اخلاق حسنہاخلاقیاترسالاترمضان المبارکسلائیڈر

احترام انسانیت

ترتیب و تدوین : محمد حسنین امام

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ
یقیناًتمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
اسلام انسانیت کے تقدس، احترام اور اس کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے دین مبین اسلام حصول کے دو اہم ترین زرائع قرآن مجید اور سیرت و احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں لہذا ہم ان دونوں کی نگاہ میں جو انسانیت کے احترام کے نمونے بیان کئے گئے ہیں ان کا جائزہ لیں گے۔
مقام انسانیت قرآن و حدیث کی روشنی میں:
مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمَّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ
(مائدہ 32)
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ (حکم) مقرر کر دیا کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی اور بتحقیق ہمارے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے پھر اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لوگ ملک میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے۔
ایک انسان کا ناحق قتل گویا تمام انسانوں کا قتل ہے:
الف۔ اگر سب اس قاتل کی طرح قتل کرتے اور اس کی قائم کردہ مثال پر چلتے تو کسی کی جان محفوظ نہ رہتی۔ قتل خواہ ایک فرد کے ذریعے وقوع پذیر ہو، یہ ایک انفرادی واقعہ نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات عمومی ہوتے ہیں اور اس پر مترتب ہونے والے نتائج کی لپیٹ میں تمام انسان آ جاتے ہیں۔ مثلاً شراب نوشی سے پاک معاشرے میں ایک شخص شراب پینے کا عمل شروع کرتا ہے تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں اور دیکھا دیکھی شراب پینے کا رواج عام ہو سکتا ہے۔
ب۔ یہ انسانی وحدت و مساوات کا ایک اعلی نمونہ ہے اور انسانی حقوق کا ایک عظیم آرٹیکل ہے کہ فرد کی حق تلفی تمام انسانوںکی حق تلفی ہے۔ انسانی اقدار کی پامالی خواہ ایک فرد کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، ان اقدار کی پامالی ہے جو تمام انسانوں میں ہیں۔ چنانچہ ایک صحافی اور ایک وکیل کے حقوق کی پامالی کو صحافت اور وکالت کی برادری میں سب کے حقوق کی پامالی شمار کرتے ہیں۔
ایک انسان کی جان بچانا گویا تمام انسانوں کی جان بچانے کے برابر ہے۔ اس میں دو باتیں موجود ہیں جو پہلے جملے میں بھی ہیں:
الف۔ یہ ایک انسانی عمل ہے، ایک کردار ہے، ایک نمونہ ہے، جسے مشعل راہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس سے تمام انسانوں کی نجات و حیات وابستہ ہو جاتی ہے۔
ب۔ وحدتِ اسلامی کے تحت ایک فرد کے ذریعے انسانی اقدار کی پاسداری تمام انسانوں میں موجود اقدار کی پاسداری ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید ان انسانی حقوق پر مشتمل قانون کا بنی اسرائیل پر نفاذ کا اعلان کر رہا ہے لیکن بائبل میں یہ انسان ساز قانون موجود نہیں ہے۔ البتہ قرآنی اعلان کی شہادت تلمود میں موجود ہے:
بنی اسرائیل کی ایک جان کو جس نے ہلاک کیا، اس نے تمام دنیا کو ہلاک کیا اور جس نے بنی اسرائیل کی ایک جان کو محفوظ رکھا، کتاب اللہ کے نزدیک گویا اس نے ساری دنیا کی حفاظت کی۔
مسلمانوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کا قانون تمام ادیان میں انسانی اقدار کا محافظ ہے۔
(تفسیر الکوثر فی القرآن)
وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ
اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اسے حکام کے پاس پیش کرو تاکہ تمہیں دوسروں کے مال کا کچھ حصہ دانستہ طور پر ناجائز طریقے سے کھانے کا موقع میسر آئے۔
اس آیہ مجیدہ میں لوگوں کے مال کی اہمیت کا درس دیا گیا ہے گویا کہ لوگوں کا مال بھی ان کی جانوں کی طرح محترم ہے جس میں کسی قسم کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ نے جائز قرار نہیں دی ۔ پس جس طرح لوگوں کو ناحق قتل کرنا جائز نہیں اسی طرح باطل طریقے اس ان کے اموال کو کھانا بھی حرام ہے۔
جیسا کہ امام علی علیہ السلام سے مروی ہے۔
ولتحتقرا ن من خلق اللہ احدا ولا تسخرن بعیرا ولا حمارا۔۔۔۔ولا تستاثرن علی اھل المیاہ بمیاھھم ولا تشربن من میاھھم الا بطیب انفسھم ولا تسب مسلما ولا مسلمۃ ولا تظلم معاھدا ولا معاھدۃ ۔۔۔۔

(الغارات ج2 ص627)
اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی تحقیر و توہین نہ کرنا، اور نہ ہی کسی اونٹ یا گدھے کا بھی مذاق اڑانا۔۔ لوگوں کے گھاٹ اور چشموں کے درمیان حائل نہ ہوجانا اور نہ ہی ان کی اجازت اور رضایت کے بغیر ان کے گھاٹ اور چشموں سے استفادہ کرنا۔
خبردار کسی مسلمان مرد یا عورت کو کو گالی مت دینا اور نہ ہی کسی ذمی مرد یا عورت پر ظلم کرنا۔
اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے۔
لا یزید فی العمر ال البر
نیکی اور احسان کے علاوہ کسی چیز سے بھی عمر میں اضافہ نہیں ہوتا۔
(بحار ج77 ص166)
ایک حکایت:
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
ایک انساری کے گھر کے دروازے پر سمرہ بن جندب کا کجھور کاایک درخت تھا سمرہ اس درخت کا پھل توڑنے کے لیے آتا تو اس انساری کو اطلاع تک نہ دیتا اور یوں انساری کے گھر کی بے پردگی ہوتی انساری نے اسے کئی بار کہا کہ بھائی آپ نے جب درخت پر چڑھنا ہوتو پہلے آواز دے دیا کریں تاکہ ہمارے گھر کی بے پردگی نہ ہو لیکن سمرہ نے اس کی ایک نہ اسنی اور بغیر آواز دیے درخت پر چڑھ جاتا ۔
انساری نے تنگ آکر رسول خدا سے شکایت کردی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے طلب کی اور فرمایا:
آئندہ جب بھی درخت پر چڑھنا ہوتو پہلے آوازس دیا کرو۔
سمرہ نے کہا میرا اپنا درخت ہے میں بھلا کسی کو کیوں آوازیں دوں ؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم یہ درخت بیچ دو اور اپنی من مانی قیمت حاصل کرلو۔
سمرہ نے کہا میں نہیں بیچنا چاہتا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم یہ درخت میری ملکیت میں دے دو خدا تمہیں اس کے عوض جنت میں تجھے کجھور کا ایک درخت دے گا۔ اس نے کہا مجھے یہ بھی منظور نہیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصاری سےفرمایا: جاو درخت کاٹ دو ۔
اسلام میں کسی کو نقصان پہچانا حرام ہے۔
(کافی ج5 ص292)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمرہ بن جندب سے فرمایا:
تو ایک موذی انسان ہے جبکہ اسلام میں کسی کو اذیت پہنچانا حرام ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا: کہ جاواس درخت کو کاٹ پھینکو اور اس سے کہو کہ اسے اٹھا کر دوسری جگہ لے جائے جہاں چاہے لگادے۔
(الکافی ج5 ص 292)
حتی کہ ایک روایت میں لوگوں کے ساتھ نرمی اور حسن برتاؤ کو صفت الہی قرار دیا ہے۔
جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: إِنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى رَفِيقٌ يُحِبُّ اَلرِّفْقَ فَمِنْ رِفْقِهِ بِعِبَادِهِ تَسْلِيلُهُ أَضْغَانَهُمْ وَ مُضَادَّتَهُمْ لِهَوَاهُمْ وَ قُلُوبِهِمْ وَ مِنْ رِفْقِهِ بِهِمْ أَنَّهُ يَدَعُهُمْ عَلَى اَلْأَمْرِ يُرِيدُ إِزَالَتَهُمْ عَنْهُ رِفْقاً بِهِمْ لِكَيْلاَ يُلْقِيَ عَلَيْهِمْ عُرَى اَلْإِيمَانِ وَ مُثَاقَلَتَهُ جُمْلَةً وَاحِدَةً فَيَضْعُفُوا فَإِذَا أَرَادَ ذَلِكَ نَسَخَ اَلْأَمْرَ بِالْآخَرِ فَصَارَ مَنْسُوخاً
(الکافی ج2، ص۱۱۸ كتاب الإيمان و الكفر بَابُ اَلرِّفْقِ)
اللہ تعالیٰ رفیق و نرم ہے اور وہ نرمی پسند کرتا ہے اور اس کی ایک رفیق نرمی یہ اپنے بندوں کے ساتھ یہ ہے کہ اس نے ان لوگوں کے دلوں کو کینہ سے پاک اور ہوس کی مخالفت ان کے دلوں میں قرار دی ہے۔
اور اس کے رفیق و نرمی اپنے بندوں کے ساتھ ایک یہ ہے اس نے اپنے بندوں کو ان امور کی دعوت دی ہے کہ جن کے زریعے ان سے نرمی اور رفق ختم نہ ہو تاکہ اان کے لیے ایمان کا بوجھ ایک بار نہ دالا جائے تاکہ وہ کمزور اور ناتواں نہ ہو جائیں پس جب خدا ان سے نرمی کا ارادہ کرتا ہے تو ایک امر کو دوسرے امر کے زریعے منسوخ کر دیات ہے۔
لوگوں کی بے احترامی اور لڑائی جھگڑے کے نقصانات:
امام علی علیہ السلام سے مروی ہے :
قَالَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ : إِيَّاكُمْ وَ اَلْمِرَاءَ وَ اَلْخُصُومَةَ فَإِنَّهُمَا يُمْرِضَانِ اَلْقُلُوبَ عَلَى اَلْإِخْوَانِ وَ يَنْبُتُ عَلَيْهِمَا اَلنِّفَاقُ
جھگڑے اور بلا وجہ مخالفت کرنے سے پرہیزکرو کیونکہ یہ دونوں دوستوں کے دلوں کو بیمار کردیتے ہیں اور نفاق پیدا کرتے ہیں۔
(منیۃ المرید فی أدب المفید و المستفید ج۱ ص۳۱۷)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مااتانی جبرائیل قط الا و وعظنی فآخر قولہ لی ایاک و مشارۃ الناس فانھا تکشف العورۃ و تذھب بالعز
(الکافی)
جب بھی جبرائیل نے مجھے وعظ کیا تو آخر میں کہا:
اے محمد۔! لوگوں کے ساتھ بلاوجہ دشمنی کرنے سے بچو کیونکہ یہ عیوب کو ظاہرع کردیتی ہے اور عزت کو ختم کردیتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی دفتر احا دیث چھلک رہے ہیں جو لوگوں کے احترام کی قدر و منزلت اور ان کی بے احترامی کی کے بارے میں زجر و توبیخ کرتی ہیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button