سلائیڈرمحافلمقالات قرآنیمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

تذکرہ امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ بزبان قرآن

(الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس)
1۔ عدل سے معمور معاشرہ اور امام مھدی عج
وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ﴿انبیاء؛۱۰۵ ﴾
” اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔”
تشریح کلمات
الزَّبُوۡرِ:( ز ب ر ) زبرت الکتاب ۔ میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی حرف میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہتے ہیں۔
تفسیر آیت:
۱۔ وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ: زبور وہ صحیفہ ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوا۔ چنانچہ فرمایا:
وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا (۴ نساء: ۱۶۳)اور داؤد کو ہم نے زبور دی۔
2۔ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ: ذکر سے مراد توریت ہے یا قرآن یا لوح محفوظ۔ کسی ایک پر آیت میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اگرچہ قرآن اور توریت کو قرآن میں ذکر کے نام سے یاد کیا ہے۔ بعض فرماتے ہیں الذکر سے ذکر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مراد ہے جو صحف انبیاء میں موجود تھا۔
۳۔ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا: اس زمین سے مراد کون سی زمین ہے جس کے صالح بندے وارث ہوں گے؟ بعض مفسرین دنیوی زمین اور اقتدار مراد لیتے ہیں کہ اللہ اپنے صالح بندوں کو اقتدار دیتا ہے۔ حالانکہ عملاً ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔ اکثر اقتدار غیر صالح لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔ ایک توجیہ اس کی یہ ہو سکتی ہے کہ اس آیت کا مصداق ابھی وجود میں نہیں آیا۔ یہ ایک پیشگوئی اور خوشخبری ظہور مہدی عجل اللّٰہ فرجہ کے بعد کی دنیا کے بارے میں ہے کہ اس وقت ہی صالح بندے اس زمین کے وارث بنیں گے۔ اس نظریے کی تائید میں یہ آیت پیش کی جاتی ہے۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ ۔۔۔۔ (۲۴ نور: ۵۵)
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا۔۔
ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے متواتر احادیث اس موضوع پر موجود ہیں جن میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ قائم آل محمد علیہ السلام اور ان کے اصحاب ہیں۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
لَو لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا یَوْمٌ لَطَوَّلَ اللہُ ذَلِکَ الیَوْمَ حَتَّی یبعث اللہ رجل منی یَمْلَاَھَا قِسْطاً وَ عَدْلاً کَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً ۔۔۔۔ (غیبۃ الطوسی ص ۸۶ ۴: ۱۷۷)
اگر دنیا کی عمر میں صرف ایک دن رہ گیا ہو تو بھی اللہ اس دن کو اس قدر طویل بنا دے گا تاکہ ایک شخص کو اٹھائے جو مجھ سے ہو، جو زمین کو عدل و انصاف سے ایسے پر کرے گا جیسے ظلم وجور سے پر ہو گئی ہو گی۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ جنت کی سرزمین کا ذکر ہے جس کے وارث اللہ کے صالح بندے ہوں گے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:
وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ صَدَقَنَا وَعۡدَہٗ وَ اَوۡرَثَنَا الۡاَرۡضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الۡجَنَّۃِ حَیۡثُ نَشَآءُ ۚ فَنِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ (۳۹ زمر: ۷۴)
اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ جنت میں ہم جہاں چاہیں جگہ بنا سکیں، پس عمل کرنے والوں کا اجر کتنا اچھا ہے۔
اس نظریے پر سیاق آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ آیت بھی عالم آخرت سے مربوط آیات کے ساتھ مربوط ہے لیکن سیاق کے ظہور پر آیت کی تفسیر میں وارد روایات کی صراحت مقدم ہے۔ لتقدم النص علی الظاہر نیز الۡاَرۡضَ سے مراد ارض جنت ہونے پر کوئی قرینہ موجود نہیں ہے جس طرح سورہ زمر کی آیت میں موجود ہے۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 284)
2۔ غلبہ اسلام اور قیام امام مھدی عج
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ﴿التوبہ:33﴾
” اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔”
تفسیر آیت:
اس وقت ادیان عالم میں صرف دین اسلام ہے جو سندِ متّصل اور قطعی ذرائع کے ساتھ تواتر سے ثابت ہے۔ وہ واحد دین ہے جس کی تاریخ محفوظ ہے اور اس دین کادستور قرآن مجید حرف بحرف محفوظ ہے۔ لہٰذا ادیان عالم میں یہی دین، دین حق ہے۔
لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ: یہ دین آیا اس لیے ہے کہ تمام ادیان پر غالب آئے۔ تمام اقوام عالم کی قیادت کرے۔ پوری دنیا میں عدل و انصاف قائم کرے۔ تمام مظلوم قوموں کی داد رسی کرے:
وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ۔۔۔۔۔ ( ۷ اعراف : ۱۵۷)
اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔۔۔۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ہر مفسر نے اپنے عصر کے حالات کو سامنے رکھ کر تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس آیت کی تشریح کرنے میں دشواری پیش آئی اور تاویل کا سہارا لینا پڑا کہ بالادستی اور غالب آنے سے مراد منطق و استدلال کی بالادستی ہے۔ کچھ اہل قلم نے تو یہ بھی کہدیا کہ مراد صرف جزیرہ عرب ہے کہ یہاں اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا۔
جب کہ قرآنی تعبیر کسی ایک زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تمام ازمان و اعصار پر محیط ہے۔ ثانیاً اللہ کی سنت میں تشریعی و تکوینی ارتقا تدریجی ہے۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں خلق فرمایا ہے۔ اللہ کے چھ دن بہت بڑی مدت ہوتی ہے اور تشریع میں بھی دین الٰہی آدمؑ سے لے کر خاتمؐ تک بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتا رہا ہے اور اس آخری نظام حیات کو بھی اسی تدریجی ارتقائی مراحل سے گزارنا ہے:
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ۔۔۔۔۔ ( ۴۱ فصلت: ۵۳)
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے۔
البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ واضح اور مسلم ہے کہ دین اسلام اپنی جامعیت اور ایک کامل نظام حیات ہونے میں سب ادیان پر بالا دست ہے۔ اسلام اپنے دستور حیات میں کسی اور دین اور قانون کا محتاج نہیں ہے کہ اس دین میں کوئی کمزوری ہو جسے دوسرے ادیان سے دور کیا جائے۔ یہ بھی ایک غلبہ ہے۔ رہا اس جامع اور کامل دستور حیات کے نفاذ کا مرحلہ تو اس کے لیے ہم ایک نافذ کنندہ الٰہی طاقت کے منتظر ہیں۔
جب انسانیت مادیت کی اندھی تاریکی میں مزید ڈوب جائے گی، ہر طرف یاس و نامیدی کے سیاہ بادل چھا جائیں گے اور امن و سکون عنقا بن جائے گا، اس وقت لوگ امن دہندہ کی تلاش میں ہوں گے، ایک نجات دہندہ کو پکاریں گے، جس سے ایک عالمگیر عادلانہ نظام کے لیے زمین ہموار ہو گی اور یہ دین تمام ادیان پر غالب آئے گا۔
سنت نبویؐ میں یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو یہ دین تمام ادیان پر غالب آئے گا اور آپؑ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے، جیسے ظلم وجور سے پر ہو گئی ہو گی۔
احادیث ظہور مہدیؑ کے لیے ملاحظہ فرمائیں صحیح ترمذی، سنن ابی داؤد کتاب الہدیٰ، مسند احمد بن حنبل، مستدرک حاکم اور سنن ابن ماجہ کتاب الفتن وغیرہ ۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 469)
3۔ استحکام دین اور ظہور امام مہدی عج
"وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ” ( النور: ۵۵)
” تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔”
تفسیر آیت:
قرآن مجید میں خلافت اور استخلاف کو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے:
۱۔ ایک قوم کی نابودی کے بعد دوسری قوم کو اس کی جگہ آباد کرنا۔ چنانچہ قوم عاد کے بارے میں فرمایا:
وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۶۹)
اور یاد کرو جب قوم نوح کے بعد اس نے تمہیں جانشین بنایا۔
قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ (۷ اعراف: ۱۲۹)
موسیٰ نے کہا: تمہارا رب عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔اس کے علاوہ ملاحظہ ہو الانعام : ۱۳۳، ھود :۵۷، الاعراف:۷۴۔
2۔ نسل انسانی کو زمین پر آباد کرنا۔
اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ۔۔۔۔ (۲ بقرہ:۳۰) میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں۔
وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔ (۶ انعام:۱۶۵)اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا
۳۔ ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر اقتدار دیناجیسے:
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ ۔۔ (۳۸ ص:۲۶)
اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔۔
قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ (۲ بقرہ: ۱۲۴)
ارشاد ہوا: میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ۔
وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ (۲۱ انبیاء:۱۰۵)
اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
زیر بحث آیت بھی اسی خلافت کے بارے میں ہے جس میں ایمان و عمل صالح کا مالک، ظالم نہ ہونا اور صالح بندوں میں سے ہونا شرط ہے۔ اسی لیے اس استخلاف کے یہ ثمرات ہوں گے:
i۔ تمکن در دین۔ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ ۔ اس سے واضح ہوا کہ اس استخلاف سے مراد مطلق اقتدار نہیں بلکہ دینی اقتدار ہے جس میں دینی تعلیمات کو بالا دستی حاصل ہو گی۔ دینی قوانین اور دستور حیات کا نفاذ ہو گا۔
ii۔ خوف کے بعد امن ہو گا۔ یہ ذکر نہیں کہ یہ خوف کن سے ہو گا۔ داخلی، خارجی، ہر صورت میں خوف امن میں بدل جائے گا۔ نہ بیرونی دشمن سے خوف ہو گا، نہ داخلی حکمرانوں کے ظلم و زیادتی کا خوف ہو گا
iii۔ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا: کہ وہ اس امن کی فضا میں اللہ کی بندگی کریں گے۔ اس سے اس خوف کی نوعیت کا علم ہوتا ہے کہ یہ خوف مذہبی تعلیمات پر عمل اور اللہ کی بندگی کرنے سے متعلق ہے۔ شرک و بدعت سے پاک ایک خالص دینی تعلیمات کا رواج ہو گا۔
ان اوصاف کی حامل خلافت کے مصداق کی تلاش میں مفسرین کو مشکل پیش آگئی ہے:
i۔ بعض لوگ خلافت کو غلبہ اور اقتدار کے معنی میں لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقتدار اور طاقت پر آنا ہی صلاح و ایمان کا معیار ہے۔ مولانا مودودی اس جگہ لکھتے ہیں:
بعض لوگ خلافت کو محض حکومت اور فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میں لیتے ہیں۔ پھر اس آیت سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مؤمن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے اور اس پر مزید یہ ستم ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو بٹھانے کے لیے ایمان، صلاح، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاری کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی۔ (تفہیم القرآن۔ سورہ نور حاشیہ نمبر ۸۳)
تقریباً اسی نظریے کے مطابق بنتا ہے وہ نظریہ جو اس استخلاف سے مراد پوری امت محمدی لیتے ہیں چونکہ اس میں بنی امیہ، بنی عباس اور آج تک کے تمام مسلمان حکمراں شامل ہوتے ہیں خواہ ان کا کردار اور ان کا خود اسلام کے بارے میں نظریہ کچھ بھی ہو۔کہتے ہیں:
واستخلافہم ھو ان یملکہم البلاد۔۔ ویجعلہم اھلہا کالذی جری فی الشام والعراق و خراسان والمغرب ۔ (تفسیر قرطبی ۱۳: ۲۹۸)
استخلاف کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر ان کی حکومت قائم ہوئی اور ان کو اس کا اہل بنا دیا۔ جیسے شام، عراق، خراسان اور مغرب میں ان کی حکمرانی قائم ہوئی۔
ii۔ دوسرا موقف یہ ہے:
وعدہ استخلاف عہد حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت عثمان میں پورا ہوا۔ وہ اس وعدہ الٰہی کا مصداق صرف خلفائے ثلاثہ کے پچیس سالہ دور کو لیتے ہیں۔ اس میں وہ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت کو شامل نہیں کرتے چونکہ ان کے دور میں فتوحات نہیں ہوئیں۔ کہتے ہیں:
اگر آیہ استخلاف سے خلفائے راشدین مراد نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ خلافی لازم آتی ہے۔ یہ وعدہ اور جن کے ساتھ یہ وعدہ ہے وہ صرف خلفائے ثلاثہ کے زمانے میں پورا ہوا۔ (تفسیر مظہری ۶: ۵۵۲)
تعجب کا مقام یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے موقف پر لفظ مِنۡکُمۡ سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ وعدہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاصرین سے مربوط ہے لہٰذا بعد میں آنے والے مثلاً حضرت مہدی عجل اللہ اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔
گویا یہ لوگ قرآن کریم کے اجتماعی خطابات (جیسے الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے عنوان سے ہے) کو صرف زمانِ نزولِ قرآن کے مخاطبین تک محدود کرتے ہیں۔ ما اجھلہم ۔
iii۔ تیسرا موقف یہ ہے: وعدہ استخلاف خلفائے اربعہ سے پورا ہوا تاہم ان میں منحصر نہیں بلکہ بارہ خلفاء بھی اس کے مصداق میں شامل ہیں۔
ابن کثیر اپنی تفسیر ۶: ۷۲ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی اس حدیث کا یہاں ذکر کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
لا یزال امر الناس ماضیاً ما ولیہم اثنا عشر رجالاً ۔
لوگوں کے معاملات اس وقت تک درست رہیں گے جب تک ان پر بارہ افراد حاکم (سرپرست) ہوں گے۔
اس کے بعد لکھتے ہیں:
اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ بارہ خلفاء کا وجود ضروری ہے۔ یہ شیعوں کے بارہ امام نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں سے اکثر کو حکومت نہیں ملی۔ البتہ یہ بارہ قریش سے ہوں گے اور حکومت کریں گے۔ عدل و انصاف قائم کریں گے جن کی بشارت قدیم کتابوں میں بھی ہے۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ یہ بارہ امام بلا فاصلہ آئیں۔ بلا فاصلہ بھی ہو سکتے ہیں اور وقفے سے بھی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ان بارہ میں سے چار بلا فاصلہ آئے ہیں۔ وہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ہیں۔ پھر ایک وقفہ آیا۔ پھر ان میں سے کچھ وجود میں آگئے، باقی کس وقت وجود میں آئیں گے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ان میں المہدی بھی ہیں جس کا نام رسول اللہ کے نام سے اور کنیت رسول اللہ کی کنیت سے ملتی ہو گی۔ جو زمین کو عدل و انصاف سے پرُ کرے گا جیسے ظلم و جور سے پرُ تھی۔ (ملاحظہ ہو جلد ششم صفحہ ۷۲)
iv۔ چوتھا موقف شیعہ امامیہ کا ہے کہ چونکہ اس استخلاف میں دین کا اقتدار اور دینی تعلیمات کا نفاذ ہو گا تو ظلم و جور کی جگہ زمین عدل و انصاف سے پرُ ہو گی۔ ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کب ہو گا؟ خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں ایساظہور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بعد تاقیام قیامت کے لیے ہو گا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اہل البیت ہاہنا واشار بیدہ الی القبلہ ۔ (روح المعانی ۹: ۳۹۶)
قبلہ کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کرکے فرمایا اہل البیت علیہم السلام یہاں ہیں۔
دوسری حدیث بارہ خلفاء کے بارے میں ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں جابر بن سمرۃ راوی ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا:
ان ھذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہم اثنا عشر خلیفۃ ۔
یہ دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک بارہ خلیفہ نہ گزریں۔
جابر کہتے ہیں:پھر رسول اللہؐ نے کچھ فرمایا میں نہیں سن سکا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا: کیا فرمایا؟ کہا: فرمایا: کلھم من قریش ۔ یہ سب قریش سے ہوں گے۔
صحیح ابی داود میں وہ وجہ بھی مذکور ہے کہ رسولؐ کی آواز کیوں سنائی نہیں دی۔
جابر کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
لا یزال ھذا الدین عزیزاً الی اثنا عشر خلیفۃ ۔
یہ دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک بارہ خلیفہ آئیں گے۔
راوی کہتا ہے:فکبر الناس وضجوا ، (لوگوں نے تکبیر کہی اور شور مچایا۔)
پھر حضورؐ نے کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا فرمایا؟ کہا:
کلھم من قریش ،”یہ سب قریش سے ہوں گے”۔
جب کہ عبدالملک بن عمیر خود جابر بن سمرۃ سے روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ نے کلھم من بنی ہاشم فرمایا ۔
ملاحظہ ہو: امامۃ بقیۃ الائمۃ از السید علی المیلانی ۔
سماک بن حرب نے بھی جابر بن سمرۃ سے اپنی روایت میں کہا ہے کہ رسول اللہؐ نے کلھم من بنی ہاشم فرمایا ہے۔ ( امامۃ بقیۃ الائمۃ )
واضح رہے عبدالملک بن عمیر صحیح بخاری کے رجال میں سے ہیں اور سماک بن حرب صحیح مسلم کے رجال ہیں۔
کلھم من بنی ہاشم بہت سے لوگوں کے لیے سنگین جملہ تھا۔ بعض اصحاب کا یہ نعرہ بھی تاریخ میں ثبت ہے کہ نبوت اور خلافت دونوں ایک ہی خاندان میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ عبد اللّٰہ بن زبیر کی جب مکہ میں حکومت قائم ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے سے یہ کہ کر احتراز کرتے تھے کہ اس سے بنی ہاشم کی ناک اونچی ہو جاتی ہے۔
غیر شیعہ کے لیے بارہ خلفاء ایک ناقابل حل، ناقابل فہم معمہ بنا ہوا ہے اور بنا رہے گا۔
حافظ ابن العربی کہتے ہیں:لم اعلم للحدیث معنی (روح المعانی ۹:۳۹۶)
مجھے اس حدیث کے معنی کا علم نہ ہو سکا۔
المھلب نے کہا:میں نے کسی شخص کو اس حدیث کے کسی معنی پر یقین کرتے نہیں دیکھا۔
ابن الجوزی فرماتے ہیں:
میں نے اس حدیث پر طویل بحث کی۔ ان سب مقامات کو چھان مارا جہاں سے کچھ ملنے کی امید تھی اور سوال اٹھایا مگر کوئی مقصد حاصل نہ کر سکا۔
وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ: دین کو کامل اقتدار و تمکن حاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا ہے کہ منحرف کا وجود ختم ہو جائے گا بلکہ منحرف ہمیشہ کی طرح اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
صاحب سر رسول حضرت حذیفہؓ اس جگہ فرماتے ہیں:
ذھب النفاق وانما کان النفاق علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم وانما ھو الکفر بعد الایمان قال قضحک عبد اللّٰہ فقال لم تقول ذلک؟ قال علمت ذلک وقال: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔۔۔وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ ۔
نفاق ختم ہو گیا، نفاق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا۔ یہاں ایمان کے بعد کفر کی بات ہے۔ کہتے ہیں یہ سن کر عبد اللہ بن مسعود ہنس پڑے اور کہا ایسا کیوں کہتے ہو؟ کہا: یہ بات مجھے اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔۔۔ آخر میں فرمایا: جو اس کے بعد کفر اختیار کریں تو یہ لوگ فاسق ہیں۔(ملاحظہ ہو روح المعانی ذیل آیت۔)
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 481)
4۔ بقیۃ اللہ خیر لکم
"بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ” ( الھود:86)
"اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیں ہوں۔”
تفسیر آیت
۱۔ بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ: ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت شعیب ؑکی قوم تجارت پیشہ تھی۔ اللہ کا رسول جہاں انسان کو الٰہی اقدار سے روشناس کراتا ہے وہاں معاشرتی اصلاح پر بھی توجہ دیتا ہے۔ ناپ تول میں کمی کر کے کمائی گئی ناجائز کمائی سے معاشرے کو پاک کرنا چاہتا ہے اور جائز منافع کمانے پر اکتفا کرنے کی نصیحت فرماتا ہے۔ تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والے جائز منافع کو بَقِیَّتُ اللّٰہِ سے تعبیر کرنا یہ بتاتا ہے کہ تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والا منافع اللہ کی عنایت ہے بشرطیکہ تاجر مؤمن ہو: وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ ۔۔۔۔ ( ۱۸ کہف: ۴۶)
بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ: اس آیت میں یہ جملہ قوم شعیب کے بارے میں ہے اور بَقِیَّتُ اللّٰہِ سے مراد حلال منافع ہے۔ روایات کے مطابق یہی جملہ حضرت قائم آل محمد علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس کو اقتباس کہہ سکتے ہیں اور تطبیق بھی۔
5۔ ہر زمانے میں امام کا ہونا ضروری ہے۔
"یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ۚ فَمَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ فَاُولٰٓئِکَ یَقۡرَءُوۡنَ کِتٰبَہُمۡ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا” ( اسراء۷۱۔ ۷۲)
۔ قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے پھر جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا پس وہ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔
تشریح کلمات
الامام:( ا م م ) الامام وہ جس کی اقتدا کی جائے خواہ وہ انسان ہو کہ اس کے قول و فعل کی اقتدا کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر۔
تفسیر آیات
قرآنی اصطلاح میں امام وہ ہے جو رہنمائی اور دعوت کا کردار ادا کرے خواہ حق کی طرف رہنمائی کرے یا باطل کی طرف۔ چنانچہ ائمہ حق کے بارے میں فرمایاـ:
وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۷۳)
اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔۔۔۔
اور ائمہ باطل کے بارے میں فرمایا:
وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۔۔۔(۲۸ قصص: ۴۱)
اور ہم نے انہیں ایسے رہنما بنایا جو آتش کی طرف بلاتے ہیں۔
ان دو آیتوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام حق وہ ہے جو اپنے مقتدیوں کی اللہ کی طرف راہنمائی کرے اور امام باطل وہ ہے جو اپنے مقتدیوں کو آتش کی طرف دعوت دے۔
اس آیت میں فرمایا: قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ دوسری آیت میں فرمایا: جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ قیامت کے دن بھی اندھا رہے گا۔
ان دو آیتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان دنیا میں جس رہبر کی اقتدا کرتا ہے وہ اس کی آخرت کے لیے تقدیر ساز ہے اور جو دنیا میں اندھارہا ہو وہ آخرت میں اندھا رہے گا۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں امام حق اور امام باطل دونوں موجود ہوتے ہیں کیونکہ قیامت کے دن کُلَّ اُنَاسٍۭ ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا تو ہر گروہ کے پاس امام کا ہونا لازمی قرار پایا، خواہ امام حق ہو یا باطل۔ اگر اس گروہ کے پاس امام حق نہیں ہے تو امام باطل ضرور ہو گا۔
چنانچہ مشہور حدیث میں آیا ہے:
وَ اَنَّ مَنْ مَاتَ وَ لَم یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً ۔۔۔۔ ( وسائل الشیعۃ ۱۶: ۴۴۶ ۳۳ باب تحریم تسمیۃ المہدی ع و سائر الائمۃ ۔۔۔۔)
جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امامت و ولایت کو نجاتِ آخرت میں کس قدر اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے مروی ہے:
بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ عَلَی الصَّلَاۃِ وَالزّکَاۃِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ وَالْوَلَایَۃِ وَلَمْ یُنَادَ بِشَیْئٍ کَمَا نُودِیَ بِالْوَلَایَۃِ ۔ ( الکافی ۲: ۱۸ باب دعائم الاسلام )
اسلام کے ارکان پانچ ہیں : نماز، زکوۃ، روزہ، حج اور ولایت اور جو اہمیت ولایت کو دی گئی ہے کسی اور چیز کو نہیں دی گئی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
لا تمجدون اللّٰہ ذا کان یوم القیامۃ فدعا کل اناس الی من یتولونہ و فزعنا الی رسول اللّٰہ ص و فزعتم الینا فاِلیٰ أین ترون یذہب بکم؟ الی الجنۃ و رب الکعبۃ۔ قالہا ثلاثاً ۔۔۔۔ ( مجمع البیان۔ بحاالانوار ۸: ۸ باب ۱۹۔ انہ یدعا فیہ کل اناس بامامہم )
کیا تم اللہ کی حمد و ستائش بجا نہیں لاتے کہ جب قیامت کے دن اللہ ہرانسان کو اس شخص کے ساتھ بلائے گا جس کی پیشوائی اس نے قبول کی ہو گی ہمیں رسول اللہ کے ساتھ پکارے گا تو تم ہماری پناہ میں آؤ گے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم کو کدھر لے جائیں گے؟ رب کعبہ کی قسم جنت کی طرف۔ اس جملے کو امام نے تین مرتبہ دہرایا۔
اہم نکات
۱۔ فلاح و نجات کا مسئلہ، امامت و رہبری سے مربوط ہے۔
۲۔ نامہ اعمال کے مندرجات کا انحصار امامت پر ہے۔
۳۔ انتخاب رہبر میں جو شخص دنیا میں اندھا رہا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 546)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button