سلائیڈرمناقب امام حسین عمناقب و فضائل

شخصیت و عظمت امام حسین علیہ السلام مفکرین عالم کی نگاہ میں

نواسہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ایک عالمی و آفاقی شخصیت ہیں۔ آپ کی شخصیت کی جامعیت و جاذبیت اور آفاقی پیغام نے دنیا کے ہر بالغ نظر اشخاص کو اپنی جانب متوجہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہر قوم و مذہب کی نابغہ روزگار شخصیات نے اپنی بساط کے مطابق آپ ؑ کی شخصیت ،آپ کی قربانی اور آپ کے پیغام کے بارے قلم اٹھانے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں۔ جس شخص نے آپ ؑ کی زندگی کو جس جہت سے مطالعہ کیا اس میں آپ ؑ کی ذات کو با کمال پایا۔ البتہ یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ آج تک کسی انسان نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے کتابت و خطابت کے اعتبار سے امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے ۔ اگر ان سب آراء کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ لہذا یہاں ہم اختصار کے ساتھ ادیان عالم کے چند ایک مشاہیر افراد کی باتوں کو نقل کریں گے۔ فی الحال ہمارے پیش نظر اہل سنت کے کچھ مشہور اکابرین اور غیر مسلم بعض مفکرین کے امام حسین ع کے بارے میں اظہار عقیدت کو بیان کرنا ہے۔
1۔مسلمان مفکرین
1۔ جلال الدین سیوطی( وفات 911ھ)
اصل نام عبد الرحمان ، لقب جلال الدین اور عرف ابن کتب تھا۔اہل سنت کے ایک مشہورمفسر، محدث،فقیہ اور مورخ تھے۔ آپ کی کثیر تصانیف ہیں، آپ کی کتب کی تعداد 500 سے زائد ہے۔تفسیر جلالین اور تفسیر درمنثور کے علاوہ قرآنیات پر الاتقان فی علوم القرآن علما ءمیں کافی مقبول ہے ۔ آپ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ا ندوہناک واقعے کو اس طرح بیان کیا۔
"امام حسین علیہ السلام کو روز عاشوراء قتل کیا گیا مگر اس دن کے بعد افق آسمان سرخ ہوگیا اور چھے ماہ تک ایسے محسوس ہوتا تھا کہ آسمان پر خون ہی خون ہے جو کہ قتل امام حسین علیہ السلام سے پہلے نہ تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیت المقدس کے جس پتھر کو اٹھا کر دیکھتے خون ظاہر ہوتا تھا”
2۔ ابن خلدون (پیدائش: 1332ء -وفات: 1406ء)
ابن خلدون عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ،فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ ان کا اصل نام عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون المالکی تھا۔ آپ امام حسین ؑ کے قیام کے بارے لکھتے ہیں:
” ظالم اور ستمگروں سے لڑنے کے لیے عادل امام کا ہونا شرط ہے اور حسینؑ اپنے زمانے کے عادل ترین فرد تھے اور اس جنگ کرنے کے حق دار تھے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب یزید کا فسق سب پر آشکار ہوا تو حسینؑ نے اس کے خلاف قیام کرنے کو اپنے او پر واجب سمجھا کیونکہ خود کو اس کام کا اہل سمجھتے تھے”۔( تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص217).
3۔ڈاکٹرطہٰ حسین:( جامعہ قاہرہ مصر)
اہل سنت کے مصنف ڈاکٹر طہ حسین بیسویں صدی کے موثر مصری ادبا اور دانشوروں میں سے ایک تھے۔ امام حسین ؑ کے قیام کے بارے ان کا کہنا تھا کہ "حسینؑ کا بیعت نہ کرنا ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یزید کی بیعت کرلیتے تو اپنے وجدان سے خیانت کا ارتکاب کرتےاور دین کی مخالفت کرتے، کیونکہ یزید کی بیعت ان کی نظر میں گناہ تھا۔امام حسین ؑ حق کے مقابلے میں چشم پوشی کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے ۔آپ تمام امور اسلامی میں انتہائی زیرک اور مدبرانہ فکر رکھتے تھے”۔(طہ حسین، علی و بنوہ، دارالمعارف، ص239)
4۔ عباس محمود عقاد( بیسویں صدی کے ایک مایہ نازمصری مفکر و ادیب اور شاعر تھے)
عباس محمود عقاد نے مستقلاً امام حسینؑ کی شخصیت پرکتابیں لکھی ہیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور کتاب ” ابو الشھداء الحسین ابن علی علیہما السلام "ہے۔
اپنی کتاب «ابوالشهداء، الحسین بن علیؑ» میں لکھتے ہیں ” یزید کے دور میں حالات اس نہج پر پہنچے تھے کہ شہادت کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اور اس کا کہنا تھا کہ ایسے قیام بہت کم لوگ کی طرف سے واقع ہوتے ہیں جو اسی کام کے لیے ہی خلق ہوئے ہیں ان کی تحریک کو دوسروں کی تحریک سے مقایسہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ کچھ اور طرح سے سمجھتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں”۔ وہ مزید لکھتے ہیں،
"انقلاب حسینیؑ تاریخ میں رونما ہونے والی انقلابی تحریکوں میں اپنی مثال نہیں رکھتے، چاہے اب تک انجام پانے والے دینی انقلاب ہوں یا سیاسی انقلاب۔ اس انقلاب کے بعد اموی حکومت ایک عام انسان کی عمر تک بھی قائم نہ رہ سکی، کیونکہ انقلاب حسینیؑ اور اموی حکومت کےسقوط کے دوران کم و بیش ساٹھ سال کی مدت ہے”( عقاد، ابوالشهداء، 1429ق، ص207.)

 

5۔عمر بن عبد اللہ فروخ ، (مشہور عمر فروخ):( لبنان سے تعلق رکھنے والا اہل سنت ادیب و مفکر)
موجودہ دور میں مسلمانوں کے لئے قیام امام حسین ؑ کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ”ظلم کے بارے میں سکوت کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، اور آج کے مسلمانوں کے لیے ضرورت اسی بات کی ہے کہ ہمارے درمیان ایک حسینی قیام کرے اور ہمیں سیدھے راستے میں حق کے دفاع کرنے کی رہنمائی کرے۔”( فروخ، تجدید فی المسلمین فی الإسلام، دار الكتاب العربی، ص152)
6۔ خواجہ معین الدین چشتی : ( ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں،)
"حسین(ع)، صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کا نام ہے‘ ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے‘ بقول خواجہ معین الدین چشتیؒ: شاہ است حسین(ع) بادشاہ است حسین(ع) دین است حسین(ع) دین پناہ است حسین(ع) سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین(ع)۔
7۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری:( سربراہ منھاج القران پاکستان)
منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کہتے ہیں کہ "شہادت امام حسین (ع) سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے۔ امت کو جو فیض حضور اکرم ص کی سیرت سے ملتا ہے، وہی فیض امام حسین (ع) کی سیرت سے ملتا ہے۔ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ذکر امام حسین علیہ السلام کیوں ضروری ہے؟ اگر ذکر امام حسین علیہ السلام ضروری نہیں اور شہادت امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور ذکر اہل بیت ضروری نہیں تو پھر آقا علیہ السلام کی امت میں کسی کا ذکر بھی ضروری نہیں ہے کیونکہ ذکر حسین علیہ السلام حقیقت میں خود ذکر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ شہادت امام حسین علیہ السلام حقیقت میں سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے۔ یہ واحد ایک ایسی شہادت ہے جس کا تفصیلی ذکر خود آقا علیہ السلام نے اپنے صحابہ کرام کے سامنے فرمایا۔اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور صلحاء بندوں کا ذکر کرنا سنت الہٰیہ ہے۔ ذکر حسین علیہ السلام کرکے درحقیقت ہم سنت الہٰیہ پر عمل پیرا ہیں”۔( تحریک منھاج القرآن کی آفیشل ویب سائٹ)۔(www.minhag.org
2۔غیر مسلم مفکرین
1۔ جارج جرداق –( مسیحی مصنف و شاعر، لبنان)
حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتا ہے :
وہ پیکر غیرت کہ جسے اپنی و اہل و عیال کی عزت و ناموس کا اتنا خیال تھا کہ جب میدان میں تن تنہا رہ گیا تھا اور ہر سمت سے تیر و تلوار سے حملے کئے جارہے تھے اس وقت نظر پڑی کہ اہل کوفہ خیام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا ہاتھ بلند کر کے فرماتے ہیں؛
"اے آل ابی سفیان کے ماننے والو! اگر تم لوگ دین محمدی سے بالکل ہی کنارہ کشی اختیار کرچکے ہو تب بھی دنیاوی اخلاقیات کا لحاظ رکھو”( العتبہ الحسینیہ المقدسہ،آفیشل ویب سائٹ۔((www.imamhussain.org
.2 چارلس ڈیکنز: عصر ملکہ برطانیہ "وکٹوریہ "کے بے نظیر مصنف
امام حسین ؑ کی قربانی کے بارے لکھتے ہیں؛
"میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر حسین علیہ السلام نے دنیاوی اہداف کی خاطر جنگ کی تو اپنے ساتھ بہنوں عورتوں اور بچوں کو میدان کربلا میں کیوں لائے؟اور اگر ایسا نہیں تو عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اسلام کی خاطر قربانی دی”
3۔ فریا اسٹارک: معروف برطانوی ادیب فریا اسٹارک، کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ 1934ء میں عراق کے بارے میں انہوں نے ایک سفر نامہ ’’دی ویلی آف حسینؑ‘‘ لکھا کہ امام حسینؑ نے جہاں خیمے لگائے وہاں دشمنوں نے محاصرہ کر لیا اور پانی بند کر دیا۔ یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 برس پہلے تھی۔ کربلا ان واقعات میں سے ایک ہے جس کو پڑھ کر کوئی روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
4۔ انتونی بارا (Antoine Bara) لبنان کے ایک مشہور عیسائی مصنف
انہوں نے امام حسین ع کے بارے ایک کتاب بنامHussain in Christian Ideology, 2008] ) لکھی جس میں وہ لکھتا ہے
"میں نہیں مانتا کہ امام حسین صرف شیعوں یا صرف مسلمانوں کے امام ہیں، میرا ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں کیونکہ وہ تمام مذاہب کا ضمیر ہیں۔مزید لکھتے ہیں کہ امام حسین ع کا یہ انقلاب دنیا کے تمام انقلابات سے عظیم تھا آپ کی شہادت تمام قربانیوں اور شہادتوں کو کامل کرنے والی ہے۔ اگر ہمارے ساتھ حسین ؑجیسی ہستی ہوتی تو ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امام حسینؑ کے نام کا پرچم لے کر مینار تعمیر کرکے لوگوں کو عیسائیت کی طرف بلاتے، لیکن افسوس عیسائیت کے پاس حسین ؑ نہیں”

5۔ تھامس کارلائل ( برطانوی مستشرق)
"کربلا کے بارے میں ان کا کہنا تھا”واقعہ کربلا نے حق و باطل کے مقابلے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء خدا کے سچے پیروکار تھے۔ قلیل ہونے کے باوجود امام کی فتح متاثر کرتی ہے۔”
6۔ برطانیہ کےWilliam Muir نے اپنی کتاب( Annals of the Early Caliphate ,1883میں لکھا ہے کہ کربلا کے حادثے نے تاریخِ محمد میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے۔ واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا بلکہ محمدیؐ ریاست کے اصول و معیار بھی متعین کر دیئے، جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گئے تھے۔
7۔ فارسی ادب کی تاریخ پر کتاب (Literary History of Persia) کے مصنفEdward Granville Brown نے لکھا ہے کہ کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں اللہ کے پیغمبر کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک اور پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ یہ بات نا قابل برداشت اور دل سوز صدمے کا باعث ہے، جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہیں۔
8۔ ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی(۱۸۸۴-۱۹۶۳ء): بھارت کے اولین صدر نے کہا کہ امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے۔
9۔ City Sikh Progressive Organization London کے بانی ممبر جسویر سنگھ کہتے ہیں کہ اس بات سے قطع نظر کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، ہم امام حسین ؑسے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ۔ امام حسین ؑعدل و انصاف کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کے لئے اپنی جان بھی دے دی۔
10۔ جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے،آپؑ کو حسینؑ جاتا ہے۔ آپؑ حضرت محمدؐ کے نواسے‘حضرت علیؑ و حضرت فاطمہؑ کے بیٹے‘ لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں۔ آپؑ کے عظیم واعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتے تو آج حضرت محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا، یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔‘‘

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button