سلائیڈرمکتوب مجالس

مجلس بعنوان: وجود آیہ کوثر فاطمہ علیھا السلام

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَفَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانۡحَرۡاِنَّ شَانِئَکَھوالۡاَبۡتَرُ
بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔
اس سورہ مبارکہ میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک اہم ترین خوشخبری ہے اور ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رسالت کی تکمیل اور تا قیامت باقی رہنے کی ضمانت کا اعلان ہے۔ وہ ہے الکوثر (خیر کثیر) کی عنایت۔ یہ خیر کثیر جناب سیدۃ نساء العالمین سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی پر منطبق ہے اور آج دین مبین اسلام کی بقا جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کی قربانیوں کی وجہ سے ہے اور جو کچھ اس وقت دامن اسلام مواقعہ یہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرینہ اولاد میں سے حضرت قاسم علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ علیہ السلام کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس پر کفار قریش نے خوشیاں منانا شروع کر دیں۔جب حضورؐ کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو ابو لہب دوڑتا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خبر خوشی کے ساتھ سنائی:
بتر محمد اللیلۃ
آج رات محمد لا ولد ہو گئے۔
ابن عباس کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ کے دوسرے فرزند حضرت عبد اللہ کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی باتیں کی تھیں۔ اسی طرح عقبہ بن ابی معیط نے بھی اسی قسم کی خوشیاں منانے کا مظاہرہ کیا تھا۔ عاص بن وائل نے ایسے موقع پر کہا تھا:
ان محمد ابتر لا ولد لہ یقوم مقامہ بعدہ فاذا مات انقطع ذکرہ استرحتم عنہ
محمد ابتر ہیں۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں جو ان کی جگہ پر کرے۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو ان کانام مٹ جائے گا اور تمہیں اس سے چھٹکارا ملے گا۔
اس موضوع پر روایات اس کثرت سے ہیں کہ کوئی منصف اس بات میں شک نہیں کرے گا کہ یہ سورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر یعنی لا ولد کہنے والوں کی رد میں نازل ہوئی ہے۔
( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر فخررازی۔ تفسیر قرطبی۔ تفسیر روح المعانی،الکوثر فی تفسیر القرآن و دیگر اہم تفاسیر)
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں اس میں لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سن کر باپ غصہ سے کانپنے لگتا تھا اور ان کے چہروں کا رنگ بدل جاتا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا کہ اگر اس میں کسی انسان کے فقط بیٹیاں ہی ہوتی تھیں تو اسے بے اولاد سمجھا جاتا تھا اور اس زمانہ کے دنیا پرست انسان اسے ایک عیب تصور کرتے تھے۔
لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ آپ کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ آپ کے کوئی اولاد نہیں ہے لہذا جب آپ دنیا سے چلے جائیں گے تو آپ کی نسل ختم ہو جائے گی اور آپ کی نبوت کا بھی کوئی نام و نشان باقی نہ رہے گا۔
اولاد نہ ہونے کی بنا پر آپ کی مذمت کرنے والا عاص بن وائل تنہا انسان نہیں تھا بلکہ وہ اس پورے جاہل اور انسانیت مخالف معاشرے کا ترجمان تھا جو اپنی طاقت کے ساتھ پیغمبر اسلام اور الہی تعلیم کی مخالفت کر رہا تھا۔
ان تمام برائیوں اور آخری پیغمبر کی نبوت کے مٹ جانے کے بیہودہ خیالوں کے جواب میں خداوند نے پیغمبر کو کوثر (فاطمہ) عطا کی، اور آپ کی شان میں سورہٴ کوثر کو نازل فرمایا۔ اگر اس سورہ کی تفسیر خیر کثیر بھی کی جائے تب بھی یہ سورہ حضرت زہرا ءکی ذات پر منطبق ہو گی، کیونکہ پیغمبر اسلام اور حضرت علی علیہ السلام کی نسل سے گیارہ امام حضرت زہرا کے ہی بیٹے ہیں۔ اور حجت خدا حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف جن کے وجود سے الله اس جہان کو عدل و انصاف سے پر فرمائے گا وہ بھی آپ کے ہی بیٹے ہیں۔ آج ہمیں دنیا کے ہر کونے میں پیغمبر اسلام کی اولاد نظر آ رہی ہے جن میں بہت سے جید علماء بھی ہیں یہ سب اولاد حضرت زہرا سلام اللہ علیھا ہی ہیں۔
یہ خیر کثیر ، یہ کوثر،اور یہ پاک و پاکیزہ نسل قیامت تک اسی طرح جاری رہے گی خدا کا شکر کہ پیغمبر کی نسل ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
البتہ بعض جن لوگوں کے لیے اہل بیت علیہم السلام کی کوئی بھی فضیلت قابل ہضم نہیں ہے وہ اس روایت کو بترعن قومہ محمد اپنی قوم سے کٹ گیا ہے کے معنوں میں لینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جو ان کثیر روایات کے مقابلے میں قابل اعتنا نہیں ہے اور سیاق آیت بھی اس رائے کی نفی کرتا ہے۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ ” کو ثر “ ایک عظیم جا مع ااور وسیع معنی رکھتا ہے۔اوروہ” خِیرکثیر و فراداں ہے“ او ر اس کے بہت زیادہ مصادیق ہیں۔ لیکن بہت سے بزرگ شیعہ علماء نے واضح ترین مصادیق میں سے ایک مصداق” فا طمہ زہرا“ سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کو سمجھا ہے۔ چو نکہ آیت کی شانِ نزول سے ظاہر ہے کہ دشمن پیغمبرِاکرم کو ابتر اور بلا عقب ہو نے سے متہم کرتے تھے۔ قرآن ان کی بات کی نفی کے ضمن میں کہتا ہے:” ہم نے تجھے کو ثر عطا کیا ہے“ اس تعبیر کا مطلب یہی بنتا ہے کہ یہ” خیر کثیر“ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہی ہیں کیو نکہ پیغمبر کی نسل اور ذریت اسی دُخترِ گرامی کے ذر یعے سا رے عالم میں منتشر ہوئی، جو نہ صرف پیغمبر کی جسمانی او لاد تھی بلکہ انہوں نے آپ کے دین اور اسلام کی تمام اقدار کی حفاظت کی اور اسے آنے والوں تک پہچایا۔ نہ صرف اہلِ بیت کے آئمہ معصومین، جن کی اپنی ایک مخصوص حیثیت تھی، بلکہ ہزارہا فرزندانِ فا طمہ عالم میں پھیل گئے، جن میں بڑے بڑے بزرگ علماء مئو لفین،فقہا،محدّ ثین، مفسّرین والا مقام، اور عظیم حکمران ہو گزرے ہیں جنہوں نے ایثار و قر بانی اور فدا کاری کے ساتھ دینِ اسلام کی حفاظت کی کو شش کی۔یہاں پر” فخر رازی“ کی ایک عمدہ بحث ہمارے سامنے آئی ہے جو اُس نے کوثر کی مختلف تفسیروں کے ضمن میں بیان کی ہے:تیسرا قول یہ ہے کہ یہ سورہ ان لوگوں کے ردّ کے عنوان سے نازل ہواہے جو پیغمبر اکرم کی اولاد کے نہ ہونے پر طعن و طنز،اور تنقید و اعتراض کرتے تھے۔ اس بنا ء پر سورہ کا معنی یہ ہوگا کہ خدا آپ کو ایسی نسل دے گا جو زمانئہ دراز تک باقی رہے گی غور تو کرو کہ لوگوں نے اہلِ بیت کے کتنے افراد کو شہید کیا لیکن اس کے با وجود دُنیا اُن سے بھری پڑی ہے جب کہ بنی اُمیہ میں سے( جو اسلام کے دشمن تھے) کوئی قابل ذکر شخص دنیا میں باقی نہیں رہا پھر آنکھ کھول کر دیکھ اور غور کر کہ فاطمہ کی اولاد کے در میان باقر و صادق و رضاو نفسِ ذکیہ جیسے کتنے عظیم اور بزرگ علماء ہوئے ہیں
روای کہتا ہے : میں حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور سلام عرض کیا ۔ آپ نے جواب میں فرمایا : میرے بابا نے اپنی زندگی میں مجھ سے فرمایا تھا کہ :
جو بھی تین دن تک مجھ پر اور تم (اہلبیت) پر سلام بھیجے اس پر جنت واجب ہے ۔روای کہتا ہے : میں نے حضرت زہرا سے عرض کیا کہ کیا یہ فضیلت صرف پیغمبر خدا اور آپ کی زندگی تک مخصوص ہے ؟ یا آپ اور آپ کے بابا کے بعد بھی یہ فضیلت باقی رہے گی ؟! آپ نے فرمایا : کوئی فرق نہیں ہے چاہے ہماری حیات میں کوئی ہم پر سلام بھیجے یا ہماری حیات کے بعد ۔
( مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص292، حدیث410)
امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں سورہ کوثر کے ذیل میں اس سورہ مبارکہ کے بارے میں متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوثر سے مراد آل رسول ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ سورہ رسول اسلام کے دشمنوں کے طعن و عیب جوئی کو رد کرنے کے لیے نازل ہوئی۔ وہ آپ کو ابتر یعنی بے اولاد، جس کی یاد باقی نہ رہے اور مقطوع النسل کو کہتے تھے۔ اس سورہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت کو ایسی بابرکت نسل عطا کرے گا کہ زمانے گزر جائیں گے لیکن وہ باقی رہے گی۔
دیکھیں کہ خاندان اہل بیت میں سے کس قدر افراد قتل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی دنیا خاندانِ رسالت اور آپ کی اولاد سے بھری ہوئی ہے جبکہ بنی امیہ کی تعداد کتنی زیادہ تھی لیکن آج ان میں سے کوئی قابل ذکر شخص وجود نہیں رکھتا۔ ادھر ان (اولاد رسول) کی طرف دیکھیں باقر، صادق، کاظم، رضا وغیرہ جیسے کیسے کیسے اہل علم و دانش خاندان رسالت میں باقی ہیں ۔
صاحب تفہیم القرآن فضائل اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہمیشہ تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس جگہ چند الفاظ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکرکے بعد ضمنی طور پر لکھتے ہیں:
اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ اولاد نرینہ سے محروم ہونے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپؐ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روش کرنے والی ہے، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے آپ کو وہ جسمانی اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایہ افتخار ہی حضورؐ کا انتساب ہے۔
تفسیر محاسن التاویل ۹:۵۵۵ میں لکھا ہے:
جو کچھ ہم نے اس سورہ کے شان نزول میں لکھا ہے۔ اسی لیے امام اللغۃ ابن جنی اس بات کے قائل ہو گئے کہ کوثر کی تاویل ذریت کثیرہ ہے اور یہ بات نہایت خوبصورت بات ہے اور سبب نزول سورہ کے ساتھ مناسبت بھی رکھتی ہے۔ ابن جنی نے شرح دیوان المتنبی میں ۔۔۔۔ لکھا ہے: ابو الفضل نے جو کچھ مجھے لکھایا ہے اس میں یہ بات بھی تھی: قریش اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن یہ کہتے تھے محمد ابتر ہو گئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ جب یہ فوت ہو جائیں گے تو ہمیں اس سے چھٹکارا مل جائے گا تو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا: اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ اور کثیر تعداد سے مراد ذریت ہے اور وہ اولاد فاطمہ ہے۔
عروضی کہتے ہیں:
اگر کوئی یہ کہے اولاد بیٹوں اور ماں باپ کی ہوتی ہے تو میں کہوں گا: یہ بات اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ۔۔۔۔ الی قولہ وَ یَحۡیٰی وَ عِیۡسٰی۔۔۔۔ (۶ انعام۔۸۴۔ ۸۵) اس آیت میں عیسیٰ کو ابراہیم علیہما السلام کی اولاد قرار دیا ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے باپ نہیں ہیں۔
۱۔ اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ: اس آیت میں لفظ اِنَّا عظمت پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب اپنے مقام کبریائی کے مطابق کوئی اہمیت کا حامل کام انجام دیتا ہے تو اپنی کبریائی کے مقام سے بات کرتا ہے اور اِنَّاۤ کی تعبیر اختیار فرماتا ہے جیسے:
اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ﴿﴾ (۵۴ قمر: ۴۹)
ہم نے ہر چیز کو ایک انداز کے مطابق پیدا کیا ہے۔
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا۔۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۲۴)
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۰۵)
(اے رسول) ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے۔
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۴۵)
ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے۔
لہٰذا اس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ایسی عظیم القدر نعمت عطا فرما رہا ہے جو اس کی شان کبریائی کے شایان شان ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا میں صرف گیارہ ائمہ ان میں ایک ہستی مہدی آخرالزمان عجل اللہ فرجہ دنیا کی تمام قابل تصور نعمتوں سے بڑی نعمت ہیں۔(تفسیر فخر الدین رازی، ج 23،ص 441)
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کو نور کیوں کہا گیا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحوم شیخ صدوق کی کتاب امالی میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ جب مجھے معراج ہوئی تو جبرائیل امین میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے گئے اور مجھے جنت کی ایک کجھور پیش کی ، میں نے اسے کھایا اور وہ میرے صلب میں پہنچ کر نطفہ میں تبدیل ہو گئی ۔ اسی سے فاطمہ زہرا وجود میں آئیں۔ لہذا فاطمہ جنتی نور ہیں ، میں جب جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔
ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں کہ اللہ نے آپ کے نور کو خلق کیا اور اسے اپنے عرش کی زینت بنایا۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا نور بلند مرتبہ مردوں کی صلبوں اور پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں رہا۔
ہاں! سب سے پہلے یہ نور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے وجود میں رہا اور بعد میں حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی طرف منتقل ہو گیا۔
جب حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا نور اس دنیا میں آیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل شاد ہو گیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ میری نسل فقط فاطمہ کے ذریعہ ہی آگے بڑھے گی اس لیے وہ ان سے بے حد محبت کرتے تھے اور احتراما آپ کو "ام ابیھا” کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہنچائی پیغمبر اسلام کا روز کا معمول تھا کہ جب نماز صبح کے لیے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر فرماتے تھے:
السلام علیک یا اھل بیت النبوة، انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button