متفرق مقالات

اسلامی قوانین اور کتاب خدا معصوم کی تفسیر سے بے نیاز نہیں

آیۃ اللہ جعفر سبحانی
اسلامی قوانین چاہے جتنے بھی روشن و واضح ہوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ہے بالکل یوں ہی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاہے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماہروں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے اہم پہلوؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے نقل ہوئے ہیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نہیں ہیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ہیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ہیں۔
کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نہیں ہے جوپیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ہو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ہو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نہیں تھا؟
حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یہاں چھ مہینے میں ہی بچہ پیدا ہو گیا ہے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کہا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پہنچئے ۔ میں ایک پاک دامن عورت ہوں اور میں نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی سے قربت نہیں کی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ہوئے تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کہا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے ؟خلیفہ نے کہا کہ شوہر سے اس عورت کی قربت کو صرف چھ ماہ گزرے ہیں ۔ کیا کہیں چھ مہینے میں بچہ پیدا ہوتا ہے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جس میں آیا ہے۔
وحمله و فصاله ثلاثون شهرا . (سورہ احقاف۱۵)
یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ہے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ہے ۔ پھر حضرت علی نے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نہیں معین کیا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:
والولدات یرضعن اولادهن حولین کاملین. (سورہ بقرہ۲۳۲)
یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی نے فرمایا : کہ اگر دودھپلانے کے چوبیس مہینوں کو تیس مہینوں سے کم کرو توچھ ہی ماہ باقی رہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ہے۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے دو آیتوں کو باہم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نہیں تھے اب کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس الٰہی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رہنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ہے اپنے بعد کوئی اقدام نہیں فرمایا ہے؟
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بہت کم پیش آتا ہے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے۔
قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت ۶ میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ہے اور صدر اسلام میں مسلمان ہر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتہاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقہی احکام سے متعلق آیات پر رفتہ رفتہ بحث و تحقیق ہوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ہے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں اور پیروں کا مسح کرتے ہیں لیکن علمائے اہل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ہیں۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رہبر موجود ہو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ہوں تو ہر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نہیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دہی میں یک رنگ و یک شکل ہوگا۔
قرآن کی تفسیر میں اختلاف
اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ہاتھ کاٹنے کا قانون ہے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقہی کتابوں میں درج ہے ابھی ابھی دو تین صدی پہلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نہیں پہنچے تھے چور کی تنہا سزا اس کاہاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ہے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نہیں ہو سکے۔
معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ہجرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ہاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ہوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نہیں کر پارہے تھے کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹنا چاہئے ۔ایک کہتا تھا :
ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کہتا تھا : ہاتھ کہنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کہتا تھا : آخر کار خلیفہ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: چور کے ہاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:
” و ان المساجد اللہ “
سجدہ کی جگہیں خدا کے لئے ہیں اور اس سے متعلق ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ان میں سے ایک ہتھیلی بھی ہے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ہے اور جو چیز خدا سے متعلق ہو اسے کاٹا نہیں جا سکتا ۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ہو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاہر ہے کہ بہت سے اختلافات آسانی سے دور ہو جائیں گے اور امت ایک ہی سمت میں ایک ہی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ہوگا اور نہ ان میں خطر ناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔
قرآن مجید ہر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ہے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نہیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماخذ میں باہم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باہم ٹکراو رکھتی ہوں تو ہم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ہوگی۔
لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ہیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ہے ہی نہیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ہو ؟ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔صحیح ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ہیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ہوتی ہیں اور وہ قرآنی آیات بھی جومبہم ہیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ہو جاتی ہیں ۔
(حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ہیں :
”کتاب الله تبصرون به ،وتسمعون به و ینطق بعضه ببعض و یشهد بعضه علی بعض “)
اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ہیں جو یا نزول کے وقت سے ہی مبہم ہیں یا زمانہ وحی سے دوری کی وجہ سے مبہم ہوگئی ہیں۔ اس قسم کی آیات چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو کیسے حل کی جا سکتی ہیں؟
کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نہیں ہونی چاہئے جو اس قسم کی آیات کا ابہام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں؟
حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انہیں یہ حکم دیا تھا کہ :
”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“
یعنی ان سے ہرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ہیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمہیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔
یہ مسلم ہے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نہیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پہلووالی ہیں ، بظاہرروشن و واضح نہیں ہیں اور ان کا مفہوم و مفاد قطعی نہیں ہے۔
اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ہو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ہو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناہ گاہ ہو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ہو، لازم و ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ہو جانے کا باعث ہوگی۔
ہشام ابن حکم
ہشام ،امام جعفر صادق کے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ہجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انہوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ہشام نے پوچھا:
تمہارے آنکھ ہے ؟
ہاں
اس سے کیا کام لیتے ہو ؟
اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاہوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ہوں۔
تمہارے کان ہے؟
ہاں؟
اس سے کیا کام لیتے ہو؟
اس سے آواز سنتا ہوں ۔
تمہارے ناک ہے ؟
ہاں۔
اس سے کیا کام لیتے ہو؟
اس سے بو سونگھتا ہوں۔
اس کے بعد ہشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ہشام نے پوچھا : تمہارے دل ہے ؟ ہاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ہے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچھ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ہیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ہوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ہے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ہوتا ہے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے شک کو دور کردیتا ہے۔
اس وقت ہشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناہگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ہی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رہبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے !
(اصول کافی ،ج۱ص۱۷۰)
امام جعفر صادق علیہ السلام ،جانشین پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ہے جو الٰہی احکام کو ہر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔
(اصول کافی ،ج۱،ص۱۷۲)
ہشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ہے ؟ اس نے کہا: ہاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت یعنی ان کی احادیث ہیں ۔ ہشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اس نے جواب دیا ہاں ۔تو ہشام نے کہا اگر کافی ہیں تو پھر ہم دونوں جو ایک مذہب رکھتے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟ اور ہم میں سے ہر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ہے جو دوسرے کے خلاف ہے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔
(اصول کافی ،ج۱،ص۱۷۸)
(اقتباس از کتاب:امت کی رہبری)
Source: http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button