خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:159)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک15 جولائی 2022ء بمطابق 15 ذی الحج1443 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

عید غدیر اہل تشیع کی بڑی عیدوں میں سے ہے جسے 18 ذوالحجہ کے دن منایا جاتا ہے۔ احادیث کے مطابق ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے خدا کے حکم سے امام علیؑ کو خلافت اور امامت کے منصب پر منصوب فرمایا۔ یہ واقعہ غدیر خم کے مقام پر پیش آیا۔شیعہ مآخذ میں اس عید کیلئے عیدُاللهِ‌ الاکبر (سب سے بڑی عید، اہل بیت محمدؐ کی عید، اور اشرف الاعیاد (سب سے افضل ترین عید) جیسی تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔

بے شک غدیر کے دن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اسلامی روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ اس دن کی عظمت، عید فطر اور عید الاضحی سے بھی زيادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اسلام کی ان دو عظیم عیدوں کی اہمیت کم ہوتی ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہيں کہ عید غدیر میں ایک اعلی مفہوم مضمر ہے۔ اسلامی روایتوں کے مطابق سب سے زيادہ با عظمت اس عید کی اہمیت اسی میں ہے کہ اس سے ولایت کا مفہوم جڑا ہوا ہے۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، انبیائے الہی اور تمام عظیم رہنماؤں نے جو جد و جہد کی ہے اس کا مقصد الہی ولایت کا قیام تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کے دوران دین کے لئے کئے جانے والی کوشوں کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا ہے: «ليخرج الناس من عبادۃ العبيد الى عبادۃ الله و من ولايۃ العبيد الى ولايۃ الله.» مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو بندوں یا غلاموں کی سرپرستی سے نکال کر اللہ کی سرپرستی میں داخل کیا جائے۔

عیدغدیر کی فضیلت:

عید غدیر، عیدوں میں سب سے بڑی عید ہے، یہ عید محروموں کی عید ہے، یہ عید مظلوموں کی عید ہے، یہ عید ایسی عید ہے کہ جس دن خدا تبارک و تعالیٰ نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے ذریعہ الٰھی مقاصد کے اجراء اور راہ انبیاء کے استمرار کے لئے حضرت علی(علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، یہ وہ عید ہے جس کے بار ے میں امام جعفر صادق(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: «وَ إِنَ‏ يَوْمَ‏ غَدِيرِ خُمٍ‏ بَيْنَ‏ الْفِطَرِ وَ الْأَضْحَى‏ وَ الْجُمُعَةِ كَالْقَمَرِ بَيْنَ‏ الْكَوَاكِب

یقینا عید فطر، عید قربان اور جمعہ کی عید کے درمیان، غدیر کا دن ستاروں میں چاند کی طرح ہے۔(بحارالانوار ج۹۵، ص۳۲۳)

ایک روایت ہے جس میں راوی مفضل ابن عمر نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا:

 كَمْ لِلْمُسْلِمِينَ مِنْ عِيدٍ کہ مسلمانوں کی کتنی عیدیں ہیں ؟

فَقَالَ أَرْبَعَةُ أَعْيَادٍ امام علیہ السلام نے فرمایا چار

قَالَ قُلْتُ قَدْ عَرَفْتُ‏ الْعِيدَيْنِ‏ وَ الْجُمُعَةَ

تو مفضل کہتے ہیں میں نے کہا دوعیدیں (عید الفطراور عید الاضحٰی )اورتیسری جمعہ کے بارے تو میں جانتا ہوں ۔

فَقَالَ لِي أَعْظَمُهَا وَ أَشْرَفُهَا يَوْمُ الثَّامِنَ عَشَرَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي أَقَامَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ص أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ نَصَبَهُ لِلنَّاسِ عَلَماً

آپ نے فرمایا:سب سے بڑی اور اشرف عید 18 ذی الحجہ کی عید ہے اس روز اللہ کے رسول ﷺ نے علی بن ابی طالب علیھما السلام لوگوں کےلئے اپنا جانشین بنایا ۔

قَالَ قُلْتُ مَا يَجِبُ عَلَيْنَا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ

راوی نے عرض کیا اس روز ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

قَالَ يَجِبُ عَلَيْكُمْ صِيَامُهُ شُكْراً لِلَّهِ وَ حَمْداً لَهُ مَعَ أَنَّهُ أَهْلٌ أَنْ يُشْكَرَ كُلَّ سَاعَةٍ وَ كَذَلِكَ أَمَرَتِ الْأَنْبِيَاءُ أَوْصِيَاءَهَا أَنْ يَصُومُوا الْيَوْمَ الَّذِي يُقَامُ فِيهِ الْوَصِيُّ يَتَّخِذُونَهُ عِيداً وَ مَنْ صَامَهُ كَانَ أَفْضَلَ مِنْ عَمَلِ سِتِّينَ سَنَةً.

اس روز اللہ کے شکرانے کا روزہ رکھو اسکی حمد بجا لاؤ ، جبکہ وہ ہر وقت حمد کا سزاوار ہے اور انبیاء کا دستور تھا کہ انہوں نے اپنے اوصیاء کو حکم دیا تھا کہ جس دن وصی کو جانشین بنایا گیا اس روز روزہ رکھیں اور اس دن کو عید قرار دیں اس دن کا روزہ ساٹھ سال کے عمل سے بہتر ہے (الخصال:شیخ صدوق ؒ ج‏1، ص: 265)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

وهو عيد الله الاكبر، وما بعث الله نبيا إلا وتعيد في هذا اليوم وعرف حرمته، واسمه في السماء يوم العهد المعهود وفي الارض يوم الميثاق المأخوذ والجمع المشهود

ترجمہ: غدیر خم کا دن اللہ کی بڑی عید ہے، خدا نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس نے اس دن کو عید قرار دیا اور اس کی عظمت و حرمت کو پہچان لیا؛ اور اس عید کا نام آسمان میں عہد و پیمان کا دن اور روئے زمین پر میثاق محکم اور عمومی حضور اور موجودگی کا دن، ہے (وسائل الشیعہ :حر عاملی ج5ص224)

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا:

يوم غدير خم أفضل أعياد أمتي، وهو اليوم الذي أمرني الله تعالى ذكره فيه بنصب أخي علي بن أبي طالب علما لامتي يهتدون به من بعدي، وهو اليوم الذي أكمل الله فيه الدين، وأتم على امتي فيه النعمة، ورضي لهم الاسلام دينا

ترجمہ: روز غدیر میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ہے اور یہ وہ دن ہے جب خداوند متعال نے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی علی بن ابی طالب علیھما السلام کو اپنی امت کے پرچمدار کے طور پر مقرر کروں تا کہ میرے بعد لوگ ان کے ہاتھوں ہدایت پائیں اور یہ وہ دن ہے جب خدا نے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت میری امت پر پوری کردی اور اسلام کو ان کے لئے بحیثیت دین پسند کر لیا۔

مکمل واقعہ غدیر:

پیغمبر اکرم کی زندگی کا آخری سال تھا ۔ حجة الوداع کے مراسم جس قدر باوقار وپرشکوہ ہوسکتے اُس قدر پیغمبر اکرم کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے ۔ سب کے دل روحانیت سے شرسار تھے ابھی اُن کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذّت کا ذائقہ محسوس کررہی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیضیاب ہونے اور اس سعادت کے حاصل ہونے پر خوش تھے۔

نہ صرف مدینے کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصّوں کے مسلمان بھی یہ تاریخی اعزاز وافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے ۔

سرزمین حجازکا سورج درّوں اور پہاڑوں پر آگ بر سار ہا تھا لیکن اس سفر کی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارہی تھی ۔ زوال کا وقت نزدیک تھا ۔ آہستہ آہستہ جحفہ کی سرزمین اور اس کے بعد خشک اور جلانے والے ”غدیر خم“ کے بیابان نظر آنے لگے ۔

در اصل یہاں پر ایک چوراہا ہے جو حجاز کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے ۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف، دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف، تیسرا راستہ مغربی ممالک اور مصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر آخری مقصد اور اس عظیم سفر کا اہم ترین کام انجام پذیر ہونا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اہم ذمہ داریوں میں سے اُن کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔

جمعرات کا دن تھا اور ہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ہمراہیوں کو ٹھہرجانے کا حکم دیا گیا ۔ مسلمانوں نے بلند آواز سے اُن لوگوں کو جو قافلہ کے آگے آگے چل رہے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اور اتنی دیر کے لئے ٹھہر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں ۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذّن نے الله اکبر کی صدا کے ساتھ لوگوں کو نمازِظہر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصّہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں ۔ ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہے تھے ۔ اس صحرا میں نہ کوئی سائبان نظر آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یا گھاس صرف چند بے برگ وباربیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے کچھ لوگ اُنہی چند درختوں کاسہارا لئے ہوئے تھے اور انھوں نے اُن برہنہ درختوں پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنارکھا تھا لیکن گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی ہوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اُس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رہی تھی ۔ بہرحال ظہر کی نماز پڑھ لی گئی ۔

مسلمان ارادہ کررہے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو اُنھوں نے اپنے ساتھ اٹھارکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا ۔

جو لوگ رسول اللہ سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چہرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے نہیں دیکھ پارہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا ۔ پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے ۔ پہلے پروردگار عالم کی حمد و ثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا: میں عنقریب خداوندتعالیٰ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے جارہا ہوں میں بھی جوابدہ ہوں اور تم بھی جوابدہ ہو تم میرے بارے میں کیا گواہی دوگے؟

لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“یعنی ہم گواہی دیں گے آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اور خیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی وکوشش کی، خدا آپ کو جزائے خیر دے ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت، میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اور اُ س دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟

سب نے کہا: کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں ۔

آپ نے فرمایا: خداوندا گواہ رہنا ۔

آپ نے مزید فرمایا: لوگو! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟

انھوں نے کہا: جی ہاں ۔

اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا ۔ سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی ۔

پیغمبر نے فرمایا: دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار کے چھوڑے جارہا ہوں تم اُن کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟

حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا: یا رسول الله! وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ہیں؟

تو پیغمبر اکرم نے فرمایا: پہلی چیز تو الله تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے ۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمھارے ہاتھ میں ہے، اس سے ہاتھ نہ چھڑانا ورنہ تم گمراہ ہوجاؤگے اور دوسری گرانقدر یادگار میرے اہلِ بیت ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے ۔

ان دونوں سے آگے بڑھنے( اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی اُن سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں تم ہلاک ہوجاؤگے ۔اچانک لوگوں نے دیکھا کہ رسول الله اپنے اردگرد نگاہیں دوڑا رہے ہیں گویا کسی کو تلاش کررہے ہیں جو نہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً اُن کا ہاتھ پکڑ لیا اور اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منھ نہیں دیکھا ۔

اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اور بلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:

ایُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم“یعنی ۔ اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود اُن سے زیادہ اولویت رکھتا ہے؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں ۔

تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا ورہبر ہے اور میں مومنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود اُن سے زیاد حق رکھتا ہوں (اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ہے)۔

اس کے بعد فرمایا:فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“یعنی جس جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس اس کا مولا ورہبر ہے ۔

پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی اور بعض روایوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اُس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کرکے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:

اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“یعنی ”بارالٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر اور اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ، جو اس کی مدد کرے تو اُس کی مدد کر، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھر پھیر دے جدھر وہ رُخ کرے“۔

اس کے بعد فرمایا”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاہدُ الغائبُ“ یعنی : تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو اُن لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اور اس وقت موجود نہیں ہیں ۔ پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا ۔ پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نہائے ہوئے تھے ۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہ رہا تھا ۔ ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی :الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی (المائدہ آیت 3)”آج کے دن میں نے تمہارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:

”اللّٰہُ اٴکبرُ اللّٰہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِی وَالوِلاٰیَة لِعَلیّ مِنْ بَعْدِی

ہر طرح کی بزرگی و بڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت و رسالت اور میرے بعد کے لئے علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا ۔

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سُن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا ہوا، لوگ بڑھ چڑھ کر اُس اعزاز و منصب پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنی طرف سے مبارک مباد پیش کررہے تھے ۔ معروف شخصیتوںمیں سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انھوں نے کہا:”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولای و مولاکُلّ موٴمن و موٴمنةٍ”

مبارک ہو! مبارک ہو! اسے فرزند ابی طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اور عورتوں کے مولا ورہبر ہوگئے ۔

غدیر اور ہماری ذمہ داریاں:

اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ مائدہ کی 67 ویں آیت جسے آیت تبلیغ کہا جاتا ہے میں ارشاد فرما رہا ہے:

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّك وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ”،

اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔

اس آیت بلّغ سے دو اہم نکات حاصل کیے جاسکتے ہیں:

۱۔ اگرچہ اس آیت کے مخاطب اُس زمانے میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ہیں، لیکن یقیناً ولایت و امامت کی تبلیغ اور اس بارے میں سوالات اور شبہات کے جواب دینے کی ذمہ داری، آنحضرتؐ سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ولایت و امامت کی تبلیغ ہر زمانے میں سب آگاہ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔

۲۔ حقیقی مومنین وہ ہیں جوتعصب، ضد اور فرقہ واریت کے بغیر، اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم ہیں، نہ یہ کہ جواُن کی مرضی کے مطابق ہووہاں تسلیم ہوں اور جہاں اُن کی مرضی کے مخالف ہو وہاں تسلیم نہ ہوں!!

پیغمبر اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا اُن بلند و بالا مقامات تک فائز ہونا، اللہ کی عبودیت اور حکمِ پروردگار کے سامنے بالکل تسلیم ہونا تھا، وہی بات جو ہم ہر نماز میں، آنحضرتؐ کی رسالت کی گواہی دینے سے پہلے اس بات کی گواہی دیتے ہیں یعنی آنحضرتؐ اللہ کے عبد ہیں۔اگر ہم بھی قربِ الٰہی کے طالب ہیں اور حقیقی مومن بننا چاہتے ہیں اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دین کی پیروی کے دعویدار ہیں تو ہر حال میں آنحضرتؐ کے حکم کے سامنے رہنا چاہیے، اگرچہ ہماری خواہش اور سوچ کے خلاف ہو۔

فقہی مسائل

اعما ل روز غدیر

1:سب سے اہم عمل یہ ہے کہ ہر مومن دوسرے مومن کو گلے لگا کرمبارکباد دیں اور ساتھ یہ کہیں :

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنَ‏ الْمُتَمَسِّكِينَ‏ بِوَلَايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْأَئِمَّةِ ع‏

(إقبال الأعمال : ابن طاووس، على بن موسى‏ (ط – القديمة)، ج‏1، ص: 465)

2:اس روز غسل کرنا مستحب ہے

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

"زوال آفتاب کے وقت غسل کرنا مستحب ہے ،اور زوال آفتاب سے آدھا گھنٹہ پہلے اللہ سے دعا کی جائے گی.

(تہذیب الاحکام، ج ۳ ص ۱۴۳ بحارالا نوار ج ۹۸ ص ۳۲۱، ج ۶)

3:اس روز ذکر محمدو آل محمد صلوات اللہ علیھم کی محافل منعقد کرنا اور خاص طور پر یوم غدیر کی اہمیت اور امام علی علیہ السلام کے فضائل مناقب بیان کرنا چاہیں

4:زیارت امیر المومنین علی علیہ السلام کا پڑھنا نہایت ثواب کا موجب ہے جو مفاتیح الجنان میں موجود ہے ۔

5: کثرت سے درود اور ظالم سے بیزاری

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے ۔

"اے حسن! غدیر کے دن روزہ رکھو اور محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود بھیجو اور محمد و آل محمد کے ظالموں سے تبرا کرو (یعنی اظہار بیزاری کرو) ۔ (الکافی ج۴، ص۱۴۸)

6:اس دن روزہ رکھنا، نماز پڑھنا اور صدقہ وخیرات دینا بہت ثواب کا حامل ہے اس کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

غدیر خم کے دن کا روزہ دنیا کی پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے وہ اس طرح کہ اگر ایک انسان عمر دنیا کے برابر زندہ رہے اور ہر روز روزہ رکھے تو غدیر کے دن روزہ رکھنے والے کا ثواب اللہ کے نزدیک ہر سال سو حج مقبول اور سو عمرہ مقبولہ انجام دینے والے کے ثواب کے برابر ہے اور غدیر کا دن، اللہ کی سب سے بڑی عید کادن ہے ۔ ۔ ۔

جوروز غدیر دو رکعت نماز بجالائے تو اس کی یہ دو رکعت نمازاللہ کے نزدیک ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرہ کے برابر ہے …

جو شخص روز عیدغدیرکسی بندہ مومن کو افطار کرائے گویا اس نے گروہ گروہ لوگوں کو افطار کرایا ہے امام علیہ السلام،عید غدیر کے روزہ کی فضیلت بیان کرتے رہے یہاں تک کہ اپنے ہاتھ پر دس تک گنا اس کے بعد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ فئام کتنا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ : نہیں، فرمایا ہر فئام ایک لاکھ کے برابر ہے جس کے ہر فرد نے حرم خدا میں اسی عدد (ایک لاکھ)کے برابر انبیاء شہدا صدیقین کو کھانا کھلایا ہو اور انھیں شدت عطش اور قحط سال کے دنوں میں سیراب کیا ہو ۔ اور روز غدیر ایک درہم صدقہ دینا دس لاکھ درہم کے برابر ہے ۔ (تہذیب الاحکام، ج ۳ ص ۱۴۳ بحارالا نوار ج ۹۸ ص ۳۲۱، ج ۶)

7: اس روز زوال آفتاب سے نصف گھنٹہ پہلے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے جس کی ہررکعت میں الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص ، دس مرتبہ سورہ قدر ،دس مرتبہ آیت الکرسی پڑھے اس کا ثواب ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرے کے برابرہوگا اور دنیاو آخرت کی حاجات میں سے جو سوال کرے گا خدا قبول فرمالے گا اور اس کی حاجت پوری ہو گی ( تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف :علامہ حسین بخش جاڑا ؒ ج5ص38)

8:اس روز دعائے ندبہ بھی پڑھنا مستحب ہے۔

تمت بالخیر

٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button