مکتوب مجالس

عنوان: احترام جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سیرت نبوی کی روشنی میں

مجلس عزاء ایام فاطمیہ

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُھمَاۤ اَوۡ کِلٰھمَا فَلَا تَقُلۡ لَّھمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡھرۡھمَا وَ قُلۡ لَّھمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا وَ اخۡفِضۡ لَھمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا

اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایکیا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔

اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: میرے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔

جبکہ اس کے برعکس قرآن مجید میں والدین پر اولاد کے کے احترام کے سلسلے میں  بطور خاص کوئی آیت موجود نہیں ہے البتہ تربیت اولاد کے حوالے سے قرآن و احادیث میں بہت زیادہ مواد موجود ہے۔  آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام سے قبل بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا تھا قرآن مجید میں ارشاد  باری تعالیٰ ہے۔

وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ

اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا ۔ کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ؟

انسانی اقدار کے بارے میں اسلام کا یہ موقف نہایت قابل توجہ ہے کہ قیامت کے اہم ترین واقعات میں زمان جاہلیت میں زندہ درگور ہونے والی بچیوں کے بارے میں باز پرسی کو جگہ دی جائے گی چونکہ ایک انسان کو صرف اس بنیاد پر زندہ دفن کیا جائے کہ وہ لڑکی ہے، انسانیت کی تذلیل ہے۔ وہ کس گناہ میں ماری گئی؟ کی تعبیر میں انتہائی غضب الٰہی کا اظہار ہے کہ سوال خود بے گناہ بچی سے کیا جائے گا کہ تو کس جرم میں ماری گئی؟ مجرم باپ سے نہیں پوچھا جائے گا چونکہ مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے:

یُعۡرَفُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ بِسِیۡمٰھمۡ فَیُؤۡخَذُ بِالنَّوَاصِیۡ وَالۡاَقۡدَامِ

مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے پھر وہ پیشانیوں اور پیروں پکڑے جائیں گے۔

پھر وہ محرکات جن کی بنیاد پر ان بے گناہ بچیوں کو زندہ درگور کیا گیا ہے سب غیر انسانی ہیں:

1۔ ان بچیوں کا پالنا بوجھ سمجھا جاتا تھا چونکہ یہ لڑکوں کی طرح کما نہیں سکتیں۔

2۔ بیٹیاں لڑائیوں میں کام نہیں آتیں، الٹا ان کی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔

3۔مختلف قبائلی حملوں میں لڑکیوں کو لونڈیاں بنایا جاتا یا فروخت کر دیا جاتا تھا۔

اسلام نے بیٹیوں کو نہ صرف انسانی قدروں میں بیٹوں کے مساوی قرار دیا بلکہ بیٹیوں کو بہتر اولاد قرار دیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خَیْرُ اَوْلَادِکُمُ الْبَنَاتُ

تمہاری اولاد میں بیٹیاں بہتر اولاد ہیں۔

 (مستدرک الوسائل ۱۵: ۱۱۶۔ بحار الانوار ۱۰۱: ۹۱۔ مکارم الاخلاق: ۲۱۹)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:

مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ اَوْ ثَلَاثَ اَخَوَاتٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللہِ وَ اثْنَتَیْنِ فَقَالَ وَ اثْنَتَیْنِ فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللہِ وَ وَاحِدَۃً فَقَالَ وَ وَاحِدَۃً

جس شخص نے تین بیٹیوںیا تین بہنوں کی پرورش کی اس کے لیے جنت واجب ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! اگر دو ہوں فرمایا اگرچہ دو ہوں عرض کیا گیایا رسول اللہ! اگر ایک ہو فرمایا اگرچہ ایک ہو۔

نِعْمَ الْوَلَدُ الْبَنَاتُ مُلْطِفَاتٌ، مُجَھِّزَاتٌ، مُونِسَاتٌ مُبَارَکَاتٌ مُفَلِّیَاتٌ

بہتر فرزند بیٹیاں ہیں جو مہربان، آمادۂ خدمت، مانوس، بابرکت اور چست ہوتی ہیں۔

 (الکافی۶: ۶ باب فضل البنات، الکافی۶: ۵)

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ھوَ کَظِیۡمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ھوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ

اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے ۔

اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟

مشرکین لڑکی کو عار و ننگ تصور کرتے تھے۔ غیرت کے نام پر اسے زندہ درگور کر دیتے اور اقتصادی طور پر بھی اسے بوجھ تصور کرتے تھے۔ قحط کے خوف سے بھی اپنی اولاد، خاص کر بیٹیوں کو مار ڈالتے تھے۔ایسے ماحول میں مبعوث ہونے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انقلاب کس قدر عظیم ہے کہ اپنی بیٹی کو اپنا ٹکڑا قرار دیتے ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جناب سیدہ کے ساتھ سلوک اور آپؑ کی عظمت کا بیان

پہلی روایت:

عن عائشة، قالت:  كنت  أرى  رسول  اللّه صلى اللّه عليه و آله و سلم يقبّل  فاطمة فقلت: يا رسول  الله ، إنّي أراك تفعل شيئا ما كنت أراك تفعله من قبل؟ فقال: يا حميراء، إنّه لمّا كان ليلة اسري بي إلى السماء ادخلت الجنّة، فوقفت على شجرة من شجر الجنّة، لم أر في الجنّة شجرة هي أحسن حسنا، و لا أبضّ منها ورقة، و لا أطيب ثمرة، فتناولت ثمرة من ثمرتها، فأكلتها فصارت نطفة في صلبي. فلمّا هبطت إلى الأرض واقعت خديجة فحملت بفاطمة؛ فإذا اشتقت إلى رائحة الجنّة شممت رائحة فاطمة . يا حميراء، إنّ فاطمة ليست كنساء الآدميّين، و لا تعتلّ كما يعتللن

حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بوسے لے رہے تھے تو میں نے کہا کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو ایک ایسا کام کرتے دیکھ رہی ہوں کہ جسے کرتے میں نے پہلے آپ کو نہیں دیکھا تھا ،تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے حمیرا ! جس رات مجھےمعراج کے سفر پر لے جایا گیا ،اس وقت مجھے جنت میں داخل کیا گیا ، میں نے وہاں ایک درخت دیکھا کہ جو جنت میں موجود تمام درختوں میں سب سے زیادہ خوبصورت ، جس کے پتے سب سے زیادہ منظم اور جس کا پھل سب سے زیادہ لذیذ تھا ،میں نے اس درخت سے ایک پھل لیا اور اسے کھایا ،جس سے میرے صلب میں زہراء سلام اللہ علیہا کا نطفہ وجود میں آیا۔۔ ۔۔ جب بھی میں جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو میں فاطمہ کی خوشبو سونگھتا ہوں ۔ اے حمیرا ! فاطمہ دیگر انسانوں کی بیٹیوں کی طرح نہیں ہے ۔

(عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال ج ۱۱، ص ۳۷)

مگرمذکورہ بالا روایت کی روشنی میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ

1۔اللہ رب العزت نے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نور کا سرکار دو عالم سے پہلے کسی کو بھی محرم نہیں بنایا ، لہذا آپ سلام اللہ علیہا کا نورحتی کہ ان پاک اصلاب وارحام میں بھی نہیں تھا ، بلکہ نور زہراء کو جنت سے ہی براہ راست رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صلب اطہر میں رکھا ۔

2۔فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نور کو زمین پر نہیں بھیجا بلکہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نور لینے معراج پر بلایا گیا ۔

3۔ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی حقیقت خدا اور اس کے رسول کے درمیان ایک راز تھی کہ جس سے آشنائی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ جیسا کہ تفسیر فرات کوفی میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث مبارکہ ہے۔

سمیت فاطمۃ لأن الخلق فطموا عن معرفتھا

آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا کیونکہ مخلوقات کو آپ کی معرفت سے باز رکھا گیا ہے۔

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ)

دوسری روایت:

عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَداً كَانَ أَشْبَهَ  كَلاَماً وَ حَدِيثاً مِنْ فَاطِمَةَ بِرَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ رَحَّبَ بِهَا وَ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَ قَبَّلَ يَدَهَا وَ أَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ وَ كَانَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا رَحَّبَتْ بِهِ وَ قَامَتْ إِلَيْهِ وَ أَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَبَّلَتْهَا فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ فِي مَرَضِهِ اَلَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَرَحَّبَ بِهَا وَ قَبَّلَهَا وَ أَسَرَّ إِلَيْهَا فَبَكَتْ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا فَضَحِكَتْ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي كُنْتُ أَحْسُبُ لِهَذِهِ اَلْمَرْأَةِ فَضْلاً فَإِذَا هِيَ مِنْهُنَّ بَيْنَا هِيَ تَبْكِي إِذْ هِيَ تَضْحَكُ فَسَأَلْتُهَا فَقَالَتْ إِنِّي إِذَا لَبَذِرَةٌ وَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ سَأَلْتُهَا فَقَالَتْ أَسَرَّ إِلَيَّ وَ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَيِّتٌ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيَّ وَ أَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِهِ أَلْحَقُ بِهِ فَضَحِكْتُ

عائشہ بنت طلحہ نےام المؤمنین عائشہ سےروایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے بات کرنے اور گفتگو کرنے میں فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ رسول خدا کے مشابہہ کسی کو نہیں دیکھا ۔ جب بھی فاطمہ رسول خدا کی خدمت میں تشریف لاتیں تو رسول خدا آپ کو خوش آمدید کہتے ، آپ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے احترام میں کھڑے ہوتے ،ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس کا بوسہ لیتے اور پھر فاطمہ سلام اللہ علیہا کو رسول خدا اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے ۔

(بشارة المصطفی لشیعۃ علی المرتضی ج ۱، ص ۲۵۳ باب إخبار النبي لفاطمة و سرورها بعد حزنها)

عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ

ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا خرج کان آخر عہدہ فاطمۃ و اذا رجع کان اول عہدہ فاطمہ

"کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی سفر پر نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے آخر میں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے مل کر نکلتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے ملاقات فرماتے ۔

(المستدرک علی الصحیحین)

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مدت تک روزانہ ہر نماز کے وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر تشریف لے جاتے اور فرماتے:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اھل البیت! اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡھبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَھرَکُمۡ تَطۡھیۡرًا

۱۔حضرت ابن عباس کہتے ہیں: میں نو ماہ تک رسول اللہ ؐکے ساتھ یہ دیکھتا رہا کہ آپؐ ہر نماز کے وقت دروازہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جا کر اسی آیت کی تلاوت کرتے رہے۔

( الدر المنثور۵:۳۷۸)

۲۔ ابوبرزہ راوی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سترہ ماہ تک نماز پڑھتا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر دروازہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جا کر السلام علیکم فرماتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے۔

 ( مجمع الزوائد باب فضل اہل البیت )

۳۔ انس بن مالک راوی ہیں: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمر بباب فاطمة رضي الله عنها ستة أشهر إذا خرج لصلاة الفجر ، يقول  الصلوۃ یا اھل البیت! اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡھبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ۔۔۔۔

حاکم نیشاپوری نے المستدرک میں نقل کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چھ مہینے تک جب بھی آپ نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوتے اور فرماتے الصلاۃ یا اھل البیت ، اور پھر آپ آیت مجیدہ انما یرید اللہ ۔۔۔۔ کی تلاوت فرماتے ۔

 ( صحیح الترمذی۵: ۳۲۸۔ مسند احمد بن حنبل۲: ۲۰۹۔ المستدرک۳: ۱۵۸)

۴۔ ابوالحمراء سے روایت ہے:

حفظت من رسول اللہ ثمانیۃ اشھر بالمدینۃ لیس من مرۃ یخرج الی صلوۃ الغداۃ الا اتی علی باب علی فوضع یدہ علی جبنتی الباب ثم قال: الصلوۃ الصلوۃ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡھبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَھرَکُمۡ تَطۡھیۡرًا

مجھےیاد ہے کہ آٹھ ماہ تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہؐ صبح کی نماز کے لیے گھر سے نکلے ہوں اور دروازۂ علی پر نہ آئے ہوں اور دروازے کے چوکھٹوں پر ہاتھ رکھ کر یہ نہ فرمایا ہو:

الصلوۃ الصلوۃ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡھبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَھرَکُمۡ تَطۡھیۡرًا

بعض دیگر روایات میںیہ مدت سترہ ماہ اور انیس ماہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو تفاسیر ابن کثیر، طبری ذیل آیہ۔ اسد الغابہ ، مشکل الآثار وغیرہ۔

کیا فاطمہ زہراء علیھا السلامکا احترام فقط بیٹیہونے کے ناطے تھا یا کسی اور وجہ سے؟

شیعہ اور اہل سنت کے مابین رسول کی بیٹیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے اہل سنت کہتے ہیں کہ چار تھیں جبکہ اہل تشیع کہتے ہیں کہ فقط ایک دختر تھیں۔

جو لوگ رسول کی ایک ہی بیٹی مانتے ہیں ان کے سامنے بھییہ سوال ہے لیکن جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک سے زیادہ بیٹیوں کے قائل ہیں ان کے سامنے یہ سوال زیادہ شدت کے ساتھ کھڑا ہے ۔ کیونکہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ ص نے فرمایا۔

اتقوا اللّه و اعدلوا في أولادكم إن اللّه يحب ان تعدلوا بين أولادكم حتى في القبل

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ،تقوی الہی اختیار کرو اور اپنی اولاد میں برابری قائم رکھو ۔ جبکہ دوسری روایت میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کو یہ پسند ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری قائم رکھو حتی کہ بوسے لینےمیں بھی۔

(موسوعۃ اھل البیت ج 9 فاطمۃ الزہراء،موسوعۃ المصطفیٰ و العترۃ ج 4فاطمۃ الزہراء)

لہذا مذکورہ بالا احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے پاس دو میں سے ایک بات کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ،

نعوذ باللہ من ذالک ، رسول خدا اپنی ہی تعلیمات کے خلاف عمل کرتے تھے ،

2۔ رسول خدا ﷺکا فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا احترام اور آپ سے بے انتہاء محبت صرف بیٹی ہونے کی بنیاد پر نہیں تھی ۔

پہلی بات کو ماننے کا نتیجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بہتان باندھنے کی صورت میں نکلتا ہے ۔ لہذا یہ تسلیم کئے بنا کوئی چارہ نہیں کہ رسول اکرم کی فاطمہ سے شدید محبت اور ان کا بے مثال احترام صرف آپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔

اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کے قصے کو دیکھا جا سکتا ہے کہ جسے خدا وند متعال نے احسن قصص کہا ہے اور بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔

حضرتیعقوب علیہ السلام کی محبت حضرت یوسف علیہ السلام سے

حضرتیعقوب کے گیارہ بیٹے تھے ،ان میں سے آپ یوسف کو بے انتہاء پیار کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کییوسف سے اس قدر محبت نے آپ کے دیگر بیٹوں کو حسد اور کینہ کی آگ میں جلا دیا بالآخر معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ یعقوب کے باقی بیٹے اپنے ہی بھائییوسف کو قتل کرنے پر تل گئے ۔

یہاں حضرت یعقوب نبی ہیں اور اولاد کی تربیت کے اصولوں سے واقف بھی ہے ،

إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ

"ہم نے انہیں ایک خاص صفت کی بنا پر مخلص بنایا (وہ) دار (آخرت) کا ذکر ہے”۔

(السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ)

جیسی آیات کے ذریعے اللہ تعالی نے ان کے مقام کو واضح کیا ہے پھر بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں میں محبت اور اہمیت و اعتناء کے حوالے سے فرق روا رکھیں ؟

حضرتیعقوب نبی اور حجت خدا تھے وہ حضرت یوسف کی جبین پاک میں نبوت کے آثار کو دیکھ رہے تھے ،اس لئے حضرت یعقوب در اصل اس حجت خدا کا احترام کرتے، اس سے محبت کرتے اور دوسرےبیٹوں سے زیادہ اس کا خیال رکھتے تھے ۔ اگر صرف بیٹا ہونے کی بنیاد پر یوسف کو زیادہ اور باقی بیٹوں کو کم چاہتے تو یہیقینا نہ صرف تربیت اولاد کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہوتی بلکہ یہ نبی کی شان کے بھی خلاف کام ہوتا ۔

(ھذہ فاطمہ۔۔۔ ج4،سید نبیل حسنی)

پس مذکورہ بالا حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا احترام صرف آپ کی بیٹی ہونے کی بناء پر نہیں کرتے تھے ، بلکہ خدا وند متعال کے ہاں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ایسا مقام و مرتبہ تھا کہ جس کی وجہ سے رحمت للعالمین کو آپ کا بابا قرار دیا گیا ، امیر المؤمنین کو آپ کا شوہر اور جوانان جنت کے آپ کے بیٹے قرار دیئے گئے۔ یہ رشتے اپنے آپ میں اس قدر با عظمت اور با فضیلت ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے شاید کسی اور فضیلت کی ضرورت نہ ہو مگر زہراء مرضیہ کی فضیلت صرف ان رشتوں کی وجہ سے نہیں ہے ۔ آپ سلام اللہ علیہا رسول کی بیٹی ، علی کی زوجہ اور حسنین کی مادر ہونے سے پہلے بھی بڑی عظمت و شان و مرتبہ کی مالکہ ہیں۔ یہاں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا بے حد احترام ایک حجت خدا کا دوسرے حجت خدا کا احترام ہے ، جس طرح ہم دعائے توسل میں پڑھتے ہیں۔

 ” یا فاطمۃ الزھراء یا بنت محمد یا قرۃ عین الرسول ،یا حجۃ اللہ علی خلقہ ۔۔۔۔

ایک حجت کا دوسری حجت کےلیے احترام:

عن الإمام الحسن العسكري عليه السلام أنه قال:

نَحْنُ حُجج الله على خلقه ، وجّدتنا فاطمة عليها السلام حُجّة الله علينا

"ہم ائمہؑ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں اور ہماری جدہ فاطمہ علیھا السلام اللہ کی طرف سے ہم پر حجت ہیں”۔

اور امامِ زمانہؑ کا فرمان مبارک ہے

"فی ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لی اسوۃ حسنۃ”

"میرے لیے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی میں بہترین نمونہِ عمل ہے”۔

اسی لئے خدا وند متعال نے آپ کو آیتمودۃ ، آیہ ابرار ، آیت تطہیر اور آیہ مباہلہ جیسی بہت سی آیات میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیر المومنین علی علیہ السلام اور حسنین کریمین علیہما السلام کے ساتھ شامل رکھا جبکہ آپ کے علاوہ کسی اور خاتون کو شامل نہ کیا۔

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button