شخصیاتمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

فضائل فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ایک جھلک

حضرت سیدہ کساء ؑ اور مباہلہ کے افراد میں سے ایک فرد ہیں نیز آپ کا تعلق ان افراد سے ہے جنہوں نے سخت ترین حالات میں ہجرت کی تھی۔اور آپ ؑ ان پاکیزہ ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی طہارت کی گواہی کے لئے اللہ تعالی ٰ نے آیت تطہیر نازل فرمائی اور جبرئیل امین نے جن کے ساتھ چادر میں شامل ہونے کو اپنے لئے اعزاز تصور کیا ۔
آپ کا تعلق صادقین کی اس جماعت سے ہے جن کے ساتھ تمسک کی قرآن نے تاکید کی ہے آپ گیارہ ائمہ طاہرین کی والدہ ماجدہ ہیں اور آپ پیغمبر خداؐ کی وہ یاد گار ہیں جس سے اللہ نے نسل رسول کو قیامت تک لئے جاری فرمایا ۔ اور آپ اولین و آخرین کی سردار ہیں ۔ آپ گفتار و رفتار میں پیغمبر خداؐ کی ہو بہو شبیہ تھیں ۔آپ کا کردار پیغمبر خدا کے کردار کا آئینہ تھا ۔آپ کی چال رسول خداؐ کی چال دکھائی دیتی تھی۔
رسول خدا ؐآپ کو آتے ہوئے دیکھ کر گرم جوشی سے آپ کا استقبال کرتے تھے ۔آپ کے ہاتھوں کا بوسہ لیا کرتے تھے اور اپنی مسند پر بٹھایا کرتے تھے اسی طرح جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دختر کے ہاں تشریف لے جاتے تو سیدہؑ بھی گرمجوشی سے ان کا استقبال کرتی تھیں اور ان کے ہاتھوں کے بوسہ لیتی تھیں ۔پیغمبراکرم ؐ ان سے بے حد پیار کرتے تھے ۔جب بھی آپ ؑخشبوئے جنت کے مشتاق ہوتے تو آپ سیدہ ؑ کے وجود اطہر کی خوشبو کو سونگھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے:
”فاطمۃ بضعۃ منی من سرھا فقد سرنی و من سائھا فقد سائنی“
فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔
””فاطمۃ اؑعز الناس الیّ“ (تمام لوگوں میں سے فاطمہؑ مجھے زیادہ عزیز ہے) اور کبھی کبھی آپ اپنی محبت کا اظہار ان الفاط سے کیا کرتے تھے ”یا حبیبۃ ابیھا“( اے اپنے والد کی محبوب ترین شخصیت !)
طبری امامی نے امام محمد باقر ؑ سے اور انہوں نے اپنے آبا ئے طاہرین سے نقل کیا کہ فاطمہ ؑ نے فرمایا کی رسول خدا ؐنے ایک دفعہ ان سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا ۔
”یا حبیبۃ ابیھا کل مسکر حرام و کل مسکر خمر “
اے اپنے والد کی محبوب ترین شخصیت ! ہر مدہوش کرنے والی چیز حرام ہے اور ہر مدہوش کرنے والی چیز نشہ آورہے۔
فاطمہ (س) کی گفتگو نشاط پیغمبر ؐ کا ذریعہ تھی:
جب سورہ مبارکہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی
” لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا”(سورہ نور آیت 63)
"مسلمانو! خبردار رسول خدا ؐ کو اس طرح نہ پکارا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو.”
حضرت فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا کابیان ہے کہ میں اس آیت مجیدہ کے نازل ہونے کے بعد اپنے والد محترم کو” یا رسول اللہ “کہہ کر پکارنے لگی۔لیکن آنحضرت ؐ میری زبان سے ”یا رسول اللہ “کی بجائے ”یا ابتا “سننے کے مشتاق تھے۔ تین بار تو میں نے انہیں یا رسول اللہ کہہ کر پکارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا اور جب چوتھی بار میں نے انہیں یا رسول اللہ کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے میری طرف رخ انور کرکے فرمایا:
"یا فاطمۃ انھا لم تنزل فیک ،ولا نسلک ،وانت منی انا منک ،انما نزلت فی اھل الجفاء والغظۃ من قریش ،اصحاب البذخ والکبر۔ "
فاطمہ یہ آیت تیرے ، تیرے اہل اور تیری نسل کے لیے نازل نہیں ہوئی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ۔یہ آیت قریش کے بے رحم اور ان جیسے دیگر متکبر اور خود پسند افراد کے لیے نازل ہوئی ہے ۔
پھر آپ نے فرمایا: قولی لی یا ابہ ! فانھا احییٰ للقلب وارضیٰ للرب۔
تو مجھے جان کہہ کر پکارا کر،تیرا ابا جان کہہ کر پکارنا میرے دل کو زیادہ زندہ رکھنے والا اور خدا کو زیادہ راضی کرنے والا ہے ۔
مصباح الانوار میں امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ فاطمہ زہرا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ” من صلی علیک غفراللہ لہ والحقہ بی حیث کنت من الجنۃ “
جو کوئی تجھ پر درودبھیجے گا اللہ تعالی اس کی مغفرت کرے گا اور جنت میں اسے میرے مقام میں ملحق فرمائے گا۔
فرشتے اور خدمت زہرا (س):
قطب راوندی نے کتاب الخرائج میں سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ سیدہ سلام اللہ علیہا چکی پیس رہی ہیں اور جَو کا آٹا تیار کر رہی ہیں ۔ میں نے چکی کے دستے کو دیکھا تو وہ مجھے خون آلود نظر آیا۔ امام حسین علیہ السلام جو کہ اس وقت طفل شیرخوار تھے۔ اور بھوک کی وجہ سے بلک رہے تھے۔ میں نے عرض کی :سیدہؑ آپ اتنی زحمت کیوں اٹھا رہی ہیں جبکہ آپ کے پاس آپ کی خادمہ فضہ موجود ہے؟
حضرت سیدہ ؑنے فرمایا : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نصیحت کی تھی کہ گھر کے کام ایک دن میں کروں اور ایک دن فضہ کرے گی۔فضہ نے کل کام کیا تھا اور آج میری باری ہے۔ سلمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کیا: سیدہ ؑمیں بھی تو آپ کا غلام ہوں ۔میں آپ کی خدمت کے لیے آمادہ ہوں۔ آپ چاہیں تو میں آپ کی بجائے چکی پیسنے کو تیار ہوں اور اگر آپ چکی پیسنا چاہیں تو میں حسین علیہ السلام کو اٹھاتا ہوں ۔
حضرت سیدہ نے فرمایا : میں حسینؑ کی بہتر طور پر نگہداشت کر سکتی ہوں ۔ میں حسین ؑ کو اٹھاتی ہوں اور تم میری چکی چلاؤ ۔ سلمان کہتے ہیں کہ میں نے کچھ دیر تک چکی چلائی اور جَو کا آٹا پیستا رہا پھر نماز کیلئے اذان کی آواز بلند ہوئی تو میں نماز کیلئے مسجد کی طرف چل آیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی ۔نماز کے بعد میں نے حضرت علی علیہ الصلاۃ والسلام کو ماجرا کہہ سنایا۔ حضرت علی علیہ السلام یہ سن کر رودیئے اور مسجد سے اٹھ کر چلے گئے ۔تھوڑی دیر بعد ہی علی علیہ الصلاۃ والسلام مسکراتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا: میں فاطمہؑ کے پاس گیا اور وہاں جاکر دیکھا کہ فاطمہ ؑسوئی ہوئی ہے اور حسین ؑان کے سینے پر سو رہا ہے اور چکی خود بخود چل رہی ہے۔ یہ سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:
يا علي اما علمت ان لله ملائكه سيارۃ في الارض يخدمون محمد وال محمد الى ان تقوم الساعه :
علیؑ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو کہ زمین پر پھرتے رہتے ہیں تاکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد کی خدمت کریں۔ اور وہ قیامت قائم ہونےتک خدمت کرتے رہیں گے۔
عبادت زہرا سلا م اللہ علیھا:
حسن بصری کا قول ہے کہ امت میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے کوئی بڑا عابد نہیں گزرا۔ آپ اتنی عبادت کرتی تھیں کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا تھا رسول اکرم ؐنے ایک بار حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا: عورت کے لیے کیا چیز بہتر ہے ؟ جناب سیدہ ؑ نے جواب میں عرض کیا : ان لا ترى رجلا ولا يراها رجل "
"وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور کوئی غیر مرد اسے نہ دیکھیں "۔
حاشیہ: علامہ اقبال نے اسی نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین اسلام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:
اگر پندی زدرویشی پذیری ہزار امت بمیرد اور تو نمیری
بتول باش و پنہاں زشو از این عصر کہ در آغوش شبیر ؑے بگیری
"اگر تو درویش کی نصیحت قبول کر لے تو ہزار امتیں مر جائیں گئیں لیکن تو نہ مرے گی۔ بتول بن جا اور اس زمانہ سے چھب جا تاکہ تیری آغوش میں بھی شبیر ؑ آ سکے۔”
آنحضرت نے جیسے ہی اپنی دختر کا جواب با صواب سنا تو آپ ؐنے انہیں سینے سے لگایا اور یہ آیت پڑھی”ذریۃ بعضھا من بعض“ وہ ایک ایسا خاندان تھا ( کہ تقوی وفضیلت کے لحاظ سے )وہ ایک دوسرے سے تھے۔ ۔۔(آل عمران۔ 34 )
امام حسن مجتبی علیہ السلام کا بیان ہے کہ ایک شب جمعہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ کو محراب عبادت میں دیکھا وہ تمام رات رکوع و سجود میں مصروف رہیں۔ یہاں تک کہ سفیدی سحر نمودار ہوگی۔ اور اس دوران میں میری والدہ مومنین و مومنات کے نام لے لے کر ان کے حق میں دعائیں کرتی رہیں مگر انہوں نے اپنے لئے کوئی دعا نہ کی۔ میں نے کہا اما جان !آپ نے اپنے لیے دوسروں کی طرح دعانہیں مانگی؟
حضرت سیدہ ؑنے فرمایا :یا بنی الجار ثمّ دار: بیٹا پہلے ہمسایہ ،پھر اپنا گھر۔
مرحوم شیخ صدوق نقل کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ۔
"جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی بھی ہے کی اس میں جو بھی مسلمان اللہ سے کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالی اس کی دعا ضرور قبول کرتا ہے اور اس کی حاجت پوری کرتا ہے “۔
میں نے پوچھا کہ وہ کونسی گھڑی ہیں ؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس وقت سورج کا غروب ہو چکا ہو اور ظاہر ہو ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ چھت پر چڑھ جاؤ اور جب دیکھو کہ سورج افق مغرب میں آدھا ڈوب جائے اور آدھا ظاہر ہو تو مجھے اطلاع دینا اس وقت خدا سے دعا کروں گی ۔
روایت میں ہے کہ جب حضرت سیدہؑ محراب عبادت میں مصروف عبادت ہوتی تھیں تو آپ کے نور کی کرنیں اہل آسمان کے لئے جگمگاتی تھی جیسا کہ ستاروں کا نور اہل زمین کے لئے جگمگاتا ہے۔
حضرت زہرا (س) کی کنیز کا تکلم باقرآن:
ابوالقاسم ہم قشیری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی کنیز حضرت فضہ سفر حج میں اپنے کاروان سے بچھڑ گئی اور انہیں بیابان میں تنہا سفر کرنا پڑا۔ عبداللہ بن مبارک جو کہ ان کی طرح سے قافلے سے بچھڑ گئے تھے اتفاق سے ان کی حضرت فضہ سے ملاقات ہوئی اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے بیابان میں ایک خاتون کو دیکھا تو میں نے ان سے کہا: تم کون ہو؟
خاتون :و قل سلام فسوف یعلمون (زخرف ۸۹ ) آپ سلام کہیں پھر عنقریب وہ جان لیں گے۔ اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ خاتون سلام کا مطالبہ کر رہی ہے۔ عبداللہ نے خاتون پر سلام کیا اور پوچھا: آپ بیابان میں تنہا کیا کر رہی ہیں اور کیا آپ کو اپنے بھٹکنے کا اندیشہ نہیں ہے خاتون؟ :و من یھد اللہ فمالہ من مضل (زمر 37 )جسے خدا ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ اس آیت سے مجھے یہ پتہ چلا کہ خاتون کا خدا پر گہرا یقین ہے ۔ عبداللہ: آپ کا تعلق انسانوں سے ہے یا جنات سے ہے ؟ خاتون :یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد (اعراف 31) اے بنی آدم ہم ہر نماز کے وقت زینت کرو۔ اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ خاتون کا تعلق بنی آدم سے ہے۔ عبداللہ: آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ ینادون من مکان بعید۔(فصلت۔ 44) انہیں دور دراز مقام سے بلایا جاتا ہے ۔اس آیت سے میں سمجھ گیا کہ خاتون کسی دور دراز مقام سے آرہی ہیں۔
عبداللہ: آپ کس شہر سے آرہے ہیں؟ خا تون: یا اھل یثرب لا مقام لکم ( الاخزاب 13 )اے اہل یثرب تمہارا ٹھکانہ کہیں نہیں ہے اس آیت سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ خاتون مدینہ منورہ سے آرہی ہیں ۔
عبداللہ: آپ کہاں جانا چاہتی ہیں ؟خاتون:و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (العمران۔ ۹۷ ) جو حج بیت اللہ کی استطاعت رکھتا ہو اس پر حج واجب ہے ۔اس آیت سے مجھے معلوم ہو گیا کہ خاتون سفر حج پر جارہی ہیں ۔ عبداللہ: آپ کو کاروان سے بچھڑے ہوئے کتنے دن ہوئے ہیں؟خا تو ن: و لقد خلقنا السماوات و الارض فی ستۃ ایام (ق۔ 38)بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۔اس آیت سے مجھے معلوم ہو گیا کہ اس خاتون کو قافلے سے جدا ہوئے چھ دن گزر چکے ہیں ۔ عبداللہ: کیا آپ اس وقت کچھ کھانا پسند کریں گی؟ خاتون :وَمَا جَعَلنَا ھُم جَسَداََ اَلاَ یا کُلُونَ الَطعامَ( انبیاء۔ ۸)اور ہم نے انہیں ایسے جسم نہیں دیئے کہ وہ تو طعام نہ کھاتے ہوں۔
اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ خاتون کھانا چاہتی ہیں میں نے انہیں کھانا کھلایا اور پھر ان سے کہا کہ جلدی کریں اور تیز تیز قدم بڑھائیں۔ خاتون :لا یُکلِّفُ اللہُ نَفساَ اِلَّا وُسعَھَا۔(البقرہ ۔286 ) اللہ کسی بھی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔اس آیت سے میں سمجھ گیا کہ خاتون تھک چکی ہیں اور ان میں زیادہ تیز چلنے کی سکت باقی نہیں ہیں۔ عبداللہ: آپ میرے ساتھ اونٹ پر سوار ہوجائیں ۔خاتون :لَو کَانَ فِیھِمَا اآلِھَۃ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۔(انبیاء۔ 22 ) اگر زمین اور آسمان میں زیادہ خدا ہوتے تو زمین اور آسمان تباہ ہو جاتے ۔اس آیت سے میں نے سمجھ لیا کہ خاتون میرے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتیں پھر میں نے اونٹ سے اترا اور انہیں اکیلا سوار کیا، جب وہ اونٹ پر بیٹھ گئیں تو انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی” سُبحَانَ الَّذِی سَخَّرَلَنَا ھَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقرِنِین”( زخرف ۔13 ) پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس نے اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کر دیا ہے ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں لا سکتے تھے۔ پھر ہم چلتے ہوئے کاروان سے جا ملے تو میں نے خاتون سے پوچھا کہ اس قافلہ میں تمہارا کوئی رشتہ دار بھی موجود ہے؟
خاتون نے جواب میں یہ آیت پڑھی:یَا دَاوُد ُ اِن جَعَلنَاکَ خَلِیفَۃ فِی الاَرضِ (ص۔ 26 )اے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا۔ و ما محمد الا رسول (عمران۔ 144 )محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بس رسول ہیں۔ یا یحٰیی خُذِ الکِتَابَ بِقُوَّۃ ۔ (مریم آیت 12 )یحیٰ کتاب کو مضبوطی سے تھا۔ یَا مُوسیٰ اِنِّی اَنَا اللہ ( قصص ۔ 30) ۔ اے موسی بے شک میں اللہ ہوں ۔چنانچہ میں نے داؤد ، محمد، یحییٰ، اور موسٰی کو پکارا تو چار جوان اس قافلہ سے نکل کر خاتون کے پاس آئے۔
پھر میں نے اس خاتون سے پوچھا کہ یہ نوجوان آپ کے کیا لگتے ہیں ؟ خا تون :اَلمَالُ وَ البَنُونَ زِینَۃُ الحَیَاۃِ الدُّنیَا۔(الکہف ۴۶)مال اور بیٹے دنیوی زندگی کی زینت ہے اس آیت سے مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ خاتون ان جوانوں کی والدہ ہیں ۔ پھر اس خاتون نے اپنے دو بچوں کو صدا دے کر فرمایا:
یا ابت استاجرہ ان خیر من استاجرت القوی الامین (قصص،26)
ابا جان !آپ اس کو اجرت دیں کیونکہ آپ جس کو اجرت دیں گے وہ قوی اور امین ہیں۔ اس آیت کو سن کر میں نے سمجھ لیا کہ خاتون اپنے بیٹوں کو حکم دے رہی ہیں کہ مجھے اس زحمت پر کچھ اجرت دیں چنانچہ ان جوانوں میں کچھ رقم میرے حوالے کی تو ان کی والدہ نے کہا :وَاللہُ یُضٰعِفُ لَمَن یَّشَا۔ یعنی اللہ جس سے کے لئے چاہتا ہے بڑھاتا ہے (البقرہ۔261 )اس آیت سے میں نے اندازہ لگایا کی خاتون اپنے بیٹوں کو اس رقم سے دوگنی رقم دینے کا حکم دے رہی ہیں۔ چنانچہ ان جوانوں نے مجھے زیادہ رقم دی۔ جب میں ان سے جدا ہونے لگا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے ان جوانوں نے بتایا کہ یہ ہمارے والد ہ فضَّہ ہیں ۔اور یہ زہراء سلام اللہ علیہا کی کنیز ہیں انہیں بیس برس ہوئے ہیں کہ قرآن کے علاوہ انہوں نے کوئی کلام نہیں کیا۔
کتاب ” بیت الاحزان” سے اقتباس (مصنف: محدث اکبر شیخ محمد عباس قمی ؒ)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button