مکتوب مجالس

شہادت امام رضا علیہ السلام پر ایک نظر

آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ علیہ السلام کی 11 ذی قعدہ 148ھ کو مدینہ میں ولادت ہوئی اور آخر صفر 203ھ میں پچپن سال کی عمر میں ساتویں عباسی خلیفہ مامون رشید کے ذریعے سنا بادنوقان میں جو آج مشہد مقدس کا حصہ ہے زہر سے شہادت پائی ،آپ کا روضہ مشہد مقدس ( ایران )میں ہے ۔
آپ کی امامت کا زمانہ بیس سال (183 تا 203)ہے ۔،اس میں سترہ سال مدینے میں اورتین سال خراسان میں گذرے ۔
امام ہارون کے زمانے میں:
امام رضا کی امامت کے دس سال (183-193)ہارون رشید پانچواں عباسی خلیفہ اور قاتل امام موسیٰ کاظم کے زمانۂ حکومت میں گذرے، ۔ اس زمانے میں امام رضا مدینے میں تھے ، آپ مسلسل ہارون کے متعین حکمرانوں کی زیر نگرانی زندگی بسر کر رہے تھے ،بطور نمونہ ۔
١۔ جس وقت ہارون نے رقّہ سے مکہ جانے کا ارادہ کیا عیسیٰ بن جعفر ( ہارون کے چچا )نے اس سے کہا: تم نے قسم کھائی تھی کہ جو بھی موسیٰ بن جعفر کے بعد امامت کا دعویٰ کرے اس کی گردن مار دو ۔ اب ان کے فرزند امام رضا یہی دعویٰ کرتے ہیں ۔
ہارون نے غضبناک نگاہوں سے اس کو دیکھ کر کہا : تم کیا چاہتے ہو؟ میں کیاکروں ؟ کیا سب کی گردن مار دوں ؟
عیون الاخبار ،ج٢،ص ٢٢٦
٢۔ صفوان بن یحییٰ کہتا ہے کہ حضرت امام کاظم کی شہادت کے بعد امام رضاؑ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنی امامت ظاہر کی ، میں اس کے انجام سے خوفزدہ تھا ، امام کے حضور میں پہونچ کر عرض کی :
آپ نے اپنی امامت ظاہر فرمائی ہے لیکن مجھے اس طاغوت (ہارون )کے گزند سے ڈر لگتا ہے ۔
امام نے فرمایا: وہ جتنی چاہے کوشش کر ڈالے مجھ پر اس کا کوئی قابو نہ چل سکے گا ۔
صفوان کہتا ہے : اس خبر سے مجھے اطمینان ہو گیا
جب وزیر ہارون ،یحییٰ بن خالد برمکی نے ہارون سے کہا کہ یہ علی بن موسیٰ اپنی امامت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
ہارون نے جواب دیا : میں نے ان کے باپ کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا ۔،کیا تم چاہتے ہو کہ سبھی کو قتل کردوں ؟
برمکیوں کا ہارون کی سلطنت میں بڑا رسوخ تھا ،یہ آل محمد کے شدید دشمن تھے، جب بھی موقع پاتے ہارون کو آل محمد کے خلاف ابھارتے رہتے تھے ۔
عیون الاخبار ،ج٢،ص ٢٢٦
٣۔ محمد بن سنان کہتا ہے : میں نے امام رضا سے عرض کی : آپ نے اپنے والد بزگوار کے بعد امامت ظاہر کی ، حالانکہ ہارون کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے ۔
امام نے جواب دیا : رسول خدا (ص)کے ارشاد نے مجھے اس کام کی ہمت دلائی، آپ نے فرمایا تھا کہ اگر ابو جہل میرا ایک بال بھی بیکا کر سکے تو تم گواہی دینا کہ پیغمبر نہیں ہوں ۔
روضۃ الکافی ،ص٢٥٧
٤۔ ابو صلت ہروی کہتا ہے : ایک دن حضرت امام رضا اپنے گھر میں تھے ۔ہارون کا قاصد آپ کی خدمت میں آکر بولا : ابھی آپ کو ہارون نے بلایا ہے تشریف لے چلئے ۔ امام اٹھے اور مجھ سے فرمایا: اے ابو صلت! اس وقت مجھے ہارون نے صرف اس لئے بلایا ہے کہ مجھ پر عظیم بلا نازل کرے لیکن وہ کچھ نہ کر سکے گا ، میں رسول خدا (ص)کی ایک دعا کے ذریعے اس کے گزند سے خود کو محفوظ کر لوں گا ۔
ہم امام کے ہمراہ ہارون کے پاس پہونچے ۔ہارون کی نظر آپ پر پڑی تو آپ وہی دعا پڑھ رہے تھے، ہارون نے انہیں دیکھ کر کہا : اے ابو الحسن ! میں نے حکم دیا ہے کہ آپ کو ایک لاکھ درہم دیا جائے تاکہ آپ اس سے اپنے گھر کی ضرورتیں پوری کریں ۔
جب آپ ہارون کے گھر سے باہر آئے تو ہارون نے کہا: آپ کے لئے میں نے کچھ اور ارادہ کیا تھا ۔
لیکن خدا نے دوسرا ہی ارادہ کیا اور ارادۂ خدا بہتر ہے ۔
مہج الدعوت ۔بحار الانوار ،ج٤٩،ص ١١٦
یہ تاریخی کلمات بتاتے ہیں کہ آٹھویں امام اور آپ کے شیعہ، ہارون کے زمانۂ خلافت میں شدید ترین نگرانی میں زندگی بسر کر رہے تھے ۔ لیکن ہارون نے امام کاظم کو شہید کر کے اجتماعی و سیاسی اعتبار سے بری طرح شکست کھائی تھی اس لئے وہ چاہتا تھا کہ امام رضا کے ساتھ یک گونہ نرمی کا برتاؤ کرے ۔
امام خلافت مامون کے زمانے میں:
لگ بھگ196ھ میں ہارون کا بیٹا مامون رشید مسند خلافت پر بیٹھا ، اس کی خلافت اکیس سال تک رہی، اس نے آٹھویں امام کو مدینہ سے خراسان بلایا اور اس نے حضرت سے اپنی قربت ظاہر کرنے کے لئے شورشیں دبائیں اور لوگوں کو خود سے راضی ہونے کا ڈھونگ رچایا اس کی مختصر وضاحت یوں ہے ۔
عباسیوں سے مسلسل دو طاقتیں نبر د آزما تھیں ایک علویوں کا گروہ دوسرا ایرانی ۔
واقف کاروں کی نظر میں قوی احتمال ہے کہ یہی امر باعث ہوا کہ اس نے امام کو خراسان طلب کیا اور انہیں ولی عہدی قبول کرنے پر آمادہ کیا ، اس طرح اس نے علویوں کو بھی راضی کرنا چاہا اور ایرانیوں کو بھی جن کی زندگی کا سرنامہ حبّ علی وآل علی تھا، خوش کرنا چاہا لیکن جیسا کہ ہم آگے پڑھیں گے آٹھویں امام کی روش نے مامون کی سازش کو ناکام بنا دیا اور کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ مامون بھی باپ کی طرح طاغوت ہے اور اس کی پیروی طاغوت کی پیروی ہے ۔
مامون نے 200ھ میں بہت سے خطوط اور فرستادے مدینے میں امام کی خدمت میں بھیجے اور حضرت کو تاکید و شدت پسندی کے ساتھ خراسان آنے کی دعوت دی اور حالات کچھ ایسے پیش آئے کہ امام نے صلاح اسی میں دیکھی کہ اس مسافرت پرتن بہ تقدیر راضی ہو جائیں، ان چند روایات پر غور کرنا چاہئے ۔
مکہ و مدینہ سے حضرت رخصت ہوئے:
١۔ جس وقت مامون کے فرستادے حضرت رضا کو خراسان لے جانے کے لئے مدینہ آئے حضرت رضا مسجد النبی (ص)میں قبر رسول (ص)سے رخصت ہونے آئے ،آپ بار بار قبر رسول (ص)سے رخصت ہو رہے تھے ، ہر بار بلند آواز سے گریہ فرماتے تھے ۔
محول سجستانی کہتا ہے کہ میں امام کی خدمت میں پہونچا اور سلام کیا ، آپ نے سلام کا جواب دیا ، میں نے آپ کو سفر خراسان کی مبارکباد دی ، فرمایا: میری زیارت کے لئے آؤ کیونکہ میں اپنے جد کے جوار سے نکل رہا ہوں اور عالم غربت میں دنیا سے جاؤں گا ، قبر ہارون کے پہلو میں دفن ہوں گا، میں حضرت کے ہمراہ خراسان گیا، یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے اور قبر ہارون کے قریب دفن کئے گئے ۔
عیون الاخبار ،ج٢،ص ٢١٦

٢۔ امیہ بن علی کہتا ہے کہ جس سال حضرت رضا نے مراسم حج میں شرکت فرمائی اور خراسان کی طرف چلے میں مکے سے آپ کے ساتھ رہا، آپ کے پانچ سالہ فرزند امام جواد بھی آپ کے ساتھ تھے، امام خانۂ خدا سے رخصت ہوئے ،جب طواف سے فارغ ہوئے ، مقام پر گئے وہاں نماز پڑھی ۔ امام جواد موفّق غلام کے دوش پر تھے جو آپ کو طواف کرارہا تھا اور حجر اسماعیل کے نزدیک امام جواد اس کے دوش پر سے زمین پر آئے اور طویل مدت تک وہاں بیٹھے رہے،موفق نے کہا : قربان جاؤں ۔ اٹھئیے !
امام جواد نے فرمایا: میں یہاں سے اٹھنا نہیں چاہتا جب تک خدا چاہے، آپ کے چہرے سے آثار غم نمایاں تھے ۔
موفق حضرت رضا کے پاس گیا اور کہا کہ قربان جاؤں حضرت جواد حجر اسماعیل کے پاس بیٹھ گئے ہیں ، اٹھتے نہیں ہیں ۔
امام رضا فرزند کے قریب آئے اور کہا : پیارے ! اٹھو ۔
حضرت جواد نے عرض کی : کیسے اٹھوں ،آپ خانۂ خدا سے اس طرح وداع ہورہے ہیں جیسے اب کبھی نہ آئیں گے ۔
امام رضا نے فرمایا : پیارے اٹھو ۔ اس وقت امام جواد اٹھے اور امام راہ طئے کرنے لگے ۔
کشف الغمہ ، ج٣،انوار البہیہ ،ص٢٣٩اعیان الشیعہ ،ج٢،ص١٨
٣۔ امام رضا جس وقت مدینے سے چلنے لگے ۔ آپ نے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو بلا کر ان سے فرمایا:
اس وقت تم لوگ میرے اوپر گریہ کر لو تاکہ میں تم لوگوں کی صدائے گریہ و نالہ سن لوں ۔
پھر آپ نے ان کے درمیان بارہ ہزار دینار تقسیم کئے اور ان سے فرمایا: میں اب ہرگز اپنے اہلبیت میں واپس نہیں آؤں گا ، اس کے بعد اپنے فرزند حضرت جواد کا ہاتھ تھام کر مسجد میں تشریف لے گئے اور ان کا ہاتھ قبر رسول(ص)پر رکھا،انہیں قبر رسول(ص)سے چسپا ں کر کے رسول خدا (ص)کے حوالے کیا ، ان کی حفاظت کے لئے بواسطہ رسول ،خدا سے دعا کی ۔ حضرت جواد نے امام رضا کو دیکھا اور کہا : خدا کی قسم آپ خدا کی طرف جا رہے ہیں ۔
پھر امام رضا نے تمام غلاموں اور وکیلوں کو اطاعت حضرت جواد کا حکم دیا اور فرمایاکہ ان کی مخالفت نہ کریں ، اس طرح ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ آپ ہی امام رضا کے جانشین ہیں ۔
کشف الغمہ ،ج٣،ص١٤١۔ انوار البہیہ،ص٢٣٩
امام نیشا پور میں
شہر مرو خراسان کی راج دھانی تھا اور مامون وہیں حکومت کرتا تھا ، اس نے رجاء بن ضحاک کو ایک جمعیت کے ساتھ امام کے استقبال کے لئے مرو بھیجا کہ کہیں امام اپنے راستے میں شیعی شہروں میں ان سے ملاقات نہ کریں، رجاء کو حکم دیا تھا کہ حضرت کو بصرہ سے اہواز اور وہاں سے فارس پھر وہاں سے خراسان لیکر آئے، کوفے کے راستے سے نہ لائے ۔
الخرائج والجرائح ،ص٢٣٦،عیون اخبار رضا ،ج٢،ص ١٨٠
بعض تاریخوں میں ہے کہ امام قم کے راستے سے آئے ۔
فرحۃالغری بن طاووس ۔انوار البہیہ ،ص٢٤٠
امام رضا راستہ طے کرتے ہوئے نیشاپور پہونچے، وہاں بہت سے لوگوں نے آپ کا استقبال کیا ، جب آپ نے مروجانے کا ارادہ کیا تو بہت سے اہلبیت کے علماء سر راہ آئے تاکہ آپ کی زیارت کریں ، انہوں نے آپ سے آباء کرام کے واسطے سے حدیث بیان کرنے کی گذارش کی ، امام نے حکم دیا کہ پردہ ہٹایا جائے ،
لوگوں کی بھیڑ تھی ، ایک شور بلند تھا ، امام نے لوگوں کو چپ کرایا اور فرمایا:
میرے والد نے اپنے والد سے یہاں تک کہ امیر المومنین علی نے حضرت رسول خدا(ص)اور انہوں نے جبرئیل سے روایت کی کہ خدا فرماتا ہے :
کلمة لا الٰہ الّا اللّہ حصنی فمن دخل حصنی امن من عذابی
کلمہ توحید میرا حصار محکم ہے ،جو شخص اس میں داخل ہوا وہ عذاب سے بے خوف ہو گیا ۔
امام نے تھوڑی دیر بعد ان سے فرمایا: اس کی کچھ شرائط ہیں : و انا من شروطھا اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔
امامت کا اعتقاد رکھنا اس کی لازمی شرط ہے، یہ حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے ۔
اس حدیث کو بیس ہزار اور بقولے چوبیس ہزار لوگوں نے لکھ لیا ۔
اعیان الشیعہ طبع ارشاد،ج٢،ص ١٨
اس طرح امام نے لوگوں کی علی و آل علی سے دوستی کو طرفدار بنایا اور چاہا کہ علی کی دوستی کو اصل اعتقاد سے مربوط فرمائیں ۔
امام مرو میں اور ولی عہدی کا مسئلہ:
اس کے بعد امام اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مرو کی طرف چلے یہاں تک کہ مرو پہونچ گئے ، مامون نے امام کو علیحدہ مکان میں ٹھہرایا اور حضرت کا بہت زیادہ اعزاز و اکرام کیا۔پھر ایک شخص کو خدمت امام میں بھیج کر مطالبہ کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خلافت سے دستبردار ہو جاؤں اور اسے آپ کے حوالے کردوں ۔
امام نے سختی سے اس پیش کش کو ٹھکرادیا ، مامون نے دوسری بار پیش کش کی ، لیکن امام نے قبول نہ کیا، آخر کار مامون نے کہا : اب جبکہ آپ خلافت قبول نہیں کرتے تو میری ولی عہدی قبول فرمائیے؟ امام سختی کے ساتھ اس کام سے رکے آخر مامون نے تہدید آمیز انداز میں کہا : ( عمر بن خطاب نے خلافت کو چھ آدمیوں کے درمیان بطور مشاورت قرار دیا تھا، اس میں آپ کے جد امیر المومنین علی بن ابی طالب بھی تھے، اس نے شرط کی تھی کہ ان میں سے جو بھی مخالفت کرے، اس کی گردن مار دی جائے اور آپ کو چار و ناچار میری خواہش قبول کر لینی چاہئے مجھے اس کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے ۔
اس وقت امام رضا نے فرمایا:
میں ولی عہدی قبول کرتا ہوں اس شرط سے کہ نہ میں حکم دوں گا نہ روکوں گا نہ فتویٰ دوں گا نہ فیصلہ کروں گا نہ منصب بانٹوںگا نہ معزول کروں گا نہ موجودہ معاملات میں تبدیلی کروں گا ۔ مامون نے تمام شرطیں مان لیں ۔ ارشاد شیخ مفید ،ج٢،ص ٢١٥
مامون کی ترکیب ناکام ہوئی:
اس سے پہلے بتایا گیا کہ مامون خود چاہتا تھا کہ اس ترکیب سے اعتراضات اور شورشوں کو دبا دیا جائے ، یہاں تک کہ لوگوں میں امام رضا کے رسوخ کو بھی ختم کیا جائے اور اس نے اس راہ میں ایک دوسرا نقشہ بھی مرتب کیا کہ بظاہر تو وہ امام کا احترام کرتا تھا لیکن بباطن وہ خود اپنا تحفظ کر رہا تھا ، لیکن وہ دیکھ رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے میری تمام چالوں کو مات ہو رہی ہے ، بر عکس اس کے یہ نتیجہ ظاہر ہو رہا ہے کہ دن بدن امام کی سیاسی و معاشرتی حیثیت اورعلمی و معنوی مقام بڑھتا جا رہا ہے ۔ آخر کار اس دنیا پرست بد باطن نے اس کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا کہ پوشیدہ طریقے پر امام کو زہر دیکر شہید کر دے ۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ یہ سمجھ لو کہ علماء شیعہ و سنی میں اس بات پر اختلاف ہے کہ امام رضا طبعی موت سے گذر گئے یا آپ کو زہر دیکر شہید کیا گیا ، مامون نے آپ کو زہر دیا یا کسی دوسرے نے ۔ علماء میں زیادہ مشہور یہ بات ہے کہ امام کی شہادت اس زہر سے ہوئی جسے مامون نے آپ کو دیا تھا ۔
بحار الانوار ،ج٤٩،ص٣١١،٣١٣
وہ آخر میں کہتے ہیں کہ ‘ کمینے افراد کو لوگوں کے سامنے نصیحت کرنا ‘ خاص طور سے ان لوگوں کو جو خلافت اور فضیلت کا دعویٰ کرتے ہیں، کینہ و عناد اور حسد کا موجب ہوتا ہے ۔ امام رضا لوگوں کے درمیان مامون کو موعظہ فرماتے تھے جس کی وجہ سے اس نے دل میں کینہ رکھ لیا ، خیال رہے کہ مامون نے ابتدا ہی سے سازش کے ماتحت یہ چال چلی تھی تاکہ سادات اور علویوں کی ابھرتی شورش کو دبایا جا سکے ،جب اس نے اپنا مطلب حاصل کر لیا اور حکومت مستحکم ہو گئی تو اپنی نیرنگی ظاہر کر دی ۔
‘فالحقّ ما اختارہ الصّدوق و المفید .’
صحیح وہی رائے ہے جو صدوق ، شیخ مفید اور دوسروں کی ہے کہ امام رضا اس زہر کے اثر سے شہید ہوئے جسے مامون ملعون نے امام کو دیا تھا ۔
بحار الانوار ،ج٤٩،ص ٣١١۔ترجمہ ارشاد مفید ،ج٢،ص ٢٦٠
شہادت امام کی نوعیت:
امام کے واقعۂ شہادت کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے ۔
١۔ روایت میں عبد اللہ بن بشیر کا بیان ہے کہ مجھے مامون نے حکم دیا کہ اپنے ناخن بڑھانے کی عادت ڈال لو ں اور کسی پر اپنے لمبے ناخن ظاہر نہ کروں ، میں نے ایسا ہی کیا، پھر مجھے بلالیا اور کوئی چیز مجھے دی جو املی کے مانند تھی ، مجھ سے کہا کہ اسے اپنے دونوں ہاتھ میں مل لو ۔ میں نے ایسا ہی کیا، پھر مجھے میرے حال پر چھوڑ کر اٹھ گیا، امام رضا کے پاس جا کر پوچھا : آپ کا کیا حال ہے ؟
امام نے فرمایا : بھلائی کا امیدوار ہوں ۔
مامون نے کہا : میں بھی آج بحمد اللہ بہتر ہوں کیا آج کوئی غلام یا آپ کا عقیدتمند آیا تھا ؟
حضرت نے فرمایا : نہیں ۔
مامون غصے میں لال ہو گیا، اپنے غلاموں کو پکارنے لگا ( کہ کیوں امام کی خدمت میں حاضری نہ دی )۔
عبد اللہ بن بشیر کہتا ہے : مامون نے اس درمیان مجھ سے کہا : میرے واسطے انار لے آؤ، میں نے چند انار لا کر دئے ،مامون نے مجھ سے کہا : اپنے ہاتھ سے اس کو نچوڑو ۔ میں نے نچوڑا تو وہ آب انار لیکر امام کی خدمت میں پہونچا اور اپنے ہاتھوں سے پلایا ، یہی آپ کی وفات کا سبب ہے، اس جوس کو پینے کے بعد امام دو روز سے زیادہ زندہ نہ رہے ۔
ابو صلت ہروی کہتا ہے : جیسے ہی مامون امام کے پاس سے گیا میں آپ کی خدمت میں پہونچا ۔
امام نے مجھ سے فرمایا :
اے ابا صلت! ان لوگوں نے اپنا کام کر دیا ۔
اسی حالت میں آپ کی زبان سے حمد خدا جاری تھی ۔
ارشاد شیخ مفید ،ج٢،ص ٢٦١۔عیون اخبار رضا ،ج٢،ص ٢٤٠
یہی روایت تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ عیون الاخبار میں بھی ہے ۔
٢۔ روایت ہے کہ محمد بن جہم کہتا ہے : امام رضا انگور پسند کرتے تھے تھوڑے سے انگور مہیا کئے گئے ، ان کے ریشوں میں سوئی سے کچھ دنوں تک زہر بجھایا گیا، پھر ان سوئیوں کو نکال لیا گیا ۔ اور اسے امام کی خدمت میں پیش کیا گیا ، آپ چونکہ بیمار تھے، انہیں نوش فرمایا اور یہی سبب شہادت ہوا ۔
عیون الاخبار ،ج٢،ص٢٤٠۔ ارشاد شیخ مفید،ج٢،ص٢٦١
٣۔ علی بن حسین کاتب سے نقل ہے کہ امام رضا بخار میں مبتلا ہوئے اور صاحب فراش تھے کہ آپ نے فصد کا ارادہ کیا ( رگ کھلوا کر بدن کا خون کم کرنا چاہا )مامون نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا ، اپنے ایک غلام کو حکم دیا کہ اپنے ناخن کچھ عرصے تک نہ کٹوائے تاکہ بڑھ جائیں، پھر ایسے زہر سے جو املی کے مانند تھا اس غلام کو دیا کہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں اپنے ناخنوں میں بھر لے ،اس کے بعد اپنے ہاتھ نہ دھوئے اور اس بات کو کسی پر ظاہر نہ کرے ۔
اس درمیان مامون حضرت امام رضا کی عیادت کے لئے گیا، تھوڑی دیر تک وہاں موجود رہا ، جب فصد کھولی گئی تو اس نے اپنے اسی غلام کو حکم دیا کہ امام کے باغ سے کچھ انار اپنے ہاتھوں سے توڑ کر لائے ، وہ انار توڑ کر لے آیا ۔ مامون نے اس سے کہا : اپنے ہاتھوں سے نچوڑ کر ایک برتن میں رکھ دے، اس نے ایسا ہی کیا، مامون نے وہ جوس امام کے سامنے پیش کر کے کہا : اسے نوش فرمایئے ۔
امام نے فرمایا: جب تم چلے جاؤ گے تو اسے پی لوں گا، مامون نے بہت اصرار کیا کہ خدا کی قسم! آپ کو میرے سامنے پینا پڑے گا ، امام نے تھوڑا سا پی لیا ، اور مامون چلا گیا ۔ ہم نے ابھی نماز عصر نہیں پڑھی تھی کہ دیکھا امام کا حال منقلب ہے ، وہ شدت درد سے پچاس بار کمرے سے باہر گئے اور آئے . اس قدر درد بڑھ گیا تھا کہ صبح تک شہادت ہو گئی ۔
عیون الاخبار،ج٢،ص٢٤٠
اس طرح سے مامون نے بیمار امام کو زہر دیا، واقعی اس نے عجیب مہمان نوازی اور تیمارداری کی ۔
تذکرة سبط بن جوزی میں ہے ،امام رضا حمام گئے جب باہر آئے تو آپ کی خدمت میں انگور کا طبق پیش کیا گیا ان انگوروں میں سوئی کے ذریعے زہر ملایا گیا تھا، امام نے اسے تناول فرمایا اور وہی آپ کی وفات کا سبب ہوا ۔
انوار البہیہ ص٢٥٤
امام کے خادم یاسر کا بیان ہے کہ جب امام کے وفات کا وقت آیا تو آخری گھڑیوں میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے ، آپ نے نماز ظہر پڑھ کے مجھ سے فرمایا:
کیا غلاموں اور خدمتگاروں نے کھانا کھا لیا ؟ میں نے عرض کی : حضور ! آپ کا یہ حال ہے ، ایسے میں کون کھانا کھائے گا ؟
امام اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: دسترخوان بچھاؤ ۔ پھر آپ نے تمام خدمتگاروں کو دسترخوان پر بٹھایا اور خود اس کے ایک گوشے میں بیٹھ گئے اور ایک ایک کے کھانے پر خصوصی توجہ فرمانے لگے، اس کے بعد آپ کے حکم سے عورتوں کی غذا کا انتظام کیا گیا ، جب سب نے کھانا کھا لیا تو امام بیہوش ہو گئے ، آپ پر کمزوری کا غلبہ ہوا ، حاضرین نے صدائے نالۂ و شیون بلند کیا ، مامون بھی دکھاوے کے لئے رونے لگا ، آنسو اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے وہ افسوس ظاہر کر رہا تھا ، آپ کے بالائے سر کھڑا تھا کہ امام کو ہوش آیا ، آپ نے مامون سے فرمایا:
ابو جعفر ( امام محمد تقی )کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ، رات کا تھوڑا حصہ گذرا تھا کہ آپ کی وفات ہوئی ۔
ابو صلت کی روایت اور امام جواد:
ایک دوسری روایت میں ہم کو ملتا ہے کہ امام رضا نے ابو صلت سے فرمایا:
کل میں اس بدکردار (مامون )کے پاس جاؤں گا ، اگر میں سر برہنہ رہوں تو مجھ سے بات کرنا ، میں تمہاری بات کا جواب دوں گا ۔ اور اگر سر ڈھانک کر آؤں تو مجھ سے بات نہ کرنا ۔
ابو صلت کہتا ہے : دوسرادن آیاجب آپ نے باہر جانے کا لباس پہنا اور محراب عبادت میں بیٹھ گئے ، آپ انتظار کر رہے تھے کہ اچانک مامون کا غلام آیا اور امام سے کہنے لگا : امیر المومنین نے آپ کو بلایا ہے ابھی تشریف لے چلئے ،امام نے عبا اوڑھی ،جوتے پہنے اور اٹھ کر مامون کے گھر تشریف لے گئے ،میں آپ کے بعد ہی وہاں چلا ،امام مامون کے پاس پہونچ گئے تھے ،میں نے دیکھا کچھ انگور اور دوسرے میوے مامون کے سامنے رکھے ہیں ، مامون کے ہاتھ میں ایک خوشۂ انگور تھا جس میں سے تھوڑا سا اس نے کھا لیا تھا اور تھوڑا باقی تھا ۔ جس وقت مامون نے امام کو دیکھا تو تعظیم میں کھڑا ہو گیا اور بڑے احترام کے ساتھ آپ سے گلے ملا، حضرت کے دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیکر اپنے پہلو میں بٹھالیا، پھر وہی خوشہ جو اس کے ہاتھ میں تھا امام کی طرف بڑھا کر کہا :
فرزند رسول ! اس سے بہتر انگور میں نے نہیں دیکھا ،اسے تناول فرمائیے ۔
امام نے فرمایا : کتنے ہی انگور بہشت میں ہیں جواس سے بہتر ہیں ۔
مامون نے کہا : آپ کو حتماً کھانا ہی ہو گا ،ہو سکتا ہے کہ آپ اسے نہیں کھائیں اور میرے اوپر اتہام رکھیں حالانکہ میں آپ سے بہت خلوص رکھتا ہوں ۔
مامون نے اس خوشۂ انگور کو حضرت کے ہاتھ سے لیکر ان دانوں کو جنہیں وہ پہچانتا تھا کہ اس میں زہر نہیں ہے کھا لیا ، دوبارہ حضرت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا :اسے کھایئے ۔
امام نے اس میں تین دانے کھائے ،اس کے تھوڑی ہی دیر بعد حضرت کی حالت دگرگوں ہونے لگی، بقیہ خوشۂ انگور کو زمین پر پھینک دیا اور اسی وقت واپس جانے کے لئے اٹھ گئے ۔
مامون نے پوچھا : کہاں جارہے ہیں ؟
امام نے فرمایا :
‘ الیٰ حیث وجّھتنی ‘ ( جہاں تو مجھے بھیج رہا ہے )
امام اپنے سر کو چھپائے ہوئے (عبا سر پر ڈالے ہوئے تھے )باہر آئے میں نے ان کے ارشاد کے مطابق بات نہیں کی، یہاں تک کہ آپ گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا: دروازہ بند کر دو اور پھر دروازہ بند کر دیا گیا ، اس کے بعد آپ بستر پر دراز ہو گئے اور میں گھر کے صحن میں غمگین و اداس بیٹھ گیا ۔ اتنے میں ایک خوبصورت جوان جس کے بال گھونگھریالے تھے ۔ اسے دیکھا ۔ وہ امام رضا سے بہت زیادہ مشابہ تھا ، میں ان کی طرف لپکا اور کہا : دروازہ بند ہے کہاں جارہے ہیں ؟
فرمایا : جس خدا نے مجھے مدینے سے یہاں پہونچایا ہے وہ مجھے دروازہ بند ہونے کے باوجود گھر میں پہونچا دے گا۔
میں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟
فرمایا :
انا حجّة اللّہ علیک یا ابا صلت ٍ
( ابو صلت ! میں حجت خدا ہوں )میں محمد بن علی ہوں ۔ پھر آپ والد ماجد کے پاس بڑھ گئے ۔کمرے میں داخل ہو کر مجھ سے فرمایا :تم بھی کمرے میں آجاؤ ۔
جس وقت امام رضا نے انہیں دیکھا لپک کر جوان کی گردن میں بانہیں حمائل کر دیں اور اپنی آغوش میں چمٹا لیا ، پھر دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیکر اپنے بستر پر لٹا لیا ۔
امام جوا د نے خود کو پدربزگوار پر ڈال دیا اور بوسہ دینے لگے ۔ اس درمیان امام رضا نے آپ کو اسرار امامت تفویض کئے اور کچھ ایسی باتیں کہہ رہے تھے جنہیں میں نہ سمجھ سکا، اسی حال میں امام رضا فرزند کی آغوش میں دنیا سے گذر گئے ۔
ابو صلت کا بیان ہے : امام جواد نے مجھ سے فرمایا : اٹھو اور اس خزانے کے اندر جا کر وہاں سے پانی اور تخت لے آؤ ۔
میں نے عرض کی : وہاں پانی اور تخت نہیں ہے، فرمایا : میں جو کہہ رہا ہوں کرو ۔
میں خزانے کے اندر گیا تو پانی اور تخت دیکھا اسے لیکر آپ کی خدمت میں حاضر کیا اور غسل دینے کی تیاری کرنے لگا ۔
امام جواد نے مجھ سے فرمایا : تم یہاں سے الگ ہو جاؤ ،کچھ لوگ غسل میں میری مدد کریں گے ۔ آپ نے غسل دیکر مجھ سے فرمایا: جاؤ اس خزانے سے کفن اور حنوط لے آؤ ، وہاں پہونچا تو ایک گلدستے میں کفن اور حنوط رکھا ہوا تھا لا کر امام کی خدمت میں پیش کیا ۔امام نے حنوط کیا اور کفن پہنایا ۔ پھر آپ نے جنازے پر نماز پڑھی اس کے بعد فرمایا : تابوت لے آؤ ۔
میں نے عرض کی : بڑھئی کے پاس جانا پڑے گا ۔
فرمایا : خزانے کے اندر سے لے آؤ ۔
میں گیا تو دیکھا کہ تابوت رکھا ہوا ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ، امام نے اس تابوت میں جنازہ رکھ دیا ۔
اس درمیان مامون اپنے غلاموں کے ساتھ آگیا ۔ وہ لوگ رورہے تھے اور اظہار تاسف کر رہے تھے . عیون الاخبار ،ج٢،ص٢٤٣،٢٤٤
یہاں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ امام رضا نے اپنے گھر والوں سے وداع کے وقت مدینے میں فرمایا تھا ۔
اب تم لوگ جی بھر کے مجھ پر گریہ کر لو ، میں اس سفر سے دوبارہ واپس نہیں آؤں گا ۔
لیکن امام حسین نے اپنے اہل حرم سے فرمایا تھا:
‘اسکتن فانّ البکاء امامکنّ ‘
( خاموش رہو گریہ تمہارے آگے ہے )
اور سکینہ سے فرمایا : جب تک جسم میں جان ہے گریہ کر کے میرا دل نہ جلاؤ ، جب میں قتل کر دیا جاؤں تو جو بھی میرے جسد کے قریب آئے مجھ پر گریہ کر لے ۔ اے برگزیدگان حرم !
امام کی اس فرمائش کا سبب یہ تھا کہ آپ جانتے تھے کہ شہادت کے بعد دل گداز مصائب پیش آئیں گے، اہلحرم کو ان مصائب کے لئے اپنے آنسو ذخیرہ کرنا چاہئے ، جو بہرحال ان پر وارد ہوں گے ۔
کبریت الاحمر ،ص١٨٢
دفن شبانہ و غریبانہ:
مامون نے ایک رات اور ایک دن وفات کو چھپایا، اس کے بعد امام کے چچا محمد بن جعفر اور خاندان ابو طالب کے دوسرے افراد جو خراسان میں تھے انہیں آدمی بھیج کر بلایا ۔ جب وہ آئے تو انہیں وفات امام کی خبر دی اور دکھاوے کے لئے رویا اور بیتابی ظاہر کی ، ان سے کہا کہ جنازہ صحیح و سالم ہے ۔
ترجمہ ارشاد مفید ،ج٣،ص ٢٦٢
جب دوسری صبح آئی تو لو گ جمع ہوئے اور فریاد و گریہ کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ سب آپس میں کہہ رہے تھے کہ امام اس مامون کے حیلے سے قتل ہوئے ہیں ۔ مامون نے خطرے کا احساس کیا اور محمد بن جعفر سے کہا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ آج جنازے کے مشایعت نہیں ہو گی ، انہوں نے پیغام پہونچایا تو لوگ منتشر ہو گئے اس طرح امام کو راتوں رات بغیر مشایعت کے غریبانہ دفن کر دیا گیا ۔ مامون نے حکم دیا کہ اسکے باپ ہارون کی قبر کے پہلو میں قبر کھودی جائے ، پھر موجود لوگوں سے بولا :
اس جنازے کے صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ جب میری قبر کھودی جائیگی تو پانی اور مچھلی ظاہر ہو گی، ابھی اور قبر کھودو جب زیادہ کھودی گئی تو پانی و مچھلی ظاہر ہوئی پھر زمین کے اندر چلی گئی اور امام وہیں سپرد خاک کئے گئے ۔انا للہ و انا الی راجعون
انوار البہیہ ،ص٢٥٥

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button