سلائیڈرمحافلمناقب امام محمد باقر عمناقب و فضائل

امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات مبارکہ اور شان و منزلت

ترجمہ و تصیح: فرحت حسین مہدوی
ذہبی لکھتے ہیں: ابو جعفر محمد الباقر (علیہ السلام) ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے علم و عمل، سیادت، علو مقام اور شرف اور وثاقت اور قدر و عزت کو اپنی ذات بابرکات میں جمع کر رکھا تھا، اور [مسلمانوں کی] خلافت کی اہلیت رکھتے تھے۔محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب المعروف "امام باقر(علیہ السلام)” ولادت 57 ہجری شہادت 114ھ بمقام مدینہ منورہ، مکتب تشیع  کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ آپ طفولت میں واقعہ عاشورا میں حاضر تھے۔
(المنجد فی اللغۃ، الطبعۃ الثالثة والثلاثون)
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے اپنے زمانے میں تشیع کے فروغ کے لئے معرض وجود میں آنے والے مناسب تاریخی حالات کے بدولت عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جس کو آپ کے فرزند امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے عروج تک پہنچایا۔ آپ کا مدفن مدینہ میں ہے۔
(تاریخ یعقوبی، ج2، ص289)
اکابرین اہل سنت نے امام باقر (علیہ السلام) کی علمی اور دینی شہرت کی گواہی دی ہے۔
ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں:ابو جعفر محمد باقر نے علوم کے پوشیدہ خزانوں، احکام کے حقائق اور حکمتوں اور لطائف کو آشکار کردیا۔ آپ نے اپنی عمر اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزار دی اور عرفاء کے مقامات میں اس مرتبے تک پہنچ گئے تھے کہ بیان کرنے والوں کی زبانیں اس کی وضاحت سے قاصر ہیں اور آپ سے سلوک اور معارف میں کثیر اقوال نقل ہوئے ہیں۔
(الکافی، ج1، ص469، الارشاد فی معرفۃ حُجج اللہ علی العباد، ص508)
نسب، کنیت اور القاب:محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب‌ المعروف امام باقر (علیہ السلام) شیعیان آل رسول(ص) کے پانچویں امام، چوتھے امام امام سجاد، زین العابدین علیہ السلام کے فرزند ہیں؛ آپ کی والدہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ بنت الحسن ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:كانت صديقة لَم تُدرَك في آل الحسن امراءةٌ مثلها میری دادی (فاطمہ بنت حسن) سچی اور پاکیزہ خاتون ہیں جن کی مانند خاتون آل حسن میں نہيں ملی”۔
(الصواعق المحرقۃ، ص201)
امام باقر (علیہ السلام) پہلے ہاشمی ہیں جنہوں نے ہاشمی، علوی اور فاطمی ماں باپ سے جنم لیا۔ یا یوں کہیے پہلے علوی اور فاطمی ہیں جن کے والدین دونوں علوی اور فاطمی ہیں۔
(الارشاد، ص508بحارالانوار، ج46، ص215)
آپ کے القاب میں شاکر، ہادی، اور باقر مشہور ہیں جبکہ آپ کا مشہور ترین لقب باقر ہے۔ باقر کے معنی "علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رمز تک پہنچنے والا (شکافتہ کرنے والا)” کے ہیں۔ یعقوبی رقمطراز ہے: آپ کو اس سبب سے باقر کا نام دیا گیا کہ آپ نے علم کو شگافتہ کیا۔ آپ کی مشہور کنیت "ابو جعفر” ہے۔ حدیث کے منابع میں آپ کو غالبا ابو جعفر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
(الارشاد، ص508،تاریخ یعقوبی، ج2، ص289)
انگشتریوں کے نقش:امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:”رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً” پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ ، اور "الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِيعاً
(دلائل الامامۃ، ص216، بحارالانوا، ج46، ص345)
ولادت:امام ابو جعفر محمد باقر (علیہ السلام) روز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے گوکہ بعض مصادر میں آپ کی تاریخ ولادت روز سہ شنبہ (منگل وار) تین صفر المظفر ثبت کی گئی ہے۔
(کشف الغُمَّۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج2 ص133)
لفظ "باقر” کے لغوی معنی "شقّ” کرنے اور "کھولنے” "وسیع” کرنے نیز "چیرنے” اور "پھاڑنے” اور تشریح کرنے والے کے ہیں۔
(بحار، ج46، ص212)
نام مبارک:پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ کی ولادت سے دسوں برس قبل آپ کا نام محمد اور لقب باقر مقرر فرمایا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔
(کفایۃ الاثر، ص144-145)
علاوہ ازیں ائمہ معصومین کے اسماء گرامی کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔
(الاختصاص، ص211، منتخب الأثر، باب8، ص97، إعلام الوریٰ بأعلام الہُدیٰ، ج2، ص182-181، اثبات الہُداۃ ، ج2، ص 285)
شہادت اور مدفن: امام محمد باقر (علیہ السلام) سات ذوالحجۃ الحرام سنہ 114ھ کو رحلت کرگئے۔
فِرَقُ الشیعۃ، ص61؛ اعلام الوری میں لکھا ہے کہ کہ آپ ربیع الاول کے مہینے میں شہید ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: ص259
امام محمد باقر(علیہ السلام) کی رحلت و شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہيں۔اس سلسلے میں تاریخی اور حدیث میں متعدد اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) کو کس شخص یا کن اشخاص نے شہید کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی مروانی بادشاہ) ہشام بن عبدالملک اس قتل میں براہ راست ملوث ہے۔ کچھ مؤرخین کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بن مروان ہے جس نے امام کو مسموم کیا۔
(المصباح الکفعمی، ص691، دلائل الامامۃ، ص216 ، المناقب، ج4، ص228)
بعض روایات میں حتی زید بن حسن کو آپ کے قاتل کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو عرصۂ دراز سے امام کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا۔ علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق امام صادق(علیہ السلام) نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسین (علیہ السلام) کا ساتھ نہیں دیا اور عبداللہ بن زبیر کے ساتھ بیعت کی۔
(بحار الأنوارج 47 ص294)
اس نے میرے والد امام محمد باقر(علیہ السلام) کے ساتھ امامت کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقر (علیہ السلام) نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت دے دیے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا، مگر وہيں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا؛ اور امام محمد باقر (علیہ السلام) کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام بن عبدالملک نے مل کر امام کی شہادت کی سازش پر طویل غور و خوض کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امام کو ایک زین کا تحفہ دیا۔ امام نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید، میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شرانگیزی کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امام کی شہادت کا سبب بنی تھی۔ میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے چنانچہ آپ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔چنانچہ مذکورہ زین امام محمد باقر (علیہ السلام) کی شہادت کا سبب بنی۔
(بحارالانوار، ج46 ص329، کشف الغمہ، ج2،ص 137)
گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبدالملک بن مروان نے ہی آپ کو مسموم کرکے شہید کردیا۔ ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔ بہر صورت امام محمد باقر(علیہ السلام) [ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں رحلت فرما گئے ہیں۔
(فرق الشیعۃ، ص 61 ، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص219)
کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105ھ سے سنہ 125ھ تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118ھ قرار دیا ہے۔روایات میں موجودہ اختلاف کے باوجود، بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر (علیہ السلام) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہؤا ہے۔ امام باقر (علیہ السلام) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز خاندان محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس بات میں شک و شبہے کی گنجائش نہیں رہتی کہ ہشام بن عبدالملک امام باقر (علیہ السلام) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔فطری امر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد ہی سے فائدہ اٹھا سکتا تھا، چنانچہ اس نے ابراہیم بن ولید جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کا دشمن تھا۔  کی خدمات حاصل کر لیں اور ابن ولید نے بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کر دیے جو خاندان رسالت کا فرد سمجھا جاتا تھا اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر (علیہ السلام) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک رسائی رکھتا تھا اور کوئی بھی اس کو اس رسائی سے روک نہیں سکتا تھا؛ اور یوں وہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عمل جامہ پہنا کر امام کو شہید کیا جاسکتا تھا۔امام محمد باقر (علیہ السلام) جنت البقیع میں اپنے والد امام زین العابدین اور والد کے چچا کے چچا امام حسن مجتبیٰ علیہما السلام) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
(فرق الشیعۃ، ص61؛ ، الکافی، ج2، ص372 ، الارشاد، ج2، ص156،إعلام الوری، ص259، الاربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص327تذکرۃ الخواص 306، الکفعمی، المصباح (یا جُنَّۃ الأمانِ الْواقیَۃُ وَ جَنَّۃ الإیمان الباقیَۃُ)، ص691)
ازواج اور اولاد:تاریخی منابع میں مروی ہے کہ ام فروہ امام محمد باقر (علیہ السلام) کی زوجہ اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔ نیز آپ کی ایک زوجہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں جو امام(علیہ السلام) کے دو فرزندوں کی ماں تھیں جبکہ آپ کے تین دوسرے فرزندوں کی ماں ام ولد تھیں۔
(الارشاد، ج2، ص524)
اولاد:امام محمد باقر(علیہ السلام) کی سات اولدیں تھیں: 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں جن کے نام کچھ یوں ہیں: جعفر بن محمد [امام جعفر صادق (علیہ السلا)] اور عبد اللہ بن محمد، جن کی والدہ کا نام ام فروہ بنت قاسم بن محمد ہیں۔ابراہیم بن محمد اور عبید اللہ بن محمد جن کی والدہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں؛ یہ دونوں طفولت ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ علی، زینب اور ام سلمہ، جن کی والدہ ام ولد تھیں۔
(إعلام الوری بأعلام الہدی، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، ص375)
کربلا میں حاضری:امام محمد باقر (علیہ السلام) نے طفولت کی زندگی (چار سال تک) اپنے والدین اور دادا امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ گذار دی۔آپ واقعۂ عاشورا کے دوران کربلا میں موجود تھے اور آپ خود ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: "میں چار سال کا تھا جب میرے جدّ امام حسین (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا اور مجھے آپ کی شہادت بھی یاد ہے اور وہ سارے مصائب بھی جو ہم پر گذرے۔
(تاریخ یعقوبی، ج2، ص289)
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا سلام
شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا؛ تو انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا: تم کون ہو؟ (یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے)۔میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔
کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔اس کے بعد جابر نے کہا: بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔میں نے کہا: و علیٰ رسول اللّٰہ السلامُ ورحمۃُ اللہ و برکاتُہ؛ لیکن وہ کیسے اے جابر!جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤگے، یہاں تک کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لوگے جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔
(الارشاد، ص382، تاریخ مدینۃ دمشق، ج54، ص276)
امامت
امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، الباقر (علیہ السلام) سنہ 95ھ میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114ھ (یا 117 یا 118ھ) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک آل رسول (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کے پیروکاروں کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔
دلائل امامت
جابر بن عبداللہ انصاری سے مروی ہے: میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے بعد کے ائمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن و حسین، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور۔۔۔۔ میرے خلفاء اور ائمہ معصومین ہیں۔
(کفایۃ الاثر، ص144-145 ، الاختصاص، ص211 ، منتخب الأثر، باب8، ص97، اثبات الہُداۃ بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285)
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللّٰهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بیان کئے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں۔
(بحارالأنوار، ج23، ص290، اثبات الہداۃ، ج3،‌ ص123، المناقب، ج1، ص283)
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بیان کئے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں۔
(بحارالأنوار، ج36، ص337، کفایۃ الأثر، ص157)
عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔
(ینابیع المودۃ، (مطبوعہ دارالاسوہ ،طہران) ج3، ص281 و ص283؛ الباب السادس والسبعون في بيان الائمۃ الاثنی عشر بأسمائہم)
امام زین العابدین (علیہ السلام) لوگوں کی توجہ مکرر در مکرر امام باقر (علیہ السلام) کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے آپ سے دریافت کیا کہ "آپ "محمد باقر” کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتیٰ کہ ہمارے قائم [حضرت مہدی (علیہ السلام)] قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔
(کفایۃ الاثر، ص237)
شیخ مفید رقم طراز ہیں: امام محمد باقر (علیہ السلام) فضل، علم، زہد اور جود و سخاء میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مدح کرتے تھے، عوام و خواص آپ کا احترام کرتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الٰہیہ اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ میں امام حسن اور امام حسن (علیہما السلام) کے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقر (علیہ السلام) جتنی گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) نہیں چھوڑی ہیں۔ امام باقر (علیہ السلام) کے زمانے میں باقی ماندہ صحابہ جنہیں امام باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں شرف حضور نصیب ہوا ، امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے تھے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہائے مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کی فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاءکرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزین کیا کرتے تھے۔
(الارشاد، ص509)
آپ کے ہم عصر خلفاء
امام باقر(علیہ السلام) کا عہد امامت پانچ اموی مروانی حکمرانوں کا دور تھا:ولید بن عبدالملک (86 تا 96ھ)،سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99ھ)،عمر بن عبدالعزیز (99 تا 101ھ)،یزید بن عبدالملک (101 تا 105ھ)،ہشام بن عبدالملک (105 تا 125ھ)آپ کے ہم عصر اموی مروانی خلفاء میں عمر بن عبدالعزیز کے سوا جو کسی حد تک عدل و انصاف کے راستے پر گامزن ہوئے باقی خلفاء عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے آل رسول (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کے شیعوں سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویئے اور انتقامی اقدامات بکثرت انجام پاتے تھے۔
علمی تحریک
سنہ 94ھ سے 114ھ تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلے میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت حضیض زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں اموی عمائدین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے شہاب زہری، مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اور غالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام باقر (علیہ السلام) نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق (علیہ السلام) کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے اکابرین میں سر فہرست تھے اور علم دین، سنت، علوم قرآن، سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔
(الارشاد، ص507)
شیعہ فقہی احکام اگر چہ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقر(علیہ السلام) کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آل رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تشیع نے ـ فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔امام محمد باقر (علیہ السلام) نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے رد کردیا۔
(دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ج1، ص57_56،، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص295، وسائل الشیعۃ ،ج18، ص38)
اور دیگر منحرف فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیت (علیہم السلام) کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصۂ حیات کو اپنے لئے تنگ کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔
(تہذیب الاحکام فی شرح المقنعۃ ، ج1، ص2)
امام محمد باقر (علیہ السلام) کی علمی شہرت، نہ صرف حجاز تک محدود نہ تھی بلکہ حتیٰ کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ تشکیل دیا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔
(الکافی، ج6، ص266، بحارالانوار، ج46، ص357)
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امام (علیہ السلام) کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
تفسیر القرآن
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحٰق ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست” میں بھی اشارہ کیا ہے۔
(الفہرست لإبن الندیم، ص59،حیاۃ الإمام محمد الباقر (علیہ السلام)، ج1، ص174)
امام پنجم قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت (علیہم السلام) تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ صرف وہی محکمات کو متشابہات اور ناسخ کو منسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیت (علیہم السلام) کے سوا کے پاس بھی نہیں پائی جاتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا :کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہيں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے”۔
(پیشوایان ہدایت، ص320)
حدیث
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی، حتیٰ کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امام(علیہ السلام) نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے ادراک کا اہتمام کرنے کی پرغیب دلائی ہے۔ مثلا آپ نے فرمایا ہے:”ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر، پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوجاتا ہے”۔
(حیاۃ الإمام محمد الباقر (علیہ السلام)، ص140و141)
علم کلام
امام محمد باقر (علیہ السلام) کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے۔ یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امام کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضآت کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپ ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ "ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی” اور "واجب الوجود کی ازلیت” وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔
(الکافی، ج1، ص82، 88-89)
امام کی دیگر مواریث بھی ہم تک آ پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث اور تاریخی میراث وغیرہ۔
(پیشوایان ہدایت، ج7، ص341 تا 347، ص330 تا 334)
امام محمد باقر (علیہ السلام) کے مناظرات
امام محمد باقر (علیہ السلام) کی علمی فعالیت میں مختلف موضوعات پر مختلف افراد کے ساتھ مناظرات بھی شامل ہیں۔ آپ کے بعض مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:عیسائی اُسقُف (Bishop) کے ساتھ امام باقر (علیہ السلام) کا مناظرہ،حسن بصری کے ساتھ امام محمد باقر (علیہ السلام) کا مناظرہ،ہشام بن عبدالملک کے ساتھ امام محمد باقر (علیہ السلام) کا مناظرہ،محمد منکدر کے ساتھ امام محمد باقر (علیہ السلام) کا مناظرہ،نافع بن ازرق کے ساتھ امام محمد باقر (علیہ السلام) کا مناظرہ،عبداللہ بن معمر اللیثی امام محمد باقر (علیہ السلام) کا مناظرہ،قتادہ بن دعامہ کے ساتھ امام محمد باقر (علیہ السلام) کا مناظرہ۔
اسرائیلیات کے خلاف جدوجہد
اس زمانے میں اسلامی معاشرے کے اندر سرگرم اور معاشرتی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ یہودیوں کا تھا۔ بعض یہودی احبار ـ جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے یا ہنوز اپنے دین پر ثابت قدم تھے، ـ اسلامی معاشروں میں پھیل گئے تھے اور مسلمانوں کے ایک سادہ لوح طبقے کے لئے علمی مرجعیت کے مرتبے پر کے حامل تھے! یہودیوں اور اسلامی معاشرے میں ان کے القائات اور تبلیغات کے خلاف علمی جدوجہد اور انبیاء کے بارے میں یہودیوں کی وضع کردہ جھوٹی حدیثوں اور انبیاء کا چہرہ مخدوش کرنے والے مسائل کی تردید امام محمد باقر (علیہ السلام) کی علمی تحریک میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہاں ہم اس کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں:
زرارہ نقل کرتے ہیں: میں امام محمد باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھا کہ امام نے ـ جو کعبہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے تھےـ فرمایا: "بیت اللہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے”۔ اسی حال میں عاصم بن عمر نامی شخص بھی امام (علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا: "کعب الاحبار کہتا ہے: "إنّ الكعبة تَسْجُدُ لبیت المقدس فی كلِّ غَداة (یعنی کعبہ ہر صبح بیت المقدس کی طرف سجدہ کرتا ہے)”۔امام نے فرمایا: کعب الاحبار کے اس قول کے بارے میں تمہاری اپنی رائے کیا ہے؟عاصم نے کہا: کعب کی بات صحیح ہے!امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: "كَذِبتَ وكَذِبَ كَعبُ الأحبارِ مَعَكَ تم بھی جھوٹ بول رہے ہو اور تمہارے ساتھ کعب الاحبار بھی جھوٹ بول رہا ہے”۔ اس کے بعد امام نے شدید غضب کی حالت میں فرمایا: "ما خَلَقَ اللّٰهُ عَزَّوَجلَّ بُقْعَةً فِي الأَرْضِ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْها۔۔۔ خداوند متعال نے زمین پر کوئی بھی بقعہ (یعنی ممتاز قطعۂ ارضی) پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک کعبہ سے زیادہ محبوب ہو۔
(بحار الانوار، ج46، ص354)
اصحاب اور شاگرد
امام محمد باقر (علیہ السلام) کے زمانے میں معاشرے کے سیاسی حالات کچھ اس طرح بدل گئے کہ آپ کو ایک عظیم علمی مجمع تشکیل دینے کا موقع میسر آیا اور آپ نے شریعت کی اقدار کے پابند بےشمار عالم و دانشمند افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔اسی بنا پر جب ہم صدر اول کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں امام محمد باقر (علیہ السلام) کی علمی حیات میں آپ کے بہت سے شاگردوں اور عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات نظر آتی ہیں۔اس کے باوجود یہ تصور کرنا درست نہیں ہے کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) کو ان رکاوٹوں اور ممانعتوں سے آسودہ خاطر تھے جو حکمرانوں کی طرف سے اہل بیت (علیہم السلام) پر مسلط کی جاتی رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی کا ماحول شدت سے تقیہ کا ماحول تھا۔ کیونکہ غیر صالح حکومتوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی معاشرتی صورت حال میں تقیہ ترک کرنا علمی فعالیت سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور دین کے اصولی معارف و تعلیمات کی ترویج سے دور رہنے، کے مترادف تھا۔زمانے کے حالات نے امام باقر (علیہ السلام) نیز آپ کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو مناسب امکان فراہم کیا جو دوسرے ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کو فراہم نہیں ہوا۔ یہ مناسب حالات اموی حکومت کی بنیادیں سست ہونے کے بموجب معرض وجود میں آئے تھے۔ اس زمانے کے سیاسی نظام کا اندرونی بحران حکمرانوں کو سابقہ حکمرانوں کی طرح خاندان رسالت پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گوشہ نشینی پر مجبور کرنے کا امکان فراہم نہ تھا۔ ان حالات میں امام باقر اور امام صادق (علیہما السلام) کو زیادہ سے زیادہ فقہی، تفسیری اور اخلاقی آراء، فقہ و حدیث کی کتب میں اپنے نفیس اور عمدہ ورثے کے طور پر چھوڑنے کا موقع ملا۔ایسے ہی حالات میں محمد بن مسلم امام محمد باقر(علیہ السلام) سے 30 ہزار حدیثیں نقل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جابر جعفی جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کیں۔
(بحارالانوار، ج11، ص83 ، أَئِمَّتُنا، ج1، ص347، منتہیٰ الآمال،ج1، 1310)
شیعہ علماء کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام محمد باقر اور امام صادق (علیہما السلام) کے اصحاب میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہیں:، زرارہ بن اَعین بن سنسن شَیبانی کوفی،، معروف بن خربوذ مکی،، ابو بصیر، یحیی بن ابی القاسم اسدی،، ابوالقاسم فضیل بن یسار نہدی،، محمد بن مسلم ثقفی کوفی الطائفی اور، برید بن معاویہ عجْلی۔
(مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)، ج4، ص211)
شیخ طوسی (رحمہ اللہ) نے اپنی کتاب اختیار معرفۃ الرجال میں تحریر کیا ہے کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) کے ان شاگردوں کی تعداد 462 تھی جنہوں نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔ آپ کے ان شاگردوں میں مرد اور خواتین شامل ہیں۔امام محمد باقر (علیہ السلام) کے بعض اصحاب اور شاگردوں کی وثاقت اور اعتبار پر امامیہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے اور بعض دیگر کو اپنے گہرے شیعہ رجحانات کی بنا پر اہل سنت کے رجال میں جگہ نہیں دی گئی ہے بلکہ صرف امامیہ کے نزدیک قابل اعتماد، ثقہ اور معتبر ہیں۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) علماء اور دانشوروں کی نگاہ میں
ابن حجر
امام محمد باقر (علیہ السلام) نہ صرف اہل تشیّع کی نظر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھی بے مثل اور منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ ذیل میں بعض نمونے پیش کئے جاتے ہیں:
ابن حجر الھیتمی رقم طراز ہیں:عبادت، علم اور زہد و پارسائی میں اپنے والد ماجد امام زین العابدین (علیہ السلام) کے وارث ابو جعفر محمد الباقر (علیہ السلام) ٹہرے؛ آپ کو اس نام سے موسوم کیا گیا کہ اور یہ [لفظ] زمین کے شق و شکافتہ کرنے اور اس کے خفیہ خزینوں کو حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے؛ تو اسی طرح امام نے معارف و علوم کے خفیہ مخازن اور احکام کی حقیقتوں، لطافتوں اور ظرافتوں کو اس طرح سے آشکار کر دیا کہ وہ بے بصیرت اور بدسیرت لوگوں کے سوا کسی پر پوشید نہیں رہی ہیں، اور اسی بنا پر کہا گیا کہ آپ "باقر العلم” (علم کو شکافتہ کرنے والے) اور اپنی دانش کا پرچم لہرانے اور اٹھانے والے ہیں؛ اور آپ کا قلب روش ہے، آپ کا علم و عمل کثیر ہے، آپ کا نفس (جان) پاکیزہ ہے اور آپ کا برتاؤ اور اخلاق پسندیدہ ہے، اور آپ کی عمر اللہ کی بندگی میں گذری ہے؛ عارفین کے مراتب و مدارج میں آپ کو ایسا رسوخ و عبور حاصل ہے، کہ بیان کرنے والوں کی زبان اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں؛ سیر و سلوک اور معرفت میں آپ سے کثیر اقوال منقول ہیں، جنہیں بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ آپ کی عظمت و شرف [جاننے] کے لئے یہی کافی ہے کہ علی بن المدینی نے نے جابر بن عبداللہ الانصاری سے نقل کیا ہے، جنہوں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے عرض کیا، جس وقت کہ آپ کم عمر تھے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آپ پر سلام کہہ رہے ہیں؛ پوچھا گیا کہ وہ کیسے؟ تو جابر نے کہا: میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حضور بیٹھا تھا کہ اور امام حسین (علیہ السلام) آپ کی آغوش میں بیٹھے تھے اور ان سے پیار کر رہے تھے؛ تو فرمایا: اے جابر! اس [حسین (علیہ السلام)] کو خدائے متعال ایک بیٹا عطا فرمائے گا جس کا نام علی [زین العابدین] ہوگا، جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا دے گا، "کہ عبادت گزاروں کا سردار اٹھے، تو ان کا بیٹا اٹھے گا؛ اور اس [سیدالعابدین (علیہ السلام)] کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کا نام محمد ہوگا، تو اگر تم نے [اے جابر!] اسے دیکھا تو اس کو میرا سلام دینا۔ امام محمد باقر (علیہ السلام) پچاسی سال کی عمر میں سنہ 117ھ کو وفات پاگئے، جبکہ اپنے والد کی طرح مسموم کئے جا چگے تھے؛ آپ ماں باپ دونوں کی طرف سے علوی ہیں۔ آپ کو عباس بن عبدالمطلب اور حسن بن علی (علیہما السلام) کے روضے میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ نے اپنے بعد چھ اولادیں چھوڑیں جن میں سب سے زیادہ افضل و کامل جعفر الصادق (علیہ السلام) تھے”۔
(الصواعق المحرقہ، ص548-549)
عبداللہ بن عطاء
امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) کے صحابی اور مشہور محدث عبداللہ بن عطاء بن ابی ریاح کوفی جو عہد باقری کی نمایاں علمی شخصیت سمجھے جاتے تھے ـ نے کہا ہے: مَا رَأَيْتُ اَلْعُلَمَاءَ عِنْدَ أَحَدٍ أَصْغَرَ عِلْماً مِنْهُمْ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ میں نے کہیں بھی علماء کو اس قدر "چھوٹا” نہیں پایا جتنا کہ میں نے انہیں ابو جعفر [امام باقر(علیہ السلام)] کی بارگاہ میں علمی لحاظ سے "چھوٹا” پایا”۔
(تذکرۃ الخواص، ص337 ، الإرشاد، ج2، ص160؛ کشف الغمۃ، ج2، ص329 ، بحار الانوار، ج46، ص286، ح2)
شمس الدین الذہبی
شمس الدین الذہبی کے بارے میں رقم طراز ہے:وَكَانَ أَحَدَ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ العِلْمِ وَالعَمَلِ، وَالسُّؤْدُدِ وَالشَّرَفِ، وَالثِّقَةِ وَالرَّزَانَةِ، وَكَانَ أَهْلاً لِلْخِلاَفَةِ
سیر اعلام النبلاء، ج4، ص402
https://ur.abna24.com/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button