مکتوب مجالس

مجلس عزاء بعنوان شان حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا بزبان نبی خاتم ﷺ

سیدہ کونین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا وہ عظیم خاتون ہیں جن کی حقیقی معرفت معصومین کے پاس ہے جس کا حصول فقط قرآنی آیات اور احادیث معصومین کے سایہ میں ہی ممکن ہے ۔لہذا ایسی شخصیت کی حقیقی معرفت کا دعویٰ فقط انسان کامل ہی کر سکتا ہے۔حضرت فاطمہ زہرا(س) عالم اسلام کی ایسی با عظمت خاتون ہیں جنکی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضیلتوں کو قرآنی آیات اور معصومین(ع) کی روایات میں بارہا ذکر کیا گیا ہے ۔ لیکن ہم یہاں وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی کے مالک ہستی ختم الرسل رسول اکرم ﷺ کے قول و فعل کی روشنی میں فضائل و شان جناب فاطمہ زہراء علیھا السلام کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
احمد ابن حنبل جو مذاہب اربعہ میں سے ایک مذہب کے بانی اور پیشوا سمجھا جا تاہے آپ نے روایت کی ہے:
نظر النبی صلی الله علیه ( وآله ) وسلم الی الحسن والحسین والفاطمة فقال اناحرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم
(مسند احمد ج ۴ ص۴۴۲)
"پیغمبر اکرمﷺ نے جب امام حسن وحسین اور حضرت فاطمہ کی طرف دیکھا تو فرمایا جو تم سے عداوت اور دشمنی سے پیش آ ئے گا میں بھی اس سے دشمنی اور عداوت سے پیش آؤں گا اور جو تمہارے ساتھ صلح وصفا کے ساتھ پیش آئے گا تو میں بھی ان کے ساتھ صلح وصفا کے ساتھ پیش آؤں گا۔”
اس حدیث کی ما نند متعدد روایات اہل سنت کی معروف کتابو ں میں مو جود ہیں جن کانتیجہ یہ ہے کہ جو حضرت زہرا(س) اور حضرت امام حسنؑ وحسینؑ سے بغض رکھیں گے پیغمبر اکرمﷺ بھی ان سے عداوت اور بغض رکھیں گے جو ان سے دوستی اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے پیغمبر اکرمﷺ بھی ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں گے۔
فاطمہ زہراء علیھا السلام جنت کی خواتین کی سردار
حضرت پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
ان فاطمة سیدة نساء اهل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اهل الجنة
(ترجمہ ) بتحقیق حضرت فاطمہ جنت کی عورتوں کا سردار ہیں اور حسن وحسین جنت کے جوانوں کا سردار ہیں۔ (مسند احمد و صحیح ترمذی)
جناب ذہبی نے اپنی کتاب میزان الا عتدال جلد دوم میں دیگر دوسرے علماء نے خصائص الکبر ی جلد دوم کنزالعمال جلد ششم میں پیغمبر اکر مﷺ سے یوں روایت کی ہے:
"اول شخص ید خل الجنة فاطمة بنت محمد ۔”
سب سے پہلے جنت میں داخل ہو نے والی ہستی فاطمہ دختر محمد ہیں۔( میزان الا عتدال ج ۲ کنزا لعمال ج۶)
جناب محب الدین طبری نے اپنی سند کے ساتھ پیغمبر اکرمﷺ سے ذخائر العقبیٰ میں روایت کی ہے:
"اربع نسوة سیّدات عالمهن مریم بنت عمران وآسیة بنت مزاحم و خدیجة بنت خویلید وفاطمة بنت محمد ( صلی الله علیه وآله ) افضلهن عالما فاطمة( سلام الله علیها)
"چار عورتیں پوری کائنات کی عورتوں کی سر دار ہیں مر یم دختر عمران، آسیہ دختر مزاحم، خدیجہ دختر خویلد اورفاطمہ دختر پیغمبر ، ان میں سے بھی افضل فاطمہ زہرا ہیں۔” (یٰذخائر العقب)

جناب فاطمہ زہرا (س)کی ناراضگی حضرت پیغمبر اکر مﷺ کی ناراضگی ہے۔
اگر ہم حضرت زہرا ( سلام اللہ علیہا ) کے بارے میں پیغمبر اکرم ﷺ کے اقوال کو جمع کرے تو پیغمبر اکرم ﷺنے بہت ہی عجیب و غریب اور گہرے نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے انھیں میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ جو شخص حضرت زہرا کو ناراض کریں گے اور انھیں اذیت و آزار پہنچا ئیں گے ان سے پیغمبر اکرمﷺ کا ناراض ہو جانا حضرت زہراؑ کی ان سے ناراضگی کا نتیجہ ہے کیو نکہ متعدد روایتوں کے جملوں میں حضرت زہراؑ کی ناراضگی کو شرط کی حیثیت سے اور پیغمبر اکرمﷺ کی ناراضگی کو جزا کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔
چنانچہ اس مطلب کو جناب بخاری نے اپنی گراں بہا کتاب میں پیغمبر اکرمﷺ سے یوں روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:’‘ فاطمة بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی.”
یعنی فاطمہ زہراؑ میر ا ٹکڑاہے پس جو اس کو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (بخاری، ج ۵ ص ۳۶.)
اس روایت سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو مسلمان پیغمبر اکر مﷺ پر اعتقاد کا دعویداربھی ہو اور ساتھ ساتھ دولت سرائے حضرت زہرا علیھا السلام کے درواز ے کو جلانے،اور پہلو حضرت زہرا علیھا السلام کو زخمی کرنے اور فرزند حضرت زہرا علیھا السلام حضرت محسن کی شہادت کا باعث بھی ہو خود پیغمبر اکر مﷺ کی نظر میں اس کا کیا حشر ہوگا ۔
نیز احمد ابن حنبل نے مسند میں ترمذی نے اپنی کتاب صحیح ترمذی کے جلد دوم میں پیغمبر اکرمﷺ سے یوں روایت کی ہے پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:
”انما فاطمة بعضة منی یؤذنی ما اذاها ویغضبنی ما اغضبها۔
"فاطمہ زہراؑ میرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے جو اس کو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔” (کنز العمال ، فیض القدیر ، فضائل الصحابہ)
نیز دوسری کچھ روایات سے بخوبی استفادہ ہوجاتا ہے کہ جن سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ناراض ہیں ان سے خدا بھی ناراض ہے جن سے حضرت زہراؑ خوش ہیں خدا بھی ان سے خوش ہے، چنانچہ اس مطلب کو حاکم نیشاپوری اور باقی کچھ علماء اہل سنت نے یوں ذکر کیا ہے:
” یا فاطمة ان الله یغضب بغضبک ویرضی برضاک”
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا: اے فاطمہؑ (زہرا) خداوند تیری ناراضگی سے ناراض ہو جاتا ہے اور تیری خوشحالی سے خوش ہو جاتا ہے۔
(مناقب، میزان الاعتدال، ذخائر العقبیٰ ، اسد الغابہ، ج۵)
نیز فرات بن ابراہیم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:
” تدخل فاطمة ابنتی وذریتها وشیعتها فی الجنۃ وذالک قوله تعالیٰ (لایحزنهم الفزع الاکبر وهم فیما اشتهت انفسهم خالدون) هی واﷲ فاطمة وذریتها وشیعتها ”
"میری بیٹی فاطمہؑ اور ان کے فرزندان اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے جنت میں داخل ہوں گے کیونکہ خداوندعالم نے فرمایا کہ روز قیامت کے ہولناک عذاب اور سختی سے وہ لوگ غمگین نہ ہوں گے اور وہ لوگ جو جنت کے مشتاق ہیں وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے ان سے خدا کی قسم فاطمہؑ اور ان کے فرزندان اور ان کے پیروکار منظور ہیں۔” (تفسیر فرات ابن ابراہیم)
نیز حا کم نیشاپوری اور ابن مغازلی اور کچھ دیگر اہل سنت کے علماء نے پیغمبر اکر مﷺ سے روایت کی ہے ۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا :
"اذا کان یو م القیا مة نادی مناد من تحت الحجب یا اهل الجمع غضوا ابصارکم ونکسو ا رؤ سکم فهذه فاطمة بنت محمد (صلی الله علیه واله وسلم )ترید ان تمر علی الصراط”
"جب قیامت برپا ہو گی تو کوئی منادی ندا دے گا اے اہل محشر آنکھیں بند کرو اور سروں کو جھکاؤ کیو نکہ یہ پیغمبر اکر مﷺ کی بیٹی فاطمہؑ ہے جو صراط سے گزرنا چاہتی ہے ۔ (میزان الا عتدال اسدا لغابہ ، مستدرک الصحیحین)
فاطمہ علیھا السلام سیدۃ النساء العالمین
قال رسول‏ اللَّه صلى اللَّه عليه و آله وسلم:
"ابنتى فاطمه، و انها لسيده نساء العالمين فقيل: يا رسول‏اللَّه! اهى سيده نساء عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمۃ فهى سيده نساء العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه کمريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نساء العالمين”
"میری بیٹی فاطمہ علیھا السلام دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہے۔
پوچھا گیا: اے رسول خدا ﷺ! اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟
فرمایا: یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیھا السلام دونوں جہاں کی اولین اور آخرین، تمام عورتوں کی سردار ہے اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں جس طرح حضرت مریم علیھا السلام سے گفتگو کرتے تھے، وہ کہتے ہیں؛ اے فاطمہؑ اللہ تعالیٰ نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
(عوالم العلوم، ج 11، ص 99)
فاطمہ زہراء علیھا السلام سے رسول اکرم ﷺ کی محبت
"دخلت عائشۃ علی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) وھو یقبل فاطمۃ، فقالت لہ:اتحبھا یا رسول اللہ فقال (ص): ای واللہ، لو تعلمین حبی لھا لازددتِ لھا حباً”
حضرتِ عائشہ رسولِ خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپؐ فاطمہؑ کا بوسہ لے رہے تھے تو حضرت عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہؐ کیا آپؐ فاطمہؑ سے محبت کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم میں فاطمہؑ سے محبت کرتا ہوں اور اگر تم میری فاطمہؑ سے محبت کو جان لیتی تو تمہاری ان کیلئے محبت میں اضافہ ہوجاتا۔
(دلائل الامامۃ، ص147)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
"واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین،وھی بضعۃ منی وھی نور عینی،وھی ثمرۃ فؤادی،وھی روحی التی بین جنبی ،وھی الحوراء الانسیۃ، متیٰ قامت فی محرابھا بین یدی ربھا جل جلالہ زھر نورھا لملائکۃ السماء کما یزھر نور الکواکب لاھل الارض، ویقول اللہ عز وجل لملائکتہ: یا ملائکتی انظروا الی امتی فاطمۃ سیدۃ امائی، قائمۃ بین یدی ترتعد فرائصھا من خیفتی وقد اقبلت بقلبھا علی عبادتی،اشھدکم انی قد آمنت شیعتھا من النار۔۔۔”
"میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین تمام عورتوں کی سردار ہے اور فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے،میری آنکھوں کا نور ہے، میرے دل کا پھل ہے،میری وہ روح ہے جو میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے اور فاطمہؑ انسانی شکل میں حور ہے جو جب بھی اپنے رب کے سامنے محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اس کا نور آسمان کے ملائکہ کیلئے ایسے ہی چمکتا ہے جیسے زمین والوں کیلئے آسمان کے تارے چمکتے ہیں اور اس وقت اللہ اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ میری اس کنیز کی طرف دیکھو جو میری ساری کنیزوں کی سردار ہے جو میرے سامنے کھڑی ہے اور میرے خوف سے جس کا جسم کانپ رہا ہے اور اس کی ساری توجہ میری عبادت کی طرف ہے(اے میرے ملائکہ) میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی اس کنیز کے شیعوں کو جہنم سے امان عطا کر دی ہے۔”
(امالی شیخ صدوق،ص175 ،بحار الانوار،جلد43، ص172)
قال رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ):” أتاني جبرئيل قال : يا محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إنّ ربّك يحبّ فاطمة الزهراء سلام اللہ علیہا فاسجد , فسجدت , ثمّ قال : إنّ الله يحبّ الحسن والحسين فسجدت , ثمّ قال : إنّ الله يحبّ من يحبّهما۔”
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ: جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئےا اور مجھ سے کہا: اے محمد مصطفیٰ ﷺ خداوند تعالیٰ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے محبت کرتا ہے،لہذا تم سجدہ کرو، پس میں نے بھی سجدہ کیا، پھر اس نے کہا کہ: بے شک خداوند حسن اور حسین علیھما السلام سے بھی محبت کرتا ہے، پس میں نے دوبارہ سجدہ کیا، پھر اس نے کہا کہ: جو بھی ان دونوں سے محبت کرتا ہے، تو خداوند عالم ان سب سے بھی محبت کرتا ہے۔
(لسان الميزان :ج 3ص275)
قال رسول اللّه صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم أَحَبُّ أَهْلِي إِليَّ فاطِمَة۔سلام اللہ علیھا
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ: میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب، فاطمہ سلام اللہ علیھا ہے۔
(الجامع الصغير ج 1 ح 203 ص 37 الصواعق المحرقة ص 191 ينابيع المودّة ج 2 باب 59 ص 479. كنز العمّال ج 13 ص93
فاطمہ علیھا السلام کی ولادت کا اہتمام
عن الرضا قال : قال النبي (ص) "لما عرج بي إلى السماء أخذ بيدي جبرئيل فأدخلني الجنة فناولي من رطبها فأكلته فتحول ذلك نطفة في صلبي فلما هبطت إلى الارض واقعت خديجة فحملت بفاطمة ففاطمة حوراء إنسية فكلما اشتقت إلى رائحة الجنة شممت رائحة ابنتي فاطمة.”
امالی شیخ صدوق میں ہے کہ ہروی نے حضرت امام رضاؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی اکرمؐ نے بیان فرمایا کہ جب (شب معراج) مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو جبرائیلؑ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور مجھے جنت میں لے گئے پھر وہاں کے چند رطب مجھے دیے۔میں نے اسے کھایا تو اس نے میرے صلب میں مخصوص جوہرِ حیات کی شکل اختیار کرلی۔جب میں زمین پر واپس آیا تو اسی مخصوص جوہرِ حیات سے حضرت خدیجہؑ کے رحم میں حضرت فاطمہؑ کا حمل قرار پایا۔فاطمہؑ انسیہ حوراء ہے۔جب میں جنت کی خوشبوں سونگھنا چاہتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہؑ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔
(الاحتجاج – الشيخ الطبرسي – ج ٢ – الصفحة ١٩١، بحار الأنوارجلد : 43 ص : 4)
فاطمہ زہراء علیھا السلام کو فاطمہ کیوں نام دیا گیا؟
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
” انھا سمیت فاطمۃ لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا وَ ذُرِّیَتَھَا مِنَ النَّارِ ،مَن لَقَی اللہَ مِنھُم بِالتَّوحِیدِ وَ الاِیمَانِ لِمَا جِئتَ بِہِ
"ان کا نام اس لیے فاطمہؑ رکھا گیا ہے کیونکہ خداوند تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو، جس نے اللہ سے اس حال میں ملاقات کی کہ وہ اس کی وحدانیت پر اور جو کچھ میں نے پیش کیا ہے اس پر ایمان رکھتے ہوں ،جہنم سے محفوظ کر دے گا۔“
( بحار الانوار جلد 63 )
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلی: ھل تدری لم سمیت فاطمۃ؟قال علی! لم سمیت فاطمۃ یا رسول اللہ؟ قال: لانھا فطمت ھی وشیعتھا من النار”
"رسولِ خدا ﷺ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: یا علیؑ کیا آپ کو معلوم ہے کہ فاطمہؑ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا؟ مولائے کائناتؑ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ فاطمہؑ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا؟ تو رسولِ خداؐ نے فرمایا: کہ کیونکہ فاطمہؑ اور ان کے شیعوں کو جہنم سے دور رکھا گیا ہے”
(بحار الانوار،جلد 43، ص15)
بالاسانيد الثلاثة عن الرضا ، عن آبائه : قال : قال رسول الله إني سميت ابنتي فاطمة لان الله عزوجل فطمها وفطم من أحبها من النار. .
حضرت امام رضاؑ نے اپنے آبائے کرامؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہؑ اس لیے رکھا ہے کہ اللہ نے اس کو او ر اس کے دوستوں کو جہنم سے بالکل جدا رکھا ہے۔
( بحار الأنوارجلد : 43 ص :12)
فاطمہ علیھا السلام کی رضا و ناراضگی
قال رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
” ما رَضِيْتُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّي رَضِيَتْ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا”
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ:میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کبھی بھی کسی سے راضی نہیں ہوا، مگر یہ کہ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اس سے راضی ہو جائے۔
(مناقب الإمام علي لابن المغازلي: ص 342)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
"یا فاطمۃ: ان اللہ یرضی لرضاک ویغضب لغضبک”
بے شک اللہ آپ کے راضی ہونے سے راضی اور آپ کے غضب ناک ہونے سےغضب ناک ہوتا ہے۔
(احتجاج طبرسی ، ج:2 /ص: ۳۵۴، المستدرک، 3 / 167، الرقم : 4730)
قال رسول اللّه (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ): فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا بَضْعَةٌ مِنّي يَسُرُّنِي ما يَسُرُّها۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ:”سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو بھی اس کو خوش کرے گا، اس نے مجھے خوش کیا ہے”
(الصواعق المحرقة ص 180 و 232، مستدرك الحاكم معرفة ما يجب لآل البيت النبوي من الحق علي من عداهم ص 73 ينابيع المودّة ج 2 باب 59 ص 468)
قال رسول اللّه (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا بَضْعَةُ مِنّي فَمَنْ أَغْضَبَها أَغْضَبَنِي۔”
رسول خدا ﷺنے فرمایا ہے کہ:” سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا میرے تن کا ٹکڑا ہے، جو بھی اس کو ناراض کرے گا، اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔”
(صحيح البخاري ج 3 كتاب الفضائل باب مناقب فاطِمَة ص 1374، خصائص الإمام عليّ للنسائي ص 122، الجامع الصغير ج 2 ص 653 ح 5858،كنز العمّال ج 3 ص 93 ـ 97، منتخب بهامش المسند ج 5 ص 96، مصابيح السنّة ج 4 ص185، إسعاف الراغبين ص188، ذخائر العقبي ص 37، ينابيع المودّة ج 2 ص 52 ـ 79)
قال رسول اللّه (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ):”سیدہ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا بَضْعَةٌ مِنّي يُؤلِمُها ما يُؤْلِمُنِي وَيَسَرُّنِي ما يَسُرُّها۔”
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ:”سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو بھی اس کو تکلیف دے گا، اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جو بھی اس کو خوش حال کرے گا، اس نے مجھے خوشحال کیا ہے۔”
(مناقب الخوارزمي /ص 353)
قال رسول اللّه (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "یا سیدۃ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا! إِنّ اللّهَ يَغْضِبُ لِغَضَبَكِ۔”
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ: اے سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خداوند تیرے غضب ناک ہونے کی وجہ سے غضب ناک ہوتا ہے۔
(الصواعق المحرقة ص 175،مستدرك الحاكم، باب مناقب فاطمة، مناقب الإمام علي لابن المغازلي ص 351)
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی محبت کا ثمرہ
قال رسول الله (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : "يا سلمان ,رضی اللہ عنہ! حبّ فاطمة الزهراء سلام اللہ علیہا ينفع في مئة من المواطن , أيسر تلك المواطن : الموت , والقبر , والميزان , والمحشر , والصراط , والمحاسبة , فمن رضيت عنه ابنتي فاطمة , رضيت عنه , ومن رضيت عنه رضي الله عنه , ومن غضبت عليه ابنتي فاطمة , غضبت عليه , ومن غضبت عليه غضب الله عليه , يا سلمان ويل لمن يظلمها ويظلم بعلها أمير المؤمنين عليا , وويل لمن يظلم ذرّيتها وشيعتها۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ: اے سلمانؓ! سیدہ فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا کی محبت انسان کو 100 مقامات پر فائدہ دیتی ہے، کہ ان مقامات میں سے کم ترین اور آسان ترین مقام، مرتے وقت، قبر میں، میزان پر، محشر میں، پل صراط پر، اعمال کے حساب کتاب کے وقت، پس جس سے بھی میری بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا راضی ہو گی، تو میں بھی اس سے راضی ہوں گا اور جس سے میں راضی ہوں گا تو خداوند بھی اس سے راضی ہو گا، اور جس پر بھی میری بیٹی فاطمہ غضب ناک ہو گی تو میں بھی اس پر غضب ناک ہوں گا اور جس پر بھی میں غضب ناک ہوں گا تو خداوند بھی اس پر غضب ناک ہو گا۔
اے سلمانؓ وہ بدبخت اور اس کا برا حال ہو گا، جو اس (فاطمۃالزھراء سلام اللہ علیہا ) اور اس کے شوہر امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر ظلم و ستم کرے گا،اور وہ بھی بدبخت اور اس کا برا حال ہو گا، جو ان کی نسل اور ان کے محبوں پر ظلم و ستم کرے گا۔
(فرائد السمطين : 2 باب 11 ح 219، كشف الغمہ :ج 1ص467)
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی فاطمہ علیھا السلام کا کفو بننے کے لائق نہیں۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: "لولا علی لم یکن لفاطمہ کفو”
اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہؑ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا۔
(مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠٧، حدیث٣٨، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج٢، ص٦٨)
قال رسول اللّه (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يا عَلِي (علیہ السلام ) هذا جبريلُ (علیہ السلام ) يُخْبِرنِي أَنَّ اللّه (عزوجل )َ زَوَّجَك فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا”
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ: "اے علی علیہ السلام ابھی مجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ خداوند تعالیٰ نے سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی تزویج آپ سے کی ہے۔”
(مناقب الإمام علي من الرياض النضرة: ص 141)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button