامِ حسینی پر جتنا ہی زیادہ غورو فکر کریں ،اس کے باوجود یہ مسئلہ مختلف پہلوو ں میں غور و فکر ، سوچ بچار اور گفتگو کی کشش اور گنجائش رکھتا ہے۔ جتنا بھی اس عظیم قیام کے بارے میں سوچیں، ممکن ہے(ہر مرتبہ) تازہ حقائق سے دوچار ہوں۔ یہ وہ پہلا مفہوم ہے جس کے بارے میں اگرچہ پورے سال گفتگو کی جاتی ہے اور کی بھی جانی چاہئیے لیکن محرم کو ایک خصوصیت حاصل ہے اور ايّام محرم میں اس مفہوم پر زیادہ سے زیادہ گفتگو کی جانی چاہئیے۔محرم کی مناسبت سے گفتگو کے لئے دوسرا مفہوم، جس کے بارے میں کم ہی گفتگو ہوتی ہے وہ حسین ابن علی علیہ السلام کی عزاداری اور کربلا کا ذکر زندہ رکھنے کی برکات ہیں۔مسلمہ طور پر دوسرے مسلمان بردران سے، شیعوں کے نمایاں امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے یہاں واقعہ عاشورا موجود ہے۔

وہ دن کہ جب سے حسین ابن علی ٴ کی مصیبت کے ذکر کا آغاز ہوا، اہل بیت ٴ پر اعتقاد رکھنے والوں اور ان کے محبین کے قلب و ذہن میں فیض و معنویات کا ایک چشمہ جاری ہوا، جو آج تک اسی طرح مسلسل رواں دواں ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی جاری و ساری رہے گا،

اس کا سبب بھی واقعہ کربلا کی یاد مناتے رہنا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

إِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي‏ قُلُوبِ‏ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَبْرُدُ أَبَدا(مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج‏10، ص: 318)

"بے شک حسینؑ کی شہادت کی بدولت مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت ہے کہ جو کبھی ٹھنڈی نہ ہوگی۔”

عزاداری اسلام کی شہ رگ حیات ہے اور عزاداری کو خرافات اور توہمات سے بھرنے کے لئے دشمنوں کی سرمایہ کاری کی وجل بھی یہی ہے کہ یہ دین اسلام کو زندہ رکھنے کا وسیلہ ہے جیسا کہ کربلا کا واقعہ دین کی حیات نو کا وسیلہ بن گیا۔

جیسا کہ محمد علی جوہر کا مشہور شعر ہے کہ کہ

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زنده ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

باہدف و بامقصد عزاداری:

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عزاداریوں کو بامقصد ہونا چاہئے؛ اگر عزاداری کا ہدف اور اس کی سمت کھو جائے تو اس کا کوئی مثبت اثر نه ہوگا حتی ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوجائیں.‎

سوال یہ ہے کہ عزاداری کا کیا ہدف ہوسکتا ہے؟ عزاداری میں ہدف کی شناخت کے لئے سب سے پہلے عزا اور مصیبت کے مالک کی فکر اور ہدف و نیت کی شناخت ضروری ہے. تا اگر اس صاحب عزا کے لئے عزاداری کرنی ہو تو اسی کی فکر کے حصول کی خاطر عزاداری ترتیب دی جائے. ‎

قرآن کا فرمان ہے: "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ (صف/ 14)

 اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا: کون ہے جو راہ خدا میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں،۔

آیت کا پیغام اور خدا کی بات یہ ہے کہ آؤ اور خدا کے دوست اور مددگار بنو اور خدا کے لئے کچھ کرو. اس کے بعد خداوند متعال شاہد مثال بھی لاتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم حضرت عیسی کے حوارئین کی طرح بن جاؤ کہ جب حضرت عیسی نے مدد طلب کی تو وه فوراً ان کی مدد کے لئے اٹھے. ‎یہ جو حواریون نے جواب میں کہا کہ «نحن انصار الله ” ہم خدا کے مددگار ہیں» اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر کی مدد ہر زمانے میں در حقیقت خدا کی مدد ہے اور اس قاعدے کے مطابق ہر زمانے میں امام کی مدد خدا ہی کی مدد ہے.

اس آیت کے علاوه امام حسین علیہ السلام کی ندا بھی عاشورا کے روز نصرت کی ندا تھی اور آپ نے فرمایا: "هل من ناصر ینصرنا” کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے؟». مدد طلب کرنے سے امام علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ حقیقی اسلام عملی صورت اپنائے اور ظلم و شر و فساد کی بیخ کنی ہو اور اس ہدف کا حصول دوسروں سے مدد مانگے بغیر ممکن نہیں ہے. ‎

چنانچہ خدا کی ندا کا مطلب مددگار حاصل کرنا ہے؛ تمام انبیاء اور ائمہ کی ندا بھی مددگار اور ناصر و یار و یاور کا حصول ہے. امام زمان عج کی آج کی ندا بھی وہی امام حسین علیہ السلام کی ندا ہے جو فرمایا کرتے تھے کہ «هل من ناصر ینصرنی. ” ‎

اب ہم جو عزاداری کی مجالس برپا کرتے ہیں ان مجالس سے ہمارا ہدف امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد ہونی چاہئے اسی راه میں جس کا آپ علیہ السلام نے آغاز کیا تھا. عزاداری کا مقصد و ہدف امام حسین علیہ السلام کے اهداف اور افکار کو عمل جامہ پہنانا، ہونا چاہئے. یہ مقصدیت عزاداری کی مجالس کے انعقاد میں سب سے زیاده اہمیت رکھتی ہے اور عزاداری کے مضامین اور شکل و صورت – یعنی اس کے دو دیگر پہلؤوں – کو سمت دیتی ہے اور ان پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان کی کیفیت کو بدل دیتی ہے.

لہذا، عزاداری ایک اونچے اور زیاده اہم ہدف و مقصد تک پہنچنے کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہے. لیکن کئی مرتبہ عزاداری کا فلسفہ بھلادیا جاتا ہے اور عزاداری تمہید اور وسیله بننے کی بجائے ہدف و مقصد بن جاتا ہے یعنی عزاداری بذات خود مقدس ہوجاتی ہے اور عزاداری کی مجالس ہدف بن جاتی ہیں اور ایسے وقت عزاداری کا قیام صرف عزاداری کے لئے ہوتا ہے. عزاداری برائے عزاداری۔ اور یہاں عزاداری امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے مقصد سے نہیں ہوتی.

جب عزاداری کا ہدف گم ہوگا اور عزاداری تمہید کا مقام چھوڑ کر ہدف کے مقام پر مستقر ہوگی تو جو چیزیں رونما ہوتی ہیں بہت باعث افسوس اور دردناک ہیں. عزادار سوچتے ہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی مجالس میں چلی جائیں اور آنسو بہائیں تھوڑی سے ماتم داری کریں اور دستہ روانہ کریں یا قمہ‏زنی کریں تو بس کام ختم ہے. یہ لوگ عزاداری ختم ہوتے ہی عزاداری ہی کے سلسلے میں اپنے لئے کسی اور کام اور فریضے کے قائل نہیں ہوتے اور بہت آسانی کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں اور کلی طور پر بھول جاتے ہیں کہ کس طرح سینکڑوں بار انہوں نے حسین حسین کہہ کر ماتم کیا تھا!. ‎

جب عزاداری ختم ہوتی ہے اور یہ حضرات دیکھتے ہیں کہ معاشرتی برائیوں میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے تو یہ حضرات اپنے عمل پر غور نہیں کرتے کہ کیا ان مسائل کا ان سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ بہت سی چیزوں کے سامنے خاموش ہیں اور یہ حضرات جنہوں نے دس روز یا دو مہینوں تک عزاداری کی ہے، ان کی عزاداری سے قبل اور بعد کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور حتی ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں بھی کوئی فرق نہیں آیا. حالانکہ حسین – حسین کہنے والوں اور حسین – حسین نه کہنے والوں میں فرق ہونا چاہئے.

ان حضرات کی اکثریت – افسوس کہ – معاشرے کے سماجی مسائل کو توجه نہیں دیتے؛ اپنی ارد گرد رونما ہونے والے مسائل پر لمحہ بھر غور و تأمل نہیں کرتے؛ حالانکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت اور آپ علیہ السلام کی روح اصلاح، تنویر افکار اور امور و مسائل کی بہتری سے عبارت ہے مگر یہ روح یہ جذبہ اور یہ سیرت ان مجالس میں عزاداران حسین علیہ السلام کی طرف منتقل نہیں ہوتی. کیوں کہ عزاداری برائے عزاداری – کے فلسفے – میں ائمہ علیہم السلام کے قلوب کی تسلی کے لئے زیاده سے زیاده جس چیز کی ضرورت ہے وه رونےاور سر و سینہ پیٹنے سے زیاده کچھ نہیں ہے.لیکن عزاادری برائے نصرت حسین علیہ السلام میں جو چیز نہ صرف ائمہ علیہم السلام کے قلوب کی تسلی کے لئے اور خدا کی رضا اور آدم سے خاتم تک کے انبیاء کے قلوب کی تسلی کے لئے ضروری ہے وه یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد میں سے کسی ایک مقصد و ہدف کو عملی صورت دی جائے.

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو اس میں عزاداروں کی تربیت اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ انہیں کس طرح وجد و شوق میں آتے ہیں؛ اپنے سروں اور چہروں کو کس طرح پیٹتے ہیں اور کس طرح ہم‏صدا ہوجاتے ہیں اور منظم ہوکر ماتم کرتے ہیں؛ لیکن جب عزاداری نصرت حسین علیہ السلام کے لئے ہوگی تو اس مین کارناموں کی تخلیق کرنے والے، معاشره شناس، دین شناس اور وقت شناس افراد کی تربیت ہوتی ہے ایسے لوگوں کی تربیت ہوتی ہے جو آج کی تاریخ میں اثر گزار ہوں.‎

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو قمہ‏زنی اور زنجیر زنی کی روشوں اور اس کے فوائد پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے لیکن عزاداری جب امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت کے لئے ہوگی تو گھنٹوں تک امام حسین علیہ السلام کے افکار پر بحث ہوتی ہے اس امید کےساتھ کہ شاید یہ افکار لوگوں کے ذہنوں میں گھر کرلیں اور دلوں میں منزل بنادیں. امام حسین علیه السلام چاہتے ہیں کہ ایسے افراد کو ڈھونڈا جائے اور ان کی تربیت کی جائے جو آپ علیہ السلام کے افکار کو اخذ کریں اور آج کی دنیا میں ان افکار سے استفاده کریں.‎

عزاداری کی مشکلات کیا ہیں؟

اس سوال کے جواب میں پندرہ بنیادی مشکلات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے :

۱۔ بعض لوگوں کا ریاکاری اور تظاہرکرنا ۔

۲۔ مہمانداری میں اسراف کرنا ۔

۳۔ محرم اور نامحرم کی رعایت نہ کرنا ۔

۴۔ مستحبات، واجبات کو ضرر نہ پہنچائیں، قال علی (علیہ السلام): إِذَا أَضَرَّتِ‏ النَّوَافِلُ‏ بِالْفَرَائِضِ فَارْفُضُوهَا

جب نوافل ، فرائض میں رکاوٹ بن جائیں تو انہیں (نوافل کو) چھوڑ دو (اور فرائض انجام دو)(نہج البلاغہ)

۵۔ لوگوں کے راستہ میں جانوروں کو ذبح کرنا ۔

۶۔ خمس و زکات اداء کئے بغیر انجمنوں کو پیسہ دینا ۔

۷۔ علمائے دین سے عزاداری کو جدا کرنا ۔

۸۔ قوم و قبیلہ کے تعصبات کو بڑھاوا دینا ۔

۹۔ پرگراموں کو زیادہ لمبا کرنا اور لوگوں کو تھکا دینا ۔

۱۰۔ عزاداروں اور انجمنوں میں تبعیض کا قائل ہونا ۔

۱۱۔ بچوں کے ساتھ غلط سلوک کرنا ۔

۱۲۔ امام بارگاہوں اور انجمنوں کے لئے نذر کرنے میں اعتدال کی رعایت نہ کرنا ۔

ذاکری اور مرثیہ خوانی میں بھی بعض نکات کی طرف توجہ ضروری ہے جیسے :

۱۳۔ ایسا کلام پڑھے جس سے غلو کی بو آئے اور ایسی باتیں نہ کہیں جس سے معصومین (علیہم السلام) کا مقام و منزلت کم ہو۔

۱۴۔ نماز کے اوقات میں عزاداری کو بند کردیا جائے ۔

۱۵۔ ایسے کلمات استعمال نہ کریں جس سے دشمن سوء استفادہ کرے، جیسے حسین کے دیوانوں کی انجمن۔ بلکہ اس کی جگہ یہ کہنا بہتر ہے حسین کے عاشقوں کی انجمن۔

اسی طرح تاسوعا اور عاشورہ کے علاوہ بہت ہی جانسوز مصائب نہ پڑھے ، جانسوز مصائب اس وقت پڑھے جب اس کا حق ادا ہوجائے اور لوگ آنسوں بہا کر اس کا احترام کریں ۔

امام حسین علیہ السلام کے اہداف:

جب عزاداری بامقصد ہوگی تو وہ ایسی عزاداری ہوگی جس میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف و مقاصد کو مدنظر رکھا جائے گا اور انہیں زندہ اور دائمی رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسی عزاداری بامقصد ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول اور موثر بھی ہوگی۔ امام علیہ السلام کے مقاصد خود ان کے فرامین و خطبات میں واضح ہیں:

أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام.

میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔(بحارالانوار، ج:44 ص:329)پس معلوم یہ هوا ھے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام امت اسلام کی اصلاح، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کی سیرت بتانے کے لئے مدینہ سے روانہ هوئے ، لہٰذا ھمیں بھی امت اسلامیہ کی اصلاح کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، معاشرہ میں پھیلی هوئی برائیوں کو ختم کرنا چاہئے، اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جیسے اھم فریضہ پر عمل کرنا چاہئے، نیز سیرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیرت علی علیہ السلام پر عمل کرتے هوئے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے، اور جب ھماری مجالسوں میں ان باتوں پر توجہ دی جائے گی تو یقینا عزاداری کے مقاصد پورے هوتے جائیں گے ھمارا معاشرہ نمونہ عمل قرار پائے گا، اور معنوی ثواب سے بھرہ مند هوگا، لیکن اگر ھم نے معاشرہ میں پھیلتی هوئی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی، اور لوگوں کو نیکیوں کا حکم نہ دیا تو مقصد حسینی پورا نہ هوگا، ھم برائیوں میں مبتلا رھیں اور خود کو امام حسین علیہ السلام کا ماننے والا قرار دیں، ھمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی جارھی هوں۔بصرہ کے بزرگان کو امام حسین علیہ السلام کے لکھے گئے خط میں امام کے قیام کا مقصد واضح ہے:

و أنا أدعوكم إلى كتاب الله و سنة نبيه فإن السنة قد أميتت و إن البدعة قد أحييت و إن تسمعوا قولي و تطيعوا أمري أهدكم سبيل الرشاد۔میں آپ سب کو قرآن کریم اور رسول خدا(ص) کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ بے شک سنت بالکل ختم اور مر چکی ہے اور بدعت زندہ ہو چکی ہے اور اگر تم لوگ میری بات کو سنو اور میری اطاعت کرو تو میں تم کو صراط مستقیم کی طرف لے جاؤں گا۔(تاريخ الطبري ج3، ص 280)

امام حسین علیہ السلام نے لشکرِ حر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛ألا إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ وَ تَركوا طَاعَةِ الرَّحْمَنِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسَادَ وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَ اسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْ‏ءِ وَ أَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ وَ حَرَّمُوا حَلَالَهُ و أنا أحَقُّ مَنْ غَيَّر

آگاہ ہو جاؤ کہ اس قوم نے شیطان کی پیروی شروع کر دی ہے اور خداوند کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے، واضح طور پر فتنہ اور فساد کرتے ہیں، احکام اور حدود الہی پر عمل نہیں کرتے،فئی کہ تمام امت کا حق ہے اس کو انھوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے، خداوند کے حرام کو حلال اور خداوند کے حلال کو حرام کر دیا ہے، میں اس تمام صورت حال کو بدلنے کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ حق رکھتاہوں۔

(الكامل في التاريخ، ج 4، ص 48) امام حسین علیہ السلام کے نزدیک ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے حق کی خاطر قیام کرکے موت کو گلے لگانا سعادت ہے:وَ إِنِّي لَا أَرَى الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَ الْحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَماً.بے شک میں موت کو سعادت و خوش بختی سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لیے ہلاکت اور عار سمجھتا ہوں۔(بحارالأنوار ج : 44 ص : 192) سید الشہداء علیہ السلام کا دائمی پیغام ہے کہ اگر ساری دنیا بھی مخالف ہو جائے پھر بھی حق کی پاسداری اور ظالم سے بیزاری ترک نہیں کرنی چاہیے، محمد بن حنفیہ سے فرمایا:یا اخی والله لولم یکن فی الدنیاملجاء ولاماوی لما بایعت یزید ابن معاویه اے بھائی اگر ساری زمین میں میرے لیے کوئی بھی پناہ گاہ نہ ہو تب بھی میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا ۔(بحار الانوارج ۴۴ ص۳۲۹) اسی طرح جب امام حسین ؑ نے دین کو خطرے میں دیکھا تو لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث یاد دلاتے ہوئے فرمایا: من رأی سلطانا جائرا مستحلالحرم الله ناکثا لعهد الله مخالفا لسنت رسول الله یعمل فی عباد الله با لاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول ولا فعل کان حقا علی الله ان یدخله مدخله

جو شخص کسی ایسے جابر بادشاہ کو دیکھے جو اللہ کے حرام کردہ کو حلال کر رہا ہو اور عھد خدا کو توڑ رہا ہو، سنتِ رسولﷺ کی مخالفت کر رہا ہو،بندگان خدا کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کر رہا ہو اور وہ شخص اس کے خلاف اقدام نہ کرے تو اللہ اسے بھی اسی ظالم کے انجام سے دوچار کرے گا۔(الارشاد ج ۲ ص ۲۳۴)

مجالس عزاداری کے اہداف و مقاصد

ہم اپنی گفتگو سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہماری مجالس و عزاداری کے مقاصد مندرجہ ذیل ہونے جاہیں:

1۔ اسلام کی عظیم ہستیوں محمد و آل محمد علیھم السلام کا مقام پہچنوانا اور معرفت کرانا کہ جن کی تمام زندگی اسلامی معاشرے کیلئے نمونہ عمل اور سرمشق ہے۔

2۔ اہل بیت علیھم السلام سے عشق اور محبت میں اضافہ

3۔ طلب کمال اور فضیلت

4۔ دین کی طرف دعوت اور حقائق سے آگاہی اور لوگوں کو اصلاح کی طرف بلانا اور فساد و انحراف سے روکنا

5۔ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قیام اور اس کے مقاصد سے آگاہ کرنا

6۔ مجالس عزا کے ضمن میں بھوکوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا (جو کہ قرآن و اسلام کے مؤکد دستورات میں سے ہے)

7۔ اہلبیت علیھم السلام کے مصائب کو یاد کرنا جس سے اپنی سختیاں اور مصائب آسان ہوجاتی ہیں۔

8۔ رسول خدا ﷺ ،حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور تمام ائمہ علیہم السلام سے عشق، محبت و وابستگی و اطاعت کا اظہار

9۔ واقعہ عاشورا فراموش نہ ہونے دینا، کیونکہ اگر یہ عزاداری نہ ہوتی تو آنے والی نسلیں حقیقت سے بے خبر رہتیں

10۔ ظالموں خاص کر بنی امیہ اور بنی عباس کے ظلم و ستم کو افشا کرنا

11۔ انسانی اور خدائی فضائل میں رشد اور شہادت کیلئے روح کی پرورش کرنا

12۔ اسلام کو زندہ رکھنا کیونکہ اس عزاداری سے اسلام بھی زندہ رہاہے۔

تمت بالخیر

٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button