مجالسمکتوب مجالس

مجلس بعنوان ” فضائل و مناقب امیر المومنین علی علیہ السلام بزبان قرآن”

الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایۃ علی ابن ابی طالب و لآئمۃ المعصومین صلوات اللہ علیھم اجمعین
علی ؑنفس رسولؐ
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿آل عمران:۶۱﴾
ترجمہ: آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
چوتھی صدی کے مقتدر عالم جناب ابوبکر جصاص احکام القرآن ص 15 میں لکھتے ہیں: رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّہ علیہ (والہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمہ رضی اللّہ عنھم ثم دعی النصاریٰ الذین حاجوہ الی المباھلۃ "سیرت نگاروں اور مورخین میں کسی کو اس بات سے اختلاف نہیں کہ جناب رسولِ خداؐ نے حسنین فاطمہ اور علی علیہم السلام کے ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی "۔ علامہ زمحشری نے اس جگہ ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ نِسَاۗءَنَا اور اَنْفُسَـنَا میں ایک ایک ہستی حضرت فاطمہ (س) اور حضرت علی علیہ السلام پر اکتفا کیا گیا، لیکن اَبْنَاۗءَنَا میں ایک ہستی پر اکتفا نہیں کیاگیا۔ چونکہ فاطمہ (س) اور علی علیہ السلام کی کوئی نظیر نہیں تھی، لہٰذا ان کے ساتھ کسی اور کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن اَبْنَاۗءَنَا میں دو ہستیاں ایک دوسرے کی نظیر تھیں، اس لیے یہاں دونوں کو بلایا۔
سید بن طاؤس سعد السعود میں لکھتے ہیں: میں نے محمد ابن العباس ابن مروان کی کتاب انزل من القرآن فی النبی و اہل بیت میں دیکھا کہ حدیث مباہلہ پچاس سے زائد صحابیوں سے مروی ہے۔ بعض ترجمہ نگاروں نے اَنْفُسَـنَا کا یہ ترجمہ کیا ہے: ” آؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں "۔ جبکہ آیت میں ” آنے ” کا نہیں” بلانے ” کا ذکر ہے اور انسان اپنے آپ کو نہیں بلاتا۔ اگر نفس سے مراد خود رسول اللہؐ ہیں تو حضرت زھرا اور حسنین علیہم السلام کو ساتھ لینے سے حکم خدا کی تکمیل ہو گئی لیکن حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ رکھنے کی آیت میں کس طرح گنجائش ہو سکتی ہے؟ تفسیر المنار نے علامہ عبدہ کا یہ قول اپنے صفحات پر ثبت کر کے محدثین، خاص طور پر اربابِ صحاح کے علمی مقام کو مخدوش کر دیا: مباہلہ میں حضور (ص) نے صرف علی، فاطمہ اور حسنین علیہم السلام کو ساتھ لیا۔ یہ متفقہ روایت ہے، لیکن یہ شیعوں کی روایت ہے اور انہوں نے اپنے خاص مقصد کے لیے اسے ہوا دی ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے اہل سنت میں بھی یہ بات رائج ہو گئی اور اس حدیث کو گھڑنے والوں نے آیت کی تطبیق کا خیال بھی نہیں رکھا، کیونکہ عربی محاورہ میں نساء کہہ کر اپنی بیٹی مراد نہیں لی جاتی۔(المنار 3: 322)۔
جواب : 1۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اربابِ صحاح مثلاً صحیح مسلم اور صحیح ترمذی، محدثین ، مؤرخین اور مفسرین کے پاس کوئی معیار نہیں ہے کہ وہ ایک من گھڑت روایت پر متفق ہو جاتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کے بعد کسی صحیح محدث، کسی راوی اور کسی جرح و تعدیل کرنے والے پر وثوق نہیں رہتا ۔ 2۔کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ نساء کے معنی بیٹی ہیں اور روایات کا مفہوم بھی یہ نہیں ہے بلکہ روایات اس بات کو بالاتفاق بیان کرتی ہیں کہ حضور(ص) نے عملاً مباہلہ کے لیے نِسَاۗءَنَا کی جگہ صرف حضرت فاطمہ (س) کو اور اَنْفُسَـنَا کی جگہ صرف حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ لیا۔ لہٰذا یہ حضرات ان الفاظ کے مصداق قرار پائے، نہ کہ مفہوم۔ ورنہ مفہوم و معنی میں گنجائش کے باوجود ان کے علاوہ کسی کو مباہلہ میں شریک نہیں کیا۔
علی ؑنائب رسولؐ
قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿یوسف:۱۰۸﴾
کہدیجئے:یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
اس دعوت کا خاصہ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ ہے۔ یعنی اس کی بنیاد یقین و بصیرت پر ہے، لہٰذا پیروکاروں میں جو لوگ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ کے درجہ پر فائز ہیں، وہ اس دعوت میں شریک ہیں۔ واضح رہے تبلیغ اور دعوت اصولی اور ابتدائی طور پر رسول اللہؐ کی ذمہ داری ہے۔ اس مرحلے میں رسول (ص) کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، البتہ سورئہ برائت کی تبلیغ کے سلسلہ میں ایک موقع ایسا آیا کہ رسول اللہؐ خود تبلیغ کا کام انجام نہیں دے سکتے تھے، اس لیے حضرت علی علیہ السلام کو رجل منک کے عنوان سے رسول اسلامؐ کے بعد مَنِ اتَّبَعَنِيْ کی منزل پر فائز کر دیا اور سورۃ برائت کی ابتدائی تبلیغ فرمائی۔

رسول اللہؐ کی طرف سے تبلیغ عمل میں آنے کے بعد ہر وہ ہستی جو عَلٰي بَصِيْرَۃٍ کے مقام پر فائز ہو دعوت الی اللہ کی ذمہ داری انجام دے سکتی ہے۔ لہٰذا دعوت الی اللہ کے دو ارکان ہیں: اتباع رسولؐ اور بصیرت و یقین۔ چنانچہ حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل 1:285 میں، شہاب الدین شافعی نے توضیح الدلائل قلمی نسخہ ص 161 میں اور کلینی نے کافی میں اس روایت کا ذکر کیا ہے کہ مَنِ اتَّبَعَنِيْ سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔
دعوت الی اللہ کے پیچھے اگر یقین محکم جیسی طاقت نہیں ہے تو مشکلات اور صبر شکن مصائب کا انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مشکلات اس قدر سنگین اور مصائب و آلام اتنے طویل ہوتے ہیں اور داعیان الی الحق کو اس حد تک ستایا جاتا ہے کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی چیخ اٹھتے ہیں کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ (بقرۃ:214)۔
علی ؑہادی امت
وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ﴿لرعد:۷﴾
اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں: اس شخص پر اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی نازل کیوں نہیں ہوتی؟ آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرمؐ نے اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر فرمایا: انا المنذر و لکل قوم ھاد و اوما بیدہ الی منکب علیّ و قال: انت الھادی یا علی بک یھتدی المھتدون ۔ یعنی المنذر میں ہوں ہر قوم کا ایک ہادی ہوتا ہے۔ پھر اپنا دست مبارک علیؑ کے کندھے پر رکھ کر فرمایا: یا علیؑ! وہ ہادی آپؑ ہیں۔ آپؑ کے ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت حاصل کریں گے۔ اس حدیث کو حضرت ابن عباس، ابوہریرہ، ابو برزہ اسلمی، جابر بن عبد اللہ انصاری، ابوفردہ سلمی، یعلی بن مرہ، عبد اللہ بن مسعود اور سعد بن معاذ نے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو المستدرک 3:129، تفسیر کبیر، تفسیر طبری، روح البیان وغیرہ۔ ابن طاؤس فرماتے ہیں: محمد بن عباس نے اس حدیث کو 50 طرق سے نقل کیا ہے۔
علی ؑ مؤمن کامل
اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ﴿السجدہ:۱۸﴾؃
بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
واحدی، الدرالمنثور اور الکشاف میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور ولید بن عقبہ کے فسق کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ الکشاف 3: 525 میں آیا ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے ولید سے فرمایا: تو علی (ع) کو دشنام کیسے دے رہا ہے، جب کہ علی (ع) کو اللہ نے دس آیات میں مؤمن اور تجھے فاسق کہا ہے۔
علی ؑ صدیق اکبر
وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙیس:۲۰﴾
شہر کے دور ترین گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، بولا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔
الدرالمنثور میں آیا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: صدیقین تین ہیں: حبیب نجار مؤمن آل یاسین، حزقیل مؤمن آل فرعون اور علی بن ابی طالبؑ جو ان سب سے افضل ہیں۔
بخاری نے اپنی تاریخ میں بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے۔ ان روایات کے مطابق جس شخص نے یہ منطقی استدلال کیا وہ حبیب نجار تھا۔ ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ اطاعت اس رہنما کی ہونی چاہیے جس میں دو باتیں ہوں: اول یہ کہ جس بات کی طرف وہ دعوت دے رہا ہے اس میں اس کا اپنا کوئی مادی مفاد نہ ہو۔ دوم یہ کہ خود ہدایت پر ہو۔ آیت 22میں بتایا کہ عبادت اس کی ہونی چاہیے جس میں دو باتیں موجود ہوں: اول یہ کہ وہ خالق ہو، دوم یہ کہ اس کے حضور پلٹ کر جانا ہو۔
علی ؑ رسالت کا گواہ
اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَ یَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُہٗ ۚ فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ ٭ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿ھود:۱۷ ﴾
بھلا وہ شخص (افترا کر سکتا ہے) جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہو اور اس کے پیچھے اس کے رب کی طرف سے ایک شاہد بھی آیا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (بھی دلیل ہو جو) راہنما اور رحمت بن کر آئی ہو؟ یہی لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور دوسرے فرقوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کریں تو اس کی وعدہ گاہ آتش جہنم ہے، آپ اس (قرآن) کے بارے میں کسی شک میں نہ رہیں، یقینا یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
ابو حاتم ابن مردویہ، ابونعیم اور ابن عساکر کی روایت ہے کہ حضرت علیؑ نے فرمایا: عَلٰي بَيِّنَۃٍ سے مراد حضرت رسول خداؐ ہیں اور شَاہِدٌ مِّنْہُ سے مراد میں ہوں۔ (الدرالمنثور 3: 586)

علی محبوب عالم
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا﴿مریم:۹۶﴾
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کے لیے رحمن عنقریب دلوں میں محبت پیدا کرے گا۔
کائنات میں کوئی فرد اللہ کی بندگی سے بالاتر نہیں، البتہ اس بندگی میں مراتب ضرور ہیں۔ جب بندہ ایمان و عمل صالح کے ایک خاص مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اللہ کے نزدیک قرب و منزلت کے علاوہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ایک مقام پیدا فرما دیتا ہے۔
ابن مردویہ اور دیلمی نے حضرت براء سے اور طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی (الدر المنثور 4: 512)
علی ؑدو جہانوں کا مؤذن
وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلۡ وَجَدۡتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمۡ حَقًّا ؕ قَالُوۡا نَعَمۡ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿اعراف:۴۴﴾
اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے:ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے:ہاں، تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔
اہل جنت اور اہل جہنم کے اس مکالمے سے اہل جنت کو نعمتوں کی زیادہ قدر ہو گی اور اہل جہنم کی حسرت و ندامت میں اضافہ ہو گا۔ ایسے میں اہل جنت میں سے ایک مؤذن اذان برائت دے گا جس کا مضمون یہ ہو گا: ان لعنۃ اللّہ علی الظالمین ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں ایک خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: انا المؤذن فی الدنیا والآخرۃ، قال اللّٰہ عزوجل: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَہُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللہِ عَلَي الظّٰلِــمِيْنَ وانا ذلک المؤذن و قال:وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ انا ذلک المؤذن ۔ میں دینا و آخرت دونوں میں مؤذن ہوں۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَہُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللہِ عَلَي الظّٰلِــمِيْنَ میں ہی وہ مؤذن ہوں نیز فرمایا:َ اَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ یہاں بھی میں ہی وہ مؤذن ہوں‘‘۔ (معانی الاخبار ص 58)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرکین سے برائت کا اعلان بحکم خدا و رسولؐ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جو دنیا میں شرک و ایمان کے درمیان ایک فیصلہ کن اذان تھی۔ وہ رسولؐ کی فتح، نفیٔ شرک اور توحید کی اذان تھی۔ آخرت میں ہونے والی یہ اذان اسی اذان کا تسلسل ہے۔ وہی حق والوں کی اذان اور اہل جنت و اہل جہنم میں امتیاز کی اذان۔ اب ظالموں سے برائت کی نہیں بلکہ ظالموں پر لعنت کی اذان، تاریخ اذان کی سب سے اہم ترین اذان اور سب سے آخری اذان۔
البیان کے مطابق ابو القاسم حسکانی نے محمد حنفیہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: انا ذلک المؤذن ۔ وہ مؤذن میں ہی ہوں۔
علی ؑصاحب علم الکتاب
وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ﴿الرعد:۴۳﴾
اور کافر کہتے ہیں: کہ آپ رسول نہیں ہیں، کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔
جب کافروں کا یہ مطالبہ کہ قرآن کے علاوہ کوئی معجزہ دکھاؤ، مسترد ہو گیا تو کہنے لگے: پھر تو آپؐ پیغمبر نہیں ہیں۔ جواب میں فرمایا: میرے حق میں گواہی کے لیے اللہ کافی ہے جس نے ایک معجزانہ کلام میری رسالت کی گواہی کے لیے نازل فرمایا اور وہ ذات بھی گواہی کے لیے کافی ہے جس کے پاس عِلْمُ الْكِتٰبِ ہے۔
شواہد التنزیل حسکانی، مناقب مغازلی، تفسیر ثعلبی، ابن بطریق کی کتاب العمدۃ میں آیا ہے کہ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔
آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں محمد بن الحنفیہ اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی اس روایت کا ذکر کرتے ہیں کہ اس آیت میں مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ پھر کہتے ہیں: مجھے اپنی زندگی کی قسم! علیؑ کے پاس علم الکتاب ہے ۔ لیکن اس آیت سے علیؑ مراد نہیں ہیں۔
علی ؑاور ان کے شیعہ خیر البریہ ہیں
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿البینۃ:۷﴾
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے یقینا یہی لوگ مخلوقات میں بہترین ہیں۔
طبری اپنی تفسیر میں، شوکانی فتح القدیر 5: 564 ط حلبی، آلوسی روح المعانی میں سیوطی الدرالمنثور میں روایت کرتے ہیں کہ خیر البریۃ علیؑ اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اصحاب رسولؐ علیؑ کو آتے دیکھ کر کہا کرتے تھے : جاء خیر البریۃ۔ (الأمالی للطوسی ص251) مخلوقات میں سب سے افضل آ گئے۔
ولایت علی ؑکا باقاعدہ اعلان ( علی ؑ خلیفہ بلا فصل)
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿المآئدہ؛۶۷﴾
اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
یہ سورہ رسول کریمؐ کی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں نازل ہوا۔ فتح مکہ کے بعد تبلیغ رسالت میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہ گیا تھا جو وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ’’اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا‘‘ کا تحفظ دینا پڑتا۔ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْن میں کفر سے مراد اس آیت کے مندرجات سے انکار ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ آیہ حج میں بھی یہی فرمایا: وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ۔
٭ یہ آیت 18 ذی الحجہ، حجۃ الوداع 10 ھ کو بمقام غدیر خم نازل ہوئی، جہاں حضورؐ نے ایک لاکھ حاجیوں کے مجمعے میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طرق سے، ابن جریر نے ستر طرق سے، علامہ جزری المقری نے اسّی طرق سے، ابن عقدہ نے ایک سو پانچ، سجستانی نے ایک سو بیس اور علامہ جعابی نے ایک سو پچیس طرق سے روایت کیا ہے۔ (الغدیر) ہمارے معاصر علامہ امینی نے الغدیر جلد اول میں ایک سو دس طرق سے یہ روایت ثابت کی ہے۔ درج ذیل اصحاب روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیر خم کے موقع پرنازل ہوئی ہے:1۔ زید بن ارقم 2۔ ابوسعید خدری 3۔ عبداللہ بن مسعود 4۔ عبداللہ بن عباس 5۔جابر بن عبد اللہ انصاری 6۔ ابوہریرہ 7۔ براء بن عازب۔ (ملاحظہ ہو الدر المنثور 2: 528 ط بیروت، الواحدی اسباب النزول ص 105 فتح القدیر 3 : 57، تفسیر روح المعانی 2: 348)
واقعہ غدیر کا ایک معجزہ
سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ۙ﴿المعارج:۱﴾
ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے ہی والا ہے۔
امامیہ و غیر امامیہ مصادرمیں آیا ہے کہ جب رسول اللہؐ نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان فرمایا تو حارث بن نعمان الفہری نے کہا: محمدؐ جو کچھ کہ رہا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو اے اللہ مجھ پر آسمان سے پتھر برسا دے یا مجھے دردناک عذاب دے۔ یہ کہ کر وہ اپنی سواری کی طرف چلا ہی تھا کہ ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر گرا اور اس کے نیچے سے نکل گیا اور وہ مر گیا۔ اس واقعہ کو شمس الدین صنفی نے شرح جامع الصغیر میں، زرقانی نے شرح مواہب اللدنیہ میں، شبلنجی نے نور الابصار میں شربینی نے السراج المنیرمیں، ثعلبی نے اپنی تفسیرمیں اور حسکانی نے دعاۃ الہداۃ میں نقل کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے الغدیر ج 1 ص285۔
اکمال دین یعنی ولایت علی ؑ
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿المائدہ:۳﴾
تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور (وہ جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹ کر اور چوٹ کھا کر اور بلندی سے گر کر اور سینگ لگ کر مر گیا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم (مرنے سے پہلے)ذبح کر لو اور جسے تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور جوئے کے تیروں کے ذریعے تمہارا تقسیم کرنا (بھی حرام ہے)، یہ سب فسق ہیں، آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
کچھ حضرات نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان احکام کے بیان سے اسلامی احکام کا بیان مکمل ہوا اور اس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ یہ مؤقف بھی اس لیے درست نہیں کیونکہ بخاری کی روایت کے مطابق آخری حکم آیہ ربا ہے اور بعض کے نزدیک آیہ کلالہ ہے اور دیگر بعض احکام اس آیت کے نزول کے بعد نازل ہوئے ہیں۔
حقیقت امر یہ ہے کہ کفار نے دین اسلام کی دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن انہیں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ان کی آخری امید یہ تھی یہ دین اس کے بانی کے جانے سے ختم ہوجائے گا اور یہ دعوت اس کے داعی کی موت سے مٹ جائے گی کیونکہ اس کی کوئی اولاد نرینہ بھی نہیں ہے اور بہت سے سلاطین اور شان و شوکت والے بادشاہان کے موت کے منہ میں جانے کے بعد ان کے نام و نشان مٹ گئے اور ان کے قبر میں جاتے ہی ان کی حکومتوں کو زوال آیا اور جب رسول اللہؐ نے بحکم خدا اپنے بعد اس دین کے محافظ کا تعارف کرایا تو اس دین کے لیے بقا کی ضمانت فراہم ہو گئی اور بقول صاحب المیزان ’’یہ دین مرحلہ وجود سے مرحلہ بقا میں داخل ہو گیا۔ ‘‘یہاں سے کافر مایوس ہو گئے کہ یہ رسالت ایک فرد کے ساتھ منحصر نہ رہی، اب یہ دعوت ایک شخص کے مرنے سے نہیں مرتی۔
امامیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُم... ۔ غدیرخم کے موقع پر رسول اللہؐ کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے موقع پر نازل ہوئی۔ چنانچہ اصحاب رسولؐ میں سے اس کے راوی درج ذیل ہیں: 1۔ زید بن ارقم (طبری: الولایۃ) 2۔ ابوسعید خدری (حافظ ابن مردویہ تفسیر ابن کثیر 2: 14) 3۔ابوہریرہ (تفسیر ابن کثیر 2:14) 4۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (نطنزی۔ الخصائص)

مولاعلی ؑ کی ولایت و حاکمیت
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ﴿المائدہ:۵۵﴾
تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی جب آپؑ نے مسجد نبویؐ میں حالت رکوع میں ایک سائل کو انگشتری عطا فرمائی۔ جس کے راوی یہ ائمہ و اصحاب ہیں: 1۔ ابن عباس 2۔ عمار یاسر 3۔ عبد اللہ بن سلام 4۔ سلمہ بن کہیل 5۔ انس بن مالک 6۔ عتبہ بن حکم 7۔ عبد اللہ بن ابی 8۔ ابوذر غفاری 9۔جابر بن عبداللہ انصاری 10۔عبد اللہ بن غالب 11۔ عمرو بن عاص 12۔ ابو رافع 13۔حضرت علی علیہ السلام 14۔ حضرت امام حسین علیہ السلام 15۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام۔ 16۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام 17۔امام جعفر صادق علیہ السلام۔
قاضی یحییٰ نے المواقف صفحہ 405 میں، شریف جرجانی نے شرح مواقف 8: 360 میں، سعد الدین نے شرح مواقف 5: 17 میں، علاء الدین قوشجی نے شرح تجرید میں کہا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان سب کے مقابلے میں ابن تیمیہ کا یہ قول امانت فی النقل کے ترازو میں رکھیے! وہ کہتے ہیں: و ہذا کذب باجماع اہل العلم قد وضع بعض الکذابین حدیثاً مفتری ان ہذہ الایۃ نزلت فی علی لما تصدق بخاتمہ فی الصلوۃ و ہذا کذب باجماع اہل العلم بالنقل۔ بعض دروغ پردازوں نے ایک حدیث گھڑ لی ہے کہ یہ آیت علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جبکہ اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ ملاحظہ ہو منھاج السنۃ 2: 30) گویا محدثین مفسرین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اس امت میں شمار نہیں ہوتی، کیونکہ وہ آخر میں کہتے ہیں: و ان جمہور الامۃ لم تسمع بھذا الخبر۔ جمہور امت نے ایسی کوئی روایت سنی ہی نہیں۔ وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ۔ ( رعد: 5)
اس آیت کے معنی و مفہوم میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جانا چاہیے کہ عصر نزول قرآن میں لوگ اس آیت سے کیا سمجھتے تھے۔ چنانچہ شاعر رسول حسان بن ثابت کے اشعار آیت کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے کافی ہیں:
فانت الذی اعطیت اذ کنت راکعاً
زکوٰۃ فدتک النفس یا خیر راکع
فانزل فیک اللّٰہ خیر ولایۃ
و بینھا فی محکمات الشرائع
یاد رہے کہ علی (ع) انہی معنوں میں ولی ہیں جن معنوں میں اللہ اور اس کے رسولؐ ولی ہیں، کیونکہ ایک ہی استعمال میں لفظ کے دو معانی مراد نہیں لیے جا سکتے۔یہاں ولایت سے حاکمیت مراد ہے جو اللہ، رسولؐ اور رکوع میں زکوۃ دینے والے سے مختص ہے۔ یہاں ولایت سے مراد دوستی اور نصرت و محبت نہیں، کیونکہ یہ تو تمام مومنین میں موجود ہوتی ہیں۔٭ نماز اور زکوۃ دونوں پر بیک وقت عمل صرف یہاں ہوا ہے۔
آپؑ کی خلافت پرنص شرعی
‎الشعراء آیہ214
وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ﴿الشعراء:۲۱۴﴾ۙ
اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔
متعدد راویوں نے یہ واقعہ خود حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول اللہؐ نے اپنے قبیلے کے عزیزوں سے فرمایا: اے اولاد عبد المطلب ! قسم بخدا میں نہیں جانتا کہ عربوں میں سے کسی نے اس چیزسے کوئی بہتر چیز پیش کی ہو جو میں پیش کر رہا ہوں۔ میں دنیا و آخرت دونوں کی بہتری پیش کر رہا ہوں۔ اللہ نے مجھے یہی حکم دیا ہے کہ میں تمہیں دعوت دوں۔ تم میں سے کون ہے جو اس معاملہ میں میرا ساتھ دے؟ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: ’’میں آپ کا ساتھ دوں گا۔‘‘ حالانکہ میں عمر میں سب سے چھوٹا تھا اس وقت لوگ ہنستے ہوئے چلے گئے۔ (الدرالمنثور) بعض روایات میں آیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اے علی! تو میرا وارث، میرا وزیر اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے۔ (معالم التنزیل 4: 278۔ تفسیر طبری 19: 74۔ السنن الکبری 9: 7۔ سنن نسائی 6: 248۔ مختلف الفاظ کے ساتھ تفسیر مظہری 8: 370)
علی ؑ اور آیہ نجوی پر عمل
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲﴾
اے ایمان والو! جب تم رسول سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو، یہ بات تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے، ہاں اگر صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
بقول قتادہ کچھ لوگ (شاید امیر لوگ) بلا وجہ اور صرف اپنی بڑائی دکھانے کے لیے حضورؐ سے خلوت میں بات کرنا چاہتے تھے۔ اس آیت کے ذریعے پابندی عائد کر دی گئی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہتا ہے، وہ پہلے صدقہ دے۔ اس پر یہ ریاکارانہ سلسلہ بندہو گیا۔ صرف حضرت علی علیہ السلام نے صدقہ دے کر حضورؐ سے مسئلہ پوچھا۔ بعد کی آیت کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں: علی (علیہ السلام) کے تین ایسے فضائل ہیں ان میں سے ایک بھی فضیلت مجھے حاصل ہوتی تو بڑی دولت سے میرے لیے بہتر تھی۔ حضرت فاطمہ (س) کے ساتھ تزویج۔ خیبر کے دن عَلَم دیا جانا اور آیہ نجویٰ۔ (الکشاف 4: 494)
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: قرآن میں ایک آیت ہے جس پر میرے سوا نہ کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کوئی کر سکے گا۔ (وہ یہی آیہ نجویٰ ہے۔)
کل ایمان بمقابلہ کل کفر
اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا﴿احزاب:۱۰﴾
جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) دل (کلیجے) منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔
اوپر سے یعنی مدینے کی مشرقی جانب سے آنے والے بنی قریظہ کے یہود تھے اور نیچے سے یعنی مغرب کی جانب سے آنے والے قریش اور ان کے ہم نوا تھے۔ اس وقت منافقین اور کمزور ایمان والے کہنے لگے: اب اسلام مٹ جائے گا۔ کفار کی طرف سے 15 ہزار افراد پر مشتمل لشکر نے مدینے پر حملہ کر دیا اور مدینے کا محاصرہ ہوا۔ لشکر اسلام نے سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندق کھود لی۔ عمرو بن عبدود نے خندق پھلانگ کر مبارزہ طلبی کی۔ علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ علیؑ نے ایک وار میں عمرو کو قتل کیا تو لشکر کفر فرار ہو گیا۔
شب ہجرت علی ؑ کی جان نثاری
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿البقرہ:۲۰۷﴾
اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔
یہ آیت حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ جب آپؑ ہجرت کی رات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بستر پر سوئے اور اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ملاحظہ ہو مستدرک حاکم 3: 4، امام الحدیث ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ اس صحیح السند حدیث کے بعد اس سوال کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ سورۂ بقرہ مدنی ہے اور واقعہ مکہ میں پیش آیا۔ کیونکہ سورے کے مدنی ہونے اور اس آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شب ہجرت کی قربانی کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس کی اس حدیث سے اس کی صحت یقینی ہو جاتی ہے جس میں انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے دس بڑے مناقب میں شب ہجرت کے ایثار کا ذکر کیا ہے، جسے ائمہ حدیث نے الاستیعاب، تہذیب الکمال، سنن نسائی اور مسند احمد بن حنبل میں ذکر کیا ہے۔
وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿الانفال: ۳۰﴾
اور (وہ وقت یاد کریں) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں وہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
یہ آیت تاریخ اسلام کے عظیم واقعے (ہجرت) کے بارے میں ہے جب مکہ کے سرداروں نے دار الندوہ میں جمع ہو کررسول کریمؐ کو قید کرنے یا جلا وطن یا شہید کرنے پر غور کیا۔ آخرکار ابوجہل کی اس تجویز پر اتفاق ہوا کہ تمام قبائل کی شرکت سے محمدؐ کو قتل کیا جائے۔ ادھر جبرئیل امین نے رسول اللہؐ سے کہا: آج رات آپؐ اپنے بستر پر نہ سوئیں بلکہ اپنی جگہ علی بن ابی طالبؑ کو سلائیں۔ علی(ع) بستررسولؐ پر سوئے اور رسول اکرمؐ ہجرت فرما گئے۔ امام علی(ع) نے جان نثاری و فداکاری کی ایک ابدی مثال قائم کی۔ چنانچہ خود حضرت علی(ع) فرماتے ہیں: وقیت بنفسی خیر من وطیٔ الحصی ۔ روئے زمین پر چلنے والوں میں سے سب سے بہتر ہستی کی خاطر میں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ (بحار الانوار 19: 63۔ روح المعانی 9: 198)
علی ؑ امام مبین
اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕؑ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ﴿یس:۱۲﴾
۱ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔
’’ آگے بھیجا ہے‘‘ سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان اپنی زندگی میں بجا لاتا ہے اور آثار سے مراد وہ صدقات جاریہ ہیں جو انسان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔ مثلاً مسجد، مدرسہ اور شفاخانہ کی بنیاد ڈالنا یا کسی ایسے فساد کی بنیاد ڈالنا جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے۔ یعنی مرنے کے بعد ان کے ثواب و عذاب میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
اِمَامٍ مُّبِيْنٍ : قرآن میں اس کے کئی عنوان ہیں: مثلاً لوح محفوظ، ام الکتاب، الکتاب المبین، امام مبین۔ البتہ ان میں امام مبین کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انا و اللہ الامام المبین ابین الحق من الباطل ورثتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ینابیع المودۃ ط استنبول۔ بحار الانوار 35: 427، تفسیر قمی) قسم بخدا میں ہی امام مبین ہوں۔ حق کو باطل سے جدا کر کے بیان کرنے والا میں ہوں، جسے میں نے رسول اللہ (ص) سے وراثت میں لیا ہے۔
علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں : حدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں یہ بطن و اشارات قرآن میں سے ہے، تفسیر نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں: حدیث صحیح ہونے کی صورت میں یہ امام مبین کی تعبیر سے مربوط ہے کہ میں حق و باطل بیان کرنے والا امام ہوں۔ كُلَّ شَيْءٍ سے مربوط نہیں ہے۔ اشتراک لفظی سے اشتباہ نہ ہو۔
علی ؑ کا خفیہ و علانیہ انفاق کرنا
اَلَّذِیۡ ینفقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿البقرہ:۲۷۴﴾ؔ
جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ (ع) کے پاس صرف چار درھم تھے ۔ آپ (ع) نے ان میں سے ایک درہم رات کو ، ایک دن کو، ایک علانیہ اور ایک چھپا کر صدقہ دیا۔ اس روایت کے راوی ابن عباس ہیں اور ابن عباس سے درج ذیل راویوں نے روایت کی ہے: 1۔ ضحاک 2۔ مجاہد 3۔ ابو صالح۔ ملاحظہ فرمائیں : شواہد التنزیل 1: 140 تا 149، الکشاف۔ اسباب النزول۔ تفسیر کبیر رازی 7 : 89 ۔ الدر المنثور 1 : 642۔
علی ؑ قسیم النار والجنۃ
اَہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَقۡسَمۡتُمۡ لَا یَنَالُہُمُ اللّٰہُ بِرَحۡمَۃٍ ؕ اُدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡکُمۡ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ تَحۡزَنُوۡنَ﴿الاعراف:۴۹﴾
اور کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان تک اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی؟ (آج انہی لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ) جنت میں داخل ہو جاؤ جہاں نہ تمہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ تم محزون ہو گے۔
اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ : جنت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ حکم اصحاب الاعراف کی طرف سے مل رہا ہے۔ اس سے وہ حدیث قرآن کے مطابق ثابت ہوئی جس میں فرمایا: عَلِّیٌ قَسِیْمُ النَّارِ وَالْجَنَّۃِ ۔
علی ؑاور شیعیان علی ؑکی اللہ سے محبت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿المائدہ:۵۴﴾
اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی، چنانچہ اس کے راوی عمار، حذیفہ، ابن عباس، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام ہیں۔ اس آیت میں یہ پیشگوئی ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ مرتد ہو جائیں گے، نیز یہ پیشگوئی بھی ہے کہ ایک قوم مرتد نہ ہو گی جن کے یہ اوصاف ہوں گے: الف: وہ اللہ تعالی سے محبت کرے گی۔ ب: اللہ بھی ان سے محبت کرے گا۔ ج: مؤمنین کے درمیان عجز و انکساری سے رہیں گے۔ د: کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔ ھ: راہ خدا میں جہاد کریں گے۔و: وہ راہ خدا میں کسی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔
رسولؐ اللہ اور امیر المؤمنین ؑ کی شان
وَ الَّذِیۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَ صَدَّقَ بِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ﴿الزمر:۳۳﴾
اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ اہل تقویٰ ہیں۔
قرطبی، آلوسی اور سیوطی نے اپنی تفاسیر نیز ابن مغازلی اور گنجی نے اپنی مناقب میں یہ روایت بیان کی ہے: الذی جاء بالصدق سے مراد پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں اور صدق بہ سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔
برائت از مشرکین کا اعلان
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۙ﴿التوبہ:۳﴾
اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہے اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیر لو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔
مشرکین مکہ نے عہد شکنی میں پہل کی، تاہم رحمت و ہدایت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کو پھر بھی چار مہینے کی مہلت دی جائے۔
سنہ8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اس سال مسلمانوں نے پہلا حج کیا۔ سنہ 9 ہجری میں سورۂ برائت کے ساتھ حضرت ابوبکر کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا گیا۔ لیکن بعد میں حضرت رسول اکرمؐ پر جبرئیل نازل ہوئے اور اللہ کا یہ پیغام پہنچایا : الا یؤدی عنک الا انت او رجل منک اعلان برائت کی اس ذمہ داری کو یا تو آپ خود بنفس نفیس انجام دیں یا ایسا شخص جو آپ سے ہو۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے اعلان برائت کی ذمے داری حضرت علی علیہ السلام کو دے دی۔ (الارشاد: 65 ) اس روایت کو کبار اصحاب نے نقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ تبلیغ کا پہلا مرحلہ یعنی اللہ کا حکم لوگوں تک پہنچانا رسول کریمؐ کی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے۔ تبلیغ کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ سننے والوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دوسروں تک پہنچائیں۔ برائت از مشرکین کا اعلان پہلے مرحلے میں تھا، یعنی خود رسول اللہؐ کا فرض منصبی تھا کہ لوگوں میں اعلان کریں۔ اگر کسی وجہ سے یہ نہ ہو سکتا تو یہ ذمہ داری وہ انجام دیتا جو رسول اللہؐ کے بعد کے درجے کا ہو۔ یعنی اس اعلان کو یا تو اس مشن کی پہلی شخصیت انجام دے یا دوسری شخصیت ۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اس مشن کی دوسری شخصیت ثابت ہوئے۔
ایمان کل
مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿احزاب: ۲۳ ﴾
مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض نے اپنی ذمے داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور وہ ذرا بھی نہیں بدلے۔
عہد شکن لوگوں کے مقابلے میں عہد میں سچوں، بدل جانے والوں کے مقابلے میں نہ بدلنے والوں کا ذکر ہے۔ شواہد التنزیل میں آیا ہے: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: فینا نزلت یہ آیت ہماری شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن عبدود کو قتل کیا، جسے رسول اللہؐ نے مؤمن اور مشرک کا نہیں، ایمان اور شرک کا مقابلہ قرار دیا۔ برز الایمان کلہ الی الشرک کلہ ۔ (شرح نہج البلاغۃ 13: 262)
علی ؑبحیثیت ناصر رسول
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿انفال:۶۴﴾
اے نبی ! آپ کے لیے اللہ اور مؤمنین میں سے جس نے آپ کی پیروی کی ہے کافی ہے۔
اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: اے نبی آپ کے لیے اللہ اور آپ کی اتباع کرنے والے مؤمنین کافی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پہلا ترجمہ اسلام کے توحیدی مزاج کے مطابق ہونے کی وجہ سے قابل ترجیح ہے۔ ہمارے نزدیک دوسرا ترجمہ توحید کے منافی نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے آیت 62 میں فرمایا: ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ ۔ اس میں اللہ کی نصرت کے ساتھ مؤمنین کو شامل کیا ہے۔ حافظ ابو نعیم کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ (الغدیر2: 51)
نوٹ: ان آیات کی تفسیر کے لئے بلاغ القرآن کے آفیشل سائٹ کا وزٹ کیجیے اور وہاں تفسیر قرآن سیکشن میں جاکر مطلوبہ آیت کے ذیل میں مکمل تفسیر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
https://www.balaghulquran.com/[clear]

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button