کیا ائمہ اہل سنت، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ر ہے ہیں؟

بلا شک و شبہہ،خداوندعالم نےاہل بیت اطہارعلیہم السلام کو بے نظیرعلوم ومعارف عطا فرمائے ہیں جس کی بنا پر تمام لوگ ان کےعلوم کے محتاج رہے ہیں یہاں تک کہ مختلف مواقع پرمخالفین ومعاندین بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ ہم علمی مسائل میں ان کے محتاج ہیں۔ مثال کے طور پر،عمر بن خطاب ہمیشہ کہا کر تے تھے: فكان عمر يقول لولا على لهلك عمر.اگر علی { علیہ السلام } نہ ہو تے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
(ابن عبد البر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبد اللہ بن عبد البر (متوفاى463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3 ص 1103، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.)
حضرت عمر اس طرح بھی کہا کرتے تھے: وفي كتاب النوادر للحميدي والطبقات لمحمد بن سعد من رواية سعيد بن المسيب قال: كان عمر يتعوذ باللّٰه من معضلة ليس لها أبو الحسن يعني علي بن أبي طالب.عمر ہمیشہ ہر،اس مشکل میں خدا سے پناہ مانگتے تھے کہ جس کے حل کے لئے علی ابن ابی طالب [ علیہ السلام ] موجود نہ ہوں۔
(العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 13 ص 343، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة – بيروت.)
اب ہم،اختصار کے طورپراہل سنت کے ان ائمہ وعلماء اور بزرگ اسا تذہ کا ذکر کریں گے کہ جنہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے سامنے زانو ئے ادب طے کیا اور سالہا سال، امام صادق علیہ السلام کے شاگرد رہے ہیں:
۱. آلوسی
آلوسی،اہل سنت کے مشہور علماء میں سے ہیں وہ اپنی کتاب«مختصر تحفة الاثني عشرية»کے مقدمہ میں، ابو حنیفہ کی زبانی اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ: ابوحنیفہ نے دو سال، امام صادق علیہ السلام سےعلمی استفادہ کیا وہ لکھتے ہیں:
وهذا أبو حنيفة – رضي اللّٰه تعالى عنه – وهو بين أهل السنة كان يفتخر ويقول بأفصح لسان: لولا السنتان لهلك النعمان، يريد السنتين اللتين صحب فيهما لأخذ العلم الإمام جعفر الصادق – رضي اللّٰه تعالى عنه -. وقد قال غير واحد أنه أخذ العلم والطريقة من هذا ومن أبيه الإمام محمد الباقر ومن عمه زيد بن علي بن الحسين – رضي الله تعالى عنهم۔
یہ ابو حنیفہ ہیں در حالیکہ اہل سنت کے درمیان،ہمیشہ [ امام صادق علیہ السلام کی شاگردی پر ] فخر کرتے تھے اورفصیح زبان میں کہتے تھے: اگردو سال [ امام صادق علیہ السلام کی شاگردی کے ] نہ ہوتے تو نعمان { یعنی میں ابو حنیفہ } ہلاک ہوجاتا – ابوحنیفہ کی دو سال سےمراد وہ دو سال ہیں کہ جس میں انہوں نےامام صادق [علیہ السلام ] سے کسب علم کیا، اور بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نے علم وطریقت، ان [یعنی امام صادق علیہ السلام ] سےاوران کے پدربزرگوار امام محمد باقر [علیہ السلام ] اوران کےعم،زید بن علی بن الحسین علیہم السلام سےحاصل کیا ہے۔
(الألوسي، محمود شكري، مختصر التحفة الاثني عشرية، ص 8، ألّف أصله باللغة الفارسية شاه عبد العزيز غلام حكيم الدهلوي، نقله من الفارسية إلى العربية: (سنة 1227 هـ) الشيخ الحافظ غلام محمد بن محيي الدين بن عمر الأسلمي، حققه وعلق حواشيه: محب الدين الخطيب، دارالنشر: المطبعة السلفية، القاهرة، الطبعة: 1373 هـ .)
اور دیکھئے: (القنوجي البخاري، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفاى1307هـ)، الحطة في ذكر الصحاح الستة، ج 1 ص 264، ناشر: دار الكتب التعليمية – بيروت، الطبعة: الأولى 1405هـ/ 1985م .)
۲. ابن تیمیہ
ابن تیمیہ،اگرچہ اپنی کتاب میں ابوحنیفہ کی شاگردی کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کرتے ہیں، لیکن واضح طورپرمالک بن انس،سفیان بن عینیہ،شعبہ،ثوری،ابن جریح،یحیی بن سعید و۔۔۔ کومنجملہ ان افراد میں شمار کرتےہیں کہ جنہوں نےامام جعفرصادق علیہ السلام سے کسب علم کیا،چنانچہ ابن تیمیہ لکہتے ہیں:
فإن جعفر بن محمد لم يجيء بعد مثله وقد أخذ العلم عنه هؤلاء الأئمة كمالك وابن عيينة وشعبة والثوري وابن جريج ويحيى بن سعيد وأمثالهم من العلماء المشاهير الأعيان.
بیشک جعفر بن محمد [ امام جعفر صادق علیہ السلام ] کے بعد ان کے مثل کو ئی نہیں آیا،اور اہل سنت کے بہت سے ائمہ و بزرگ علماءجیسے:مالک،سفیان بن عینیہ،اورشعبہ،{ سفیان} ثوری،ابن جریج ویحیی بن سعید اوراس طرح دوسرے مشھورومعروف بزرگ علماء نے امام صادق علیہ السلام سےعلم حاصل کیا۔
(ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 126، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ)
۳۔ محمد بن طلحہ
یہ بھی،اہل سنت کے ان علماء کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب علم کیا، وہ لکھتےہیں:
الإمام جعفر الصادق (عليه السلام) … هو من عظماء أهل البيت وساداتهم (عليهم السلام) ذو علوم جمة، وعبادة موفرة، وأوراد متواصلة، وزهادة بينة، وتلاوة كثيرة، يتتبع معاني القرآن الكريم، ويستخرج من بحره جواهره، ويستنتج عجائبه، ويقسم أوقاته على أنواع الطاعات، بحيث يحاسب عليها نفسه، رؤيته تذكر الآخرة، واستماع كلامه يزهد في الدنيا، والاقتداء بهديه يورث الجنة، نور قسماته شاهد أنه من سلالة النبوة، وطهارة أفعاله تصدع أنه من ذرية الرسالة . نقل عنه الحديث، واستفاد منه العلم جماعة من الأئمة وأعلامهم مثل: يحيى بن سعيد الأنصاري، وابن جريج، ومالك بن أنس، والثوري، وابن عيينة، وشعبة، وأيوب السجستاني، وغيرهم (رض) وعدوا أخذهم عنه منقبة شرفوا بها وفضيلة اكتسبوها.
امام جعفر صادق علیہ السلام۔۔۔ اہل بیت [علیہم السلام ] کےعظیم اوربزرگ افرادمیں سےہیں۔ وہ کثیرالعلم،اوردائمی عبادت گزارانسان تھے اورہمیشہ یاد خدا میں رہتے تھے ان کا زہدوتقوی سب پرآشکارتھا،قرآن کی کثرت سے تلاوت کرتے تھے،قرآن کے معانی ومفاہیم پرمحققانہ وماہرانہ نظررکھتے تھے،اورقرآن کے معانی ومفاہیم کےسمندرسےجواہرات[ قیمتی مطالب ومفاہیم ومعانی ] کا استخراج کرتے تھے،اورقرآن سےعجائب[ نئی اور تازہ چیزیں ] کا نتیجہ نکالتےتھے،انہوں نے اپنے اوقات کواللہ کی مختلف اطاعات اورعبادات کے لئے تقسیم کررکھا تھا اس طریقہ سےان اوقات میں اپنے محاسبہ نفس میں مشغول رہتے تھے- ان کا دیدار،آخرت کی یاد دلاتا تھا، اوران کا کلام سننا،دنیا میں زہد و تقوی کا باعث بنتا تھا،ان کے نقش قدم پہ چلنا جنت کا راہنما تھا،ان کے حسین وخوبصورت چہرہ کا نوراس بات کا گواہ تھا کہ وہ انبیاء کی اولاد اوران کی نسل سے ہیں،اور ان کے اعمال وافعال کی طہارت و پاکیزگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ رسالت و نبوت کی ذریت ہیں،ائمہ وبزرگ اساتذہ جیسے:یحیی بن سعید انصاری،ابن جریج،مالك بن انس،[سفیان]ثوری،[سفیان]ابن عینیہ، وشعبہ،وایوب السجستانی اوران کےعلاوہ دوسرے افراد نے امام صادق علیہ السلام سے کسب علم کیا۔اور، امام صادقؑ کی شاگردی اوران سے کسب علم کو اپنے لئے باعث فخروفضیلت سمجھتے تھے کہ جس سے وہ [ ائمہ و بزرگان اہل سنت ]آراستہ تھے۔
(الشافعي، محمد بن طلحة (متوفاي652هـ)، مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (ع)، ص 436، تحقيق: ماجد ابن أحمد العطية. طبق برنامه كتابخانه اهل بيت عليهم السلام.)
4. محیی الدین نووی الشافعی
اہل سنت کے عا لم د ین، نو وی الشافعی بھی علماء و بزرگان اہل سنت کی شا گردی و کسب علم کو یوں بیان کر تے ہیں:
روى عنه محمد بن إسحاق ويحيى الأنصاري ومالك والسفيانان وابن جريج وشعبة ويحيى القطان وآخرون واتفقوا على إمامته وجلالته وسيادته. محمد بن اسحاق، و يحيى الأنصاري،مالك،دو سفيان { ثوری،و ابن عینیہ } اور ابن جريج،اور شعبه و يحيى القطان۔
اور دوسرے لوگوں نے ان { امام جعفر صادق علیہ السلا م } سے روایت کی ہیں، اور ان کی [ علمی ] جلا لت، اور امامت و رہبری پر اتفاق نظر رکھتے تھے۔
(النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاى676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 1 ص 155، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.)
۵۔ خطیب تبریزی
خطیب تبریزی،اہل سنت کی عظیم اور مضبوط علمی شخصیات میں شمار ہو تے ہیں انہوں نے کہا ہے:
جعفر الصادق: هو جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب، الصادق کنيته أبو عبداللّٰه کان من سادات أهل البيت روي عن أبيه وغيره سمع منه الأئمة الأعلام نحو يحيي بن سعيد وابن جريج ومالک بن أنس والثوري وابن عيينة وأبو حنيفة۔
{ امام }جعفر الصادق { علیہ السلام }:ان کا نام جعفربن محمدبن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب[ علیہم السلام ] ہے،کنیت ابوعبداللہ اور لقب صادق تھا وہ اہل بیت{ علیہم السلام } کے عظیم اور بزرگ افراد میں سے تھے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار اور دوسروں سے روایتیں کی ہیں،اوراہل سنت کے ائمہ اوربزرگ اساتذہ جیسے: یحیی بن سعید،ابن جریج،مالک بن انس،سفیان ثوری،سفیان بن عیینہ اورابو حنیفہ نےان [ امام صادق علیہ السلام ] سے روایت سنی ہیں۔
(الخطيب التبريزي، محمد بن عبد الله، (متوفاي: 741 هـ)، الأکمال في أسماء الرجال، ص 19)
6 . ابو المحاسن ظاہری
یہ اہل سنت کے حنفی علماء میں آتے ہیں انہوں نے اہل سنت کے بعض ان ائمہ وعلماء کے نام ذکر کئے ہیں کہ جوامام صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرتے تھے، وہ اس بارے میں تحریر کرتے ہیں:
[ما وقع من الحوادث سنة 148] وفيها توفي جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبى طالب رضي اللّٰه عنهم، الإمام السيد أبو عبد الله الهاشمي العلوي الحسيني المدني … وكان يلقب بالصابر، والفاضل، والطاهر، وأشهر ألقابه الصادق … وحدث عنه أبو حنيفة وابن جريج وشعبة والسفيانان ومالك وغيرهم. وعن أبي حنيفة قال: ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد.
[اس کے بیان میں۔۔۔ کہ جو واقعات سن 148 ہجری قمری میں رونما ہوئے ]: اس سال { امام } جعفر صادق { علیہ السلام } ابن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب [ علیہم السلام ] نے وفات پائی وہ، امام و آقا تھے ابا عبداللہ ان کی کنیت تھی، اور وہ ہاشمی، علوی، حسینی اور مدنی تھے۔ ان کو صا بر، فاضل اور طاہر جیسے القاب سے پکارا جاتا تھا اور ان کا سب سےمشہورلقب صادق تھا۔۔۔ ابوحنیفہ، ابن جریج، اور شعبہ او ر سفیان بن عیینہ و سفیان و ثوری اور مالک۔۔۔ اور دوسر ے افراد نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں۔ اورابو حنیفہ سے نقل ہے کہ وہ کہتے تھے: میں نے جعفر بن محمد[ امام صادق علیہ السلام ] سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔
(الأتابكي، جمال الدين أبي المحاسن يوسف بن تغري بردى (متوفاى874هـ)، النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة، ج 2 ص 68، ناشر: وزارة الثقافة والإرشاد القومي – مصر.)
7 . ابن صباغ مالکی
علی بن احمد مکی، ابن صباغ کے نام سے مشہور اہل سنت کے مالکی علماء میں سے ہیں وہ بھی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
كان جعفر الصادق ابن محمّد بن عليّ بن الحسين عليهم السلام … وروى عنه جماعة من أعيان الاُمّة وأعلامهم مثل: يحيى بن سعيد وابن جريج ومالك بن أنس والثوري وابن عيينة وأبو حنيفة وشعبة وأبو أيّوب السجستاني وغيرهم۔
یعنی: جعفر صادق ابن محمد بن علی بن اسین علیہم السلام … ان سے امت کے بزرگ علماء اور اساتذہ کی جماعت جیسے:یحیی
بن سعید، وابن جریج، مالک بن انس، والثوری وابن عیینہ اور أبو حنیفہ وشعبہ اور ابو ایوب السجستانی اور دوسر ے لوگوں نے روایتیں نقل کی ہیں۔
(المالكي المکي، علي بن محمد بن أحمد المعروف بابن الصباغ (متوفاي885هـ)، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج 2 ص 907-908، تحقيق: سامي الغريري، ناشر: دار الحديث للطباعة والنشر مركز الطباعة والنشر في دار الحديث – قم، الطبعة الأولى: 1422 – 1379 ش.)
8 . ابن حجر ہیثمی
یہ بھی اہل سنت کے بزرگ علماء، من جملہ ابو حنیفہ کی شاگردی کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں:
جعفر … وروى عنه الأئمة الأكابر كيحيى بن سعيد وابن جريج والسفيانين وأبي حنيفة وشعبة وأيوب السختياني۔
جعفر [ امام صادق علیہ السلام ]۔۔۔ ان سے، بزرگ ائمہ جیسے: یحیی بن سعید، ابن جریج، دو سفیان [سفیان ثوری او ر سفیان
بن عیینہ]، ابو حنیفہ اور شعبہ، اور ابو ایوب سختیانی نے روایتیں نقل کی ہیں۔
(الہيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أہل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 586، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ – 1997م.)
9 . شبراوی
عبداللہ بن محمد شبراوی، اہل سنت کے شافعی مذہب کے بزرگ علماء میں سے ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا نام ذکر کرنے کے بعد، امام علیہ السلام کے شاگردوں میں من جملہ مالک بن انس اور ابو حنیفہ کو شمار کر تے ہیں وہ کھتے ہیں:
السادس من الائمة جعفر الصادق ذو المناقب الکثيرة و الفضائل الشهيرة روي عنه الحديث کثيرون مثل مالک بن انس و أبو حنيفه و يحيي بن سعيد و ابن جريج و الثوري.
[امام ] جعفر صادق [علیہ السلام]، ائمہ میں چھٹے [امام ] ہیں وہ کثیر مناقب اور مشہور فضائل کے مالک تھے ان سے بہت سے بزرگ محدثین [ یعنی نقل حدیث کرنے والے افراد ] جیسے: مالک بن انس، ابوحنیفہ،یحیی بن سعید اور ابن جریج اور ثوری نے روایتیں نقل کی ہیں۔
(الشبراوي الشافعي، عبد الله بن محمد بن عامر، الإتحاف بحب الأشراف، 54، دار النشر: مصطفي البابي الحلبي وأخويه، مصر)
10 . شبلنجی شافعی
مومن بن حسن شبلنجی، اہل سنت کے بزرگوں میں سے ہیں وہ اپنی کتاب نور الابصار میں لکھتے ہیں:
روي عنه جماعة من أعيان الأئمة وأعلامهم کيحيي بن سعيد ومالک بن أنس والثوري وابن عيينة وأبي حنيفة وأيوب السختياني وغيرهم۔
امت کے بزرگ ائمہ اوراساتذہ کی جماعت جیسے: یحیی بن سعید، مالک بن انس، اور ثوری، ابن عیینہ اور ابو حنیفہ اور ابو ایوب سختیانی اور ان کےعلاوہ دوسر ے افراد نے ان [ امام جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام ] سے روایتیں نقل کی ہیں۔
(شبلنجي الشافعي، حسن بن مومن، نور الابصار في مناقب آل بيت النبي المختار، ص 297، قدم له: دکتور عبدالعزيز سالمان، المکتبة التوفيقية)
جیسا کہ آپ نے ملا حظہ کیا کہ اہل سنت کے ائمہ اور بزرگ علماء و اساتذہ، امام صادق علیہ السلام کے شاگرد رہے ہیں اگرچہ یہ لوگ فقہی اوراعتقادی مسائل میں { امام صادق کے شاگرد ہو نے کے با وجود } ان کے نظریات کو مکمل طور پر قبول نہیں کرتے تھے [یعنی امام صادقؑ کے اقوال و نظریات کی پیر و کار نہیں تھے ] لیکن اس کے باوجود ان کے علمی دسترخوان کے خوشہ چین تھے۔
اب ہمارا اہم سوال یہ ہے کہ کیوں اہل سنت بجائے اس کے کہ امام صادق اور اہل بیت پیامبر صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین کی اطاعت کرتےاورشیعوں کی طرح ان کے نقش و قدم پر چلتے ان کو چھوڑکر،ان کے شاگردوں جیسے: مالک، ابو حنیفہ، شافعی وغیرہ کی پیروی اور اطاعت کرتے ہیں؟ اور کیوں ان سب کے استاد امام صادق علیہ السلام کی اطاعت نہیں کرتے؟
نتیجہ:
ان ساری بحثوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہلسنت کے بہت سے علما ء واساتذہ یہاں تک کے ان کے چار امام: ابوحنیفہ، مالی بن انس،محمد بن ادریس شافعی، احمد بن حنبل، بلا واسطہ یابالواسطہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ لہذا فطری طور پر مناسب یہ تھا کہ امام صادق علیہ السلام کی شاگردی کے تقاضے کے تحت، زرارہ، محمد بن مسلم وغیرہ جیسے شاگردوں کی طرح علم فقہ اور اعتقادی مسائل میں اپنے استاد کی مکمل طور پر اطاعت و پیروی کرتے۔۔۔ لیکن یہ وہ کوتاہی ہےکہ جو، ان سے سر زد انجام پائی ہے۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu/mobile_shownews.php?idnews=105