مکتوب مجالس

مجلس عزاء ایام فاطمیہ عنوان: فاطمہ زہرا ء علیھا السلام مرکز ومحور خلقت اور عصمت و طہارت

سرنامہ گفتگو:
قال یا آدم انبھم باسمائھم فلما انبئھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم ما لا تعلمون
1۔ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ جب پروردگار نے انہیں زمین پر جانشین بنا اسب کے اذہان میں ہے۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ
تو ملائکہ کا سوال ہوا قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ونحن نسبح و نقدس لک قال انی اعلم ما لاتعلمون
یہاں پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
2۔ ملائکہ کوکیسے علم ہوا جس مخلوق کو خدا اپنا جانشین بنا رہا ہے وہ زمین پر خونریزی کرے گی اور فساد پھیلائے گی؟
اس حوالے سے مفسرین نے طویل ابحاث کی ہیں ہم ان تفاصیل میں نہیں جانا چاہتے صرف ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ یہ کہ ملائکہ کے پاس صرف عقل ہے شہوت اور دیگر انسانی خواہشات نہیں ہیں۔ پس وہ عقل کی بنیاد پر اتنا تو جان سکتے ہیں کہ جن میں شہوت، بھوک ، خوف اور ان جیسی دیگر خصوصیات ہونگی وہ فساد، خونریزی اور دیگر بشری تقاضے اپنے اندر رکھے گا۔
لیکن ملائکہ کے اندرخواہش اور شہوت نہیں لہذا وہ اس چیز کا ادراک نہیں کرسکتے کہ ان کے پاس عقل بھی موجود ہے اگر یہ مخلوق عقل پر خواہش کو غالب کردے اور خواہشات پر عقل کو کنٹرول دے دےتو یہی مخلوق کسی اوج کمال تک پہنچ سکتی ہے۔ کیا اس کو درک کرنا ملائکہ کے لیے ممکن ہے؟
کیونکہ شہوت اور خواہشات پر کنٹرول کو سمجھنا اس کے لیے ممکن ہے جو ان مشکلات سے آشنا ہو۔
3۔ اب ملائکہ کے اس حیرت زدہ سوال سے ہم اس کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں شاید اس سے ہمیں کچھ مزید فہم ہوسکے۔
فرشتوں کے اعتراض میں فرمایا: انی اعلم مالاتعلمون۔
اب اپنے اس سوال کوحق و سچ ثابت کرنے کے لیے خدا نے ملائکہ کو امتحان سے گزارا ۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ خدا وندعالم نے فرمایا:
انبئونی باسماء ھولاء ان کنتم صادقین۔
اگر تمہارے اس دعوے کے مطابق سچے ہو کہ تم خلافت کے اہل ہو تو ان ذوات مقدسہ کے نام بتاو۔
لیکن فرشتوں نے کہا:
لا علم لنا الا ما علمتنا
تو فرشتوں کو کہا:
الم قل لکم انی اعلم ما لا تعلمون
اب یہی سوال آدم سے کیا کہ اب آپ ان ناموں کو بتاو۔
4۔یہاں اس بات کی طرف توجہ رہے کہ علم آدم الاسماء کلھا ، ثم عرضھم علی الملائکۃ
اب آدم کو سکھلائے گئے تھے لیکن فرشتوں کو سکھانے کا کہیں ذکر نہیں آیت اس بارے میں خاموش ہے۔ اب فرشتوں کو نہیں سکھایا تو انہیں جواب نہیں آنا تھا جبکہ آدم کو تعلیم دی تو انہوں نے جواب دینا تھا اب اس میں آدم کی برتری ، فرشتوں پر کیسے ثابت ہوگیِ؟ اور دوسری بات کہ فرشتوں کو جس چیز کا علم نہیں سکھایا گیا تھا اس کا سوال کیا گیا؟
5۔ اب ان سوالات کے جوابات سے پہلے یہ دیکھنا ناگزیر ہے کہ وہ اسماء کون سے تھے۔ وہ ذوات کون تھیں؟ مفسرین کہتے ہیں کہ وہ اسماء پنجتن پاک کی ذوات گرامی کے تھے جو کہ نورانی صورت اور حالت میں موجود تھے اور ملائکہ انہیں پہلے ہی جانتے تھے بلکہ انہیں سے تسبیح و تقدیس سیکھتے تھے۔ جیسے حدیث مبارک ہے۔
تقدسنا اللہ و قدست الملائکۃ و سبحنا اللہ وسبحت الملائکۃ۔۔۔
مگر آدم پہلی بار ان ذوات کو دیکھ رہے تھے۔ لہذا آدم نے پہلی بار ان ذاوات مقدسہ کو دیکھا تو علم الاسماء آدم سے مراد یہی ہوا کہ اللہ نے آدم کو وہ تمام ذوات دکھا دیں جو فرشتوں نے پہلی دیکھی ہوئی تھیں۔
6۔اب ان باتوں کو تھوڑی دیر کے لیے روک کر ایک اور مطلب کو واضح کرتے چلیں کہ خدا نے آدم کو اس وقت ان کے اسماء سکھائے جب وہ دنیا میں نہیں آئے تھے۔ جبکہ عادت اور صورت حال اس کے برعکس ہے کہ انسان کا نام دنیا میں آنے کے بعد رکھا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے پہلے سے ان کے نام خود رکھا ہوا تھا ۔
دوسری بات یہ کہ ہمارے نام رکھ دیے جاتے ہیں چاہے کردار اس کے مطابق ہو یا نہ ہو لیکن ان کے اسماء خدا نے ان کے کردار کے مطابق رکھے تھے۔
جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ :
میں محمود ہوں یہ محمد ہے میں اعلیٰ ہوں یہ علی ہے میں فاطر السموات والارضین ہو یہ فاطمہ ہےمیں محسن ہوں یہ حسن ہے میں قدیم الاحسان ہوں یہ حسین ہے۔
اب جب آدم اور بشر ایک جنس سے تھے بشر تھے تو تو جیسے ہی ان ذوات جو دیکھا جن کے اسماء ان کے کردار کا مجسم تھے تو فورا انہیں یاد کرلیا اور درک کر لیا جبکہ ملائکہ ان ذوات کی حقیقت اور اصلیت کو درک نہیں کرسکتےتھے لہذا دیکھنے کے باوجود بھی وہ انہیں درک نہیں کرسکے۔
7۔ اب چونکہ ہم ایام فاطمیہ کی مناسبت سے گفتگو کرنے جارہے ہیں لہذا باقی اسماء کی جگہ ہم فاطمہ علیھا السلام کے اسم کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں جو ان سب کا مرکز و محور ہے۔
اس نام کو اللہ نے اپنی صفت فاطر سے مشتق کیا ہےفاطریت یعنی خالقیت، یعنی کون ومکاں کے خلق کی صفت کو اسم فاطمہ کے لیے منبع قرار دیا۔ اس سے یہ مطلب واضح ہوگیا کہ خدا نے کائنات کی خلقت کو فاطمہ سے اس طرح جوڑا ہے کہ اگر کسی صورت میں فاطمہ کا وجود نہ ہوتا تو یہ کائنات وجود میں ہی نہ آتی۔
اب اس کا یہ مطلب کوئی ہرگز نہ لے کہ نعوذ اللہ بغیر خلقت فاطمہ کے اللہ کوئنات کو وجود نہیں دے سکتا یا اللہ کائنات کے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا بلکہ خود خالق کائنات نے اپنی مرضی اور ارادہ سے کائنات کے وجود اور بقاء کو فاطمہ سے جوڑا ہے اور اس طرح جوڑا کہ فاطمہ کو مرکزیت عطا کی۔یہی وجہ تھی کہ حدیث میں ہے
لولاالحجۃ لساخت الارض ۔۔۔۔۔۔
اور وہ گیارہ حجتیں وجود سیدہ سے مربوط ہیں یہی وجہ ہے کہ فاطمہ وجود کائنات و بقاء کائنات میں مرکزیت رکھتیں ہیں۔
8۔ اب یہاں ایک اور سوال کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے حدیث کساء میں تمام ذوات کا تعارف فاطمہ سے کیوں کرایا؟
اہل بیت جب چادر کے نیچے جمع ہوئے تو فرمایا:
یا ملائکتی و سکان سماواتی انی ما خلقت سماء مبنیۃ و لا ارضا مدحیۃ ولا شمسا مضئیۃ ولا قمرا منیرا۔۔۔۔
ایک تو اللہ نے یہ بتایا کہ اس کی تمام مخلوقات کی وجہ خلقت اہل کساء ہیں پنجتن پاک ہیں۔
اب چونکہ بات بھی وجہ تخلیق کی ہورہی تھی اور عظیم ترین مخلوق کا ذکر تھا تو ان کے تعارف کے لیے ایسی ہستی کو مرکزیت اور اس سے تعارف ہونا تھا جس ذات الٰہی کی صفت خالقیت اور فاطریت سے گہرا تعلق ہو اور وہ ذات جناب سیدہ کی ہی تھی۔ ۔
لہذا جبرائیل امین نے اس سوال کے جواب میں کہ یا رب ومن تحت الکساء فرمایا
ھم فاطمۃ وابوھا و بعلھا و بنوھا
پس حدیث کساء میں فاطمہ کی مرکزیت کےحوالے سے جتنی باتیں کی گئی ہیں وہ سب اپنی جگہ درست ہونگی لیکن قرائن کی رو سے سب سے بہترین وہی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے، اور اسی سے اس روایت کو سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے
یا احمد لولاک لما خلقت الافلاک، ولولا علی لما خلقتک ، ولولا فاطمۃ لما خلقتکما
اب یہاں کوئی معاذ اللہ فاطمہ پیغمبر سے افضل نہیں بلکہ وہ صفت فاطریت اور فاطمہ کو خلقت کے مرکز و محور ہونے کے حوالے سے فرمایا گیا ہے۔
شاید اسی لیے رسول اکرم ﷺنے فرمایا:
ان اللہ خلقنی و خلق علیا قبل ان یخلق آدم بھذہ المدۃ قبل الاشیاء فنورھا بنوری ونور علی ثم جعلنا علی یمین العرش ثم خلق الملائکۃ فسبحنا فسبحت الملائکۃ وھللنا فھللت المائکۃ وکبرنا فکبرت الملائکۃ فکان ذالک من تعلیمی و تعلیم علی۔
روایت میں ہے کہ ابن مہران نے عبداللہ بن عباس سے ان آیات کی تفسیر دریافت کی۔ وَّ اِنَّا لَنَحۡنُ الصَّآفُّوۡنَ وَ اِنَّا لَنَحۡنُ الۡمُسَبِّحُوۡنَ. اور ہم ہی صف بستہ رہتے ہیں،اور ہم ہی تسبیح کرنے والے ہیں۔
تو ابن عباس نے اس کے جواب میں کہا۔
ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھے کہ علی ابن ابی طالب علیھما السلام تشریف لائے جب آپ نے علیؑ کو دیکھا تو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور آپ نے فرمایا۔
خوش آمدید جسے اللہ تعالٰی حضرت آدم کو پیدائش سے چالیس ہزار سال قبل خلق کیا۔
تو میں نے کہا کیا بیٹے کی خلقت باپ سے پہلے ہوئی تھی؟
آپ نے فرمایا۔ ہاں اللہ تعالٰی نے مجھے اور علیؑ کو آدم سے چالیس ہزار سال پہلے پیدا کیا۔اللہ نے اس مدت میں نور کو خلق کیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور تمام اشیاء سے پہلے اس نور کے آدھے حصے سے مجھے اور باقی حصے سے علی کو پیدا کیا۔ یہ تمام اشیاء تاریک تھیں انہیں میرے اور علی کے نور سے منور کیا۔
پھر اللہ نے ہمیں عرش کے دائیں جانب ٹھہرایا اور ملائکہ کو خلق کیا پس ہم نے تسبیح کی تو ملائکہ نے بھی تسبیح کی ہم نے تہلیل کی تو ملائکہ نے بھی لا الہ الا اللہ کا ورد کیا ہم نے تکبیر کہی تو ملائکہ نے بھی اللہ اکبر پڑھا پس ملائکہ نے یہ سب مجھ اور علی سے سیکھا اور یہ سب کچھ پہلے سے ہی خدا کے علم میں تھا کہ وہ مجھ اور علی سے محبت کرنے والوں کو جہنم میں داخل نہیں کرے گا اور نہ ہی میں مجھ اور علی سے بغض رکھنے والوں کو جنت میں داخل کرے گا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button