احادیث امام حسین علیہ السلاماھل بیت علیھم السلامحدیثرسالاتسلائیڈر

مقام و منزلت امام حسینؑ بزبان رسول خاتمؐ

حضرت رسول خدا ﷺ امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور مقام کیا تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث درج ذیل ہیں:
1. "حُسَينٌ مِنِّي وأنا مِن حُسين، أحَبَّ اللهُ مَن أحبَّ حُسَيناً والحسين سبط من الأسباط”
"حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں، اللہ ہر اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسینؑ سے محبت کرتا ہے۔”
(الجامع الصحيح سنن الترمذي الجزء 5 الصفحة 658۔ / المعجم الكبير ج3 ح2586 ص32)


2. "الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ”
"حسن اور حسین علیھما السلام جوانان جنت کے سردار ہیں۔”
(سنن الترمذي ،ج5/ص 656 )


3. "أن الحسين باب من أبواب الجنة من عاداه حرّم الله عليه ريح الجنة”
"بے شک حسین ؑ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں جو کوئی بھی حسین ؑ سے دشمنی رکھے اللہ نے اس پر جنت کی خوشبو حرام کردی ہے۔”
(مائة منقبة: ص22 المنقبة الرابعة/بحار الانوار، ج؛35، ص:405)


4. (من أحب الحسن و الحسين فقد أحبني ، و من أبغضهما فقد أبغضني .)
"جو حسن اور حسین علیھما السلام سے محبت کرتا ہے پس وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان دونوں سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔”
(و رَواه أحمد بن حنبل في مسنده : 2 / 288 .)


5. "من اراد ان ینظر الی سید شباب اھل الجنۃ فلینظر الی حسین ابن علی ۔”
"جو کوئی بھی چاہتا ہے کہ جنت کے جوان کی جانب دیکھے اسے چاہئیے کہ حسین بن علی علیہ السلام کو دیکھ لے ۔”
(سیراعلام النبلاء ، ج۳ ، ص ۱۹۰)


6. "انی حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم۔”
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب علی ؑ فاطمۃ ؑ حسین اور حسین ؑ کی جانب دیکھ کر فرمایا) میری ہر اس سے جنگ ہے جس کی آپ سے جنگ ہے اور اس سے سلامتی ہے جس کی آپ کے ساتھ سلامتی ہے۔”
(فرائد السمطين: ج2 ص83)


7. "الحسن والحسين ابناي، من أحبَّهما أحبَّني، ومن أحبَّني أحبَّه اللهُ”
"حسن اور حسین علیھما السلام میری دو بیٹے ہیں جو ان دونوں سے محبت رکھے اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔”
(المستدرك على الصحيحين رقم الحديث: 4719 )


8. عن البَرَّاء بن عازب، قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله حاملاً الحسين بن علي عليهما السلام على عاتقه وهو يقول: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحبُّهُ فَأحِبَّه۔”
براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ص کو دیکھا کہ آپ ص نے حسین بن علیؑ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے یہ فرما رہے تھے” خداوندا! میں حسین ؑ سے محبت کرتا ہوں تو بھی حسین ؑ سے محبت کرے”
(مسند امام احمد، باب فضائل الحسن و الحسین علیھما السلام، ج۔3، ص؛192)


9۔ عن الرضا عن آبائه عليهم السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : "من أحب أن ينظر إلى أحب أهل الأرض إلى أهل السماء فلينظر إلى الحسين عليه السلام.”
امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص زمین والوں سے لیکر آسمان والوں تک کی نگاہ میں محبوب ترین شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ حسین علیہ السلام کو دیکھے۔”
(مناقب ابن شھر آشوب، ج؛3، س؛229/ بحار، ج:43، ص؛298)


10۔ روى الخطيب باسناده عن ابن عباس قال: «كنت عند النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم وعلى فخذه الايسر ابنه إبراهيم، وعلى فخذه الأيمن الحسين بن علي، تارةً يقبّل هذا، وتارةً يقبّل هذا، إذ هبط عليه جبريل بوحي من رب العالمين. فلما سرى عنه قال: أتاني جبريل من ربي، فقال لي: يا محمّد ان ربك يقرأ عليك السلام ويقول لك: لست أجمعهما لك فافد أحدهما بصاحبه، فنظر النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم إلى إبراهيم فبكى، ونظر إلى الحسين فبكى، ثم قال: ان إبراهيم أمّه أمة، ومتى مات لم يحزن عليه غيري، وأم الحسين فاطمة وأبوه علي ابن عمي لحمي ودمي، ومتى مات حزنت ابنتي وحزن ابن عمي، وحزنت أنا عليه وأنا أوثر حزني على حزنهما، يا جبريل تقبض إبراهيم فديته بإبراهيم، قال: فقبض بعد ثلاث، فكان النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم إذا رأى الحسين مقبلا قبّله وضمه إلى صدره ورشف ثناياه، وقال: فديت من فديته بابني إبراهيم»
ﺧﻄﻴﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﻛﺘﺎﺏ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ آﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ علیہ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ آﭖ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻴﻦ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺣﺎﻣﻞ ﻭﺣﻰ الٰہی ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﭘﻴﻐﻤﺒﺮ ﺍﻛﺮﻡ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ آﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﻧﮯ آﭖ ﭘﺮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ آﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺩﻭ ﺑﭽﮯ ﺑﭩﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ آﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﻮ آﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ آﻧﺴﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﻮ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﭘﮭﺮ آﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻓﺎﻃﻤﻪ ﻋﻠﻴﮩﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻭﺭ اس ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﭽﺎ ﺯﺍﺩ ﻋﻠﻰ علیہ السلام ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ہیں، ﺟﺐ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﺱ ﺩﻧﻴﺎ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻏﻢ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺍﮮ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ ! ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﻣﺠھ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻴﻦ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ آﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ آﺗﮯ ﺗﻮ آپﭖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻣﺘﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ، ﮔﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ؛
"ﻓﺪﻳﺖ ﻣﻦ ﻓﺪﻳﺘﻪ ﺑﺈﺑﻨﻲ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ”
"ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔”
(تاريخ بغداد ج2، ص204)


11۔ عن ابن عباس فقال: "حضرت رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلّم عند وفاته وهو يجود بنفسه، وقد ضم الحسين الى صدره وهو يقول: هذا من اطائب أرومتي وأبرار عترتي وخيار ذريتي، لا بارك الله فيمن لم يحفظه من بعدي. قال ابن عباس: ثم أغمي على رسول الله ساعة، ثم أفاق، فقال: يا حسين، ان لي ولقاتلك يوم القيامة مقاماً بين يدي ربي وخصومة، وقد طابت نفسي إذ جعلني الله خصماً لمن قاتلك يوم القيامة۔”
ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا درحا لنکہ آپ ؐ جان کنی کی حالت میں تھے۔ اور آپ ؐ حسین ؑ کو اپنے سینے سے لگا کر ارشاد فرما رہے تھے: یہ میرے خاندان کا صالح ترین، میری عترت کا باشرف ترین اور میری ذریت کا نیک ترین فرد ہیں۔ خدا اس شخص کو سعادت نصیب نہ کرے جو میرے بعد ان کی حفاظت نہ کرے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ساعت کے لئے غشی کی حالت میں چلے گئے اور پھر دوبارہ افاقہ ہوا اور فرمایا: اے حسین ؑ! قیامت کے دن میرے پروردگار کی بارگاہ میں میرے اور تیرے قاتل کے مابین مقدمہ ہوگا۔ اور میرے لئے کتنا اچھا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے تیرے قاتل کا حریف بنا دے گا۔”
(إحقاق الحق: ١١ / ٣٢٩ و ٣٦٥ إلى ٣٦٨)


12۔ عن الامام الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام قال : دخلت على رسول الله صلى الله عليه وآله وعنده أبي بن كعب فقال لي رسول الله : مرحبا بك يا أبا عبد الله يا زين السماوات والأرضين . قال له أبي : وكيف يكون يا رسول الله زين السماوات والأرضين أحد غيرك ؟ قال: يا أبي: والذي بعثني بالحق نبيا , ان الحسين بن علي في السماء أكبر منه في الأرض , وانه لمكتوب عن يمين عرش الله عز وجل :انہ مصباح هدى وسفينة نجاة وامام خير ويمن وعز وفخر وعلم وذخر وان الله عز وجل ركب في صلبه نطفة طيبة مباركة زكية ۔۔۔”
” امام حسین ابن علی علیھما السلام روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ابی ابن کعب آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: خوش آمدید اے ابا عبد اللہ، اے آسمانوں اور زمینوں کی زینت۔ ابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ، اپ کے علاوہ کوئی اور آسمانوں اور زمینوں کی زینت کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: اے ابی ! اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی بنا کر مبعوث کیا بے شک حسین ابن علی ؑ آسمان میں زمین سے بھی زیادہ عظیم ہیں۔ اور بتحقیق عرش الٰہی کے دائیں جانب لکھا ہوا ہے : کہ بے شک (حسین ؑ) چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں۔ اور آپ خیر، برکت، عزت، فخر ، علم اور شرف کے امام ہیں۔ اور بتحقیق خداوند متعال نے ان کے صلب میں ایک پاک و پاکیزہ اور مبارک نطفہ قرار دیا ہے۔۔۔۔۔”
(عيون أخبار الرضا عليه السلام: 2/62، بحار الانوار، ج،91، ص:187)


13۔ عن أنس بن مالك قال:سمعت رسول الله يقول نحن ولد عبد المطلب سادة أهل الجنة، أنا وحمزة وعلي وجعفر والحسن والحسين والمهدي۔”
انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ص کو یہ فرماتے ہوئے سنا "ہم عبد المطلب کی اولاد اہل جنت کے سردار ہونگے: میں، حمزہ،علی ؑ،جعفرِ حسن اور حسین ؑ”
(مناقب الإمام علي من الرياض النضرة ح268 ص202)


14۔ "عن أبي أيّوب الأنصاري قال : دخلت على رسول الله (صلّى الله عليه وآله) والحَسَن والحُسَيْن يلعبان بين يديه في حجره ، فقلت : يا رسول الله , أتحبّهما ؟ قال : (( وكيف لا أُحبّهما وهما ريحانتاي من الدنيا أشمّهما ؟! )
جناب ایوب انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؐ اپنے حجرے میں تشریف فرما ہیں اور حسن و حسین علیھما السلام آپ ؐ کے دست مبارک سے کھیل رہے ہیں۔ میں نے پوچھا! یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ” میں کیسے ان دونوں سے محبت نہ کروں درحالنکہ یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جن کی میں خوشبو سونگھتا ہوں۔
( تاريخ مدينة دمشق 14 / 130 ح 3422 ، سير أعلام النبلاء 4 / 403 رقم 270 ، كفاية الطالب / 379)


15۔ عن علي (عليه السّلام) : ( إنَّ النبي (صلّى الله عليه وآله) أخذ بيد الحسن والحسين فقال : مَنْ أحبّني وأحبّ هذين وأباهما وأُمّهما كان معي في درجتي يوم القيامة )
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے حسن و حسین علیھما السلام کے ہاتھوں کو پکڑ کر فرمایا ” جو مجھ سے محبت کرے اور ان دونوں سے، ان کے پدر بزگوار سے اور ان کی مادر گرامی سے محبت کرے تو قیامت کے دن وہ میرے درجے میں میرے ہمراہ ہونگے۔”
(الرياض النضرة في مناقب العشرة 2 / 189 ، كنز العمال 12 / 96 رقم 34161 ، ص 103 ح 34196 ، ينابيع المودة / 192)


16۔ عن أبي هريرة قال : خرج علينا رسول الله (صلّى الله عليه وآله) ومعه الحسن والحسين , هذا على عاتقه وهذا على عاتقه ، وهو يلثم ـ أي يقبّل ـ هذا مرةً وهذا مرّة حتّى انتهى إلينا ، فقال له رجل : يا رسول الله ، إنّك تحبّهما ؟ فقال : ( نعم ، مَنْ أحبّهما فقد أحبّني ، ومَنْ أبغضهما فقد أبغضني )
ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ ہمارے پاس تشریف لا رہے تھے اور حسن و حسین علیھما السلام بھی آپ ؐ کے ہمراہ تھے۔ ایک آپ ؐ (دائیں) کندھے پر اور ایک (بائیں) کندھے پر تشریف فرما تھے اور آپ باری باری دونوں کے بوسے لے رہے تھے یہاں تک کہ آپ ؐ ہمارے پاس پہنچ گئے تو ایک شخص نے آپ ؐ سے استفسار کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں، جو ان دونوں سے محبت کرے اس نے مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”


17۔ قال رسول الله لعلي بن ابي طالب: إن أول أربعة يدخلون الجنة أنا وأنت والحسن والحسين”
رسول اکرم ص نے امام علی ؑ سے فرمایا” بتحقیق سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے چار افراد میں،آپ،حسن اور حسین ع ہونگے”
(نور الأبصار ص123)


18۔ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺامام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :”اللھم انی احِبُّه فاحبّه،””پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ‘خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ہے اس کوبھی دوست رکھتاہوں” ”(مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧)”۔ اسی طرح ارشاد فرمایا” اللھم انی اُ حِبُّہ وَ أُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ” (نور الابصار، صفحہ ١٢٩)


19۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ہم نبی اکرم ﷺکے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین سکوں سے کھیل رہے ہیں تو آپ نے کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ امام کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارہے تھے اور کہتے جا رہے تھے، بیٹا ادھر آئو ادھرآئویہاں تک کہ آپ نے امام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ، ان کے بوسے لئے اور فرمایا:”حسين منی وانامن حسين،احب اللّٰه من احب حسينا،حسين سبط من الاسباط‘حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں خدایاجو حسین سے محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے”‘(سنن ابن ماجہ ،جلد ١،صفحہ ٥٦)


20۔سلمان فا رسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ہوا تو امام حسین علیہ السلام آپ کی ران پر بیٹھے ہوئے تھے اور نبی اکرم ص آپ کے رخسار پربوسہ دیتے ہوئے فر ما رہے تھے :
”انت سيد ُبْنُ سَيد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَئِمَةِ،وَاَنْتَ حُجَّةُ اللّٰه وَابْنُ حُجَّتِه،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُهمْ قَائِمُهمْ”۔

( حیاةالامام حسین ، جلد ١،صفحہ ٩٥)
”آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے پدر ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے پدر ہیں جن کا نواں قا ئم ہوگا ”۔


21۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین کو بٹھا ئے لئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا : ”نِعم المرکب رکبت ياغلام ،فاجا به الرسول :”ونعم الراکب هوَ”۔

( تاجِ جامع للاصول ،جلد ٣،صفحہ ٢١٨)
”کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ہوئے ہے، رسول اللہ ﷺنے جواب میں فرمایا:”یہ سوار بہت اچھا ہے ”۔


22۔رسول اللہ کا فرمان ہے :”ھذا(يعنی :الحسين )امام بن امام ابوائمةٍ تسعةٍ”۔( منہاج السنة، جلد ٤،صفحہ ٢١٠)
”یہ یعنی امام حسین امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں”۔


23۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماسے مروی حدیث شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے متعلق ارشادفرمایا:
” ھذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی اللَّھمَّ إِنِّی أُحِبُّھمَا فَأَحِبَّھمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّھمَا .”
فرمایا:”یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ائے اللہ !تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اسکو اپنا محبوب بنالے۔”
(جامع ترمذی، حدیث 4138 )


24۔ عَنْ فَاطِمَۃَ بنتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ و آلہ َسَلَّمَ: أَنَّہَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَکْوَاہُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ ! ہَذَانِ ابْنَاکَ فَوَرِّثْہُمَا شَیْئًا، فَقَالَ:أَمَّا الْحَسَنُ فَلَہُ ہَیْبَتِی وَسُؤْدُدِی، وَأَمَّا حُسَیْنٌ فَلَہُ جُرْأَتِی وَجُودِی۔”
خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے روایت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہما کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ ﷺ!یہ آپ کے شہزادے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں! تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن’ میرے جاہ وجلال اور سرداری کا وارث ہے اور حسین’ میری جرات و سخاوت کا وارث ہے۔”
(معجم کبیر طبرانی، حدیث 18474)


25۔ سنن نسائی، مسند امام أحمد، مصنف ابن أبی شیبۃ، مستدرک علی الصحیحین، معجم کبیرطبرانی، مجمع الزوائد، سنن الکبری للبیہقی، سنن کبری للنسائی، المطالب العالیۃ ، مسند أبی یعلی اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی إِحْدَی صَلَاتَیْ الْعِشَاءِ وَہُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَیْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَہُ ثُمَّ کَبَّرَ لِلصَّلَاۃِ فَصَلَّی فَسَجَدَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِہِ سَجْدَۃً أَطَالَہَا قَالَ أَبِی فَرَفَعْتُ رَأْسِی وَإِذَا الصَّبِیُّ عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَی سُجُودِی فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ قَالَ النَّاسُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّکَ سَجَدْتَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِکَ سَجْدَۃً أَطَلْتَہَا حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّہُ یُوحَی إِلَیْکَ قَالَ کُلُّ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ وَلَکِنَّ ابْنِی ارْتَحَلَنِی فَکَرِہْتُ أَنْ أُعَجِّلَہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہ۔”
حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایاکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء کی نمازکیلئے ہمارے پاس تشریف لائے،اس حال میں کہ آپ حضرت حسن یا حضرت حسین علیھما السلام کواٹھائے ہوئے تھے ،پھرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھادیا،پھرآپ نے نمازکیلئے تکبیرفرمائی اور نمازادافرمانے لگے ،اثناء نماز آپ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں :میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں اور شہزادے رضی اللہ عنہ آپ کی پشت انور پر ہیں ، تو میں پھر سجدہ میں چلاگیا، جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ نے نمازمیں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا، یا آپ پروحی الہی کا نزول ہورہا ہے ،تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہوگیا تھا،اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا۔”
(سنن نسائی ،حدیث نمبر-1129مسند امام أحمد، حدیث نمبر-15456مصنف ابن أبی شیبۃ،ج7،ص514۔مستدرک علی الصحیحین ، حدیث نمبر-4759/6707معجم کبیرطبرانی، حدیث نمبر-6963مجمع الزوائد،ج9،ص-181سنن الکبری للبیہقی،حدیث نمبر-3558سنن کبری للنسائی،ج1،ص243، حدیث نمبر-727المطالب العالیۃ ، حدیث نمبر-4069مسند أبی یعلی، حدیث نمبر-3334)۔


26۔ جیسا کہ جامع ترمذی شریف سنن ابوداؤدشریف ،سنن نسائی شریف میں حدیث مبارک ہے :
حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی: بُرَیْدَۃَ یَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَہُمَا وَوَضَعَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ اللَّہُ (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ) فَنَظَرْتُ إِلَی ہَذَیْنِ الصَّبِیَّیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی قَطَعْتُ حَدِیثِی وَرَفَعْتُہُمَا.
"حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا حبیب اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے توحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف سے نیچے تشریف لائے امام حسن وامام حسین رضی ا للہ عنہما کوگود میں اٹھالیاپھر(منبر مقدس پر رونق افروز ہوکر)ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا،تمہارے مال اورتمہاری اولادایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کرچلتے ہوئے آرہے تھے لڑکھڑارہے تھے مجھ سے صبر نہ ہوسکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھالیا ہے ۔
(جا مع ترمذی شریف ج2،ابواب المناقب ص 218حدیث نمبر3707:۔سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر935:۔سنن نسائی کتاب الجمعۃحدیث نمبر:1396 زجاجۃ المصابیح ج 5ص333)


27۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زہرا کے بیت الشرف کی طرف سے گزرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین ؑ کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ہوگئے اور جناب فاطمہ ؑ سے فر مایا:
”اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَه يوْذِينِیْ؟”۔
”کیا تمھیں نہیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہو تی ہے ”۔
( مجمع الزوائد، جلد ٩،صفحہ ٢٠١)


28۔ ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیۂ کریمہ ﴿وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ) (سوره زخرف ، آيه٢٨) کے بارے میں سوال ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا: ”جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ“۔
” پروردگار نے حسین ؑ کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔
پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت(ع) ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔”
(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامہ مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button