مکتوب مجالس

مجلس عزاء بعنوان: اسمائے فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اسرار و اثرات ( حصہ چہارم)

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا۔
زہراء
زہرا کی لغوی معنی پھول کی کلی ،گل ناشگفتہ کے ہیں ۔ فرھنگ جدید ص225
مادہ ’’زَھَرَ‘‘کامعنی چمکنا ہے اور صدیقہ کبریٰاس وجہ سے زھرا کے لقب سے معروف ہوئیں کہ آپ کے محجوب چہرے کا نور عالم پر ساطع ہوتا تھا اور عوالمِ وجود کو روشن کرتا تھا۔
چونکہ جناب سیدہ (س)عزت وجمال وکمال سے موصوف تھیں ظاہر وباطنی نور کی مالکہ تھیں اس لئے زہرا لقب ہوا ۔چنانچہ ے اس سلسلے میں بھی احادیث مبارکہ کی کافی تعداد آج بھی سیرت وتاریخ اور کتب احادیث میں موجود ہیں جس میں آپ کی نام ”زہرا”ہونے کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے ۔جیسا کہ بعض مورخین نے حضرت امام جعفر صادق بحق ناطق سے یہ حدیث اسی ضمن میں نقل کیا ہے۔
عن الصادق قال:سمیت الزهرا لانها کانت اذا قامت فی محرابها زهرنورها لاهل السماء کما یزهر نور الکواکب لاهل الارض۔(موسوعة سیرت اھل البیت ج9ص49٢:الدمعة الساکبہص243)
ترجمہ:حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :جب جناب سیدہ (س)محراب عبادت میں کھڑی ہو تیں تو آپ (س)کا نور آسمان والوں کو ایسے درخشاں کرتا جیسے ستاروں کی ضیا زمین والوں کو روشن کرتا ہے ۔
تا ہم بعض سیرت نگاروں نے اس روایت کو ان الفاظ میں بھی نقل کئے ہیں ۔
عن الحسن بن یذید قال :قلت لابی عبدالله لم سمیت فاطمة الزهرا قال :لان لها فی الجنة قبة من یاقوته حمراء ارتفاعها فی الهواء مسیرة معلقة بقدرة الجبار لا علاقة لها من فوقها فتمسکها ولا دعامة لها من تحتها فتلزمها لها مائة الف باب علی کل باب الف من الملائکة یراها اهل الجنة کما یری احدکم الکواکب الدری الزهرا فی افق السماء فیقولون هذا فاطمة علیها السلام۔(الدمعۃ الساکبہ ص244)
ترجمہ :حسن بن یذید روایت کرتا ہے کہ میں نے ابا عبد اللہ (حضرت امام حسین علیہ السلام )سے پوچھا فاطمہ زہرا کیوں نام رکھا ہے ،تو آپ نے فرمایا :کیوں کہ جنت میں ان کیلئےیاقوت کا ایک قبہ ہے جو لال اور ہوا میں اونچا اور معلق ہے ۔جو کہ اللہ تعالیٰ صاحب قدرت وجبار کی حکم سے ہے اس کیلئے کوئی ستون اور علاقہ (معلق رکھنے کی چیز )نہیں ہے ۔اس کے ایک ہزار دروازے ہیں ہر دروازے کے
پاس ایک ہزار فرشتے موجود ہو نگے ۔آسمان والے اس کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح ہم زمین والے آسمان پر کوکب دری کو دیکھتے ہیں اور کہیں گے کہ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکی ذات مقدسہ ہیں
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَاَمَّا اِبنَتِي فَاطِمَۃ فَاِنَّهَا سَيِّدَۃُ نِسَاء العَالَمِينَ مِنَ الاَوَّلِينَ وَالاٰخِرِيْنَ وَهِيَ بَضْعَۃُ مَنِّي وَهِيَ نُوْرُ عَيْنِيْ وَ هِيَ ثَمَرَۃُ فُؤادِي وَهِيَ رُوْحِيْ وَهِيَ الحَورَاءِ الْاِنْسِيَّتَہ مَنْ قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا بَيْنَ يَدَيَّ رَبِّهَا زَهَرَ نُوْرُهَا لَمَلَائِكَۃِ السَّمَاءِ
”میری دختر حضرت فاطمہؑ عالمین کے اول اور آخر تمام خواتین کی سیدہ وسالا ر ہیں۔ وہ میرے بدن کا حصہ ہیں۔ میری آنکھوں کا نور ہیں۔ میرے دل کا میوہ ہیں اور میرےر وح ہیں، جو دونوں پسلیوں کے درمیان میں ہے۔ وہ انسان کی شکل میں حُو ر ہیں۔ جس وقت وہ بارگاہ خداوندی میں اس کی بندگی و عبادت کے لیے کھڑے ہوتی ہیں تو اس وقت اس کا نور ملائکہ آسمانی کے لئے اس طرح جگمگاتا ہے جس طرح سے ستاروں کانوراہل زمین کو دکھائی دیتا ہے“۔(امالی شیخ صدوق /بحارالانوار ،جلد 43 )
ابان بن تغلب کا سوال
ایک اور حدیث میں ابان بن تغلب نے امام صادقؑ سے سوال کیا: اے فرزند رسول! کیوں زہراؑ کو زھرا کا نام دیا گیا؟!
امامؑ فرماتے ہیں:
لِأَنَّهَا تَزْهَرُ لِأَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِي اَلنَّهَارِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ بِالنُّورِ كَانَ يَزْهَرُ نُورُ وَجْهِهَا صَلاَةَ اَلْغَدَاةِ وَ اَلنَّاسُ فِي فِرَاشِهِمْ فَيَدْخُلُ بَيَاضُ ذَلِكَ اَلنُّورِ إِلَى حُجُرَاتِهِمْ بِالْمَدِينَةِ فَتَبْيَضُّ حِيطَانُهُمْ فَيَعْجَبُونَ مِنْ ذَلِكَ فَيَأْتُونَ اَلنَّبِيَّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَيَسْأَلُونَهُ عَمَّا رَأَوْا فَيُرْسِلُهُمْ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَيَأْتُونَ مَنْزِلَهَا فَيَرَوْنَهَا قَاعِدَةً فِي مِحْرَابِهَا تُصَلِّي وَ اَلنُّورُ يَسْطَعُ مِنْ مِحْرَابِهَا مِنْ وَجْهِهَا فَيَعْلَمُونَ أَنَّ اَلَّذِي رَأَوْهُ كَانَ مِنْ نُورِ فَاطِمَةَ فَإِذَا اِنْتَصَفَ اَلنَّهَارُ وَ تَرَتَّبَتْ لِلصَّلاَةِ زَهَرَ نُورُ وَجْهِهَا عَلَيْهَا السَّلاَمُ بِالصُّفْرَةِ فَتَدْخُلُ اَلصُّفْرَةُ فِي حُجُرَاتِ اَلنَّاسِ فَتُصَفِّرُ ثِيَابَهُمْ وَ أَلْوَانَهُمْ فَيَأْتُونَ اَلنَّبِيَّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَيَسْأَلُونَهُ عَمَّا رَأَوْا فَيُرْسِلُهُمْ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَيَرَوْنَهَا قَائِمَةً فِي مِحْرَابِهَا وَ قَدْ زَهَرَ نُورُ وَجْهِهَا صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهَا وَ عَلَى أَبِيهَا وَ بَعْلِهَا وَ بَنِيهَا بِالصُّفْرَةِ فَيَعْلَمُونَ أَنَّ اَلَّذِي رَأَوْا كَانَ مِنْ نُورِ وَجْهِهَا فَإِذَا كَانَ آخِرُ اَلنَّهَارِ وَ غَرَبَتِ اَلشَّمْسُ اِحْمَرَّ وَجْهُ فَاطِمَةَ فَأَشْرَقَ وَجْهُهَا بِالْحُمْرَةِ فَرَحاً وَ شُكْراً لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَكَانَ تَدْخُلُ حُمْرَةُ وَجْهِهَا حُجُرَاتِ اَلْقَوْمِ وَ تَحْمَرُّ حِيطَانُهُمْ فَيَعْجَبُونَ مِنْ ذَلِكَ وَ يَأْتُونَ اَلنَّبِيَّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ يَسْأَلُونَهُ عَنْ ذَلِكَ فَيُرْسِلُهُمْ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ فَيَرَوْنَهَا جَالِسَةً تُسَبِّحُ اَللَّهَ وَ تُمَجِّدُهُ وَ نُورُ وَجْهِهَا يَزْهَرُ بِالْحُمْرَةِ فَيَعْلَمُونَ أَنَّ اَلَّذِي رَأَوْا كَانَ مِنْ نُورِ وَجْهِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ اَلنُّورُ فِي وَجْهِهَا حَتَّى وُلِدَ اَلْحُسَيْنُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَهُوَ يَتَقَلَّبُ فِي وُجُوهِنَا إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ فِي اَلْأَئِمَّةِ مِنَّا أَهْلَ اَلْبَيْتَ إِمَامٍ بَعْدَ إِمَامٍ۔
اس لیے کہ زھراؑ کا جمال مبارک دن میں تین مرتبہ امیر المومنینؑ کیلئے روشن و منور ہوتا تھا۔ نماز صبح کے وقت جب لوگ سو رہے ہوتے تھے، آپؑ کا نور جلوہ گر ہو جاتا تھا۔ اس نور کی سفیدی لوگوں کے کمروں میں داخل ہو جاتی تھی اور ان کے گھروں پر سفید نور چھا جاتا تھا۔ وہ اس امر سے تعجب کرتے تھے اور پیغمبرؐ کی خدمت میں پہنچ کر اس روشنی کی وجہ پوچھتے تھے۔ حضرتؐ انہیں فاطمہؑ کے گھر کی طرف بھیج دیتے۔آپؑ کے گھر آتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ آپ مصلائے عبادت پر تشریف فرما ہو کر نماز ادا کر رہی ہیں اور محراب میں آپ کے چہرے سے نور ساطع ہو رہا ہے۔ پس سمجھ جاتے جو انہوں نے دیکھا ہے، وہ نور فاطمہؑ ہے۔
جب دن ڈھل جاتا اور آپ نماز کیلئے آمادہ ہوتیں تو آپ کے چہرے کا نور زرد رنگ میں ضو فشاں ہو جاتا اور یہ نور لوگوں کے حجروں میں داخل ہو کر ان کے لباس اور رنگ زردی مائل کر دیتا۔ پیغمبرؐ کی خدمت میں آتے اور اپنے مشاہدے کے بارے میں سوال کرتے۔ پیغمبر انہیں فاطمہ (آپ، آپ کے شوہر، آپ کے بچوں اور والد پر درود و سلام ہو) کے بیت کی طرف بھیج دیتے، آپ کے گھر پہنچتے تو معلوم پڑتا کہ آپ محراب نماز میں کھڑی ہیں اور آپ کے چہرے کا نور زردی مائل ہے۔ پس متوجہ ہو جاتے کہ جو کچھ دیکھا ہے وہ فاطمہ کے چہرے کا نور ہے۔
جب دن ختم ہو جاتا اور سورج غروب ہو جاتا تو فاطمہؑ کا چہرہ سرخی مائل ہو کر دمکنے لگتا اور یہ پھولوں جیسی سرخی صاحب عزت و جلال خدا کے شکر میں مسرت و سرور کی وجہ سے تھی۔ یہ سرخی مائل نور اہل مدینہ کے حجروں میں داخل ہو جاتا اور ان کے صحن اور احاطے اس رنگ میں رنگے جاتے۔ رسول خداؐ کے پاس جاتے اور اس کا سبب پوچھتے۔ حضرت انہیں فاطمہؑ کے گھر بھیج دیتے۔ جب یہاں آتے تو دیکھتے کہ دختر پیغمبر تشریف فرما ہو کر خدا کی تسبیح و تقدیس بجا لا رہی ہیں اور آپ کا چہرہ سرخ رنگ کے نور سے دمک رہا ہے۔ پس جان جاتے کہ جو کچھ دیکھا ہے وہ فاطمہ کے چہرے کا نور تھا۔
پسیہ نور مسلسل آپ کے چہرے میں رہا یہاں تک کہ حسینؑ کی ولادت ہوئی (اور ان میں منتقل ہو گیا) اور وہ نور ہم اہل بیت کے چہروں میں روز قیامت تک (امام بعد از امام) جلوہ گر ہوتا رہے گا۔
خاندان رسالت کی عظیم بانو سے یہ امر تعجب کا باعث نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کے وجود کا نور اللہ تعالیٰ کے نور (وجود) سے تشکیل پایا ہے اور آپ کے چہرے میں تھا، وہ چہرہ جو آپ کے پدر گرامی محمد مصطفیؐ سے مشابہت رکھتا تھا۔(کشف الغمہ، ص۱۴۲۔) آپ جب تکلم فرماتیں تو سامعین کو پیغمبر کا لہجہ اور کلام سنائی دیتاچلتے وقت اپنے پدر کی مانند (کچھ دیر دائیں جانب کا رخ کرتے ہوئے اور کچھ دیر بائیں طرف کا) قدم رکھتی تھیں۔
صادق آل محمدؑ فرماتے ہیں:
سُمِّيَتْ اَلزَّهْرَاءَ لِأَنَّ نُوْرَهَا اشتُقَّ مِنْ نُورِ عَظَمَةِ اللهِ سبحانہ ولما أشرق نورھا غَشِيَ أَبْصَارَ اَلْمَلاَئِكَةِ فَخَرُّوا الی اللَّهِ سُجَّداً وَ قَالُوا: إِلَهَنَا وَ سَيِّدَنَا مَا هَذَا اَلنُّورُ؟ فَأَوْحَى اَللَّهُ إِلَيْهِمْ: هَذَا نُورٌ مِنْ نُورِي، أَسْكَنْتُهُ فِي سَمَائِي، وَ أَخْرَجتُهُ مِنْ صُلْبِ نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِي، أُفَضِّلُهُ عَلَى جَمِيعِ الأَنْبِیَاء، وَ أُخْرِجُ مِنْ ذَلِكَ اَلنُّورِ أَئِمَّةً يَقُومُونَ بِأَمْرِي وَ يَهْدُونَ إِلَى حَقِّي، أَجْعَلُهُمْ خُلَفَاءَ فِي أَرْضِي بَعْدَ اِنْقِضاءِ اَلْوَحْيِ.
زھراؑ کو اس وجہ سے زھرا کا نام دیا گیا کیونکہ آپ کا نور (تخلیق) خدائے سبحان کے نور عظمت سے مشتق ہوا ہے؛ جب آپ (فاطمہؑ در عالم قدس) کا نور روشن ہوا تو ملائکہ کی آنکھیں شدت کے باعث چندھیا گئیں، پس وہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے اور کہنے لگے: اے ہمارے معبود و آقا! یہ نور کیا ہے؟!
خدا نے انہیں وحی کی کہ یہ میرے نور (وجود) کا (تخلیق کردہ) نور ہے کہ جسے میں نے اپنے آسمان میں سکونت دی ہے۔ میں اسے اپنے ایک پیغمبر (جو ان میں سے برترین ہیں) کی صلب سے باہر (کی دنیا میں) بھیجوں گا اور اس نور سے ایسے آئمہؑ کو پیدا کروں گا جو میرے امر کو قائم کریں گے اور میری حقانیت کی طرف ہدایت دریں گے اور اپنی وحی منقطع ہونے کے بعد انہیں زمین پر اپنا جانشین قرار دوں گا۔( المحتضر، حسن بن سلیمان، ص۱۳۳، طبع نجف۔)
لہذا ان احادیث کے بعد ہم معروف سیرت نگار سید جعفر شہیدی کے اس رائے پر اکتفا کرتے ہیں جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ
”فاطمہ زہرا۔عرف عام میں بیشتر زہرا استعمال ہو تا ہے ۔لغت کے اعتبار سے زہرا کا لفظ درخشندہ ،روشن اور اس کے مترادف معنوں کا حامل ہے ۔یہ لقب ہر لحاظ سے اس بانو کیلئے شایان شان ہے وہ مسلمان خاتون کا درخشندہ چہرہ ،معرفت کی تابندہ روشنی ،پرہیز گاری اور خدا پرستی کا روشن نمونہ ہیں ۔یہ درخشندگی کسی خاص لمحے یا معین دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ۔جس دن انہوں نے اپنا فرض نبھایا اس دن سے لیکر آج تک وہ اسلامی تربیت کی پیشانی پر گوہر کی مانند درخشندہ ہیں ۔”
(حیات فاطمہ (س)ص39)
لفظ ”فاطمہ زہراء” کے انہی الفاظ ومطالب کو شہید محسن نقوی نے منظوم انداز میں یوں بیان کیا ہے۔
یہ ”ف”سے فہم بشر کا حامل ”الف ”سے الحمد کی کرن ہے
یہ ”ط”سے طہ کی گھر کی رونق یہ ”م”سے منزل محن ہے
یہ ”ہ”سے ہردوسرا کی سلطان کے دین کی پرنور انجمن ہے
یہ ”ز”سے زینت زمین کی ”ہ”سے ہدایتوں کا چمن ہے
یہ ”ر ”سے رہبر رہ وفا کی ”الف”سے اوّل نسب ہے اس کا
اسی لئے نام ”فاطمہ”ہے جناب ”زہرا”لقب ہے اس کا
الزکیہ
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بہت سے کلمات موجود ہیں جو کلمئہ تزکیہ سے مشتق ہیں جن کا معنی و مفہوم پاکی و پاکیزگی طراوت وتازگی اور رشد و نموہے۔نمونہ کے لیے چند آیات درج ذیل ہیں :
قَد اَفلَحَ مَن زَكّٰهَا (سورهشمس:آیت۹)
”جس نے اپنے نفس کو پاک و پاکیزہ رکھا تو وہ فلاح پاگیا“۔
اَقَتَلتَ نَفسَا زَكِيَّۃَ بِغَيرِ نَفسِ (سورهالکہف:آیت۷۴)
”کیا آپ نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے مار ڈالا“۔
لِاَهَبَ لَكِ غُلٰامَا زَكِيَّا(سورهمریم:آیت 1۹ )
”اس لئے تاکہ آپ کو پاکیزہ فرزند عطا کروں“۔
ذٰلِكُم اَزكٰى لَكُم وَاَطهَرُ (سورہبقرہ : آیت 232 )
”یہ آپ کے لئے پُر برکت و پاکیزہ تر ہے“۔
پہلی آیت کا معنی ہے کہ جو شخص اپنے نفس کو نفس کی شرارتوں سے زبان کے گناہوں سے شیطانی وسوسوں سے ،حسد،بخل، حبِ دنیا، غرور و تکبر اور خودپسندی جیسی بیماریوں سے پاک و پاکیزہ بناتا ہے تو ایسا انسان کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے ۔یہی تطہیر کا معنٰی ہے کہ ان برائیوں اور ناپسندیدہ امور سے دوری اختیار کرنا اور اعمال صالح کو بجا لانا ،یہی صفات بخل و کبر کی ضدیں ہیں۔
دوسری آیت میں تزکیہ کا معنیٰ ہے کیا تو نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے قتل کر ڈالا ہے ،حالانکہ اُس سے کوئی گناہ نہیں ہوا یا کوئی ایسا عمل نہیں ہوا جو موجب قتل ہو۔ تیسری آیت کا معنی ہے: ہم آپ کو ایسا فرزند عطا کرنے والا ہیں جو گناہوں کی آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہے اور اعمالِ خیر میں کامل و اکمل ہے ۔جب اس بحث میں ایک مقدس نام ”فاطمہزکیہ“ آتا ہے تو یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ اس کا گر ااں مایہ بوستان وجود تمام ادوار میں تمام معنوی و روحانی و اخلاقی صفات سے آراستہ و پیراستہ ہے اور وہ ان امور جو انسانیت کی ضد ہے اس سے پاک و پاکیزہ ہے ۔آیت تطہیر میں ان امور کو احسن انداز میں ثابت کیا گیا ہے وہ سیدہ زکیہ ہیںیعنی طاہرہ ہیں اور مطہرہ ہیں۔ وہ ہر رجس سے پاک و محفوظ ہیں۔
الرضیہ:
آفریدگار ہستی پر ایمان کا عظیم ترین درجہ یہ ہے کہ ایک بندہ اس کی حکیمانہ تدبیر و تقدیر پر راضی و خوشنود ہو ۔اس ذلت نے اپنے بندے کے لئے جو کچھ مقدر کیا ہے وہ اس پر راضی ہو۔ ان تمام بزرگواریوں کی علامات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تاریخ ساز زندگی میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔یہ وہ ہستی تھیں کہ آپ سلام اللہ علیہا نے زندگی کے تمام نشیب و فراز جن کی بنیاد اللہ تعالی کے حکیمانہ تقدیر تھی،انہیں خوشی خوشی قبول کیا تھا۔ اےقاری عزیز !یہ کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے آغاز سے لے کر انجام تک جانگداز مصائب و آلام سے بھرپور ہے ۔ یہ مصائب آپ سلام اللہ علیہا کے ولادت سے لے کر آپ سلام اللہ علیہا کی شہادت تک آپ ؑپر بادل کی طرح برستے رہے۔ اللہ تعالی نے آپ سلام اللہ علیہا کی قسمت میں خوف و حرمان، فقرواحز ان ہموم و غموم اور شدائد و آلام میں سے جو کچھ لکھ دیا تھا آپ سلام اللہ علیہا ان پر راضی تھیں اور آپ اس آیت کی مصداق ٹھہریں:
يَا اَيَّتُهَا النَّفسُ المُطمَئِنَّۃُ اِرجِعِی اِلٰى رَبِّكَ رَاضِيَۃَ مَّرضِيَّۃَ فَادخُلِی فِي عِبَادِی وَادخُلِی جَنَّتِی(سورہ فجر: آیت 27-۔۔۔30)
اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف پلٹا آ، اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میرے جنت میں داخل ہو جا “۔
وہ اللہ کی نعمات وجزاؤں پر راضی تھیں۔ اللہ تعالی نے ان کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا تھا آپ ؑاس پر راضی تھیں۔ آپ ؑ نے اپنے دنیاوی لمحات حیات کے ہر لمحہ میں اس کی رضائی تلاش کیں ۔اللہ تعالی بھی ان پر راضی و خوشنود ہو گیا۔
المرضیہ:
بند گانِ شائستہ وآرستہ کے درجات بارگاہ خداوندی میں بلند و بالا ہوتے ہیں ۔انہیں اللہ کی بارگاہ میں عزت و منزلت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اللہ ان پر راضی ہو اور وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی عدالت و پائیداری کی بنا پر پسندیدہ ہو ں۔ان تمام کامیاب کامران بندہ گان میں سے خاتون جنت حضرت سیّدہ فاطمہ زہراؑ نے سب سے زیادہ عظمت و رفعت کی بلندیاں حاصل کی آپ کو ہی اس کی بارگاہ سے حسن رضا کا گراں قدر حصہ ملا ۔وہ اپنی طاعت و بندگی اپنے زہد و انفاق اور صبر و استقامت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک مرضیہ تھیں ۔
حافظ عسقلانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جناب جبرئیل علیہ السلام بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے اور عرض کیا ۔
یَا مُحَمَّد! اِنَّ رَبَّكَ يُحِبُّ فَاطِمَۃَ فَاسجُد، فَسَجدُتُ…”اےمحمد! تیرا پروردگار تیری بیٹی فاطمہ سے محبت رکھتا ہے آپ ؐاس کے شکریہ میں سجدہ کریں، پس میں نے سجدہ کیا“۔.(لسان المیزان، جلد 3 ،صفحہ 275)
اس طرح ذہبی نے بھی حدیث نقل کی ہے کہ جناب سیدہ کی ولادت کے وقت جناب جبرئیل امین رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: اللہ تعالی آپ کو اور آپ کی نوزائیدہ دختر پر سلام بھیجتا ہے۔( میزان الاعتدال ذہبی، جلد 2 ،صفحہ26)
المحدّثہ
سب چیزوں سے قبل ہمیںیہ دیکھنا چاہیے کہ ملائکہ پیغمبرانِ گرامی کے علاوہ کسی اور سے گفتگو کرتے ہیں ؟کیا پیغمبران گرامی کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں؟
کیا پیغمبروں کے علاوہ باقی انسانی مخلوق فرشتوں کی آواز بن سکتی ہیں؟
آئیے ان سوالات کے جوابات قرآن مجید سے حاصل کرتے ہیں؟
اللہ تعالی کا فرمان ہے”:وَاِذ قَالَتِ المَلائِكَۃُ يَامَريَمُ اِنَّ اللهَ اصطَفٰكِ وَطَهَّرَكِ وَاصطَفٰك عَلٰى نِسَاۤءِ العَالَمِينَ٘یٰمَریَمُ اقنُتِی لِرَبِّکِ وَ اسجُدِی وَالرکَعِی مَعَ الرَّاکِعِینَ٘”
”فرشتوں نے کہا :اے مریمؑ !اللہ تعالی ٰنے آپ کو برگزیدہ اور پاکیزہ بنایا ہے اور تمام عالمین کی عورتوں پر تجھے برتری دی ہے ۔اے مریمؑ !اپنے پروردگار کےفرمان کی اطاعت کے لئے اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاؤ اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھو“۔(سورۃ آل عمران :آیت42)
وَ امۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ٘
اور ابراہیم کی زوجہ کھڑی تھیں پس وہ ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی۔‎
قَالَتۡ یٰوَیۡلَتٰۤیءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوۡزٌ وَّ ہٰذَا بَعۡلِیۡ شَیۡخًا ؕ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عَجِیۡبٌ﴿۷۲﴾
وہ بولی: ہائے میری شامت! کیا میرے ہاں بچہ ہو گا جبکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں؟یقینایہ تو بڑی عجیب بات ہے‎
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ رَحۡمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ ؕ اِنَّہٗ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ﴿۷۳﴾
انہوں نے کہا:کیا تم اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہو؟ تم اہل بیت پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہیں،یقینا اللہ قابل ستائش، بڑی شان والا ہے۔(سورۃ ہود :آیت71 تا 73)
یہ آیا ت بتاتی ہیں کہ ملائکہ جنابِ ابراہیم ؑ کے گھر تشریف لائے اور انھوں نے انھیں بیٹے کی ولادت کییہ آیات بشارت دی ۔حضرت سارہ ؑ نے ان ملائکہ کو مہمان سمجھا تھا۔آپؑ نے ان کے لئے غذا بنائی اور ان سے گفتگو کی۔فرشتوں نے پھر ان سے گفتگو کی۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ (سورہ قصص ۷)”ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں۔ بعض مفسرین نے اَوحینا کا معنیٰ الَھمنا کیا ہے،یعنی ہم نے یہ بات اُن کے دل میں ڈال دی ۔لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ انھیں اس بشارت کی آواز دی تھی کہ وہ اس طرح کریں۔
علامہ مناوی نے شرح الجامع الصغیر ،ج۶ص2۶۰ میں محدث قُرطبی سے حدیث نقل کی ہے ۔اس نے کہا : محدثون میں دال مفتوح ہے اور اسم ِ ،مفعول ہے ۔ اس کی واحد محدث ہے،یعنی جسے الہام ہوتا ہو۔الہام کی تعریفیہ ہے کہ انسان اپنی فکر کے ساتھ راہِ صواب کو اختیار کرے ۔ایسے خاصان خدا کے قلوب میں اللہ کی طرف سے الہام یا مکاشفہ کی صورت میں کوئی بات آئے جو صحیح ودرست ہو۔یعنی اسے عالمِ ملکوت سے الہام ہوتا ہو یا اس کے نبی نہ ہونے کی صورت میں ملائکہ گفتگو کرتے ہوں ۔یہ عزت و کرامت ہے جو اللہ اپنے صالح بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔اولیائے اللہ کے منازل میںیہ عظیم منزلت ہے۔
خاتون جنت کی منزلت
آپ کے حضور عرض ہے کہ ان خدمات کے بیان کے بعد خاتون جنت کے مقام و منزلت کے فضا سے ہر قسم کے شکوک و شبہات کے سیاہ بادل چھٹ گئے ہوں گے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خاتون جنت محدثہ تھیں ،کیونکہ پیغمبر کائناتؑ کی شہز ادی کا مقامِ ارجمند جناب مریم ؑ مادر عیسیٰ ؑ یا جناب ِسارہ مادر موسیٰؑ سے کم تھا۔ یہ تمام خواتین ایمان نبیہ نہیں تھیں اور نہ شہزادی جنت ِ نبیہ تھیں۔
علامہ محدث کبیر شیخ صدوق رحمۃ اللہ نے جناب زید بن علی سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اِنَّمَا سُمِّيَت فَاطِمَۃُ مُحَدِّثـَـۃَ لِاَنَّ المَلَائِكَۃَ كَانَت تَهبِطُوا مِنَ السَّمَاءِ فَتَنَا دِمِیھَا كَمَا تُنَادِي مَریَمَ…
”حضرت فاطمہ زہراؑ کو محدثہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آسمان سے ملائکہ ان پر نازل ہوتے اور ان سے اس طرح گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریمؑ سے فرشتے گفتگو کرتے تھے اور انہیں ندا دیتے تھے اور باتیں کرتے تھے۔ وہ حضرت فاطمہ زہرا کو ندا دیتے تھے:
يَا فَاطِمَۃُ! اِنَّ اللهَ اصطَفٰكَ وَطَهَّرَكِ وَاصطَفٰكِ عَلٰى نِسَاۤءِ العَالَمِينَ۔
” اے فاطمہؑ! اللہ نے تمہیں برگزیدہ بنایا اور پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور آپ ؑکو تمام عالمین پر برتری عطا کی ہے“۔ (عللالشرائعص 182،باب 146،ح1)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button