اخلاق حسنہاخلاقیاترسالاتسلائیڈرمتفرق مقالات

عقل اور عبادت(حصہ اول)

کتاب آئین بندگی سے اقتباس
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ارادے کا مالک بنایا ہے۔ ارادے کا مالک عقل کی بنیاد پر بنایا ہے اور عقل ہی کی بنیاد پر خود مختار اور مکلف بنایا۔ چنانچہ عقل کے بغیر خود مختاری نہیں آتی اور خود مختاری کے بغیر مکلف نہیں بنایا جاسکتا ۔ چنانچہ جمادات و نباتات میں خود مختاری نہیں ہے لہذا یہ مکلف بھی نہیں ہیں اور نہ ان کا محاسبہ ہوتا ہے۔لہذا عقل ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسانیت اور اللہ کی عبودیت تعمیر ہوتی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا : عقل کیا چیز ہے؟ فرمایا:
ماعبد بہ الرحمن واکتسب بہ الجنان
عقل وہ ہے جس سے اللہ کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے۔
الکافی جلد 1 : کتاب العقل والجھل 11
انسان دیگر مخلوقات کی طرح یک طرفہ مخلوق نہیں ہے۔ یک طرفہ مخلوق کا امتحان نہیں ہو سکتا۔ چونکہ امتحان و آزمائش وہاں ہوسکتی ہے جہاں مخلوق دو راستوں کے درمیان ہو۔ان میں سے ایک اختیار کرنے میں یہ مخلوق آزاد ہو۔اگر صرف ایک ہی راستہ ہو دوسرا نہ ہو تو امتحان و آزمائش ہوسکتی ہے نہ مکلف ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کا محاسبہ ہوسکتا ہے۔
لہذا جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عنایت فرمائی ہے وہاں اس کے مقابلے میں خواہشات بھی ودیعت فرمائی ہیں اور انسان کو عقل اور خواہشات کے درمیان رکھ کر آزمایا جاتا ہے۔عقل راہ راست کی طرف دعوت دیتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں خواہشات راہ حق سے ہٹانے میں عقل کے مقابلے میں کھڑی ہو جاتی ہیں اور انسان کو ان دونوں کے درمیاں کھڑا کر کے آزمایا جاتا ہے۔ کیا وہ عقل کی دعوت پر لبیک کہتا ہے یا خواہشات کی جھولی میں چلا جاتا ہے؟
واضح رہے عقل ، اللہ کی طرف سے حجت ہے ۔ اس کا کام حجت پوری کرنا ہے۔ حق اور سعادت کی بات سمجھانا ہے۔آگے اس کا نفاذ عقل کا کام نہیں ہے۔عقل کا کام حق کا راستہ دکھانا ہے ، جبر کرنا نہیں ہے۔جس طرح رسولوں کا کام بھی حق کی بات لوگوں تک پہنچانا ہے۔ حق کو لوگوں پر مسلط کرنا رسولوں کا کام نہیں ہے۔ وما علینا الا البلاغ یعنی ہم رسولوں کے ذمے صرف پیغام پہنچانا ہے۔ اسی طرح خواہشات بھی صرف دعوت دیتی ہیں۔ان کی بھی طرف سے جبر نہیں ہے۔انسان پر عقل کی طرف سے جبر ہے نہ خواہشات کی طرف سے۔ دونوں کی طرف سے دعوت ہوتی ہے۔ کس کی دعوت قبول کرنی ہے؟ ان میں انسان خود مختار ہے۔
انسان کے کشور تن میں موجود اس معرکہ حق و باطل میں ایک فریق عقل ہے اور دوسرا فریق خواہشات ہیں۔ دونوں طاقتیں اس معرکہ میں اپنے اپنے لشکر کے ساتھ میدان کار زار میں نبرد آزما ہوتی ہیں۔یہ معرکہ نفس کو اپنے قابو میں لانے کے لیے ہوتا ہے۔
کس قدر خوبصورت ہے مولائے متقیان علیہ السلام کا یہ فرمان:
العقل صاحب جیش الرحمن والھویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبہ بینھما فایھما غلب کانت فی حیزہ
لشکر رحمان کی سربراہ عقل ہے اور لشکر شیطان کی سربراہ خواہشات ہیں اور نفس کو دونوں اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان دونوں میں سے جو غالب آجائے نفس اس کے اختیار میں ہوتا ہے۔
غرر الحکم صفحہ 50 حدیث 304
یعنی حق و باطل کے یہ دونوں لشکر کشور نفس کو فتح کرنے کے لیے آپس میں جنگ کرتے ہیں ۔ حق و باطل کا میدان کارزار نفس انسان ہے۔ یہ جس کے قبضے میں آجائے اسی کا ہو جاتا ہے۔
مولائے متقیان علیہ السلام کا ایک اور فرمان ہے:
علل النفس بالقنوع والا طلبت منک فوق ما یکفیھا
اپنے نفس کو تھوڑے پر بہلاؤ ورنہ وہ ضرورت سے زیادہ طلب کرے گا۔
مناقب آل ابی طالب ع لابن شھر آشوب 2:98
نفس اور روح دو مختلف چیزیں نہیں ہیں ۔ انسان کو حیات دینے کے اعتبار سے روح کہتے ہیں اور خواہشات، احساسات و جذبات جیسے محبت ، عداوت ، غصہ ، حب ذات وغیرہ کا مرکز ہونے کے اعتبار سے نفس کہتے ہیں ۔ تمام غرائز نفس میں ہوتے ہیں، یعنی تمام خواہشات نفس میں ہوتی ہیں ۔ عقل اور خواہشات کا جو مقابلہ ہے وہ عقل اور نفس کا مقابلہ ہے یعنی منفی خواہشات کے ساتھ مقابلہ ہوتا ہے چونکہ خواہشات کا مسکن نفس ہے۔ لہذا اصل میں مقابلہ عقل اور منفی خواہشات کا ہے۔
اقتباس ار کتاب: آئین بندگی صفحہ 203-206
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button