مکتوب مجالس

مجلس بعنوان:تربیت اولاد از سیرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا (حصہ دوم)

وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ﴿لقمان:۱۳﴾
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
۱۔ وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ: واقع بین حکیم لقمان اپنی حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حکمت کا آغاز اپنے فرزند کی تربیت و تعلیم سے کرتے ہیں۔ اس سے ہم بجا طور پر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ والدین پرسب سے پہلی ذمے داری اولاد کی تربیت ہے۔
۲۔ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ: اس تربیت میں سب سے پہلی بات توحید ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا بھی توحید اور نفی شرک ہے۔
۳۔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ: شرک کا مرتکب اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے دائرے سے خارج کرتا اور ایک ناچیز کو رب العالمین کے مقابلے لاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا زیادتی ہو سکتی ہے۔
امام صادق فرماتے ہیں :کان فیما وعظ لقمان ابنہ، انہ قال لہ: : یابنی اجعل فی ایامک ولیالیک نصیبا لک فی طلب العلم، فانک لن تجد تضییعا مثل ترکہ
لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کویہ نصحیت بھی کی تھی کہ پیارے بیٹے اپنی رات اوردن میں ایک حصہ علم کے لئے مخصوص کرو کیونکہ علم حاصل نہ کرناسب سے بڑا نقصان ہے ۔ (- بحارالانوار ۱۶:۱۶۹)

آئمہ نے بھی اس حق کی پوری پوری حفاظت وحراست کی ہے اوراسلام نے تحصیل علم کوہرمسلمان مرد اورعورت کافریضہ قراردیاہے اوروالدین کافریضہ صرف خود علم حاصل کرنانہیں ہے بلکہ اولاد کواس کاحکم دینابھی ضروری ہے اسی لئے حضرت علی ؑ والدین پرزوردیتے ہوئے فرماتے ہیں :مروا اولادکم بطلب العلم ۔ ( کنزالعمال ۱۶:۵۸۴/۴۵۹۵۳)
”اپنے بچوں کوطلب علم کاحکم دو“۔
اورچونکہ بچپن میں علم پتھرپرنقش ہوتاہے لذا ترجیحی بنیاد پرتحصیل علم کے لئے اس کے بچپن سے خوب استفادہ کیاجاسکتاہے بالخصوص آج کادورجوعلمی انقلاب، تعلیمی ترقی اورتحقیق ومہارت کازمانہ ہے۔
مکتب اہل بیت نے تعلم قرآن کوخاص ترجیح دی ہے اسی طرح مسائل حلال وحرام کے حاصل کرنے کوبھی خاص اہمیت دی ہے کیونکہ یہی علم مسلمان کوفرائض کی ادائیگی کے قابل بناتاہے چنانچہ حضرت علی اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کواپنی وصیت میں فرماتے ہیں :
ابتداتک بتعلیم کتاب اللہ عزوجل وتاویلہ وشرائع الاسلام واحکامہ، وحلالہ وحرامہ، لااجاو ذلک بک الی غیرہ ۔ ( نہج البلاغہ تربیت ڈاکٹرصبحی صالح کتاب ۳۱)
میں نے سب سے پہلے کتاب خدا،اس کی تاویل،شریعت اسلام، اس کے احکام اورحلال وحرام کی تعلیم دی اوراس سے تجاوزنہیں کیا۔
اورامام صادق سے جب کسی نے کہا، میراایک بیٹاہے میں چاہتاہوں کہ وہ فقط آپ سے حلال وحرام کے متعلق سوال کرے اوردوسرے قسم کے سوال سے پرہیز کرے توآپنے فرمایا:
وھل یسال الناس عن شی ٴ افضل من الحلال والحرام ۔ ( بحار۱: ۲۹۴)
آیاحلال وحرام کے متعلق سوال کرنے سے بھی بہترکوئی سوال ہے۔اس سے بڑھ کرسنت نبویہ فقط قرآن اورفقہ جیسے علوم دینیہ کی تعلیم ہی کوبچوں کے لئے ضرورت قرارنہیں دیتی بلکہ خاص قسم کے دیگرحیات بخش علوم کے حاصل کرنے پربھی زور دیتی ہے جیسے کتابت، تیراکی و تیراندازی وغیرہ۔
سیرت سیدہ علیھا السلام سے آداب مجلس ، تعلیم و تعلٗم کی تشویق و اہمیت اور بچوں کی حوصلہ افزائی کا عملی درس
ایک واقعہ جو جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی تربیت اولاد کے حوالے سے بہترین روش کے طور پر معروف ہے وہ یہ ہے۔ابن شھر آشوب ابو السعادات سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن مجتبی(ع) سات سال کی عمر میں ہر روز (مسجد میں) رسول اللہ ؐ کی مجلس میں حاضر ہوجایا کرتے تھے اور (پیغمبر اکرم(ص) سے وحی الہی کو سن کر اسے ذہن نشین کرلیتے تھےاور جب اپنے گھر واپس آتے تو اپنی والدہ ماجدہ جناب سیدہ کونین(س) کو من و عن سناتے تھے اور جب حضرت امیر المؤمنین(ع) گھر تشریف لاتے تھے تو حضرت صدیقہ طاہرہ(س) وہ سب باتیں ان کے سامنے بیان کردیتی تھیں۔ایک دن حضرت امیر المؤمنین(ع) نے پوچھا اے فاطمہ تم تو مسجد میں نہیں گئیں یہ باتیں کہاں سے سیکھیں اسی وقت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ مجھے میرا بیٹا حسن بتلاتا ہے وہ ہر روز مسجد میں جاتا ہے اور اپنےجدحضرت محمد (ص) سے جو کچھ سنتا ہے وہ مجھےگھرآکربتادیتاہے۔
حضرت نے فرمایا فاطمہ(س)! میں بھی یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا بیٹا کیسےبتلاتا ہے ۔جناب صدیقہ طاہرہ(س) نے فرمایا میرا خیال ہے کہ وہ شرم کی وجہ سے آپ کے سامنے نہیں سنا پائے گا حضرت نے فرمایا میں کسی جگہ پر چھپ کر اس کی باتیں سن لوں گا اگلے دن امام حسن(ع) ہر روز کی طرح مسجد سے گھر ےتشریف لائے تو حضرت صدیقہ (س) نے فرمایا:اے میرے نور نظر! تمہارے نانا نے آج کیا فرمایا ہے؟ امام حسن(ع) ہر روز کی طرح بیان کرنا چاہتے تھے لیکن زبان مبارک میں لکنت آجاتی تھی اور اپنی بات مکمل طور پر بیان نہ کرنے پر فرمانے لگے :’’یا اماه قل بیانی وکل لسانی لعل سیداً یرانی‘‘۔ اے والدہ گرامی! میرا بیان کم ہو گیا ہے اور میری زبان گنگ ہو گئی شاید کوئی بزرگوار مجھے دیکھ رہے ہیں حضرت امیر علیہ السلام جلدی سے دروازے کے پیچھے سے نکل آئے اور بے اختیار انہیں اپنی آغوش میں بٹھایا اور ان کے ہونٹوں کا بوسہ لیا۔( ابن شھر آشوب، محمد بن علی، المناقب، ج:04، ص؛07)
اس واقعہ میں ایک طرف جناب فاطمہ زھراء ؑ کی بچوں کی بہترین نگہداری اور سر پرستی نمایاں ہیں تو دوسری طرف آپ ؑ کا اپنے بچوں کو بچپن میں مسجد بھیجنا اور وہاں سے واپسی پر رسول اللہ ؐ کے بیان کردہ بیانات و احکامات کے بارے میں استفسار کرنا آپ ؑ کی سیرت سے اپنے بچوں کو آداب مجالس کی تعلیم دینے اور تعلیمات اسلامی کو سیکھنے کی تشویق دلانے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا عملی نمونہ اجاگر کرتاہے۔ کیونکہ جناب فاطمہ زھراء ؑ اس واقعہ کے ضمن میں اپنے بچوں کو آداب مجالس ( مجالس و محافل میں جو کچھ بیان ہو اسے غور سے سننا اور ذھن نشین کرنا) کی تعلیم کے ساتھ ساتھ با مقصد مجالس میں شرکت اور وہاں سے کچھ سیکھنے کا عملی درس دے رہی تھیں ۔ساتھ ہی آپ ؑ کا اپنے فرزند سے روز احوال مجالس اور وہاں بیان شدہ وحی کے بارے میں استفسار کرنا اور اپنے فرزند کی حوصلہ افزائی کرنا آپ ؑ کا بچوں کو تعلیمات اسلامی کو سیکھنے کی تشویق اور اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی عملی مثال ہے۔اور آپ ؑ کا امام علی ؑ کو اس روش سے بخوشی آگاہ کرنا پھر امام ؑ کا اپنے فرزند کے اس عمل پر ان کو بہت زیادہ پیار دینا اور ان کے بوسے لینا ،بچوں کی بہترین تربیت ، نیک عمل پر ان کی حوصلہ افزائی اور تعلیمات اسلامی سیکھنے کی تشویق کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے۔
بچوں سے پیار و محبت میں عملی درس زندگی
تمام مفکرین عالم اور دین مقدس اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بچپنے میں پیار و محبت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام نے بھی بچپنے میں اولاد سے پیار و محبت سے پیش آنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے۔
"عن أبى عبد الله عليه السلام قال: قال موسى عليه السلام يا رب أي الاعمال أفضل عندك ؟ قال: حب الاطفال فاني فطرتهم على توحيدي فان أمتهم أدخلتهم جنتي برحمتي.”( المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، ،, ج: 101 ,ص 97)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت موسیؑ نے عرض کیا: خدا یا کون سا عمل تیرے نزدیک افضل و برتر ہے؟ ارشاد ہوا: بچوں سے محبت کرنا کیونکہ میں نے ان کی فطرت کو اپنی توحید پر استوار کیا ہے اور اگرمیں ان کو موت دوں تو میں اپنی رحمت کے ساتھ ان کو اپنی جنت میں دا خل کروں گا۔
رسول اکرم ﷺ سے روایت ہے آپ نے فرمایا:أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ‌ وَ أَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ يُغْفَرْ لَكُم‌۔
"اپنے بچوں کا احترام کرو اور انہیں بہترین ادب سیکھاؤ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے گا”
جناب فاطمہ زھرا ء کی پوری حیات طیبہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ آپ ؑ نے کبھی اپنے بچوں پر غصہ کیا ہو بلکہ آپ ؑ ہمیشہ بچوں سے مہر ومحبت سے پیش آتیں تھیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ بچوں سے اظہار محبت میں بھی ان کو عملی زندگی کا درس دے رہی ہوتیں تھیں۔ چنانچہ نقل ہوا ہے کہ آپ ؑ اپنے فرزند ارجمند امام حسن ؑ سے پیار و محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو ہاتھوں پر اچھال کر یہ اشعار ارشاد فرماتی تھیں۔
’اشبه اباک یا حسن واخلع عن الحق الرسن
واعبد الها ذالمین ولا توال ذا الاحن" (المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، الطبعہ الثانیہ،, ج: 101 ,ص 97)
"اے حسن اپنے والد کی طرح بنو اور حق کی گردن سے رسی اتار پھینکو اور نعمت عطا کرنے والے خدا کی عبادت کرو اور کینہ پرستوں کو دوست نہ رکھو۔”
سبحان اللہ ! بچے سے اظہار محبت بھی ہے اور محبت کے ساتھ بچے کو اپنے بابا کی طرح شجاع بننے حق پر قائم رہنے ذات الہی کی عبادت انجام دینے اور دوستی سے متعلق نصیحت بھی فرما رہی ہیں۔ چونکہ بچہ اظہار محبت کے دوران مکمل محبت کا اظہار کرنے والے کی جانب کاملا متوجہ ہوتا ہے اسلئے اس موقع پر پیار و محبت میں بچے کو عملی زندگی کے لئے آمادہ کرنا جناب فاطمہ س کی سیرت طیبہ سے نمایاں ہوتا ہے۔
اسی طرح حدیث کساء میں ہم پڑھتے ہیں کہ جناب فاطمہ زھرا ؑء کس قدر محبت اور شفقت کے انداز میں اپنے فرزندوں کو پکارتی ہیں۔ کہ جب امام حسن مجتبی و امام حسین علیھما السلام باری باری گھر تشریف لاتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں۔ تو آپ کس خوبصورتی اور محبت بھرے انداز میں جواب دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیں جو کہ جناب فاطمہ زھراء سے ہی روایت ہے۔
” وَاِذا بِوَلَدِىَ الْحَسَنِ قَدْ اَقْبَلَ وَقالَ السَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمّاهُ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ السَّلامُ یا قُرَّهَ عَیْنى وَثَمَرَهَ فُؤ ادى ۔۔۔۔ وَاِذا بِوَلَدِىَ الْحُسَیْنِ قَدْ اَقْبَلَ وَقالَ السَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمّاهُ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ السَّلامُ یا وَلَدى وَیا قُرَّهَ عَیْنى وَثَمَرَهَ فُؤ ادى ۔۔(می، ثقۃ الاسلام محمد عباس، مفاتیح الجنان، العمران پبلیکشنر لاہور، ص:1571)
"اور پھر میرے بیٹے حسن ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرا میوہ دل۔۔۔ اورجب میرے بیٹے حسین ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میرے لخت جگر، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اورمیرے میوہ دل۔۔”
جب آپ کے دونوں باری باری تشریف لاکر آپ کو سلام کرتے ہیں تو آپ نہ صرف سلام کا جواب دیتی ہیں بلکہ ان سے پیار و محبت کا اظہار بھی فرماتی ہیں۔ جیسے صرف و علیک السلام نہیں کہا بلکہ دونوں کے سلام کے جواب میں فرمایا وعلیک السلام اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میوہ دل۔۔ یہاں آپ نے بچوں سے پیار و محبت کے ساتھ بات چیت کی اس کے ساتھ ساتھ اولاد کے ساتھ محبت میں یکسانیت کا درس بھی دیا کہ جس طرح امام حسن ع سے محبت کا اظہار کیا بالکل انہی الفاظ اور اسی انداز میں امام حسین ع کے ساتھ بھی اظہار محبت فرمایا۔
آپ اپنے بچوں سے کس قدرمحبت کرتیں تھیں اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب آپ ؑ کی رحلت نزدیک تھی تو حضرت علی ؑکے لئے وصیت فرماتی ہیں کہ میرے بچوّں کے لئے کوئی ایسی خاتون تلاش کریں جو ان سے محبت کرتی ہوں تاکہ میری اولاد ماں کی محبت سے محروم نہ ہو۔”
(ابن شھر آشوب، محمد بن علی، المناقب، المکتبہ الحیدریہ، ج:04، ص؛ 362)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button