متفرق مقالات

عید مباہلہ

مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوں، بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کون حق پر ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلامؐ نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی جسے انہوں نے قبول تو کر لیا لیکن مقررہ وقت پر مباہلے سے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ پیغمبرؐ اپنے قریبی ترین افراد یعنی اپنی بیٹی، فاطمۂ زہراءؑ، اپنے داماد امام علیؑ، اپنے نواسے حسنؑ اور حسینؑ کو ساتھ لے کر آئے ہیں اور یہ امر آپؐ کی صداقت اور سچائی کی علامت قرار پایا۔ یوں رسول اللہؐ اس مباہلہ میں کامیاب ہوئے۔
شیعہ عقائد کی رو سے نصارٰی نجران اور رسول خداؐ کے درمیان پیش آنے والا واقعۂ مباہلہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی رسالت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ آپؐ نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریبی ترین افراد کو مباہلے کے لئے منتخب کرکے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سنہ 9 ہجری کو رونما ہوا، اور قرآن کریم کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مباہلہ کے معنی
لغوی معنی
"مباہلہ” کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔
(الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بھل)
"بہلہ اللہ” یعنی اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے۔لفظ "مباہلہ” مفہوم کے حوالے سے آیت مباہلہ سے ماخوذ ہے۔
(تفسیر نمونہ، ج‌2، ص580)

اصطلاحی معنی
ابتہال کے معنی میں دو اقوال ہیں:
ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو؛ 2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔
(مجمع البیان، انتشارات ج2، ص 762 تا 761)
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کون سا فریق حق بجانب ہے۔
آیت مباہلہ سورہ آل عمران کی 61ویں آیت ہے جو واقعہ مباہلہ کی طرف اشارہ کرتی ہے:
آیت مباہلہ
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسیؑ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
(آل عمران61)
شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرمؐ کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیؑ تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے وہ عیسیؑ کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتی کہ آپؐ نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔
(توضیحات و واژه نامه ذیل آیه مباهله، ص 57)
اہل سنت کے مفسرین (زمخشری، فخر رازی، بیضاوی اور دیگر) نے کہا ہے کہ "ابناءنا” [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسنؑ اور حسینؑ ہیں اور "نسا‏‏ءنا” سے مراد فاطمہ زہراءعلیہا السلام اور "انفسنا” [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔
تفسیر الکشاف ، التفسیر الکبیر، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیہ 61 آل عمران)
یعنی وہ چار افراد جو آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لئے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
آیت تطہیر
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً
اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے”۔
(احزاب 33)
نصارائے نجران نے رسول اللہؐ اور آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہوکر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہيں ہوئے اور آپؐ کے ساتھ صلح کرلی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرتؐ نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی۔
(توضیحات و واژه نامه ،ذیل آیه مباهله، ص 57)
بالفاظ دیگر عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خداؐ مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے چنانچہ وہ خوفزدہ ہوکر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔

روز مباہلہ
شیخ مفید نے اس واقعے کو فتح مکہ کے بعد اور حجۃ الوداع سے پہلے (یعنی سنہ 9 ہجری قمری) قرار دیا ہے۔
(الارشاد، ج1، ص166،171)
نصارٰی کے ساتھ رسول خداؐ اور عیسائیوں کے درمیان واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ (سنہ 631 عیسوی) کو رونما ہوا۔
(مناقب ابن شهرآشوب ج 3، ص 144)
صاحب کشف الاسرار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذوالحجہ کو واقع ہوا ہے۔
(کشف الاسرار وعدة الابرار، ج2، ص147)
شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔
(کتاب الطهارة، ج3 ، ص48-49)
شیخ عباس قمی، اپنی مشہور اور شریف کتاب مفاتیح الجنان میں 24 ذوالحجہ کے لئے بعض اعمال ذکر کئے ہیں جن میں غسل اور روزہ شامل ہیں۔
جو کچھ شیعہ اور سنی مؤرخین و محدثین کے ہاں مسلّم ہے یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اکرمؐ اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان رونما ہوا ہے۔
مباہلے میں شامل افراد
یہ بھی تفاسیر اور تواریخ و حدیث کے علماء کے ہاں امر مسلّم ہے کہ رسول اللہؐ جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے ساتھ لائے تھے وہ امیرالمؤمنینؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ تھے؛ تاہم یہ کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا تھیں، عیسائیوں میں سے کون لوگ رسول اللہؐ کے حضور آئے تھے اور عیسائیوں اور رسول اللہؐ کے درمیان کن کن باتوں کا تبادلہ ہوا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف روایات اور کتب میں اختلاف کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔
واقعۂ مباہلہ
روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرمؐ امیرالمؤمنینؑ کے گھر تشریف فرما ہوئے؛ امام حسنؑکا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین ؑکو گود میں اٹھایا اور حضرت امیرؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔
جب نصارٰی نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ {اور آج کے عیسائی انتظامات کے مطابق کارڈینل} ابوحارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمدؐ کے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ:
وہ جو ان کے آگے آگے آرہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں؛ وہ دو بچے ان کے فرزند ہیں ان کی بیٹی سے؛ اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں جو خلق خدا میں ان کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آنحضرتؐ مباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب (جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے) اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لئے روانہ ہوئے۔
ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمدؐ کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاءؑ مباہلے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔
سید نے کہا: کہاں جارہے ہو؟
ابو حارثہ نے کہا: اگر محمدؐ بر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرئت نہ کرتے؛ اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ہم پر ایک سال گذرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بےشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
اے ابا القاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو ہم ادا کرسکیں۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہئے؛ نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتادینا پڑیں گے اور آپؐ خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرتؐ نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔
رسول اللہؐ نے بعدازاں فرمایا: "اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی؛ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بےشک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہوجاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لئے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہوجاتے۔
نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ ہدایا اور عطیات لے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔
(مجمع البیان فی تفسیر القرآن ج 2، ص 310)
واقعۂ مباہلہ سے استدلال
تاریخ میں متعدد بار اہل بیتؑ کی حقانیت کے اثبات کے لئے واقعۂ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور اس واقعے سے استدلال امیرالمؤمنینؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ اور باقی ائمۂ طاہرینؑ و دیگر کے کلام میں ملتا ہے۔ یہاں چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں:
سعد بن ابی وقاص کا استدلال
عامر بن سعد اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد سے کہا: تم کیوں علیؑ پر سب و شتم نہیں کرتے ہو؟
سعد نے کہا:
"جب تک تین چیزیں میرے ذہن میں ہوں میں کبھی بھی ان پر دشنام طرازی نہیں کروں گا؛ اور اگر ان تین چیزوں میں سے صرف ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والے اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا”۔
بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: منجملہ یہ کہ جب آیت
فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ
نازل ہوئی، تو رسول خداؐ نے علی، فاطمہ اور حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: "اللهم هؤلاء اهل بيتي یعنی بار خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
(المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیت 61 آل عمران؛ المیزان کے مؤلف کے مطابق یہ روایت صحیح مسلم، سنن ترمذی، أبو المؤید الموفق بن أحمد کی "فضائل علی”، ابو نعیم اصفہانی کی "حلیۃ الاولیاء” میں اور حموینی کی "فرائد السمطین” میں بھی نقل ہوئی ہے)
امام موسی کاظمؑ کا استدلال
ہارون عباسی نے امام کاظمؑ سے کہا: آپ یہ کیونکر کر کہتے ہیں۔ ہم نبیؐ کی نسل سے ہیں حالانکہ نبیؐ کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خداؐ کی بیٹی کی اولاد اولاد ہیں؟
امام کاظمؑ نے فرمایا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھنا۔
ہارون نے کہا: اے فرزند علیؑ، آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا پڑے گی، اور آپ اے موسیؑ! ان کے سربراہ اور ان کے زمانے کے امام ہیں ـ مجھے یہی بتایا گیا ہے ـ اور میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں آپ کو اس کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا حتی کہ ان سوالات کی دلیل قرآن سے پیش کریں؛ اور آپ فرزندان علیؑ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ
مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ
ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی۔
اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجت مند نہیں سمجھتے ہیں۔
(انعام 38)
امام کاظمؑ نے فرمایا: مجھے جواب کی اجازت ہے؟
ہارون نے کہا: کہہ دیں۔
امامؑ نے فرمایا:
أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ٭ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے عطا کیے انہیں اسحاق اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوح کو اس کے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال رکھنے والوں کو ٭ اور زکریا اور یحیی اور عیسی اور الیاس کو، سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔
(انعام 83 و 84)
عیسیؑ کا باپ کون ہیں؟
ہارون نے کہا: ان کا کوئی بات نہیں؟
امامؑ نے فرمایا:
پس خداوند متعال نے مریمؑ کے ذریعے انہیں انبیاءؑ کی نسل سے محلق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ فاطمہؑ کے ذریعے رسول اللہؐ کی نسل سے ملحق فرمایا ہے؛ کیا پھر بھی بتاؤں؟
ہارون نے کہا: کہہ دیں۔
چنانچہ امامؑ نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
کسی نے بھی یہ نہیں کیا کہ رسول اللہؐ نجران کے نصارٰی کے ساتھ مباہلے کے لئے علی بن ابی طالب، فاطمہ اور حسن و حسین، کے سوا کسی اور کو کساء کے کے نیچے جگہ دی ہے! پس آیت میں ہمارے بیٹوں "ابنائنا” سے مراد حسن و حسین، ہماری خواتین "نسائنا” سے مراد فاطمہ اور ہماری جانوں "انفسنا” سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔
(المیزان فی تفسیر القرآن ص 230-229)
پس خداوند متعال نے آیت مباہلہ میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو رسول اللہؐ کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ اہل بیتؑ رسول اللہؐ کی نسل اور ذریت ہیں۔
امام رضاؑ کا استدلال
مأمون عباسی نے امام رضاؑ سے کہا: امیرالمؤمنینؑ کی عظیم ترین فضیلت ـ جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے۔ کیا ہے؟
امام رضاؑ نے کہا: امیرالمؤمنینؑ کی مباہلہ میں فضیلت اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:
رسول خداؐ، نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ جو آپؐ کے بیٹے ہیں ـ کو بلوایا اور حضرت فاطمہؑ کو بلوایا جو آیت میں "نسائنا” کا مصداق ہیں اور امیرالمؤمنینؑ کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق "انفسنا” کا مصداق اور رسول خداؐ کا نفس اور آپؐ کی جان ہیں؛ اور ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہؐ کی ذات با برکات سے زیادہ جلیل القدر اور اور افضل نہیں ہے؛ پس کسی کو بھی رسول خداؐ کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہئے۔
بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند متعال نے "ابناء” کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے جبکہ رسول خداؐ صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، "نساء” بھی جمع ہے جبکہ آنحضرتؐ صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ "انفس” کو بلوانے سے مراد رسول خداؐ کی اپنی ذات ہے، اور اس صورت میں جو فضیلت آپؐ نے امیرالمؤمنینؑ کے لئے بیان کی ہے وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے!
امام رضاؑ نے جواب دیا:
نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر (اور حکم دینے والے) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خداؐ نے مباہلہ کے وقت علی بن ابی طالبؑ کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علیؑ وہی نفس ہیں جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔
پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے۔
(الفصول المختاره ص 38)
https://ur.wikishia.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button