سلائیڈرمقالات قرآنی

گناہ گاروں کے لئے رحمت خدا ہی امید کی کرن ہے۔

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
1۔ قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿الزمر:۵۳﴾
کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔
تشریح کلمات
قنط :( ق ن ط ) قنوط راغب کے مطابق کسی خیر سے ناامید ہونا۔ دیگر نے خیر کی قید نہیں لگائی۔
تفسیر آیات
۱۔ قُلۡ یٰعِبَادِیَ: اے میرے بندو۔ محبت بھرا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ میرے بندو کہہ کر ندا دینے میں ایک امید، ایک نوید رحمت ہے۔ عبادی کی تعبیر میں بندگی اور عبودیت کے رشتے کی طرف اشارہ ہے جو عبد اور معبود میں قائم ہے۔ جس کے تحت عبد کی ذمہ داری اطاعت و بندگی ہے اور مولا کے ذمے رحمت و مغفرت ہے۔
۲۔ عبادی: اس جگہ عبادی سے مراد تمام انسان ہیں، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مسلم، غیر مسلم سب کے لیے عبادی کی تعبیر اختیار فرمائی ہے:
وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ﴿۱۳﴾ (۳۴ سباء: ۱۳)
اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔
اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۱۸)
اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔
بعض نے تو یہ کہا ہے کہ عبادی سے مراد صرف مشرکین ہیں۔
۳۔ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ: اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے۔ اس میں بھی مسلم اور مشرک دونوں شامل ہیں۔ شرک، اسراف علی النفس میں سرفہرست ہے۔
۴۔ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ مایوس نہ ہونے کا حکم عام ہے۔ سب گناہ گاروں کے لیے لیکن یہ عام ہے ان لوگوں کے لیے جو رحمت الٰہی کے طالب ہوں اور جو لوگ اللہ کی رحمت کے طالب ہی نہیں ہیں ان کے لیے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ لہٰذا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم دنیوی زندگی میں مؤمن اور مشرک دونوں کے لیے ہے جب توبہ کر کے اللہ کی رحمت کے طلبگار ہوں۔ یہ توبہ موت سامنے آنے سے پہلے ہونی چاہیے۔ ارشاد فرمایا:
وَ لَیۡسَتِ التَّوۡبَۃُ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡـٰٔنَ وَ لَا الَّذِیۡنَ یَمُوۡتُوۡنَ وَ ہُمۡ کُفَّارٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۸﴾ (۴ نساء: ۱۸)
اور ایسے لوگوں کی توبہ (حقیقت میں توبہ ہی) نہیں جو برے کاموں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچتا ہے تو وہ کہ اٹھتا ہے: اب میں نے توبہ کی اور نہ ہی ان لوگوں کی (توبہ قبول ہے) جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
دیگر آیات میں ان لوگوں کے لیے عدم مغفرت کا ذکر ہے جو کفر و فسق کی حالت میں مرتے ہیں:
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِہِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَہَبًا۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۹۱)
جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی سے اس قدر سونا بھی، جس سے روئے زمین بھر جائے، ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ﴿۳۴﴾ (۴۷ محمد: ۳۴)
یقینا جنہوں نے کفر کیا اور راہ خدا سے روکا پھر کفر کی حالت میں مر گئے تو اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔
آخرت میں یہ نوید صرف مومن کے لیے ہے اور مشرک کے لیے آخرت میں مغفرت کا کوئی امکان نہیں ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۴۸)
اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا۔
۵۔ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ: اللہ کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے:
وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ( ۷ اعراف: ۱۵۶)
اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔
یہ رحمت دنیا میں مومن ،کافر، مشرک سب کو شامل ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی رحمت میں شمول کے لیے ضابطہ موجود ہے:
قَالَ وَ مَنۡ یَّقۡنَطُ مِنۡ رَّحۡمَۃِ رَبِّہٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوۡنَ﴿۵۶﴾ (۱۵ حجر:۵۶)
اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔
۶۔ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا: اللہ سب گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ چونکہ اللہ کی رحمت تمام گناہوں سے زیادہ وسیع ہے۔ دعا میں وارد ہے:
وَ رَحْمَتُکَ اَوْسّعُ مِنْ ذُنُوبِی۔۔۔۔ ( الکافی۲: ۵۸۰)
اور تیری رحمت میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے۔
لہٰذا کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو معاف نہ ہو سکے۔ حتیٰ شرک کا گناہ بھی معاف ہو جائے گا جو سب گناہوں سے بہت بڑا گناہ اور جرم ہے لیکن یہ مغفرت بے ضابطہ نہیں ہے۔
قاعدے اور ضابطے کے تحت سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں اور وہ ہے توبہ۔ توبہ کی صورت میں تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا، رحمت خدا سے مایوس وہ لوگ نہیں ہوں گے جو اس کی رحمت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو رحمت کا طالب ہی نہیں ہوتا اس کے لیے اس بات کی نوبت نہیں آتی کہ اس کے گناہ معاف ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ توبہ نہ کرنے والوں کا تو ذکر ہی نہیں ہے بلکہ وہ توبہ بھی قبول نہ ہو گی جو موت سامنے آنے کی صورت میں کی جائے جیسا کہ پہلے ذکر ہو گیا جس کی صراحت سورہ نساء آیت ۱۸ میں موجود ہے۔ لہٰذا وہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے جو کہتا ہے کہ آیت میں مشرک کے علاوہ سب شامل ہیں، خواہ توبہ کریں یا نہ کریں۔
روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اسْتَغْفِرُوا بَعْدَ الذَّنْبِ اَسْرَعَ مِنْ طَرْفَۃِ عَیْنٍ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْاِنْفَاقِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِکَظْمِ الْغَیْظِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْعَفْوِ عَنِ النَّاسِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْاِحْسَانِ اِلَیْھِمْ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِتَرْکِ لْاِصْرَارِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالرَّجَائِ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ۔ (مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۲۴)
گناہ کرنے کے بعد چشم زدن میں مغفرت مانگو۔ نہ ہو سکے تو راہ خدا میں کچھ خرچ کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو غصہ پی کر مانگو۔ نہ ہو سکے تو لوگوں کو معاف کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو لوگوں پر احسان کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو اصرار کرنا ترک کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو امید رکھ کر مانگو: لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:
ما فی القرآن ایۃ اوسع من یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا۔۔۔۔ (کنز العمال ۲: ۴۹۲)
قرآن میں اس آیت سے زیادہ گنجائش والی آیت موجود نہیں ہے: یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا۔۔۔۔
اہم نکات
۱۔ یہ بندہ خود رحمت خدا کے لائق نہیں بنتا ورنہ اللہ کے نزدیک سب لائق رحمت ہیں۔
۲۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 432)
2۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿النساء:۱۱۰﴾
اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔
تفسیر آیات
راہ حق سے بھٹکنے والوں کے لیے باب رحمت کھلا ہے۔ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کے لیے وسیلۂ استغفار ہر وقت موجود ہے۔
آیت میں دو گناہوں کا ذکر ہے، برائی اور ظلم۔ ان دونوں کا فرق بیان کرنے والے مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں، برائی وہ گناہ ہے جو کسی اور شخص کے ساتھ برائی کی ہو اور ظلم اپنے نفس پر کیا ہو۔ بعض دیگر کہتے ہیں۔ سُوۡٓءًا گناہ کبیرہ ہے اور ظلم گناہ صغیرہ۔ بعض بالعکس کہتے ہیں۔ ان میں بہتر تفسیر یہ ہے کہ سُوۡٓءًا (برائی) سے مراد وہ زیادتی ہو سکتی ہے جو انسان دوسروں کے ساتھ کرتا ہے اور ظلم بہ نفس سے مراد احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہے۔ و العلم عند اللہ ۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 396)
3۔ وَ رَبُّکَ الۡغَنِیُّ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفۡ مِنۡۢ بَعۡدِکُمۡ مَّا یَشَآءُ کَمَاۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ ذُرِّیَّۃِ قَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ﴿الانعام: ۱۳۳﴾ؕ
اور آپ کا رب بے نیاز ہے، رحمت کا مالک ہے، اگر وہ چاہے تو تمہیں ختم کر کے تمہاری جگہ جسے چاہے جانشین بنا دے جیسا کہ خود تمہیں دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔
وَ رَبُّکَ الۡغَنِیُّ ذُو الرَّحۡمَۃِ: اللہ تعالیٰ بے نیاز اور رحمت کا مالک ہے لہٰذا وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا
کیونکہ کسی پر ظلم و زیادتی وہ کرے گا جو ضرورت مند اور محتاج ہو یا بلا ضرورت بھی ظلم صادر ہو سکتا ہے، اگر اس کے پاس رحم کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ایک طرف تو عالمین سے بے نیاز ہے، اسے کسی چیز کی ضرورت ہے نہ کسی سے کوئی خوف ہے اور دوسری طرف اللہ رحمت کا مالک ہے۔ حدیث کے مطابق اس کی رحمت تو غضب سے پہلے کارفرما ہوتی ہے۔ ( یا من سبقت رحمتہ غضبہ ۔ بحار الانوار ۸۷: ۱۵۷ ۔ صحیح مسلم کتاب التوبۃ ) بے نیازی اور رحمت صرف ذات الٰہی میں مجتمع ہے۔
4۔ قُلۡ لِّمَنۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ ؕ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿الانعام:۱۲﴾
ان سے پوچھ لیجیے: آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ کہدیجئے: (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے، اس نے رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ضرور بہ ضرور جمع کرے گا جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
تفسیر آیات
۱۔ قُلۡ لِّمَنۡ مشرکین جب اس بات کو تسلیم کر لیتے تھے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے تو ان پرحجت قائم ہو گئی کہ پھر اللہ کو چھوڑ کر تم بتوں سے کیا لینا چاہتے ہو۔
۲۔ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ اللہ تعالیٰ نے خود رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے۔ واضح رہے رحمت، ذات الٰہی کا لازمۂ ذات ہے۔ ممکن نہیں ذات الٰہی ہو اور اس سے رحمت کا فیض جاری نہ ہو۔ اللہ کے بارے میں اہل علم میں یہ مقولہ مشہور ہے: لا انقطاع فی الفیض ۔ لہٰذا یہ بات ناقابل تصور ہے کہ ذات خداوندی سے فیض رحمت کا سلسلہ ایک لمحے کے لیے بھی بند ہو۔ لہٰذا کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قرارداد کے ذریعے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔ وہ ارحم الرٰحمین ہے۔ وہ انسان کی تخلیق میں رحیم ہے کہ انسان کو احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا۔وہ انسان کے لیے تسخیر کائنات میں رحیم ہے۔ وہ انسان کی تعلیم و تربیت میں رحیم ہے۔ اس کی ہدایت و رہنمائی میں رحیم ہے۔ عفو و درگزر میں رحیم ہے۔ قیامت کے دن قائم ہونے والی عدالت گاہ میں بھی رحیم و کریم ہے۔ اس رحیم و کریم رب کو چھوڑ کر بتوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟ جاہلیت جدید میں دولت و اقتدار والوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟
رحمت اللہ پر واجب ہے: خود اللہ نے اپنے ذمے رحمت کو واجب و لازم گردانا ہے، کسی اور کی طرف سے نہیں۔ لہٰذا اشعریہ کا یہ عقیدہ قطعاً فاسد ہے، جو کہتے ہیں: اللہ پر کوئی شے واجب نہیں ہے۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے، مؤمنین کو جہنم اور کفار کو جنت بھیج سکتا ہے، البتہ ایسا کرنے کا اللہ عادی نہیں ہے۔
لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اس رحمت الٰہی کا لازمہ ہے کہ اپنے بندوں کے نیک اعمال کا ثواب دینے کے لیے قیامت کے دن سب کوجمع کرتا ہے، پھر ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔
اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ اس وقت معلوم ہو جائے گا کہ ایمان نہ لانے والے اس رحمت سے محروم رہ کر کس قدر خسارے میں ہوں گے۔
رسول کریمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی۔ (اصول الکافی ۲: ۲۷۴۔ باب الذنوب)
میری رحمت میرے غضب سے پہلے ہے۔
اہم نکات
انسان کو اس رب سے ساری امیدیں رکھنی چاہئیں جو:
i۔ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے،
ii۔ جس نے رحمت کو اپنے ذمے لازم قرار دے دیا ہے۔ یہ رحمت، ذات الٰہی کا لازمہ ہے۔
iii۔ قیامت کے دن اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 20)
5؛ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ:
۱۔ قرآن کی ابتدا ذکر رحمت سے ہو رہی ہے۔ خود قرآن بھی اللہ کی عظیم رحمت ہے :
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۸۲ )
اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مؤمنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے۔
خود رسول کریم (ص) بھی اللہ کی عظیم رحمت ہیں:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۷﴾ (۲۱انبیاء:۱۰۷)
اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
رحمت کی اس غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم نے رحمت کو اپنی ذات پر لازم قرار دے رکھا ہے:
کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ (۶ انعام: ۵۴ )
تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔
۲۔ الرَّحۡمٰنِ ۔ بے پایاں رحم کرنے والا۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کس پر رحم کرنے والا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ اگر اس کا ذکر کر دیا جاتا تو خدا کی رحمانیت اسی کے ساتھ مخصوص ہو جاتی، جب کہ ذکر نہ کرنے سے اللہ کی رحمانیت کا دائرہ وسیع رہتا ہے۔ لفظ الرَّحۡمٰنِ ہمیشہ کسی قید و تخصیص کے بغیر استعمال ہوتا ہے یعنی رحمٰن بالمؤمنین نہیں کہا جاتا کیونکہ خدا فقط مؤمنین پر ہی رحم کرنے والا نہیں ہے:
فَاِنَّ کَلِمَۃَ الرَّحْمٰنِ فیِ جمیع موارد استعمالھا مَحْذُوْفَۃُ الْمُتَعَلَّقِ فَیُسْتَفَادُ مِنْھا الْعُمُوْمُ وَ أَنَّ رَحْمَتَہُ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ۔ (البیان : ۴۳۰)
لفظ الرَّحۡمٰنِ جہاں بھی استعمال ہوا ہے اس کا متعلق محذوف ہے، اسی لیے اس سے عمومیت کا استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے۔
۳۔ الرَّحۡمٰنِ اور الرَّحِیۡمِ کو بِسۡمِ اللّٰہِ جیسی اہم ترین آیت میں باہم ذکر کرنے سے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آجاتی ہے، کیونکہ الرَّحۡمٰنِ سے رحم کی عمومیت و وسعت وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (۷ اعراف:۱۵۶ ) ’’ اور میری رحمت ہرچیز کو شامل ہے‘‘ اور الرَّحِیۡمِ سے رحم کا لازمۂ ذات ہونا مراد ہے: کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۔ (۶ انعام : ۵۴) چنانچہ اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ہیں۔
۴۔ الرَّحۡمٰنِ اور الرَّحِیۡمِ ، رحم سے مشتق ہیں،جو احتیاج، ضرورتمندی اور محرومی کے موارد میں استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی شے کے فقدان کی صورت میں احتیاج، ضرورت اور پھر رحم کا سوال پیدا ہوتا ہے اور رحم کرنے والا اس چیز کا مالک ہوتا ہے جس سے دوسرا شخص (جس پررحم کیا جاتا ہے) محروم ہوتا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 193)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button