محافلمناقب امیر المومنین ؑمناقب و فضائل

امام علی علیہ السلام اور علم البلایا و المنایا

شیخ ضیاء جواھری
شیخ مفید علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں حضرت علی کے فضا ئل میں بہت سی آیات موجود ہیں اور وہ حضرت علی علیہ السلام کے معجزات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور یہ معجزات آپ کی امامت پر دلالت کرتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کی اطاعت واجب ہے اور آپؑ تمام لوگوں پر اللہ کی حجت ہیں۔ ان معجزوں میں سے کچھ ایسے معجزے ہیں جن کے ذریعہ خدا نے انبیا ء اور رسولوں کی نبوت و رسالت کو ظاہر کیا اور ان کی سچائی پر ایک واضح دلیل قرار دیا۔ جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کے ایسے معجزات ہیں جن کا کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر یہ کہ وہ کم عقل، جاہل، بے وقوف اور دشمن ہو۔
(الارشاد ج۱ ص۳۱۳،۳۱۴)
حضرت کے معجزات میں ایک معجزہ یہ ہے کہ جب آپ نے خوارج سے جنگ کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؑ سے کہاگیا کہ وہ لوگ نہروں کا پل عبور کر کے دوسری طرف جاچکے ہیں اس وقت اآپؑ نے فرمایا ان کے گرنے کی جگہ تو پانی کے اس طرف ہے (وہ وہاں کےسے جاسکتے ہیں )خدا کی قسم ان میں دس افراد بھی نہ بچ سکیں گے۔
ابن حدید کہتے ہیں کہ جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کی یہ روایت تواتر کے ساتھ بیان کی جانے والی روایات میں سے ہے کیونکہ آپ ؑ کی یہ روایت بہت مشہور ہوئی اور سب لوگوں نے اسے نقل کیا ہے۔
یھی آپ کا معجزہ ہے کیونکہ اس میں آپؑ نے غیب کے متعلق خبر دی ہے اگرچہ آپ نے اس کے علاوہ بھی غیب کی بہت سی خبردیں ہیں لیکن یہ ایسی خبر ہے جس میں ذرہ برابر شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ اس میں آپؑ نے اپنے اصحاب کے متعلق بھی ایک مخصوص عدد کے ساتھ خبر دی ہے اور خوارج کے متعلق بھی ایک خاص عدد فرمایا ہے اور جنگ کے بعد بالکل اسی طرح ہوا جس طرح آپؑ نے فرمایا تھا۔
اس میں کسی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہوئی کیونکہ یہ ایک خدا وندی امر تھا۔ جس کو آپؑ نے حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اور انھوں نے اللہ سے حاصل کیا تھا ۔
لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے معجزات میں تنہا ہیں ،کوئی دوسرا اس طرح کے معجزات ظاہر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قوت بشر ان امور کو حاصل کرنے سے قاصر ہے۔
(شرح نھج البلاغہ ج ۵،ص۴۰۳)
جب تین گروہوں نے بےعت توڑی تو حضرت امیر المؤمنین نے جنگ شروع کرنے سے پہلے فرمایا( اس روایت کو بہت سے لوگوں نے بھی نقل کیا ہے ) مجھے تین گرویوں ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا میں ان سے جنگ کروں گا اور ہوا بھی اسی طرح۔
جناب امیر علیہ السلام جب ”ذی وقار“ مقام پر تشریف فرما تھے تو اس وقت حضرت نے فرمایا :
یاٴتیکُم مِن قِبَل الکوفه اٴلفُ رجل لا یزیدون رجلا ولاینقصون رجلا یبایعوني علی الموت
تمہارے پاس کوفہ کی طرف سے ایک ہزار آدمی آئیں گے ایک ہزار سے ایک آدمی کم یا زیادہ نہیں ہوگا وہ سب لوگ میری اس طرح بیعت کریں گے کہ خون کے آخری قطرہ تک میری حمایت کریں گے۔
جناب ابن عباس کہتے ہیں کہ جب آپؑ نے مندرجہ بالا فرمان دیا تو میں گھبرایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس معین مقدار میں کمی یا زیادتی ہوجائے اور اآپؑ کا فرمان درست نہ رہے۔ لوگ کوفہ کی طرف سے آنا شروع ہوئے تو میں ان کو شمار کرنے لگا، شمار کرتے کرتے جب میں نو سونناوے پر پہنچا توکچھ دیر تک کوئی نہ آیا اس وقت میں نے انا للہ وانا... پڑھا اور سوچ میں غرق ہوگیا کہ اس کی کیا توجیہ کروں ابھی میں سوچ ہی رہاتھا کہ ایک شخص آیا آگے بڑھ کر جناب امیر علیہ السلام سے کہنے لگا آپؑ ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ جناب امیر علیہ السلام نے فرمایا تو کس چیز پر میری بیعت کرے گا۔
اس نے کہا: میں آپ ؑکی اطاعت کرونگا آپ کے حکم سے آپ کے سامنے اس وقت تک جنگ کرونگا کہ یا میں شہید ہو جاؤں یااللہ تعالی آپ کو فتح مبین عطا فرمائے۔ جناب امیر علیہ السلام نے اس سے پوچھا تیرا نام کیا ہے اس نے کہااویس قرنی۔
حضرت نے فرمایا تو اویس قرنی ہے۔
اس نے کہاجی ہاں میں اویس قرنی ہو ں۔
حضرت نے فرمایا اللہ اکبر مجھے میرے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بتایا تھا میرے بھائی تو ایک ایسے شخص سے ملے گا جس کا نام اویس قرنی ہوگا وہ اللہ اور اس کے رسول کے گروہ سے ہوگا اور اسے شہادت نصیب ہو گی اور وہ ربیعہ اور مضر جیسے خاندان کی شفاعت کرے گا۔
(بحار ج۸ ص۲۱۵،۲۱۶)
جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کی غیب کی خبروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زیاد ابن نصر حارثی کہتا ہے کہ میں زیا د کے پاس موجود تھا اس وقت رشید ہجری کو لایا گیا اور اس سے زیاد نے کہاتیرے متعلق تیرے آقا اور مولا یعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے کیا کہاتھا ہم تیرے ساتھ وہی سلوک کریں گے۔
رشید ہجری کہتے ہیں میرے مولا نے فرمایا تھا :
تقطعون يديَّ ورجليَّ و تصلبونني
میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کر سولی پر لٹکایا جائے گا۔
زیاد کہتا ہے کہ خدا کی قسم میں تیر ے مولا کی بات کو ضرور جھٹلاؤں گا۔ اس نے حکم دیا اس کا راستہ چھوڑ دو اور اسے آزاد کر دو جب رشید اس کے دربار سے باہر نکلنے لگا تو زیاد نے کہاخدا کی قسم جو کچھ تیرے مولا نے کہاہے میں تجھے اس سے زیادہ سخت تر عذاب دونگا۔ حکم دیا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر سولی پر لٹکا دو۔
رشید ہجری کہتے ہیں کہ میرے مولا امیر المومنین علیہ ا لسلام نے مجھے جو خبر دی تھی اس میں ایک چیز اور باقی ہے، زیاد کہتا ہے کہ اس کی زبان کاٹ دو اس وقت رشید کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اب میرے مولا امیر المؤمنین کی پیشن کوئی سچی ہو گئی ہے۔
(بحا ر ج۴۲ ،ص۱۲۵)
اخبار غیب میں سے ایک یہ خبر جسے اصحاب سیرہ نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ حجاج بن یوسف ایک دن کہنے لگا ایک ایسا شخص جو ابو تراب کے چاہنے والوں میں سے ہو اسے میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اسے قتل کر کے خدا کا قرب حاصل کروں۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ ہم نے قنبر کے علاوہ کسی کو بھی ابوتراب علیہ السلام کی صحبت میں زیادہ اٹھتے بیٹھتے نہیں دےکہا، حجاج نے قنبر کو قتل کرنے کی نیت کی اور اپنے کچھ آدمی بھیجے کہ وہ قنبر کو تلاش کر کے لے آئیں۔
جب قنبر کو لایا گیا تو حجاج نے کہا:
تم قنبر ہو؟ کہاجی ہاں میں قنبر ہوں ۔
حجاج نے کہاکہ قنبر ابو ہمدان۔
کہاجی ہاں۔
حجاج نے کہاکہ علی ابن ابی طالب تیرے مولا ہیں۔
کہاجی ہاں اللہ میرا مولا ہے اور حضرت علی علیہ السلام بہترین ولی ہیں۔
حجاج نے کہاکہ اپنے دین میں حضرت علی سے برائت کرو۔
قنبر نے کہااگر میں علی علیہ السلام سے برائت کروں تو کیا تو بتا سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سے بھی کو ئی افضل ہے ۔
حجاج کھتا ہے کہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ انتخاب کرو تم کس سے مرنا چاہتے ہو؟
قنبر کہتے ہیں کہ تجھے اختیار ہے۔
حجاج کہتا ہے: کیوں؟
جناب قنبر کہتے ہیں جس طرح تو مجھے قتل کرے گا اس طرح تجھے قتل کیا جائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا تھا تجھے ذبح کیا جائے گا اور اس سے تیری موت واقع ہو گی حجاج نے کہاکہ اسے ذبح کر دو۔
(ارشاد ج۱ ص۲۲۸)
ابن ھلال ثقفی کتاب الغارات میں روایت بیان کرتے ہیں کہ زکریا بن ےحیٰ عطار اور ان سے فضیل اور ان سے محمد ابن علی نے کہاکہ جب حضرت علی علیہ السلام نے”سلونی قبل ان تفقدونی “ (میرے دنیا سے چلے جانے سے پہلے جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو مجھ سے پوچھ لو )کا دعوی کیا اور مزید فرمایا ۔
خدا کی قسم کہ تم لوگ مجھ سے اس گروہ کے متعلق سوال نہیں کرو گے جو ایک سو آدمیوں کو گمراہ کرے گا اور اس گروہ کے متعلق بھی سوال نہیں کرو گے کہ جو ایک سو آدمیوں کو ہدایت کرے گا مگر میں تمھیں اس گروہ کی مہار تھام کر چلنے والے اور اس گروہ کے پس پشت مدد کرنے والے کے متعلق آگاہ کرونگا۔
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوااور اس نے کہاکہ آپ مجھے بتائیں کہ میرے سر اور داڑھی کے کتنے بال ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم میرے حبیب نے مجھے خبر دی ہے تیرے سر کے بال کے ساتھ ایک فرشتہ بیٹھا ہوا ہے جو تجھ پر لعنت کرتا ہے اور تیری داڑھی کے ہر بال کے نیچے ایک شیطان ہے جو تجھے گمراہ کرتا ہے اور تیرے گھر میں ایک بھیڑ ہے جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآولہ وسلم کے بیٹے کو قتل کرے گا اور اس کا بیٹا (امام ) حسین علیہ السلام کا قاتل ہوگا ابھی وہ بچہ ہے جو گھٹنوں کے بل چلتا ہے اور وہ سنان بن انس نخعی ہے ۔
(شرح نھج البلاغہ ج۲ص۲۷۶)
انہی غیب کی خبروںمیں ایسی بہت ساری متواتر خبریں ہیں جنھیں حضرت امیر علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے ذکر کیا تھا مثلاً میں دنیا سے شہید ہو کر جا ؤں گا اور میرے سر پر ضربت لگے گی اور ریش مبارک سر کے خون سے رنگین ہو جائے گی آپ نے جس طرح خبر دی تھی بالکل اسی طرح واقع ہوا۔
اسی طرح حضرت امیر علیہ السلام کا یہ فرمان ہے اس بدبخت انسان پر کون روئے گا؟ جب وہ میرے سر کو خون سے رنگین کرے گا۔
(ارشاد ج ۱ ص۳۲۱،۳۲۰)
ان خبروں میں ایک ایسی خبرہے جسے ثقات راویوں نے نقل کیا ہے۔
ماہ مبارک رمضان ،میں حضرت علی علیہ السلام ایک رات حضرت امام حسن علیہ السلام کے ہاں روزہ افطار فرماتے اور ایک رات ابن عباس کے پاس روزہ افطار کرتے لیکن آپ تین لقموں سے زیادہ تناول نہ فرماتے ۔
آپ کے دونوں بیٹوں حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام میں سے کسی ایک نے عرض کیا :بابا جان آپ اتنی تھو ڑی مقدار میں کھانا کیوں تناول فرماتے ہیں۔
جناب علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میرے بیٹے مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے پاس خدا کا امریعنی ملک الموت آئے اور میں اس حالت میں ہوں کہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہو۔
راوی کہتا ہے اس بات کو کہے ہوئے ایک یا دو راتیں ہی گزری تھیں کہ آپ کو ضربت لگی۔
(المناقب خوارزمی ص۲۹۴)
جناب امیر علیہ السلام جب خوارج سے جنگ کرنے میں مشغول تھے اس وقت فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ عمل کرنا چھوڑ دو گے تو میں تمھیں اس بات کی خبر دیتا جس کا فےصلہ اللہ نے پیارے نبی کی زبان پر جاری فرمایا۔
آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اپنی گمراہی کو جاننے کے باوجود جنگ کریں گے اور ان میں ایک شخص ایسا ہو گا جس کی گردن چھو ٹی اور ہاتھ ناقص الخلقت ہو نگے اور اس کے دونوں کندھے تنگ ہو نگے اور ایک کندھے کے اوپر عورت کے پستا ن کی طرح گوشت ہو گا وہ مخلوق خدا میں بدترین ہوگا اس کا قاتل اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک محبوب ترین اور مقرب ترےن افراد میں سے ہوگا۔
جب جنگ کے بعد اژدھام ہٹا تو جناب امیر اسے تلاش کرتے ہوئے فرمارہے تھے نہ میں نے جھوٹ بولا ہے اور نہ ہی میں جھٹلایا گیا ہوں یہاں تک کہ وہ شخص نظر آگیا جب اس شخص کی قمیص کو پھاڑ کر دےکہا گیا تو واقعا اس کے کندھے پر گوشت کا لو تھڑا تھا اور بالکل عورت کے پستان کی طرح لگ رہاتھا ،اس کے اوپر بال تھے جب بالوں کو کھینچا جاتا تو تو وہ لو تھڑا اکھٹا ہو جاتا اور جب چھو ڑا جاتا تو وہ دوبارہ اپنی جگہ پر چلا جاتا تھا۔
اس وقت جناب امیر علیہ السلام نے بلند آواز میں فرمایا اللہ اکبر پھر کہااس میں با بصیرت شخص کے لئے عبرت ہے۔
( ارشاد ج ۱ ص۳۱۶ ،۳۱۷)
(علی علیہ السلام صراط اللہ المستقیم سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button